ظروف وزیورات انگوٹھی سونے، چاندی، تابنے، پیتل اور لوہے وغیرہ کے استعمال سے متعلق مسائل
مسئلہ۱: از میرٹھ دروازہ کارخانہ داروغہ یادالٰہی صاحب مرسلہ جناب مرزا غلام قادربیگ صاحب ۱۲ رمضان ۱۳۰۷ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ فی زماننا کرتوں اور صدریوں میں چاندی کے بوتام مع زنجیر لگاتے ہیں جائز ہے یانہیں؟ ایک صاحب کہتے ہیں کہ مولوی رشید احمد صاحب کے شاگرد فارغ التحصیل کہتے تھے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے کرتے شریف میں قریب گریبان چاندی کا پتر لگایا ہے اس قیاس پر بوتام مع زنجیر لگانا جائز ہے۔ بینو توجروا (بیان فرماؤ اور اجر وثواب پاؤ۔ت )
الجواب : چاندی کے صرف بوتام ٹاکنے میں حرج نہیں کہ کتب فقہ میں سونے گھنڈیوں کی اجازت مصرح۔
فی الدرالمختار عن التتارخانیہ عن السیر الکبر لا بأس بازرا رالدیباج والذھب ۱؎۔
درمختار میں تتارخانیہ کے حوالے سے سیر کبیر سے منقول ہے کہ ریشم اور سونے کی گھنڈی کے استعمال میں کچھ حرج نہیں۔ (ت)
(۱؎ درمختار کتاب الکراھیۃ فصل فی اللباس مطبع مجتبائی دہلی ۲ /۲۳۹)
اورگھنڈی اور بوتام ایک چیز ہے صرف صورت کا فرق ہے، اور جب سونا جائز تو چاندی بدرجہ اولٰی جائز، مگر یہ چاندی کی زنجیریں کہ بوتاموں کے ساتھ لگائی جاتی ہیں سخت محل نظر ہیں، کلمات آئمہ سے جب تک ان کے جواز کی دلیل واضح کہ آفتاب روشن کی طرح ظاہر و جلی ہو نہ ملے حکم جواز دینا محض جرأت ہے کہ چاندی سونے کے استعمال میں اصل حرمت ہے۔
شیخ محقق مولٰنا عبدالحق محدث دہلوی قدس سرہ، اشعۃ اللمعات شرح مشکوٰۃ میں فرماتے ہیں :
اصل دراستعمال ذہب وفضہ حرمت ست ۱؎۔
سونے اور چاندی کے استعمال کرنے میں اصل حرمت ہے۔ (ت)
(۱؎ اشعۃ اللمعات شرح مشکوٰۃ کتاب اللباس فصل باب الخاتم مکتبہ نوری رضویہ سکھر ۳ /۵۶۲)
یعنی جب شرع مطہر نے حکم تحریر فرما کر ان کی اباحت اصلییہ کو نسخ کردیا تواب ان میں اصل حرمت ہوگئی، کہ جب تک کسی خاص چیز کی رخصت شرع سے واضح وآشکار نہ ہو ہر گزا جازت نہ دی جائے گی بلکہ مطلق تحریم کے تحت میں دخل رہے گی ھذا وجہ۔
واقول: ثانیا ظاہر ہے کہ ان زنجیروں کے اس طرح لگانے سے تزین مقصو دہوتاہے۔ بلکہ تزین ہی مقصود ہوتاہے اور ایسے ہی تزین کو تحلی کہتے ہیں، اور علماء تصریح فرماتے ہیں مرد کو سوا انگوٹھی پیٹی اور تلوار کے سامان مثل پرتلے وغیرہ کے چاندی سے تحلی کسی طرح جائز نہیں،
تنویرالابصار میں فرماتے ہیں :
لایتحلی ای لایتزین درر ۲؎۔
چاندی کا کوئی زیور (سوائے مخصوص اشیاء کے) نہ پہنے یعنی اس سے زیب وزینت کا فائدہ نہ اٹھائے درر (ت)
(۲؎ درمختار شرح تنویر الابصار کتاب الحظروا لاباحۃ فصل فی اللباس مطبع مجتبائی دہلی ۲ /۲۴۰)
(ردالمحتار کتاب الحظر وا لاباحۃ فصل فی اللباس داراحیاء التراث العربی بیروت ۵ /۲۲۹)
جب یہ زنجیریں مستثنیات سے خارج ہیں تو لاجرم حکم نہی میں داخل ہیں۔
واقول: ثالثا اس طرح لگانا اگر حقیقۃ زنجیر پہننا نہیں تو پہننے سے مشابہ ہے اور محرمات میں شبہ مثل یقین ہے۔
فی ردالمحتار التعلیق یشبہ اللبس فحرم لذٰلک لما علم ان الشبھۃ فی باب المحرمات ملحقۃ بالیقین رملی ۳؎۔
ردالمحتار میں ہے کہ لٹکانے کے مشابہ ہے اس لئے حڑام ہے کیونکہ یہ معلوم ہو چکا ہے کہ محرمات کے باب میں شبہہ یقین کا درجہ رکھتاہے، رملی (ت)
(۳؎ردالمحتار کتاب الحظروا لاباحۃ فصل فی اللباس داراحیاء التراث العربی بیروت ۵ /۲۲۵)
انصاف کیجئے تو یہ اس مسئلہ کا گویا صریح جزئ ہے، پھر علماء کی تشریح ریشم کے بارے میں ہے جس کا صرف لبس یعنی پہننا اوڑھنا اور جس امر میں ان کی مشابہت ہو ممنوع ہے باقی تمام طرق استعمال روا۔
فی شرح الملتقی للعلائی لاتکرہ الصلٰوۃ علی سجادۃ من الابریشم لان الحرام ھو اللبس اما الانتفاع بسائر الوجوہ فلیس بحرام کما فی صلٰوۃ الجواہر واقرہ القھستانی وغیرہ ۱؎ اھ نقلہ العلامتان محشیا الدر ط و ش واقراہ۔
علامہ علائی کی شرح ملتقی میں ہے ریشمی مصلی پر نماز پڑھنا مکروہ نہیں کیونکہ اس کا صرف پہننا حرام ہے۔ لیکن اس سے فائدہ اٹھانے کے باقی تمام طریقے حرام نہیں جیسا کہ صلٰوۃ الجواہر میں مذکور ہے اس کو قہستانی وغیرہ نے برقرار رکھا ہے اھ اس کو دو علاموں یعنی علامہ شامی اور علامہ طحطاوی نے درمختار کےحواشی میں نقل کرتے ہوئے قائم رکھا ہے۔ (ت)
(۱؎ الدرالمنتقی فی شرح اللمتقی علی ہامش مجمع الانہر شرح ملتقی الابحر کتا ب الکراھیۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۲ /۵۳۴)
پھر کیاگمان ہے اشیائے فضہ کے باب میں جن کا صور معدودہ کے سوا استعمال مطلقا ناروا،
ردالمحتارمیں ہے :
الذی کلہ فضۃ یحرم استعمالہ بای وجہ کان کما قدمناہ ولوبلامس بالجسد ولذا حرم ایقاد العود فی مجمرۃ الفضۃ والساعۃ وقدرۃ التنباک التی یوضع فیہا الماء وان کان لایمسہ بیدہ ولا بفمہ لانہ استعمال فیما صنعت لہ ۲؎ الخ۔
صرف چاندی کا استعمال خواہ کسی طریقے سے ہو اور خواہ جس کے ساتھ نہ ہو تب بھی حرام ہے۔ لہذا چاندی کی انگیٹھی میں عود سلگانا، گھڑی باندھنا، حقہ کا وہ حصہ چاندی کا بنانا جس میں پانی ڈالا جاتاہے یہ سب حرام ہیں اگر چہ وہ ہاتھ اور منہ سے مس بھی نہ ہونے پائیں کیونکہ اس مقصد کے لئے استعمال ہے جس کے لئے یہ بنائی گئی ہے۔ الخ۔ (ت)
(۲؎ ردالمحتار کتاب الحظروالاباحۃ داراحیاء الت التراث العربی بیروت ۵ /۲۱۸)
اوریہ خیال کہ اگر یہاں چار انگل کے عرض تک کا کام ہوتاہے جائز ہوتا کہ تابع تھا اسی کی جگہ یہ زنجیریں ہیں انھیں بھی تابع ٹھہراکر مباح ماننا چاہئے۔ محض خیال محال ہے کا اور زنجیروں میں فرق بدیہی ہے۔ علماء تصریح فرماتے ہیں کہ مذہب صیح میں مرد وکو ریشمیں کمربند نا رواہ ہےکہ وہ پاجامہ تابع نہیں بلکہ مستقل جدا گانہ چیز ہے۔ درمختارمیں ہے :
تکرہ التکۃ منہ ای من الدیباج وھو الصحیح ۳؎۔
ریشمی کمر بند کا استعمال مکروہ ہے اوریہی صحیح ہے۔ (ت)
(۳؎ درمختار کتاب الکراھیۃ فصل فی اللبس مطبع مجتبائی دہلی ۲ /۲۳۹)
حاشیہ علامہ طحطاوی میں ہے :
ھو الصحیح لانہا مستقلۃ ۱؎
(یہی صحیح ہے کیونکہ یہ ایک مستقل چیز ہے۔ ت)
(۱؎ حاشیۃ الطحطاویۃ علی الدرالمختار کتاب الحظروالاباحۃ فصل فی اللبس دارالمعرفۃ بیروت ۴ /۱۷۸)
جب کمر بند باآنکہ پاجامہ کی غرض اس سے متعلق ہے بلکہ جس طرح اس کا لبس معروف ومعہود ہے وہ غرض بے اس کے تمام نہیں ہوتی مستقل قرار پایا تو یہ زنجیریں جن سے کپڑے کو کچھ علاقہ نہیں، نہ ا س کی کوئی غرض ان سے متعلق کیونکر تابع ٹھہرسکتی ہے اور اگر بالغرض کام کی جگہ لگایا جانا پتر کو بھ کام کے حکم میں کردے تولازم کہ چاندی کے کنگن توڑے، چنپا کلی، جھومر وغیرہا زیور بھی جائز ہیں جبکہ وہ آستینوں ، گریبان، ٹوپی وغیرہا میں کاام کے قائم مام ٹانکے جائیں بلکہ واجب کہ وہ زنجیریں اور یہ سب گہنے سونے کے بھی حلال ہوں کہ تابع قلیل ذہب و فضہ دونوں سے روا،
ردالمحتارمیں ہے :
ویؤید عدم الفرق مامر من اباحۃ الثوب المنسوج من ذھب اربعۃ اصابع ۲؎ الخ۔
فرق نہ ہونے کی تائید اس بات سے ہوتی ہے کہ بمقدار چار انگشت سونے کی تاروں سے بنا ہوا کپڑا مباح ہے الخ (ت)
(۲؎ ردالمحتار کتاب الحظروالاباحۃ فصل فی اللبس داراحیاء التراث العربی بیروت ۵ /۲۲۶)
غرض کوئی وجہ ان زنجیروں کے جواز کی نظر نہیں آئی اور جب تک کلمات ائمہ سے اجازت نہ ثابت ہو حکم ممانعت ہے لما بینا۔
رہی وہ حدیث کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے قریب گریبان مبارک چاندی کا پتر لگایا فقیر کو کسی کتاب سے یا دنہیں۔ نہ عادات بلاد اس کی مساعدت کریں کہ گریبانوں میں چاندی کے پتر لگائے جاتے ہوں، ہاں یہ بیشک حدیث میں آیا ہے کہ حضور پر نورر سید یوم النشور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے جبہ پہنا جس کے گریبان اور آستینوں اور چاکوں پر ریشم کی خیاطت تھی۔
جیسا کہ سیدہ اسماء بنت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہما کی حدیث میں آیا ہے جس کو ائمہ کرام امام احمد نے مسند میں امام بخاری نے ادب المفرد میں امام مسلم نے صحیح میں اور امام ابوداؤد نے السنن میں اس کی تخریج فرمائی ہے۔ (ت)
(۳؎ صحیح مسلم کتاب اللباس والزینۃ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۱۹۰)
(سنن ابی داؤد کتاب اللباس والزینۃ آفتاب عالم پریس لاہور ۲ /۲۰۵)
(مسند احمد بن حنبل عن اسماء بنت الصدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۶ /۴۸۔۳۴۷)
اس کے جواز میں کسے کلام ہے خواہ رشم کا کام ہو یا گوٹ سنجاف جبکہ کوئی بوٹی یا ٹکڑہ چار انگل عرض سے زائد نہ ہو پتر کی حدیث کا پتا دینا ذمہ مدعی ہے کہ دیکھا جائے وہ کس مرتبہ کی حدیث ہے اور اس کا مطلب کا اور اس سے مدعی کو تمسک کہاں تک روا۔
سیدین علامتین طحطاوی وشامی حواشی درمیں فرماتے ہیں :
الوارد عن الشارع صلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم انہ لبس الجبۃ المکفوفۃ بحریر فلیس فیہ ذکر فضۃ ولا ذھب ۱؎۔ واﷲ سبحانہ وتعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم ۔
شارع علیہ الصلٰوۃ ولسلام سے ثابت ہے کہ انھوں نے ایسا جبہ زیب تن فرمایا جس پر ریشم کا کام کیا ہوا تھا لیکن اس میں چاندی سونے کا ذکر نہیں۔ اللہ تعالٰی پاک برتر اور خوب جاننے والا ہے۔ اور اس شرف وعظمت والے کا علم سب سے زیادہ کامل اور پختہ ہے(ت)
(۱؎ ردالمحتار کتاب الحظروالاباحۃ فصل فی اللبس داراحیاء التراث العربی بیروت ۵ /۲۲۶)