فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۲(کتاب الحظر والاباحۃ) |
در صورت اولٰی محمول برظاھر خود ست دور ثانیہ بر زجر وتہدید ودر ثانیہ امر باختلاف ممالک ومرا سم مختلف شود مثلا دربنگالہ ساڑی عام ست مر زنان مسلمات و مشرکات راپس از باب تشبہ نباشد اچکن وچپکن وشیروانی از تراشہائے جدیدہ است وجدت درعادت ممنوع نیست تامشتمل بر ممنوع شرعی نباشد دررنگ ملبوس مرداں کہ انگرکھا نامند نوپیدا ست فامامنع شرعی باخود ندارد مگر آنگاہ کہ چاک پردہ اش جانب راست باشد کہ بوجہ مشابہت ہنود حرام ست کوٹ انگریزی ممنوع ست وکوٹ فارسی ندیدہ ام واگر خصوصیت بقوم کفرہ یافسقہ دارد نیز ممنوع ست ہمچناں زیر جامہ انگریزی کہ پتلون نامند اگر مانع سجود باشد خود کبیرہ مردود باشد ورنہ بوجہ مشابہت ممنوع بود لباس مسنون از ارست یعنی تہبند وایں دھوتی بدوجہ ممنوع ست یکے لباس ہنود ، دوم اسراف بے سودکہ بجائے دہ گز سہ چار گز کافی بود، کلاہ تر کی ابتدائے اودرنیچریاں شد آناں رابہرہ از اسلام نیست اگر ہم چناں می مانددریں ممالک حکم جوازش نبودی کہ ایں جا ترکان نیند بید یناں باوعاوی اند مگر حالامشاہدہ است کہ در بسیارے از مسلمانان نیزایں تپ سرخ سرایت کردہ پس شعار نیچریت نماند اہل علم وتقوٰی را از واحتراز باید کہ تاحال وضع علماء وصلحاء شدہ است ہمچناں حال شیروانی کہ کہ اگر چہ عوام را ازہر دو ممانعت برآمد خواص را از واحتراز باید، وہڈی وشامیز، معلوم نشد چیست بہمہ کلیہ کہ بالاگفتہ ایم رجوع باید کر د ا گروضع مخصوص کفار یا فساق ست احتراز لازم ست ونکتہ دیگر یاد باید داشت کہ در ملک وشہر خود ہر چہ وضع مسلماناں باشد اور اترک گفتن ووضع دیگر کہ موجب شہرت وانگشت نمائی باشد اختیار کردن نیز مکروہ ست علماء فرمودہ اند الخروج عن عادۃ البلد شہرہ ومکروہ ۱؎ ،
پس پہلی دوسری صورت میں یہ اپنے ظاہر پر محول ہے لیکن دوسری صورت میں ڈانٹ ڈپٹ اور ڈراوے پر محمول ہے۔ اور امرثانی میں اختلاف ممالک اورمراسم کی بناء پر مختلف ہوجاتاہے۔ مثلا بنگلہ دیش میں ساڑھی ایک عام لباس ہے جو میں مسلم اور غیر مسلم دونوں قسم کی شامل ہیں (لہذا اس میں کسی ایک کی کوئی خصوصیت نہیں) لہذا اس اس حالت میں از قبیل تشبہ نہیں۔ اچکن، چپکن اور شیروانی یہ ایک جدید (نیا) لباس ہے۔ اور عادۃ ''جدت'' ممنوع نہیں۔ بشرطیکہ کسی ممنوع شرعی میں شامل نہ ہو، نیز شکل مردانہ لباس کہ جس کو''انگرکھا'' کہتے ہیں یہ بھی ایک جدید پیدا وار ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہ اپنے اندر ممانعت شرعی نہیں رکھتا۔ مگر جبکہ اس کے پردے کا چاک دائیں طرف ہو تو پھر ہندؤوں کی مشابہت کی وجہ سے حرام ہے۔ اورکوٹ انگریزی پہننا منع ہے۔ اور کوٹ فارسی میں نے نہیں دیکھا، اگر کافروں یا فاسقوں سے کوئی خصوصیت رکھتاہو تو پھر اس کا استعمال بھی ناجائز ہے۔ اور اسی طرح زیر جامہ انگریزی کہ جس کو ''پتلون'' کہتے ہیں اگر سجدہ کرنے میں رکاوٹ پیدا کرے تو پھر گناہ کبیرہ قابل رد ہے۔ ورنہ (کمتر یہ ہے) کہ بوجہ مشابہت ممنوع ہے۔لباس مسنون ازاریعنی تہبند ہے۔ اور دھوتی دو وجوہ کی بناء پر ممنوع قابل ترک ہے اور ایک اس لئے کہ ہندؤوں کا لباس ہے۔ دوسری وجہ بےفائدہ اسراف (فضول خرچہ) ہے۔ کیونکہ دس گز کی بجائے صرف چار گزہی کافی ہے۔ ترکی ٹوپی کہ اس کی ابتداء نیچریوں سے ہوئی اور ان کا اسلام میں وئی حصہ نہیں۔ اگر یہی حالت رہتی تو ان ممالک میں اس کا جواز نہ ہوتا کیونکہ یہاں کوئی ترکی نہیں۔ صرف بے دین اس کے استعمال کی عادت رکھتے ہیں۔ لیکن اب دیکھنے میں آیا ہے (اوریہ مشاہدہ ہواہےٌ) کہ بہت سے مسلمانوں میں بھی یہ سرخ بخار سرایت کر گیا ہے۔ لہذا اب نیچریت کا شعار نہیں رہا پس اہل علم اور اصحاب تقوٰی کو اس سے پرہیز کرنا چاہئے یہاں تک کہ علماء اور صلحاء کا معمول ہوجائے اسی طرح شیروانی کہ اگر چہ عوام کو دونوں سے ممانعت نہیں لیکن خاص لوگوں کو پرہیز کرنا چاہئے۔ بڈی اور شامیز کے متعلق معلوم نہ ہوسکا کہ یہ دونوں کیا چیز ہیں۔ لیکن اسی ضابطہ کلیہ کی طرف رجوع کرنا چاہئے کہ جس کو ہم پہلے بیان کرچکے ہیں، اگر کافروں یا فاسقوں کی وضع ہو تو پرہیز کرے۔ (یہاں )ایک اور نکتہ یادر رکھنا چاہئے کہ اپنے ملک اور شہر میں عام مسلمانوں کی جو وضع اور طرز وطریقہ ہو اسے چھوڑدینا اور دوسری وضع جوتشہیر اور انگشت نمائی کا سبب ہے اسے اختیار کرنا مکروہ ہے۔ چنانچہ علماء کرام فرماتے ہیں اپنے شہر کی عادت اور طریقہ کار سے باہر ہوجانا وجہ شہرت اور مکروہ ہے۔
(۱؎. الحدیقہ الندیۃ شرح الطریقہ محمدیہ الصنف التاسع تمتۃ الاصناف الخ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۲ /۵۸۲)
لباس مسنون مرزناں و مرداں راچادر وتہبند وجبہ وقمیص بود وسراویل یعنی زیر جامہ نیز کہ حضور اقد س صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اگر چہ نپوشید، پوشندگان را ستود وخریدن خود ثابت ست زنے در راہ می گزشت پایش لغزیش برفتاد سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم روئے ازاں سوگردانید حاضران عرضہ داشتند کہ او زیر جامہ دارد فرمود اللھم اغفر للتمسرولات ۲؎ الٰہی زنان زیر جامہ پوش رامغفرت کن مرداں رافرمودی کہ از ار تانیم ساق دارند کعبین راز نہار نپوشند زنان را یک وجب فروہشتن رخصت دارد عرضہ کردند اذاً ینکشفن یا رسول اللہ ایں گاہ درمشی وغیرہ احتمال انکشاف ست فرمود یک زراع وبیش ازیں۳؎ نے نیزازلباس زنان خمار بودکہ باوسرمی پوشیدند ونطاق کہ برکمر بالائے ازرامی بستند، واﷲ تعالٰی اعلم۔
پس مردوں اور عورتوں کا مسنون لباس چادر، تہبند، جبہ، کرتہ ہے۔ شلوار یعنی زیر جامہ، اگر چہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اسے نہیں پہنا لیکن پہننے والوں کی تعریف فرمائی اور آپ کا اسے خریدنا ثابت ہے۔ ایک عورت راہ سے گزررہی تھی کہ اس کا پاؤں پھسلا اور گرگئی حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اس طرف سے اپنا منہ پھیر لیا چنانچہ حاضرین نے عرض کی کہ یہ عورت شلوار پہنے ہوئی تھی۔ آپ نے یہ دعا مانگی: ''اے اللہ! شلوار پہننے والی عورتوں کو بخش دے'' اور مردوں کو حکم دیا کہ تہبند نصف پنڈلی تک رکھیں اور ٹخنوں کو کبھی نہ ڈھانپیں، اور عورتوں کو ''ازار'' ایک بالشت چھوڑنے کا حکم فرمایا۔ لوگوں نے عرض کی ۔ یا رسول اللہ ( علیک الصلوۃ والسلام) پھر تو برہنہ ہوجائیں گی، یعنی اے اللہ کے رسول : پھر تو ان کے چلنے میں برہنگی کا امکان ہے، ارشاد فرمایا :اچھا ایک ہاتھ لٹکارکھیں لیکن اس سے زیادہ نہ ہو۔ اور عورتوں کے لباس میں دوپٹہ (خمار) بھی ہے کہ ا س سے سرڈھانپتی ہیں اور تسمہ (نطاق) جو کرم پھر تہبند کے اوپر باندھتے ہیں واللہ تعالٰی اعلم (ت)
(۲؎ کنز العمال بحوالہ البزار، عقد، عد، ق فی الادب وغیرہ حدیث ۲۱۸۳۸ مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۱۵ /۴۶۳) (۳؎ سنن ابی داؤد ۲ /۲۱۲ وسنن النسائی ۲ /۲۹۸ و سنن ابن ماجہ ص۲۶۴ و جامع الترمذی ۱ /۲۰۶)
مسئلہ ۵۰ : از اردہ نگلہ ڈاک خانہ اچھنیرا ضلع آگرہ مرسلہ صادق علی خاں صاحب ۲۵ شوال ۱۳۳۶ھ ایسا لباس پہننا جس سے فرق کافر مسلمان کا نہ رہے شرعاکیا حکم رکھتاہے؟
الجواب : حرام ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں :
من تشبہ بقوم فھو منہم ۱؎۔
جو کوئی کسی قوم سے مشابہت اختیار کرے وہ ان ہی میں سے ہے۔ (ت)
(۱؎ سن ابی داؤد کتاب اللباس باب فی لبس الشہرۃ آفتاب عالم پر یس لاہور ۲ /۲۰۳)
بلکہ اس میں بہت صورتیں کفر ہیں۔ جیسے زنار باندھنا۔ بلکہ شرح الدرر للعلامۃ عبدالغنی النابلسی بن اسمعیل رحمہما اللہ تعالٰی میں ہے :
لبس زی الافرج کفر علی الصحیح ۱؎۔
یعنی صحیح مذہب یہ ہے کہ فرنگیوں کی وضع پہننا کفر ہے۔ (ت)
(۱؎ الحدیقہ الندیہ النوع التاسع مع انواع الستین السخریۃ مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد ۲ /۲۳۰)
فتاوٰی خلاصہ میں ہے :
امرأۃ شدت علی وسطھا حبلا وقالت ھذا زنار تکفر ۲؎۔
کسی عورت نے اپنی کمر میں رسی باندھی اور کہا یہ جنیو ہے کافرہ ہوگئی۔ (ت) واللہ تعالٰی اعلم۔
(۲؎ خلاصہ الفتاوٰی کتاب الفاظ الکفر الجنس السادس مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ ۴ /۳۸۷)
مسئلہ ۵۱: از حبیب گنج ضلع علیگڑھ مرسلہ روح اللہ منشی ریاست ۶ شعبان ۱۳۳۷ھ کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ یہ معمولی جاپانی اور ولایتی کپڑے سلک کے بنے ہوئے جس میں کچھ بے چمک اور کچھ مختلف چمکدار ہوتے ہیں کچھ نرم ہوتے کچھ نہیں ہوتے حریر میں داخل ہیں اور ان کاستعمال مردوزن کو ناجائز ہے یانہیں؟ ان کا کیاحکم ہے؟
الجواب سلک کو بعض نے کہا کہ انگریزی میں ریشم کانام ہے۔ اگر ایسا ہو بھی تو اعتبار حقیقت کا ہے نہ کہ مجرد نام کا، بربنائے تشبیہ بھی ہوتاہے جیسے ریگ ماہی مچھلی نہیں۔ جرمن سلور، چاندی نہیں۔ جو کپڑے رام بانس یا کسی چھال وغیرہ چیز غیر ریشم کے ہوں اگر چہ صناعی سے ان کو کتنا ہی نرم اور چمکیلا کیا ہو مرد کو حلال ہیں اور اگر خالص ریشم کے ہوں یا بانار یشم ہو اگر چہ تاناکچھ ہو توحرام ہے۔ یہ امر ان کپڑوں کو دیکھ کر یا ان کا تارجلا کر واقفین سے تحقیق کرکے معلوم ہوسکتاہے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔