مسئلہ ۵۲ : از بریلی مدرسہ منظر الاسلام مسئولہ رحیم بخش صاحب بنگالی ۱۶صفر ۱۳۳۸ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ مخمل کا کپڑا مرد کے لئے پہننا جائز ہے یانہیں؟
الجواب
جس مخمل پر ریشم کا رواں پورا بچھا ہوا ہو تا ہے اس کا پہننا مرد کو جائز نہیں ورنہ جائز ہے واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۵۳ : از احمد آباد گجرات پانچ پیلی مرسلہ حکیم انور حسین صاحب صفدری ۴ ذی الحجہ ۱۳۳۸ھ
علمائے کرام اہلسنت وجماعت ادام اللہ فضلہم کا اس بات میں کیا ارشاد ہےکہ سرخ اور زرد ( پیلا )رنگ کا کپڑا پہننا مرد کا جائز ہے یانہیں؟ اور اس سے نماز درست ہے نہیں؟ اگر پہننا مکروہ ہے تو اس میں کراہیت تنزیہی ہے یا تحریمی؟ بعض احادیث سے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا سرخ جبہ زیب تن فرمانا ثابت اور زرد ملبوس رنگنا ظاہر ۔ مثلا :
عن جابر بن سمرۃ قال رأیت النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فی لیلۃ مقمرۃ اضحیان فجعلت انظر الیہ والی القمر وعلیہ حلۃ حمراء فاذا ھو احسن عندی من القمر۔ رواہ الدارمی والترمذی ۱؎۔
حضرت جابر بن سمرۃ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا : میں نے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو( ایک دفعہ) چاندنی روشن رات میں دیکھا تو پھر آپ کو اور چاند کو مسلسل دیکھنے لگا اور آپ اس وقت سرخ جبہ پہنے ہوئے تھے (پھر آخر میں نے یہ نتیجہ نکالا) کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میرے نزدیک چاند سے زیادہ حسین ہیں (یعنی آسمانی چاند سے مدنی چاند کا حسن بڑھا ہوا ہے) اس کو دارمی اور ترمذی نے روایت کیا (ت)
(۱؎ جامع الترمذی ابواب الاستیذان والادب باب ماجاء فی الرخصۃ فی لبس الحمرۃ الخ امین کمپنی دہلی ۲ /۱۰۴)
[کسی نے کیا خوب فرمایا: ؎
میں وہ شاعر نہیں جو چاند کہہ دوں ان کے چہرے کو
میں ان کے نقش پا پر چاند کو قربان کرتاہوں
مترجم]
نیز:عن جابر بن عبداﷲ قال کان رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم یلبس بردۃ الاحمر فی العیدین والجمعۃ ۲؎ (مواہب) وعن یحٰیی بن عبداﷲ بن مالک قال کان رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم یصبغ بالورس و الزعفران ثیابہ حتی عمامتہ (ابوداؤد)۳؎۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے فرمایا: حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم دونوں عیدوں اور روز جمعہ سرخ جوڑا پہنا کرتے تھے۔ (مواھب اللدنیہ) اور حضرت یحٰیی بن عبداللہ بن مالک سے روایت ہے فرمایا : حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کسم اور زعفران (یعنی سرخ اور زردرنگ) سے اپنے کپڑے یہاں تک کہ اپنی دستار مبارک بھی رنگین کرتے تھے (ابو داؤد نے اسے روایت کیاہے)۔ (ت)
(۲؎ المواھب اللدنیہ النوع الثانی فی اللباس باب لبس الثواب الاحمر المکتبۃ الاسلامی بیروت ۲ /۴۴۵)
۳؎المواھب اللدنیہ بحوالہ ابی داؤد النوع الثانی فی اللباس باب لبس الثواب الاحمر المکتبۃ الاسلامی بیروت ۲ / ۴۴۵)
اور بعض احادیث سے اس کی نہی پیداوہو یدا۔ مثلا۔
عن ابن عمرقال رأی النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم علَیَّ ثوبین معصفرین فقال ان ھذا لباس الکفار فلا تلبسھا (مسلم۱؎) ومعلوم ان ذٰلک یصبغ صباغا احمر (مواہب۲؎)وفی الصحیح انہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نہی عن التزعفر ۳؎۔
حضرت عبداللہ بن عمر (اللہ تعالٰی ان دونوں سے راضی ہو) سے روایت ہے کہ فرمایا: آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے میرے جسم پر''کسم'' کے رنگ سے رنگے ہوئے دو کپڑے ملاحظہ فرمائے تو ارشاد فرمایا: یہ کافروں کا لباس ہے لہذا اسے نہ پہنو (مسلم) اور یہ معلوم ہی ہے کہ وہ سرخ رنک سے رنگین کئے ہوئے تھے (مواہب لدنیہ)۔ اور صحیح حدیث میں وارد ہوا ہے کہ آں حضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے زعفرانی (زرد) رنگ سے رنگین کئے ہوئے کپڑوں سے منع فرمایا (یعنی اس رنگ سے رنگین کئے ہوئے کپڑے مت استعمال کرو)۔ (ت)
(۱؎ المواھب اللدنیہ النوع الثانی اللباس باب لبس الثواب الاحمر الکتب الاسلامی بیروت ۲ /۴۴۴)
(صحیح مسلم کتاب اللباس باب نہی عن لبس الرجل الثوب المعصفر قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۱۹۳)
(۲؎ المواھب اللدنیہ النوع الثانی فی اللباس باب لبس الثوب الاحمر المکتب االاسلامی بیروت ۲ /۴۴۴)
(۳؎ صحیح مسلم کتاب اللباس باب نہی الرجل عن التزعفر قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۱۹۸)
معصفر ومزعفر کی کیا تشریح ہے؟ موجودہ ولایتی پختہ وخام الوان بھی معصفر ومزعفر کے حکم میں داخل ہے یانہیں؟
الجواب
کسم کا رنگا ہوا سرخ اور کیسر کارزرد جنھیں معصفر ومزعفر کہتے ہیں مرد کو پہننا ناجائز وممنوع ہے اور ان سے نماز مکروہ تحریمی۔ اور ان کے سوا اور رنگ کا زرد بلا کراہت مباح خالص ہے۔ خصوصا زرد جوتا مورث سرور وفرحت۔
قالہ سیدنا عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنہما واستند بقولہ تعالٰی
صفراء قاقع لونہا تسر النظرین ۴؎۔
چنانچہ زرد جوتے کے متعلق سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے ارشاد فرمایا اور اللہ تعالٰی کے اس قول ''اس گائے کا رنگ خالص زرد ہے جو دیکھنے والوں کو خوش کرتی ہے'' سے استدلال فرمایا۔ (ت)
(۴؎ القرآن الکریم ۲ /۶۹)
اور خالص سرخ غیر معصفر اضطراب اقوال ہے اور صحیح ومعتمد جواز بلکہ علامہ حسن شرنبلالی نے فرمایا : اس کا پہننا مستحب۔ حق یہ کہ احادیث نہی سرخ معصفر کے بارے میں ہیں جیسے حدیث ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما مذکور سوال اور احادیث جواز سرخ غیر معصفر میں۔ اور حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا سرخ جوڑا پہننا بیان جواز کے لئے ہے۔
منتخب الفتاوٰی میں ہے :
قال صاحب الروضۃ یجوز للرجال والنساء لبس الثواب الاحمر والاخضر بلاکراھۃ ۱؎۔
مصنف روضہ نے فرمایا: مردوں اور عورتوں کے لئے سرخ اورسبز کپڑا پہننا بغیر کراہت جائز ہے۔ (ت)
(۱؎ ردالمحتار بحوالہ منتخب الفتاوی کتاب الحظروالاباحۃ فصل فی اللبس داراحیاء الترا ث العربی بیروت ۵ /۲۲۸)
حاوی میں متعدد کتب سے نقل کیا :
یکرہ اللرجال لبس المعصفر والمزعفر و المورس والمحمرای الاحمر حریرا کان او غیرہ اذا کان فی صبغہ دم والافلا ۲؎۔
''معصر'' (کسم کے رنگ سرخ کیا ہوا) اور ''مزعفر'' (زرد و زعفرانی رنگ) ''مورس'' (ورس سے رنگا ہوا) اور ویسے سرخ کپڑا خواہ ریشمی ہو یا نہ ہو جبکہ اس کے رنگ کرنے میں خون کی امیزش ہو، مردوں کے لئے ان سب کاا ستعمال کرنا مکروہ ہے۔ لیکن اگر خون کی امیزش نہ ہو تو پھر کراہت نہیں۔ (ت)
(۲؎ ردالمحتار بحوالہ الحاوی الزاھدی کتاب الحظروالاباحۃ فصل فی اللبس داراحیاء الترا ث العربی بیروت ۵ /۲۲۸)
اگر کپڑا درخت''بقم'' سے رنگ لیا تو اس کا ستعمال مکروہ نہیں۔ نیزا گر اخروٹ کے چھلکے سے شہد جیسی رنگ کرلی تو بالاتفاق مکروہ نہیں۔ (ت)
(۳؎ ردالمحتار بحوالہ مجمع الفتاوی کتاب الحظروالاباحۃ فصل فی اللبس داراحیاء الترا ث العربی بیروت ۵ /۲۲۸)
تحفۃ الاکمل علامہ حنس شرنبلالی میں جواز کی نقول کثیرہ لکھ کر فرمایا :
وجدنا نص الامام الاعظم علی الجواز ودلیلاقاطعاعلی الاباحۃ وھو اطلاق الامر باخذ الزینۃ ووجد نا فی الصحیحین علی اوجہ الاطلاق موجبہ وبہ تنتفی الحرمۃ والکراھۃ بل یثبت الاستحباب اقتداء بالنبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ۱؎۔
حضرت امام اعظم علیہ الرحمۃ سے ہم نے جواز کی تصریح پائی اور اباحت پر ایک دلیل قاطع ، اور زیب و زینت اختیار کرنے کے بارے میں ایک '''مطلق امر'' ہے (یعنی بغیر کسی قید اور پابند کر کےعلی وجہ الاطلاق زیبائش کاحکم دیا گیا) اوربخاری ومسلم میں ہم نے اس کا موجب (سبب) پالیا۔ لہذا اس سے حرمت اور کراہت ختم( منتفی) ہوگئی۔ بلکہ حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی اقتداء (پیروی) کرتے ہوئے استحباب ثابت ہوگیا ہے۔ (ت)
(۱؎ردالمحتار بحوالہ تحفۃ الاکمل کتاب الحظروالاباحۃ فصل فی اللبس داراحیاء التراث العربی بیروت ۵ /۲۲۸)