Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۲(کتاب الحظر والاباحۃ)
12 - 146
لباس ووضع وقطع لحاف، توشک، عمامہ، ٹوپی، جوتے، وضع وقطع اور رنگ وغیرہ سے متعلق
مسئلہ ۲۶ : از کلکتہ دھرم تلہ نمبر ۶ مرسلہ جناب مرزا غلام قادر بیگ ۱۲ رمضان المبارک ۱۳۱۱ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ریشمی کپڑا مرد کو پہننا جائز ہے یانہیں؟ بینوا توجروا (بیان فرماؤ اجر پاؤ۔ ت)
الجواب:  نہ بلکہ حرام ہے۔ حدیث میں اس پرسخت وعیدیں وارد۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں :
لاتلبسوا الحریر فانہ من لیسہ فی الدنیا لم یلبسہ فی الاٰخرۃ، رواہ الشیخان ۱؎ عن الامیر المومنین عمر والنسائی وابن حبان والحاکم وصححہ عن ابی سعید الخدری والحاکم عن ابی ھریرۃ و ابن حبان عن عقبۃ بن عامر رضی اﷲ تعالٰی عنہم اجمعین۔
ریشم نہ پہنو کہ جو اسے دنیا میں پہنے گا آخر میں نہ پہنے گا۔ (اس کو بخاری ومسلم نے امیر المومنین حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ہے، نسائی ، ابن حبان اور حاکم نے اس کو صحیح قرار دیا ہے اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کی ہے اور حاکم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ہے۔ اور ابن حبان نے حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کی۔ (ت)
 (۱؎ صحیح البخاری   کتاب اللباس باب لبس الحریر     قدیمی کتب خانہ کراچی    ۲ /۸۶۷)

(صحیح مسلم   کتاب اللباس   باب تحریم استعمال اناء الذھب والفضۃ الخ قدیمی کتب خانہ کراچی   ۲ /۱۹۱)

(الترغیب والترھیب بحوالہ البخاری ومسلم والترمذی والنسائی ترھیب الرجال من لبسہم الحریر   مصطفی البابی  مصر ۳ /۹۶)
نسائی کی ایک روایت میں ہے فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم  :
من لبسہ فی الدنیا لم یدخل الجنۃ ۱؎۔ رواہ عن المیرالمؤمنین عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔
جو دنیا میں ریشم پہنے گا جنت میں نہ جائے گا، (امام نسائی نے اس کو امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ہے۔ (ت)
 (۱؎ الترغیب والترھیب   بحوالہ النسائی ترھیب الرجال من لبسہم الحریر الخ حدیث ۲۰   مصطفی البابی مصر ۳ /۱۰۰)
اور فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم :
انما یلبس الحریر من لاخلاق لہ فی الاخرۃ رواہ الشیخان ۲؂ واللفظ للبخاری رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔
ریشم وہ پہنے گا جس کے لئے آخرت میں کچھ حصہ نہیں (اس کو شیخین (بخاری ومسلم) نے روایت کیا اور الفاظ امام بخاری رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ہیں۔ ت)
 (۲؎ صحیح البخاری    کتاب اللباس  باب لبس الحریر الخ  قدیمی کتب خانہ کراچی    ۲ /۸۶۷)

(صحیح مسلم         کتاب اللباس  باب تحریم استعمال اناء الذھب والفضۃ  قدیمی کتب خانہ کراچی   ۲ /۲۹۱)
ایک حدیث میں ہے حضور والاصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا :
من لبس ثوب حریر البسہ اﷲ عزوجل یوم القیمۃ ثوبا من النار۔ رواہ احمد ۳؎ و الطبرانی عن جویریۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہا۔
جو ریشم پہنے گا اللہ تعالٰی عزوجل اسے قیامت کے دن آگ کا کپڑا پہنائے گا (امام بخاری وطبرانی نے اس کو سیدہ جویریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے روایت کیا ہے۔ ت)
(۳؎ مسند امام احمد بن حنبل     حدیث جویریۃ نبت الحرث    المکتب الاسلامی بیروت    ۶ /۳۲۴) 

(المعجم الاوسط   عن جویریرۃ رضی اللہ تعالٰی عنہا     حدیث ۱۷۰، ۱۷۱     المکتب الفیصلیۃ بیروت    ۲۴ /۶۵)
حذیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں :
من لبس ثوب حریر البسہ اﷲ تعالٰی یوما من نارلیس من ایامکم ولکن من ایام اﷲ تعالٰی الطوال ۱؎ رواہ الطبرانی وقال اﷲ تعالٰی وان یوما عند ربک کالف سنۃ مما تعدون ۲؎۔
جوریشم پہنے اللہ تعالٰی اسے ایک دن کا مل آگ پہنائے گا وہ دن تمھارے دنوں میں سے نہیں بلکہ اللہ تعالٰی کے ان لمبے دنوں سے یعنی ہزار برس کا ایک دن (اس کو امام طبرانی نے روایت کیا ) جیسا کہ اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا: بیشک تمھارے شمار کے مطابق ایک ہزار سال کے برابر ہے۔
 (۱؎ الترغیب والترھیب     بحوالہ حذیقہ موقوفاء     ترھیب الرجاں من لبسہم الحریر الخ   مصطفی البابی مصر ۳ /۹۹)

(۲؎ القرآن الکریم      ۲۲ /۴۷)
سیدنا مولٰی علی کرم اللہ وجہہ کی حدیث میں ہے میں نےحضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو دیکھاکہ حضور نے اپنے دہنے ہاتھ میں ریشم اور بائیں ہاتھ میں سونا لیا پھر فرمایا:
ان ھذین حرام علی ذکور امتی۔ رواہ ابوداؤد۳؎ والنسائی۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
بیشک یہ دونوں (ریشم اور سونا) میری امت کے مردوں پر حرام ہیں۔ (ابوداؤد اور نسائی نے اسے روایت کیا ۔ت ) واللہ تعالٰی اعلم۔
 (۳؎ سنن ابی داؤد     کتاب اللباس     باب فی الحریر النساء     آفتاب عالم پریس لاہور            ۲ /۲۰۵)
مسئلہ ۲۷: از اٹاوہ مرسلہ مولوی وصی علی صاحب نائب ناظر کلکٹر ی اٹاوہ ۲ ذیقعدہ ۱۳۱۲ھ
ماقولکم رحمکم اﷲ تعالٰی فی جواب ھذا السوال
 (اس سوال کے جواب میں آپ (رحمکم اللہ تعالٰی) کا کیا ارشاد گرامی ہے۔ ت) : پائجامے دو طرح کے فی زماننا اکثر مروج ومستعمل ہیں : اول غرارہ دار فراخ پائچہ جس کااستعمال بیشتر بزرگان دین کرتے ہیں اور اکثر علماء وصلحاء واولیائے امت کے لباس میں داخل ہے۔

دوم پائچہ عوام مومنین اور بعض خواص علماء خصوصا پچھان کی طرف کے باشندے استعمال کرتے ہیں ان دونوں میں سے کون باعتبار شرح شریف کے افضل واستر ہے اور کس کے استعمال کی بابت شرع سے صریح رخصت ہوسکتی ہے؟ بینوا توجروا (بیان فرماؤ اجرپاؤ۔ ت)
الجواب : اصل سنت مستمرہ فعلیہ حضور پر نور سید المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وعلیہم اجمعین ازار یعنی تہبند ہے۔ اگر چہ ایک حدیث میں مروی ہواہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حضورپر نور صلوات اللہ تعالٰی وسلامہ علیہ سے عرض کیا۔ حضورپاجامہ پہنتے ہیں۔ فرمایا:
اجل فی السفر والحضر وفی اللیل والنھار فانی امرت بالتر فلم اجد شیئا استر منہ۔ رواہ ابویعلی ۱؎ وابن حبان فی الضعفاء والطبرانی فی الاوسط والدار قطنی فی الافراد والعقیلی فی الضعفاء عنہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔
ہاں سسفر وحضر میں شب و روز پہنتاہوں اس لئے کہ مجھے ستر کا حکم ہوا ہے میں نے اس سے زیادہ ساتر کسی شیئ کو نہ پایا (اس کو ابویعلی اور ابن حبان نے کتاب الضعفاء میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ہے اور امام طبرانی نے الاوسط میں اورامام دارقطنی نے الافرادمیں اور امام عقیلی نے کتاب الضعفاء میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ہے۔ ت)
 (۱؎ مجمع الزوائد بحوالہ ابویعلٰی والمعجم الاوسط للطبرانی     کتاب اللباس باب فی السراویل      دارالکتب العربی بیروت  ۵ /۱۲۲)
مگریہ حدیث بشدت ضعیف ہے۔
حتی ان اباالفرج اورد ہ علی عادتہ ف الموضوعات والصواب کما بینہ الامام السیوطی، واقتصر علیہ الحافظ ابن حجر وغیرہ انہ ضعیف فقط۔ تفرد بہ یوسف بن زیاد الواسطی واہ۔
یہاں تک کہ حافظ ابوالفرج ابن جوزی نے اپنی عادت کے مطابق اسے موضوعات میں ذکر کیا ہے۔ لیکن ٹھیک بات جیسا کہ امام سیوطی نے بیان فرمائی اور حافظ ابن حجر وغیرہ نے اسی پر اکتفاء کیا وہ یہ ہے کہ وہ صرف ضعیف ہے چنانچہ یوسف بن زیاد واسطی اسے روایت کرنے میں متفرد (یعنی تنہا) ہے اور وہ کمزور ہے۔ (ت)ہاں حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا اسے خریدنا بسند صحیح ثابت ہے۔
رواہ الائمۃ احمد والاربعۃ وابن حبان وصححہ عن سوید بن قیس واحمد والنسائی فی القصۃ اخرٰی عن مالک بن عمیرۃ الاسدی رضی اﷲ تعالٰی عنہما۔
ائمہ کرام مثلاامام احمد ودیگر چار ائمہ اور ابن حبان نے اس کو روایت کیا ہے اورسوید بن قیس کے حوالہ سے اس کی صحت کو تسلیم کیا ہے۔ امام احمد اور امام نسائی نے ایک دوسرے قصے میں حضرت مالک بن عمیرہ اسدی کے حوالے سے روایت کی۔ رضی اللہ تعالٰی عنہما۔ (ت)
اور ظاہر ہے یہی ہے کہ خریدنا پہننے ہی کے لئے ہوگا۔بہر حال اس میں شک نہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم زمانہ اقدس میں باذن اقدس پاجامہ پہنتے
کما فی الہدٰی والمواھب وشرح سفر السعادۃ وغیرھا
 (جیسا کہ الہدٰی، المواہب اور شرح سفر السعادۃ وغیرہ میں مذکورہے۔ ت) امیر المومنین عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ روز شہادت پاجامہ پہنے ہوئے تھے
کما فی تہذیب الامام النووی وغیرہ
 (جیسا کہ تہذیب الاسماء امام نووی وغیرہ میں مذکور ہے۔ ت)
Flag Counter