مسئلہ ۲۸ :کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ ٹخنوں سے نیچے پائچے رکھنا مردوں کو جائز ہے یانہیں؟ بینو اتوجروا (بیان فرماؤ اور اجر پاؤ۔ت)
الجواب : پائچوں کا کعبین سے نیچا ہونا جسے عربی میں اسبال کہتے ہیں اگر راہ عجب وتکبر ہے تو قطعا ممنوع وحرام ہے اور اس پر وعید شدید وارد۔
اخرج الامام الھمام محمد بن اسمعیل البخاری فی صحیحہ قال حدثنا عبداﷲ بن یوسف قال اخبرنا مالک عن ابی الزناد عن الاعرج عن ابی ھریرۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہ ان رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم قال لاینظر اﷲ یوم القیمۃالی من جواز ارہ بطرا ۱؎،قلت وبنحوہ روی ابوداؤد ابن ماجۃ من حدیث ابی سعیدن الخدری فی حدیث عبداﷲ بن عمرانہ قال قال رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم من جر ثوبہ مخیلۃ لم ینظراﷲ الیہ یوم القیمۃ ۲؎ الحدیث واخرج الامام العلام مسلم بن الحجاج القشیری فی صحیحہ قال حدثنا یحیی بن یحیٰی قال قرأت علی مالک عن نافع وعبداﷲ بن دینار وزید بن اسلم کلھم یخبرہ عن ابن عمر ان رسول اﷲ صلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم قال لاینظر اﷲ الی من جرثوبہ خیلا ۳؎۔ قلت وبمثلہ روی البخاری والنسائی والترمذی فی صحاحیم بالاسانید المختلفۃ والالفاظ المتقاربۃ۔
امام ہمام محمد بن اسمعیل بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں تخریج فرمائی اور فرمایا ہم سے عبداللہ ابن یوسف نے بیان کیا اس نے کہا کہ ہمیں حضرت امام مالک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے بتایا انھوں نے ابوالزناد سے اس نے اعرج سے اس نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالٰی قیامت کے روز اس شخص پر نظر شفقت نہیں فرمائے گا جس نے از راہ تکبر اپنے تہبند کو زمین پر گھسیٹا، قلت (میں کہتاہوں) یونہی ابوداؤد اور ابن ماجہ نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالٰی عنہ کی حدیث سے حضرت عبداللہ ابن عمر کی حدیث میں روایت کیا۔ انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو کوئی تکبر سے ازار لٹکائے (یعنی زمین پر گھسیٹے) تو اللہ تعالٰی قیامت کے دن اس کی طرف نہیں دیکھے گا، الحدیث امام علام مسلم بن حجاج قشیری نے اپنی صحیح میں تخریج کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم سے یحیٰی بن یحیٰی نے بیان کی اس نے کہا میں نے حضرت امام مالک کے سامنے پڑھا، امام مالک نے نافع عبداللہ بن دینار اور زید بن اسلم سے روایت کی، ان سب نے حضرت عبداللہ بن دینار اور زید بن اسلم سے روایت کی، ان سب نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما کے حوالے سے انھیں بتایاکہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالٰی اس کی طرف نہیں دیکھئے گا (یعنی اس کی طرف نگاہ رحمت نہیں فرمائے گا) جو ازراہ تکبر اپنا کپڑا لٹکائے، قلت (میں کہتاہوں)اس جیسی حدیث بخاری، نسائی اور ترمذی نے اپنی اپنی کتابوں (صحاح) میں مختلف سندوں اور قریبی ویکساں الفاظ کے ساتھ روایت کی ہے۔ (ت)
(۱؎ صحیح البخاری کتاب اللباس باب جرثوبہ من الخبلا قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۸۶۱)
(۲؎ صحیح البخاری کتاب اللباس باب من جرثوبہ من الخیلا قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۸۶۱)
(سنن ا بی داؤد کتاب اللباس باب ماجاء فی السبال الازار آفتاب عالم پریس لاہور ۲ /۲۰۸)
(سنن ابن ماجہ کتاب اللباس باب من جرثوبہ من الخیلا ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۲۶۳)
(۳؎ صحیح البخاری کتاب اللباس باب من جرثوبہ من الخیلا قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۸۶۰)
(صحیح مسلم کتاب اللباس باب تحریم جر الثوب خیلاء الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۱۹۴)
(الجامع الترمذی کتاب اللباس باب ماجاء فی الکراھیۃ الازار امین کمپنی کراچی ۱ /۲۰۶)
اور اگر بوجہ تکبر نہیں تو بحکم ظاہر احادیث مردوں کو بھی جائز ہے۔
لاباس بہ کما یرشک الیہ التقیید بالبطر والمخیلۃ۔
تو اس میں کچھ حرج نہیں جیساکہ اس کی طرف ''البطر والمخیلۃ'' (اترانا اور تکبر کرنا) کی قید لگا نا تمھاری راہنمائی
کررہا ہے۔ (ت)
حضرت ابوبکر (رضی اللہ تعالی عنہ) نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ تعالی علیہ وسلم )! میری ازار ایک جانب سے لٹک جاتی ہے۔ فرمایا: تو ان میں سے نہیں ہے جو ایسا براہ تکبر کرتاہو۔
اخرج البخاری فی صحیحہ قال حدثنا احمد بن یونس فذکر باسنادہ عن ابن عمر عن النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم قال من جرثوبہ خیلاء لم ینظر اﷲ الیہ یوم القیمۃ فقال ابوبکر یارسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم احد شقی ازاری یسترخی الا ان اتعاھد ذٰلک منہ فقال النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم لست ممن یصنعہ خیلاء ۱؎ قلت وبنحوہ روی ابوداؤد والنسائی۔
امام بخاری نے اپنی صحیح میں اس کی تخریج فرمائی۔ فرمایا ہم سے احمد ابن یونس نے بیان کیا۔ پھر اس کی اسناد سے حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے روایت کیا کہ حضور نے فرمایا : جس شخص نے ازاراہ تکبر کپڑا لٹکایا اور نیچے گھسیٹا تو اللہ تعالٰی قیامت کے دن اس کی طرف نظر نہ فرمائے گا۔ اس پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عرض کی۔ یا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ! میرا تہبند ایک طرف نیچے لٹک جاتاہے مگریہ کہ میں اس کی پوری حفاظت کرتاہوں (یعنی حفاظت میں ذرا سی کوتاہی یا لاپروائی ہوجائے تو تہبند ایک طرف لٹک جاتاہے) آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم ان لوگوں میں سے نہیں ہو جو طرز تکبر سے ایسا کرتے ہیں (یعنی علت تکبر نہ ہونے کی وجہ سے تمھارے ازار کے لٹک جانے سے کوئی حرج نہیں قلت (میں کہتاہوں) اسی کی مثل ابوداؤد اور نسائی نے بھی روایت کی ہے۔ (ت)
(۱؎ الصحیح البخاری کتاب اللباس قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۸۶۰)
حدیث بخاری ونسائی میں کہ :
مااسفل الکعبین من الازار ففی النار ۲؎۔
ازار کا جو حصہ لٹک کا ٹخنوں سے نیچے ہوگیا وہ آگ میں ہوگا۔ (ت)
(۲؎الصحیح البخاری کتاب اللباس قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۸۶۱)
تین شخص (یعنی تین قسم کے لوگ) ایسے ہیں کہ اللہ تعالٰی نے قیامت کے دن نہ تو انھیں پاک کرے گا بلکہ ان کے لئے دردناک عذاب ہوگا: (۱) ازارٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا (۲) احسان جتلانے والا (۳) جھوٹی قسم کھاکر اپنے اسباب کو رائج کرنیوالا (یعنی فروغ دینے والا ہے) (ت)
(۱؎ صحیح مسلم کتاب الایمان باب بیان غلظ تحریم اسبال الازار قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۷۱)
(سنن ابی داؤد کتاب اللباس باب ماجاء فی اسبال الازار آفتاب عالم پریس لاہور ۲ /۲۰۹)
علی الاطلاق وارد ہوا کہ اس سے یہی صورت مراد ہے کہ بتکبر اسبال کرتا ہو ورنہ ہر گزیہ وعیدشدید اس پر وارد نہیں۔ مگر علماء در صورت عدم تکبر حکم کراہت تنزیہی دیتے ہیں :
فی الفتاوٰی العالمگیری اسبال الرجل ازارہ اسفل من الکعبین ان لم یکن للخیلا ءففیہ کراھۃ تنزیہ کذافی الغرائب ۲؎۔
فتاوٰی عالمگیری میں ہے مر کا اپنے ازار کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانا اگر بوجہ تکبر نہ ہو تو مکروہ تنزیہی ہے اسی طرح غرائب میں ہے۔ (ت)
(۲؎ فتاوٰی ہندیہ کتا ب الکراھیۃ الباب السابع نورانی کتب خانہ پشاور ۵ /۳۳۳)
بالجملہ اسبال اگر براہ عجب وتکبر ہے حرام ورنہ مکروہ اور خلاف اولٰی، نہ حرام مستحق وعید، اور یہ بھی اسی صور ت میں ہے کہ پائچے جانب پاشنہ نیچے ہوں، اور اگر اس طرف کعبین سے بلند ہیں گو پنجہ کی جانب پشت پا پر ہوں ہر گز کچھ مضائقہ نہیں۔ اس طرح کا لٹکانا حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ بلکہ خود حضور سرور عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے ثابت ہے۔
روی ابو داؤد فی سننہ قال حدثنا مسدد نایحیٰی عن محمد بن ابی یحیٰی حدثنی عکرمۃ انہ رای ابن عباس یاتزر فیضع حاشیۃ ازارہ من مقدمہ علی ظھر قدمہ ویرفعہ مؤخرہ قلت لم تاتزر ھذہ الازارۃ قال رأیت رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم یاتزرھا ۱؎ قلت ورجال الحدیث کلھم ثقات عدول ممن یروی عنہم البخاری کما لایخفی علی الفطن الماھر بالفن۔
امام ابوداؤد نے اپنی کتاب سنن ابوداؤد میں روایت فرمائی ہے کہ ہم سے مسدد نے بیان کیا اس سے یحیٰی نے اس نے محمدبن ابی یحیٰی سے روایت کی ہے اس نے کہا مجھ سے عکرمہ تابعی نے بیان فرمایا اس نے ابن عباس کو دیکھا کہ جب ازار باندھتے تو اپنی ازار کی اگلی جانب کو اپنے قدم کی پشت پر رکھتے اور پچھلے حصہ کو اونچااور بلند رکھتے۔ میں نے عرض کی آپ اس طرح تہبند کیوں باندھتے ہیں؟ ارشاد فرمایا : میں نے حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو اسی طرح ازار باندھتے دیکھا ہے۔ قلت (میں کہتاہوں) حدیث کے تمام روای ثقہ (معتبر) اور عادل ہیں۔ ان سے امام بخاری روایت کرتے ہیں۔ جیسا کہ ذہین۔ فہیم اور ماہر فن پر پوشیدہ نہیں۔ (ت)
(۱؎سنن ابی داؤد کتاب اللباس باب ماجاء فی الکبر آفتاب عالم پریس لاہور ۲ /۲۱۰)