مسئلہ ۲: یہ زیور علی بند اور پری بند جو حامل ہذا کے ہمدست مرسل ہے اس کو تحریر فرمائیں کہ اس کا استعمال جائز ہے یانہیں بوجہ آوز نکلنے کے عورات کو اور اور مکان مسکونہ اگرچہ علیحدہ قطع رکھتاہے مگر آمدورفت ہم مستورات کی اور نیز ہمارے مکان ہی کے قطع جات ملصقہ میں غیر بھی رہتے ہیں۔
واللہ عندہ حسن الجزاء۔
الجواب : یہ زیور ہاتھ کاہے اور اس میں وغیرہا ایسی اشیاء بھی نہیں جن سے زیادہ آواز پید ہو اتنی آواز تو ہاتھ کی چوڑیوں سے نکلتی ہے جبکہ پھنسی ہوئی نہ ہوں اس کے پہننے میں کوئی حرج شرعی نہیں آمدورفت سے پاؤں کے گہنے بجتے ہیں نہ ہاتھ کے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۳ : مرسلہ از چاندہ ضلع بجنور محلہ پتیا پاڑہ مکان محمد حسین خاں زمیندار
چوڑیاں کانچ کی عورتوں کوجائز ہیں پہننا۔ یا ناجائز ہیں؟
الجواب : جائز ہیں
لعدم المنع الشرعی
(اس لئے کہ کوئی شرعی مانع نہیں۔ ت) بلکہ شوہر کے لئے سنگار کی نیت سے مستحب
وانما الاعمال بالنیات ۲؎
(اعمال کا دارومدار ارادو پر ہے۔ ت)
(۲؎ صحیح البخاری باب کیف کان بدء الوحی الی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۲)
اس لئے کہ والدین اور شوہر کی نافرمانی حرام ہے اور شوہر کی فرمانبرداری بسلسلہ حقوق زوجیت واجب ہے۔ اور اللہ تعالٰی خوب جانتاہے۔ (ت)
قال فی المنتقی عن محمد لابأس ان تکون عروۃ القمیص وزرہ حریرا وھو کالعلم یکون فی الثوب ومعہ غیرہ فلا باس بہ وان کان وحدہ کراھتہ ۱؎۔
المنتقی میں امام محمد سے روایت ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں کہ کرتے کا گریبان اور اس کی گھنڈی (بٹن) ریشم کے ہوں اور وہ کپڑے میں نشان نقوش کی طرح ہو اگر اس کے ساتھ کچھ اور ہو تو کچھ حرج نہیں، اور اگر اکیلا ہو تو پھر کراہت ہوگی۔ (ت)
(۱؎ حاشیہ الطحطاوی علی الدرالمختار کتاب الحظروالاباحۃ باب فی اللبس دارالمعرفۃ بیروت ۴ /۷۹ ۔ ۱۷۸)
اور بٹن مروجہ ای، شے مستقل صورت حلی سوراخ گریبان پیرا ہن میں معلق معلوم ہوتاہے پس اگر اس کو حلی کے ساتھ تشبیہ دی جائے تو
ولایتحلی الرجل بذھب وفضۃ مطلقا الابخاتم ومنطقہ وحلیۃ سیف منہا ای فضۃ اذا لم یرد بہ التزیین ۲؎
(کوئی شخص مطلقا سونے اور چاندی کا زیور نہ پہنے مگر یہ کہ انگوٹھی، کمر بند اور تلوار کا دستہ چاندی کا ہو یعنی یہ سب چیزیں چاندی کی جائز ہیں بشرطیکہ زیب وزینت اور نمائش کا ارادہ نہ ہو، ت)
(۲؎ درمختار کتاب الحظر والاباحۃ باب فی اللبس مطبع مجتبائی دہلی ۲ /۲۴۰)
مانع اباحت ہے اور محض تعلیق کے ساتھ تشبیہ دی جائے تو مضمون عبارت
والظاھر فی وجہہ ان التعلیق یشبہ اللبس فحرام لذٰلک لما علم ان الشبھۃ فی باب المحرمات ملحقہ بالیقن ۳؎
شامی (اس کی وجہ میں ظاہر یہ ہے کہ لٹکانا دراصل پہننے کے مشابہ ہےلہذا اس وجہ سے حرام ہے۔ کپڑے کے کنارے کے نقوش کی طرح ہے کیونکہ حرام کے باب میں شبہ یقین کے ساتھ وابستہ ہے۔ ت)۔ حرمت کی طرف لے جاتاہے۔
(۳؎ردالمحتار کتاب الحظروالاباحۃ باب فی اللبس دراحیاء التراث العربی بیروت ۵ /۲۲۵)
خلاصہ یہ ہے کہ بٹن مروجہ محض تبر یعنی ٹکڑہ سیم وزر کُرتے کے ساتھ معلق ہے نہ یافتہ نہ دوختہ نہ کسی اور چیز کا اس کے ساتھ خلط ہے پس اس کو تابع کہنے اورگھنڈی پر قیاس کرنے کی کیا دلیل ہے، مہربانی فرماکر اطمینان بخش جواب مرحمت فرمائیں ونیز جس علت تعلیق سے زنجیر ناجائز ہے وہی علت بٹن میں موجود ہے پس کیا وجہ ہے کہ بٹن جائز ہو اور زنجیر بٹن ناجائز، ونیز اگر تابع کے یہ معنی ہیں کہ بٹن بدون کرتے کے مستعمل نہیں ہوتا ہے تو یہ بات ازار بند میں بھی موجود ہے حالانکہ ازار بند ریشمی وغیرہ مکروہ ہے۔ واللہ اعلم۔ محمد عبدالرحمن بقلم خود
الجواب : درمختار میں ہے :
لاباس بعروۃ القمیص وزرہ من الحریر لانہ تبع ۱؎۔
قمیص کا گریبان اور اس کے بٹن ریشمی ہوں کوئی حرج نہیں کیونکہ یہ تابع ہیں۔ (ت)
(۱؎ درمختار کتاب الحظروالاباحۃ فصل فی اللبس مطبع مجتبائی دہلی ۲ /۲۳۹)
سیر کبیر پھر تاتار خانیہ پھر شرح علائی ہے :
لاباس بازرا رالدیباج والذھب ۲؎۔
ریشم اور سونے کے بٹن میں کچھ حرج نہیں۔ (ت)
(۲؎درمختار کتاب الحظروالاباحۃ فصل فی اللبس مطبع مجتبائی دہلی ۲ /۲۳۹)
ذخیرہ پھر ہندیہ میں ہے :
لاباس یلبس الثوب فی غیر الحرب اذ اکان ازرارہ دیباجا اوذھبا ۳؎۔
جنگ کے علاوہ اگر ایسا کپڑا پہنے کہ جس کے بٹن ریشمی یا سونے کے ہوں تو کوئی حرج نہیں۔ (ت)
(۳؎ فتاوٰی ہندیہ کتاب الکراھیۃ الباب التاسع نورانی کت خانہ پشاور ۵ /۳۳۲)
اقول: (میں کہتاہوں۔ ت) یہاں چیز فوائد قابل لحاظ ہیں۔
اول ــ: زر کے لئے کپڑے میں سلا ہونا ضرور نہیں بلکہ مخیط ومربوط مغروز ومرکوز سب کو عام ہے ولہذا ائمہ لغت میں اس کی تعریف میں صرف لفظ وضع اخذ کیا جس مں اصل تخصیص خیاطت نہیں،
قاموس میں ہے :
اگر حرکت زیر کے ساتھ ہو تو اس کو معنی ہے وہ چیز جو کرنے میں موضوع ہو یعنی رکھی جائے'' اگریہ حرکت زبر کے ساتھ ہو تو اس کا معنی ہے اِزرار باندھنا۔(ت)
(۱؎ القاموس المحیط فصل الزاء من باب الراء مصطفی البابی مصر ۲ /۳۹)
عمدۃ القاری شرح صحیح لبخاری میں ہے :
قال ابن سیدۃ الزر الذی یوضع فی القمیص والجمع ازرار و زَرْوُرْ و ازرّ القمیص جعل لہ زر او ازرہ شد علیہ ازرارہ وقال ابن الاعرابی زر القمیص اذا کان محلولا فشدہ وزرالرجل شد زرہ ۲؎۔
ابن سیدہ لغوی نے کہا کہ ''زر'' وہ چیز ہے جو کرتے میں لگائی جاتی ہے اس کی جمع ازرار اور زَرْوُرْ ہے ، ازرّ القمیص اس وقت کہا جاتاہے جبکہ قمیص کے بٹن لگائے جائیں اور اَزْرّہ، اس قت کہا جاتاہے جبکہ قمیص پر اس کے بٹن باندھے جائیں، ابن الاعرابی نے کہا جب قمیص کے بٹن کھلے ہوں پھر انھیں باندھے تو اس وقت زرالقمیص کہا جاتاہے اور زرالرجل کا مفھوم یہ ہے کہ اس نے بٹن باندھ دئے۔ (جبکہ وہ کھلے ہوں)۔ (ت)
(۲؎ عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری کتاب الصلٰوۃ وباب وجوب الصلٰوۃ فی الثیاب ادارۃ الطباعۃ المنیریۃ دمشق ۴ /۵۴)
ملحہ جرمی کا بھی شعر بھی اس کا پتا دیتاہے: ؎
کان زرور القبطریۃ علقت
علائقہا منہ بجذع مقوم۳؎
گویا سلکی کپڑے لٹکادئے گئے اور ان کی بند شیں سیدھے تنے سے پیوستہ ہیں۔
(۳؎ تاج العروس فصل الزاء من باب الراء داراحیاء التراث العربی بیروت ۳ /۲۳۶)
القبطریۃ ثیاب کتاب بیض والکنایۃ للممدوح والعلائق جمع علاقۃ بالکسر بند۔
القبطریۃ السی کے سفید کپڑے اور ممدوح کی طرف اشارہ ہے۔ ''علائق'' جمع ہے۔ اس کا واحد ''علاقہ'' ہے حرکت زیر کے ساتھ ہے بمعنی بند ہے۔
فی القاموس وتاج العروس العلاقۃ بالکسر فی السوط ونحوہ کالسیف والقدح والمصحف والقوس وما اشبہ ذٰلک وعلاقۃ السوط مافی مقبضہ من السیر اھ ۱؎ ثم قالا اعلق القوس جعل لہا علاقۃ وعلقھا علی الوتد وکذٰلک السوط المصحف والقدح ۲؎۔
چنانچہ القاموس اور اس کی شرح تاج العروس میں ہے ''العلامۃ'' بحر کت زیر کوڑا اور اس چیز جیسے تلوار، پیالہ، مصحف، کمان اور اس کے مشابہ اشیاء میں استعمال ہوتاہے ''علاقۃ السوط'' وہ تسمہ جو اس کے دستہ میں لگا ہو اھ پھر دونوں (صاحب قاموس اور مصنف تاج العروس) نے کہا اعلق القوس اس وقت کہا جاتاہے جب کمان کو بندھن لگا کر کسی کلی وغیرہ پر لٹکا دے اوریہی حال کوڑے مصحف اور پیالے کا ہے۔ (ت)
(۱؎ تاج العروس فصل العین من باب القاف داراحیاء التراث العربی بیروت ۷ /۲۱)
(۲؎ تاج العروس فصل العین من باب القاف دارحیا ء التراث العربی بیروت ۷ /۲۲)