Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۲(کتاب الحظر والاباحۃ)
10 - 146
مسئلہ ۱۹:  کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ مردوں کو چاندی کا چھلا ہاتھ یا پاؤں میں پہننا کیسا ہے؟ بینوا تروجروا (بیان فرماؤ تاکہ اجر پاؤ۔ت)
الجواب : حرام ہے،
فقد قال صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فی الذھب والنضۃ انھما محرمان علی ذکور امتہ ۱؎،قلت ولایجوز القیاس علی خاتم الفضۃ لانہ لایختص بالنساء بخلاف مانحں فیہ فینھی عنہ الاتری الی مافی ردالمحتار عن شرح النقایۃ انما یجوز التختم بالفضۃ لو علی ھیئۃ خاتم الرجال امالو لہ فصان اواکثر حرم ۲؎ انتہی ولان الخاتم یکون للتزین وللختم اما ھذا فلاشیئ فیہ الاالتزین وقد قال فی الدرالمختار لایتحلی الرجل بفضۃ الا بخاتم اذا لم یرد بہ التزین ۳؎ اھ ملخصا۔ وفی الکفایۃ قولہ الا بالخاتم ھذا اذا لم یرد بہ التزیین ۴؎ اھ انتہی، واﷲ تعالٰی اعلم
سونے چاندی کے متعلق حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا : یہ دونوں میری امت کے مردوں پر حرام ہیں میں کہتاہوں اس کو چاندی کی انگوٹھی پرقیاس کرنا جائز نہیں (کہ یہ جائزہے تو وہ بھی جائز ہونا چاہئے) کیونکہ چاندی کی انگوٹھی عورتوں کے ساتھ مختص نہیں بخلاف اس کے جس کی ہم بحث کررہے ہیں (یعنی چاندی کا چھلا )کہ اس سے مردوں کو منع کیا جا ئے گا کیا تم اس کی طرف نہیں دیکھتے جو فتاوٰی شامی میں شرح نقایہ کے حوالے سے آیا ہے کہ چاندی کی انگوٹھی پہننا اگر مردانہ ہیئت کے مطابق ہو تو جائز ہے لیکن اگر اس کے دو یانگینے  ہو تو حرام ہے اور اس لئے کہ انگوٹھی زیب وزینت اورمہر کے لئے ہوا کرتی ہے لیکن چھلے میں زیب وزینت کے علاوہ کوئی مقصدباقی نہیں رہتا حالانکہ درمختار میں فرمایا کہ مرد سرائے انگوٹھی کے چاندی کا کوئی زیور نہ پہنے اور اس سے بھی زیب وزینت مراد نہ ہو، تلخیص پوری ہوگئی، کفایہ میں ہے کہ مصنف کا یہ کہنا ''الا بالخاتم'' اس استشہاد کا جواز اس وقت ہے جبکہ انگوٹھی پہننے سے زیب وزینت کا ارادہ نہ ہو، عبارت پوری ہوگئی اور اللہ تعالٰی سب سے بڑا عالم ہے۔ (ت)
 (۱؎ حاشیہ الطحطاوی علی الدرالمختار     کتاب الحظروالاباحۃ     دارالمعرفۃ بیروت    ۴ /۱۷۲)

(۲؎ ردالمحتار     کتاب الحظروالاباحۃ فصل فی اللبس         داراحیاء التراث العربی بیروت    ۵ /۲۳۱)

(۳؎ درمختار   کتاب الحظروالاباحۃ فصل فی اللبس  مطبع مجتبائی دہلی        ۲ /۲۴۰)

(۴؎ الکفایۃ مع فتح القدیر کتاب الکراھیۃ      مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر        ۸ /۴۵۷)
مسئلہ ۲۰: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ مرد کو چاندی کی انگوٹھی پہننا کیسا ہے، اور بے ضرورت مہر اس کا کیاحکم ہے؟ بینوا توجروا (بیان فرماؤ تاکہ اجر پاؤ۔ ت)
الجواب: مہر کے لئے چاندی کی انگوٹھی ایک مثقال یعنی ساڑھے چار ماشہ سے کم کی جسے مہر کی ضرورت ہوتی ہو بے شبہہ مسنون اور سونے کی یاا یک مثقال سے زیادہ چاندی کی حرام، اور پورے مثقال بھر میں روایتیں مختلف۔ اور حدیث سے صریح ممانعت ثابت تو اسی پر عمل چاہئے۔ اور بے ضرور ت مہر ایسی انگشتری پہننا مکروہ تنزیہی بہتریہ کہ بچے، اوریہ اس صورت میں ہے جبکہ اس کی ہیئت انگشتری زنانہ سے جدا ہو ورنہ محض ناجائز، جیسے ایک سے زیادہ نگ ہوتاہے کہ یہ صورت عورتوں کے ساتھ مخصوص ہے۔
فی درالمحتار التختم سنۃ لمن یحتاج الیہ کما فی الاختیار قال القہستانی وفی الکرمانی نہی الحلوانی بعض تلامذتہ عنہ وقال اذا صرت قاضیا فتختم وفی البستان عن بعض التابعین لایختم ، الا ثلثۃ امیر او کاتب او احمق وظاہرہ انہ یکرہ لغیر ذ ی الحاجۃ لکن قول المصنف افضل کالہدایۃ وغیرہا بفید الجواز وعبر فی الدرر باولی وفی الاصلاح باحب فالنھی للتنزیہ۱؎  الخ وفیہ قولہ ولایزیدہ علی مثقال قیل ولا یبلغ بہ المثقال ذخیرۃ،  اقول ویؤیدہ نص الحدیث السابق من قولہ علیہ الصلٰوۃ والسلام ولاتتمہ مثقالا۱؎انتہی،
فتاوٰی شامی میں ہے جس شخص کو مہر لگانے کی ضرورت ہو اسے انگوٹھی پہننا سنت ہے جیسا کہ ''الاختیار'' میں ہے قہستانی نے فرمایا کہ کرمانی میں ہے شمس الائمہ حلوانی نے اپنے بعض شاگردوں کو انگوٹھی پہننے سے منع کیا تھا اور فرمایا تھا کہ جب تو قاضی بن جائے گا تو پھر مہر کی ضرورت کی وجہ سے انگوٹھی پہن لینا، بستان میں بعض تابعین سے مروی ہے کہ صرف تین آدمی انگوٹھی پہنتے ہیں : ایک امیر، دوسرا کاتب اور تیسرا بے وقوف، اس کا بظاہر مفہوم یہ ہے کہ جو صاحب ضرورت نہ ہو اس کےلئے انگوٹھی پہننا مکروہ ہے لیکن مصنف کا قول ہدایہ وغیرہ کی طرح زیادہ عمدہ ہے۔ جو جواز کا فائدہ دیتاہے چنانچہ درر میں لفظ ''اولٰی'' اور اصلاح میں لفظ ''احب'' سے تعبیر کی گئی یعنی نہ پہننا زیادہ پسندیدہ ہے۔ لہذا  نہی تنزیہ کے لیے ہے الخ اور اسی میں ہے کہ مصنف کا قول ''ولایزیدہ علی مثقال ''یعنی مثقال سے زیادہ نہ ہو، اور یہ بھی کہا گیا کہ مثقال تک نہ پہنچے ذخیرہ ، میں کہتاہوں حدیث سابق کی تصریح اس کی تائید کرتی ہے کہ حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ انگوٹھی پوری مثقال نہ ہو، عبارت پوری ہوئی۔
 (۱؎ الدرالمختار      کتاب الحظروالاباحۃ     فصل فی اللبس     داراحیاء التراث العربی بیروت    ۵ /۲۳۱)

(۱؎ ردالمحتار     کتاب الحظروالاباحۃ فصل فی اللبس     داراحیاء التراث العربی بیروت    ۵ /۲۳۰)
وفی الہندیۃ عن المحیط ینبغی ان تکون فضۃ الخاتم المثقال ولایزاد علیہ وقیل لایبلغ بہ المثقال وبہ ورود الاثر انتہی ۲؎۔
فتاوی ہندیہ محیط کے حوالے سے مذکور ہے مناسب یہ ہے کہ چاندی کی انگوٹھی صرف ایک مثقال ہو اس سے زیادہ نہ ہو اور یہ بھی کہا گیا کہ وہ مثقال تک بھی نہ پہنچے چنانچہ اثر میں یہی وار دہوا ہے۔ عبارت پوری ہوئی،
 (۲؎فتاوٰی ہندیہ کتاب الکراھیۃ الباب العاشرع     نورانی کتب خانہ پشاور        ۵ /۲۳۵)
وفی الخلاصہ انما یجوز التختم بالفضۃ اذا کان علی ھیئۃ ختم النساء بان کان لہ فصان اوثلثۃ یکرہ استعمالہ للرجال ۳؎ انتہی۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
خلاصہ میں ہے چاندی کی انگوٹھی پہننا اس وقت جائز ہے جبکہ مردانہ انگوٹھیوں جیسی ہو لیکن اگر عورتوں کی انگوٹھیوں جیسی بنی ہو کہ اس میں دویاتین نگینے ہوں تو ایسی انگوٹھی کا مردوں کو استعمال کرنا مکروہ ہے عبارت پوری ہوئی، اور اللہ تعالٰی سب سے زیادہ جاننے والا ہے (ت)
 (۳؎ خلاصۃ الفتاوٰی     کتاب الکراھیۃ       الفصل الرابع         مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ    ۴ /۳۷۰)
مسئلہ ۲۱:  کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ جھوٹے کام کا جوتا مردوزن کو پہننا جائز ہے یا نہیں؟ بینوا توجروا (بیان فرماؤ تاکہ اجر پاؤ۔ ت)
الجواب: یہ جزئیہ کتب متداولہ میں فقیر غفرلہ اللہ تعالٰی کی نظر سے نہ گزرا  مگر بظاہر یہ ہے
والعلم عنداﷲ
 (پورا علم اللہ تعالٰی کے پاس ہے۔ ت) کہ جھوٹے کا م کا جو تا مردوزن سب کے لئے مکروہ ہوناچاہئے ۔
فن المنسوج کغیرہ ولا شک ان النعال عن انواع الملبوسات والنساء والرجل سواء فی کراھۃ لبس النحاس۔
اس لئے کہ بُنی ہوئی چیز غیر بُنی ہوئی کی طرح ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ جوتا پہنی ہوئی چیزوں کی اقسام میں داخل ہے۔ اور مرد عورتیں تانبے کے استعمال کے مکروہ ہونے میں برابر ہیں یعنی دونوں کے لئے مکروہ ہے۔ (ت)

ہا سچے کام کا جوتا عورتوں کے لئے مطلقا جائز اور مردوں کے واسطے بشرطیکہ مغرق نہ ہو نہ اس کی کوئی بوٹی چار انگل سےزیادہ کی ہو یعنی اگر متفرق کام کا ہے اور ہر بوٹی چار انگل یا کم کی تو کچھ مضائقہ نہیں اگر چہ جمع کرنے سے چار انگل سے زیادہ ہوجائے، خلاصہ یہ ہے کہ جوتی اور ٹوپی کا ایک ہی حکم ہونا چاہئے۔
وفی الفتاوٰی الہندیۃ یکرہ ان یلبس الذکور قلنسوۃ من الحریر والذھب والفضۃ والکرباس الذی خیط علیہ ابریسم کثیر اوشیئ من الذھب اوالفضۃ اکثر من قدرا ربع اصابع ۱؎ انتھی، قال العلامۃ الشامی وبہ یعلم حکم العرقیۃ المسماۃ بالطافیۃ فاذ کانت منقشۃ بالحریر وکان احد نقوشھا اکثر من اربع اصابع لاتحل وان کان اقل تحل وان زاد مجموع نقوشھا علی اربع اصابع بناء علی مامرمن ان ظاھر المذھب عدم جمع المتفرق ۲؎ انتہی، وقد قال العلامۃ الشامی ایضا ان قد استوی کل من الذھب والفضۃ والحریر فی الحرمۃ فترخیص الحریر ترخیص غیرہ ایضا بدلائل المساواۃ ویؤید عدم الفرق مامر من اباحۃ الثوب المنسوج من ذھب اربعۃ اصابع ۳؎ اھ۔ ملخصاً فافھم وتثبت اذبہ تحرر ماکان العلامۃ الطحطاوی متوقفافیہ۔ واﷲ تعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم۔
فتاوٰی ہندیہ میں ہے مردوں کے لئے ریشم یا سونے یا چاندی کی ٹوپی پہننا مکروہ ہے اور اسی طرح وہ سوتی کہ جس پر زیادہ ترریشم کی سلائی کی گئی ہو _________ یا چار انگلیوں سے زیادہ سونا چاندی لگاہوا نتہی۔ علامہ شامی نے فرمایا کہ ا سے پگڑی اور توپی کے نچلے کپڑے کا حکم معلوم کیا جاسکتاہے کہ جس کو ''طافیہ'' کہتے ہیں۔ جب اس میں ریشمی نقوش ہوں اور اس کا کوئی ایک نقش چار انگشت سے زیادہ ہو تو اس کا استعمال جائز نہیں لیکن اگر اس سے کم ہو تو جائز ہے اگر چہ اس کے مجموعی نقوش چارانگلیوں سے زیادہ ہوجائیں۔ یہ اس بناء پر ہے جیسا کہ گزر چکا کہ ظاہر مذھب میں متفرق کو جمع کرنا نہیں انتہی حالانکہ علامہ شامی نے یہ بھی فرمایا کہ سونا چاندی اور ریشم یہ سب حرمت میں برابر ہیں۔ لہذا ریشم میں رخصت دوسری چیزوں کی رخصت کی طرح ہے دلالت مساوی ہونے کی وجہ سے، اور گزشتہ کلام سے عدم فرق کی تائید ہوتی ہے کہ سونے کے تاروں سے بناہوا کپڑا چار انگلی تک مباح ہے اھ ملخصا۔لہذا سمجھئے اور ثابت رہئے، ا س سے وہ بھی تحریر ہوگیا جس میں علامہ طحطاوی نے توقف کیا تھا۔ اور اللہ تعالٰی سب سے زیادہ جاننے والا ہے اور اس کا علم جس کی بزرگی بڑی ہے زیادہ کامل اور زیادہ پختہ ہے۔ (ت)
 (۱؎ فتاوٰی ہندیہ     کتاب الکراھیۃ  الباب التاسع     نورانی کتب خانہ پشاور    ۵ /۳۳۲) 

(۲؎ ردالمحتار   کتا ب الحظروالاباحۃفصل فی اللبس     دارحیاء التراث العربی بیروت    ۵ /۲۲۵)

(۳؎ردالمحتار     کتا ب الحظروالاباحۃفصل فی اللبس     دارحیاء التراث العربی بیروت   ۵ /۲۲۶)
Flag Counter