Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۲(کتاب الحظر والاباحۃ)
19 - 146
مسئلہ ۳۷: مسئولہ مولوی حکیم امجد علی صاحب ۱۱ رجب المرجب ۱۳۳۰ھ

زعفران اور کسم اگر دوسرے رنگوں میں تھوڑے شامل کردئے جائیں تو جائز ہے یانہیں؟
الجواب

اگر تھوڑے ملائے کہ مستہلک ہوگئے اور ان کا رنگ نہ آیا تو حرج نہیں۔
اذلا حکم للمستھلک ویشیر الیہ کلام التنویر  کسرہ لبس المعصفر والمزعفرالاحمر اوالاصفر للرجال ۱؎ ۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
جو چیز نیست ونابود ہوجائے تو اس کے لئے کوئی حکم نہیں۔ صاحب تنویر کا کلام اسی طرف اشارہ کرتاہے معصفر اور زعفرانی سرخ اورزرد رنگ مردوں کے لئے مکروہ ہے۔ اور اللہ سب سے بڑا عالم ہے۔ (ت)
 (۱؎ درمختار    کتا ب الحظروالاباحۃ     باب اللبس         مطبع مجتائی دہلی    ۲ /۲۴۰)
مسئلہ ۳۸:  نیا کپڑا یا جوتا استعمال کرنے پرکیاپڑے اورکون سے روز استعمال کرے ؟ درزی کو کون سے روز سلنے کو دے؟
الجواب بسم اﷲ کہہ کر پہنے اور پہن کر پڑھے۔
الحمداﷲ الذی کسانی ھذا  و رزقنیہ من غیر حول منی ولاقوۃ ۲؎۔
سب تعریف اور ستائش اس اللہ تعالٰی کے لئے ہے جس نے مجھے یہ لباس پہنایا اور میری قوت وطاقت (بچاؤ وتحفظ کے بغیر مجھے اس کے پہننے کی توفیق بخشی) (ت)
 (۲؎ عمل یوم  واللیلۃ باب مایقول از ستجد ثوبا حدیث  ۲۷۱     دائرۃ المعارف عثمانیہ حیدر آباد دکن    ص۷۴)
اور کپڑے کے استعمال یا درزی کو دینے کے لئے کوئی خصوصیت نہیں، ہاں منگل کے دن کپڑا قطع نہ کیاجائے۔ مولا علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا : ''جو کپڑا منگل کے روز قطع کیا جائے وہ جلے یا ڈوبے یا چوری ہوجائے'' واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۳۹: از کالج علی گڑھ کمرہ نمبر ۶ مرسلہ عبدالمجید خاں یوسف نری سرسید کورٹ ۲۹ صفر ۱۳۳۲ھ

زید انگریزی ٹوپی یعنی ہیٹ کو استعمال نہیں کرتا ہے مگر پتلون پہنتاہے اور پتلون پر ترکی کوٹ پہنتاہے یہ لباس درست ہے یانہیں؟
الجواب

دربارہ لباس اصل کلی یہ ہے کہ جو لباس جس جگہ کفار یا مبتدعین یا فساق کی وضع ہے اپنے اختصاص و شعاریت کے مقدا رپر مکروہ یاحرام یا بعض صور میں کفر تک ہے۔
حدیقہ ندیہ میں ہے :
لبس زی الافرنج کفر علی الصحیح ۳؎۔
افرنگیوں کا لباس صحیح قول کی بنا پر کفر ہے۔ (ت)
 (۳؎ الحدیقہ الندیہ النوع الثامنن من الانواع الستین السخیریہ     مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد  ۲ /۲۳۰)
ہیٹ اسی قسم میں ہے اور پتلون قسم اول میں اور دوسرے ملک میں کسی اسلامی قوم کی وضع ہوناکافی

نہیں جبکہ اس ملک میں کفار یا فساق کی وضع ہو
فان کل بلدۃ وعوائدھا
 (کیونکہ ہر شہر اور اس کے رہنے وال۔ ت)خصوصا اس حالت میں کہ ترک نے بھی یہ وضع بہت قریب زمانے سے اختیار کی اور وہ بھی نہ طوعا بلکہ جبرا، سلطان محمودخاں کے زمانہ میں سلطنت کی طرف سے اس پر مجبور کیا گیا اورنیگچری فوج نے اس پر مخالفت کی اور کشت وخون وقع ہوا بالآخر بمجبوری مانی، واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۴۰ :مسئولہ حافظ بنو علی صاحب از خاص ضلع بھنڈارہ محلہ کہم تالاب متوسط ضلع ناگپور ۱۳ ربیع الاول ۱۳۳۲ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین وشرع متین اس مسئلہ میں کہ خام رنگ مثلا سرخ، سبز، نیلا، پیلا ایسے رنگ کے کپڑے پہن کر نماز جائز ہے یاناجائز؟ بینوا توجروا (بیان فرماؤ او۳ر اجر پاؤ۔ ت)
الجواب

عورت کو ہرقسم کا رنگ جائز ہے جب تک اس میں کوئی نجاست نہ ہو، اور مر د کے لئے دو رنگوں کا استثناء ہے۔ معصفر ار مزعفر یعنی کسم اور کیسر، یہ دونوں مرد کو ناجائز ہیں اور خالص شوخ رنگ بھی اسے مناسب نہیں۔ 

حدیث میں ہے  :
ایاکم والحمرۃ فانھا من زی الشیطان ۱؎۔
سرخ رنگ سے بچو اس لئے کہ وہ شیطانی صورت اورہیئت ہے۔ (ت)
 (۱؎ المعجم الکبیر         حدیث ۳۱۷         المکتبہ الفیصلیۃ بیروت    ۸ /۱۴۸)

(کنز العمال         بحوالہ ابن جریر عثمان عن قتادہ     حدیث ۴۱۱۷۸     مؤسسۃ الرسالہ بیروت    ۱۵ /۳۱۴)
باقی رنگ فی نفسہٖ جائز ہیں کچے ہوں یا پکے ہاں اگر کوئی کسی عارض کی وجہ ممانعت ہوجائے تو وہ دوسری بات ہے جیسے ماتم کی وجہ سے سیاہ لباس پہنناحرام ہے۔
کما فی الہندیۃ ۲؎
 (جیسا کہ فتاوٰی ہندیہ میں ہے۔ ت)
 (۲؎ فتاوٰی ہندیہ     کتاب الکرھیۃ الباب التاسع     نورانی کتب خانہ پشاور    ۵ /۳۳۳)
بلکہ ماتم کے لئے کسی قسم کی تغیہیر وضع حام ہے
کما فی المرقاۃ شرح المشکوٰۃ لعلی القاری
 ( جیسا کہ ملا علی قاری کی مرقاۃ شرح المشکوٰۃ میں ہے۔ ت) ولہذا ایام محرم شریف میں سبز لباس جس طرح جاہلوں میں مروج ہے ناجائز وگناہ ہے۔ اور اودا یا نیلا یا آبی یا سیاہ اور بدتر واخبث ہے۔ کہ روافض کا شعار اور ان کی تشبہ ہے اس طرح ان ایام میں سرخ بھی ناصبی خبیث بہ نیت خوشی و شادی پہنتے ہیں یونہی ہولی کے دنوں میں چنریاں اور بسنت کے دنوں میں بسنتی کہ کفار ہنود کی رسم ہے واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۴۱ :  زموضع میر پور ضلع پیلی بھیت مرسلہ یوسف علی     ۲۳ جمادی الثانی ۱۳۳۲ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ لباس مسنون کیا ہے اور روایت مشہورہ میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ہمیشہ تہبند ہی استعمال فرمایا اور قمیص بلا بٹن یعنی گھنڈی دار پہنی ہیں تو بھی مسنون ہوا اور جب یہ مسنون ہوا تو اگر کوئی شخص پائجامہ پہنے یا قمیص یا بٹن پہنے یا چین لگائے یا کالر لگائے یہ سب خلاف سنت ہے۔ تو کیا وہ مخالف سنت کہلا یا جائے گا اور مثلا آپ نے یعنی حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے نان جویں ہی تناول فرمائی ہیں او دعوت میں جیسی بھی تو کیا جو شخص اپنے مکان پر نان گند م کھائے اور نان جو نہ کھائے تو مخالفین سنت میں داخل ہوگا؟ بینوا توجروا (بیان فرماؤ اجر وثواب پاؤ۔ ت)
الجواب

یہ سنن زوائد ہیں بہ نیت اتباع اجر ہے ورنہ :
قل من حرم زینۃ اﷲ  التی اخرج العبادہ والطیبت من الرزق ۱؎۔
فرمادیجئے اللہ تعالٰی کی زیب وزینت کس نے حرام ٹھہرائی جو اس نے بندوں کےلیے نکالی (یعنی ظاہر فرمائی)ا ور ستھری روزی (ت)
 (۱؎القرآن الکریم ۶ /۶۸)
ہاں یہ ضرور ہے کہ کفار یا بدمذہوں یا فساق کی وضع نہ ہو۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۴۲: از بریلی شہر کہنہ محلہ سہسوانی ٹولہ مرسلہ حافظ رحیم اللہ صاحب ۲۶ جمادی الثانی ۱۳۳۲ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ حضور پر نور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے عمامہ شریف کَے گزر کا باندھا تھا جیسا کہ عرب شریف کے لوگ باندھتے ہیں۔ یہاں کے لوگ باندھتے ہیں اور حضور پر نور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے تہبند باندھا تھا کہ پائجامہ پہنا تھا۔ اور حضور کے کرتہ شریف میں گھنڈی لگی تھی یا بٹن اور کرتہ شریف میں چاک کھلے تھے یا نہیں؟ گھنڈی آپ کے کرتہ مبارک میں سامنے تھی یا ادھر ادھر؟
الجواب

عمامہ میں سنت یہ ہے کہ ڈھائی گز سے کم نہ ہو نہ چھ گز سے زیادہ، اور اس کی بندش گنبد نما ہو جس طرح فقیر باندھتاہے۔ عرب شریف کے لوگ جیسا کہ اب باندھتے ہیں طریقہ سنت نہیں اسے اعتجار کہتے ہیں کہ بیچ میں سرکھلا ہے۔ اوراعتجار کو علماء نے مکروہ لکھا ہے۔ رسول اللہ صل اللہ تعالی علیہ وسلم نے تہبند باندھا اور پاجامہ خریدنا اور پاجامہ پہننے کی تعریف فرمانا ثابت ہے پہننا ثابت نہیں۔ کرتہ مبارک میں بٹن ثابت نہیں۔ چاک دونوں طرف تھے،
صحیح مسلم شریف میں اسماءبنت ابی بکر رضی اللہ تعالٰی عنہا کی حدیث میں ہے :
وفرجیھا مکفوفین بالدیباج ۱؎۔
حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے کرتہ مبارک کے دونوں چاک ریشم سے سِلے ہوئے تھے۔ (ت)
 (۱؎ صحیح مسلم     کتاب اللباس باب تحریم استعمال اناء الذھب     قدیمی کتب خانہ کراچی    ۲ /۱۹۰)
گریبان مبارک سینہ اقدس پر تھا۔ اشتعۃ اللمعات میں ہے :
جیب قمیص آں حضرت صلی االلہ تعالٰی علیہ وسلم برسینہ مبارک وی بود چنانکہ احادیث بسیار برآں دلالت دارد۔ ۲؎
آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے کرتہ مبارک کا گریبان آپ کے مقدس سینے پر تھا جیسا کہ بہت سی حدیثیں (ارشاد ات صحابہ کرام) اس پر دلالت (اور راہنمائی کرتی ہیں۔ ت)
 (۲؎اشعۃ اللمعات     کتاب اللباس الفصل الثانی   مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر    ۳ /۵۴۴)
اسی میں ہے : تحقیق آنست کہ گریبان پیرا ہن نبوی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم برسینہ بود ۳؎۔ واللہ تعالٰی اعلم۔

تحقیق یہ ہے کہ حضور اکرم صل اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے کرتے مبارک کا گریبان سینہ اقدس پر تھا۔ واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)
 (۳؎اشعتہ اللمعات     کتاب اللباس الفصل الثانی   مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر   ۳ /۵۴۴)
Flag Counter