مسئلہ ۴۳ : از برٹس گائناڈمرارا پترس حضال ویچ ایسٹ بنگ مسئولہ عبدالغفور بتاریخ ۲۴ صفر المظفر روز شنبہ ۱۳۳۴ھ
زردرنگ کپڑا مرد کو پہنا کیسا ہے خصوصا جو شخص اپنے کو عالم کہے اور پھر زرد کپڑا پہنتاہو۔
الجواب
زعفران کا رنگا ہوا کپڑا مرد پر حرام ہے۔ اور کسی طرح کازرد رنگ حرام نہیں۔ ہاں اگر وہ کسی ایسی وضع مخصوص پر ہے جس سے انگشت نمائی و شہرت ہو تو مطلقا مکروہ ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۴۴ : از گونڈل علاقہ کاٹھیا واڑ مسئولہ عبدالستار بن اسمعیل سنی حنفی قادری رضوی ۱۴ رجب المرجب ۱۳۳۴ھ
رومال خالص ریشمی کپڑے کا مرد استعمال کرسکتاہے یا نہیں؟
الجواب : رومال سے مراد اگر ہاتھ میںلینے کا ہے تو کرسکتاہے اورگر اورڑنے کا ہے تو نہیں۔
مسئلہ ۴۵ : از گونڈل کاٹھیاواڑ مرسلہ عبدالستار بن اسمعیل صاحب یکم صفر ۱۳۳۵ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ تحمل اور کمخواب سوتی یا ریشمی کاستعمال مرد کے لئے جائز ہے یانہیں؟ اس طرف اکثر مسلمان مخمل کی ٹوپی اور سدری وغیرہ پہنتے ہیں۔ بینوا توجروا (بیان فرماؤ اور اجر وثواب پاؤ۔ت)
الجواب : کمخواب یا مخمل سوتی مرد کو جائز ہے اور ریشمی ناجائز ؟ واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۴۶ و ۴۷ : مرسلہ مصاحب علی طالب علم ۱۴ صفر المظفر ۱۳۳۵ھ
(۱) عورت نے اپنے خاوند کو اپنے ساتھ لٹاکراپنا لحاف ریشمی یا چادرریشمی خاوند کو بھی اڑھادی تو کیا یہ استعمال ریشمی کپڑے کا بہ تبع عورت کے، مرد کو جائز ہے یانہیں؟
(۲) مرد کو مخمل پہننا جائز ہے یانہیں؟ بینوا توجروا
الجواب
(۱) ناجائز ہے اور اوڑھنے میں تبیعت کے کوئی معنی نہیں۔ دونوں مستقل ہیں۔ اوریہ تبیعت کی کوئی صورت نہیں کہ ملک عورت کی ہے یا بناء اس کے لئے ہاں ریشمی توشک پرلیٹنا امام کے نزدیک جائز ہے۔
(۲) ریشمی مخمل ناجائز سوتی جائز۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۴۸ : از بنارس محلہ پرکنڈہ مسئولہ مولانا مولوی عبدالحمید صاحب ۱۰ شعبان ۱۳۳۵ھ
عورات کو پائجامہ ٹخنا کھول کر پہننا چا ہئے یاڈھانک کر؟
الجواب : عورات کے گٹے ستر عورت میں دخل ہیں غیرمحرم کو ان کا دیکھنا حرام ہے۔ عورت کو حکم ہے کہ اس کے پائچے خوب نیچے ہوں کہ چلتے میں ساق یا گنے کھلنے کا احتمال نہ رہے۔
ردالمحتارمیں ہے :
اعضاء عورۃ الحورۃ الساقان مع الکعبین والثدیان ۱؎ الخ۔
آزاد (شریف داری) عورت کا محل ستر (چھپانے کی جگہ) ٹخنوں سمیت دو پنڈلیاں اور دو چھاتیاں ہیں۔ (ت)
(۱؎ ردالمحتار کتاب الصلٰوۃ باب شروط الصلٰوۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۱ /۲۷۴)
مالک وابوداؤد ونسائی وابن ماجہ ام المومنین ام سلمہ اور ترمذی ونسائی عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہم سے راوی :
حدیث ام المومنین انھا قالت لرسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم حین ذکر الازار فالمرأۃ یارسول اﷲ قال ترخی شبرا قالت اذن تنکشف عنا قال فذراع لاتزید علیہ ۲؎ واﷲ تعالٰی اعلم۔
یہ سیدہ ام سلمہ (رضی اللہ تعالٰی عنہا) کی حدیث ہے کہ انھوں نے بارگاہ رسالت میں عرض کی کہ جبکہ سرکار دوعالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے تہبند کا ذکر فرمایا یا رسول اللہ! عورت کا کیا حکم ہے؟ ارشاد فرمایا : وہ بالشت بھر( اپنا تہبند) لٹکائے رکھے، عرض کی: پھر اس کا پاؤں برہنہ ہوگا۔ ارشاد فرمایا: ایک ہاتھ چھوڑ دے (یعنی لٹکائے) لیکن اس سے زیادہ تو نہ ہو۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
(۲؎ سنن ابی داوئد کتا ب اللباس باب فی الذیل آفتاب عالم پریس لاہور ۲ /۲۱۲)
(سنن النسائی کتاب الزینۃ باب ماجاء فی ذیول النساء نورمحمد کارخانہ تجارت کتب کراچی ۲ /۲۹۸)
(جامع الترمذی ابواب اللباس باب ماجاء فی ذیول النساء امین کمپنی دہلی ۱ /۲۰۶)
(سنن ابن ماجہ کتاب اللباس باب ذیل المرأۃ اکم یکون ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۲۶۴)
مسئلہ ۴۹: از موضع گھورٹی ڈاکخانہ کرشن گڑھ ضلع ندیاں مرسلہ نذیر احمد صاحب ۶ جمادی الاولٰی
لباس مسنون مرمردان وزنان چیست وخلافش مثلا شیروانی وچپکن واچکن وکوٹ انگریزی وفارسی وپاجامہ انگریزی ودھوتی وہ گزری وکلاہ ترکی و انگریزی وغیرہ از لباس مردان وبڈی ہندواں کہ طولش تاکمر وببدن دچسپاں بودو شامیز کہ پیراہن درازست زیر ساڑی دہ گزی می پوشدہ وساڑی دہ زراع وغیرہ از لباس زنان رواست یانہ؟
مردوں اور عورتوں کے لئے کون سا لباس سنت ہے اور اس کے مخالف کون سا لباس ہے۔ مثلا شیروانی، چپگن، اچکن، کوٹ انگریزی اور فارسی، پاجامہ انگریزی، دس گز دھوتی، ترکی اور انگریزی ٹوپی وغیرہ جو مردوں کا لباس ہے اور ہندؤوں کی ''ہڈی'' کہ جس کی درازی کمرتک ہوتی ہے۔ اور وہ جسم سے پیوستہ ہوا کرتی ہے۔ اور ''شامیز''کہ لمباپیراہن ہے جو ساڑھی کے نیچے دس گز کا پہنتے ہیں۔ اور ساڑھی کی مقدار دس ہاتھ وغیرہ ہوتی ہے۔ یہ عورتوں کا لبا س ہے۔ کیا یہ دونوں جائز ہیں یانہیں؟
الجواب
کلیہ در لباس آنست کہ دردے رعایت سہ امرے باید کردیکے اصل اوحلال باشد ہمچو لباس ریشمیں یازری یا رنگین معصر وزعفران کہ مرد را مطلقا روانیست دوم رعایت ستر آنچہ کہ متعلق بستر است چنانچہ مرد رازیر جامہ و زنان آزاد را از سرتاپا ہمہ لباس پیش اجانب وآنچہ پشت وشکم ازناف تا زیر زانوپوشد پیش محارم واگر تنہا پیش شوھر خودست حاجت ہیچ ستر ندارد الا حیاء۔ وازفروع اینہم ست کہ لباس بموضع سترآنچناں چسپیدہ کہ ہیأت آن عضو رانماید کما ذکرہ فی ردالمحتار حققناہ فی ما علقناہ علیہ۔ سوم لحاظ وضع کہ نہ زی کفار باشد نہ طرق وفساق وایں بردوگونہ است یکے آنکہ شعار مذہب ایشان با شد ہمچوں زنار ہنود وکلاہ مخصوص نصارٰی کہ ہیٹ نامند بس اینہا کفر بودواگر شعار مذہب نیست از خصوصیات قوم آنہا آنست ممنوع وناروا باشد حدیث صحیح من تشبہ بقوم فھو منھم ۱؎
قاعدہ کلیہ لباس پہننے میں یہ ہے کہ اس میں تین امور کی رعایت کرنی چاہئے ایک یہ کہ اصل میں اس کا استعمال کرنا جائز ہو مثلا جیسے ریشمی یا سنہری لباس۔ یا سرخ یا زرد، زعفرانی رنگ کا لباس کہ علی الاطلاق مرد کے لئے ا س کا استعمال جائز نہیں۔ (دوسری بات) ستر کی رعایت ہو اس لباس میں کہ جس کا ستر سے تعلق ہے۔ جیسے مرد کئے لئے زیر جامہ۔ اور آزاد عورتیں سرے سے لے کر پاؤں تک غیر محرم (اجنبی) مردوں کے سامنے مکمل لباس پہنے ہوں۔ البتہ محرم مردوں کے روبرو، پشت اور ناف سے لے کر گھٹنوں کے نیچے تک پردہ پوش ہوں۔ ہاں اگر تنہا شوہر کے پاس ہو تو پھر اہتمام ستر کی کوئی ضرورت نہیں لیکن اگر شرم وحیاء مانع ہو تو الگ بات ہے۔ اور اس کے ذیلی پہلوؤں میں سے یہ بھی ہے کہ لباس محل ستر پر کچھ اس طرح چسپاں ہو کہ اس عضو کی ہئیت نہ دکھائی دے۔ جیسا کہ فتاوٰی شامی میں ذکر فرمایا اور میں نے اس کے حواشی میں اس کی تحقیق کردی۔ (تیسری بات) لباس کی وضع کالحاظ رکھا جائے کہ کافروں کی شکل وصورت اورفاسقوں کے طرزو طریقے پر نہ ہو اور اس کی دو قسمیں ہیں: ایک یہ کہ ان کا مذہبی شعار ہو جیسے ہندوؤں کا زنار اور عیسائیوں کی خصوصی ٹوپی کہ ''ہیٹ'' کہتے ہیں۔ پس ان کا استعمال کفر ہے۔ اور اگر ان کے مذہب کا شعار تو نہیں لیکن ان کی قوم کا خصوصی لباس ہے تو اس صورت میں بھی اس کا استعمال ممنوع (ناجائز ہے) چنانچہ حدیث صحیح میں فرمایا: جو کسی قوم سے مشابہت اختیار کرے وہ اسی میں شمار ہے۔
(۱؎ سنن ابی داوؤد کتاب اللباس باب فی لبس الشہرۃ آفتاب عالم پریس لاہور ۲ /۲۰۳)