مسئلہ ۱۵: از چاٹگام موضع قلاد جان مرسلہ نظام الدین ۲۳ ربیع الآخر ۱۳۲۳ھ
چہ می فرمایند علماء دین رحمہکم اللہ تعالٰی اندریں مسئلہ کہ زید و عمرو ہر دو عالم اندہرگاہ قطعہ فرائض بعبارت صحیحہ ومسئلہ صریحہ پیش ایشاں وقوع آمد پس زید بربنائے نفاق وعداوت دنیاوی گفتہ کہ اکثر جائے فرائض غلط کردہ ودستخط بہ صحیح مسئلہ آں ممنوع وعمر و او لا فرائض موصوفہ بغو رنظر دیدہ دستخط بداں برتصحیح مسئلہ آں کردہ اند باز از زبانی زید غلط عبارتش شنیدہ ودستخط خود ازوے منقطع کردہ اند ہر دو عالم موصوف، باوجود یکہ حضرات متدینین ادام اللہ فیوضہم آنرا تحقیق کردہ صحیح فرمودہ اند عبارتش رامغلطہ گویند، دستخط بداں غیر مشروع پندارند پس دریں واقعہ دماغ وغروری منسوب شوند یا نہ و آنا نکہ صحیح وجائز راناجائز وحلال راحرام بربنائے دماغ وغروری میدانندکافر گرد د یا بارتکاب کبیرہ بینوا توجروا۔
علمائے دین اس مسئلہ میں کیا فرماتے ہیں(اے علم والو! اللہ تعالٰی تم پر رحم فرمائے) زید اور عمرو دونوں عالم ہیں ان دونوں کے سامنے قطعہ فرائض عبارت صحیحہ اور مسئلہ صریحہ کے ساتھ پیش کیا گیا تو زید نے نفاق اور دنیوی عداوت کی بناپر کہہ دیا کہ فرائض کے زیادہ تر مقامات میں غلطی کی گئی ہے لہذا اس مسئلے کی صحت پر دستخط کرنا جائز نہیںَ عمرو نے پہلے فرائض موصوفہ کو غور وفکر سے دیکھا پھر اس مسئلہ کی صحت کو تسلیم کرتے ہوئے دستخط کردئے، ازاں بعد زید کی زبانی اس کی غلط عبارت سنی تو دونوں موصوف عالموں نے اس سے اپنے اپنے دستخط مٹا دئے گر چہ دیندار حضرات( اللہ تعالٰی ان کے فیوض وبرکات ہمیشہ پھیلائے) نے اس کی تحقیق کے بعد اس کی تصحیح فرمائی کیونکہ یہ دونوں اس کے عبارت کو غلط کہہ کر اس پر دستخط کو ناجائز سمجھے پس کیا اس واقعہ میں وہ لوگ عالی دماغ اور تکبر کی طرف منسوب ہوں گے؟ اور جو لوگ علودماغ اور تکبر کی بناء پر صحیح اور جائز کو ناجائز اورحلال کو حرام جانیں کافر قرار پائیں گے یا کبیرہ گناہ کے مرتکب؟ بیان فرما کر اجر وثواب کے مستحق ہوں۔ (ت)
الجواب : دریں سوال کمال اجمال بلکہ اہمال بکار بردہ شد می یا لیست نقل آن فتوٰی فرستند تادیدہ شود کہ آیا فی الواقع غلط است وزید بخطائے اوبے پردہ وباز عمر ونیز آگاہ ومتنبہ شدہ تصحیح خود ازوے جدا کردہ دریں صورت ہر دو ہر صواب باشند یا حقیقۃ صحیح ست وآنگاہ دیدنی ست کہ مسئلہ ازاں باب ست کہ خطا وانگاہ دیدنی ست کہ مسئلہ ازاں باب ست کہ خطا در فہم اوباینان عارض شود و دریں صورت درآنچہ کردند معذورباشند یاآنچناں نیست کہ بالقصد مکابرہ حق کردہ اند انگاہ لاجرم آثم وبزہ کارشوند فاما کفر نبود مگرآنکہ مسئلہ از ضروریات دین باشد کہ انکار بلکہ شک دراں کفر است ۔ والعیاذباللہ تعالٰی واللہ تعالٰی اعلم۔
اس سوال میں مکمل اجمال بلکہ ناقص چھوڑ دینے سے کام لیا گیا ہے۔ (یعنی سوال ہی ادھورا ہے) مناسب تویہ تھا کہ اس فتوٰی کی نقل ہمراہ سوال بھیجی جاتی تاکہ یہ دیکھا جاتا کہ آیاواقعی وہ غلط ہے اور زید اس کی غلطی کی تہہ تک پہنچا اور عمرو بھی اور وہ اس سے آگاہ اور ہوشیار ہوگئے اس لئے اپنی تصحیح (ضمانت صحت) اس سے الگ کرلی ۔ پس اس صورت میں دونوں راہ صواب پر ہیں یا درحقیقت وہ صحیح ہے، پھر یہ دیکھنا ہے کہ مسئلہ اس باب سے ہے کہ اس کے سمجھنے میں ان کو غلطی لاحق ہوگئی اس صورت میں وہ معذور متصور ہوں گے پھر یہ دیکھنا ہےکہ کیا انھوں نے دانستہ حق کا مقابلہ کیا، اگر ایسا ہے تو اس صورت میں وہ ضرور گناہ کے مرتکب ہوئے لیکن کفر پھر بھی نہیں ہوگا الایہ کہ مسئلہ ضروریات دین سے ہو(اور اس کا صراحۃ انکار ہو تو پھر کفر لازم آئے گا۔ مترجم) کہ اس کا انکار یا اس میں شک کیا جائے تو کفر ہے، اللہ تعالٰی کی پناہ۔ اور اللہ سب سے بڑا عالم ہے۔(ت)
مسئلہ ۱۶: ازیں شہر مرسلہ منشی احمد حسین خرسند نقشہ نویس فیض آباد دفتراسسٹنٹ ریلوے
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علی رسول الکریم۔
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین ان مسلمانوں کے حق میں جو آریہ سما جوں میں جاکر کاپی نویسی کرتے ہیں یا پریس میں ہیں یا ان کے اخبار اور مذہبی پرچے روانہ یا تقسیم کرتے ہیں حالانکہ ان پرچوں میں قرآن کریم اور رسول رحیم پر کھلے کھلے اعتراض والزام ہوتے ہیں رسول مقبول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو نعوذ باللہ منہا اور علمائے متقدمین ومتاخرین کو کھلی کھلی گالیاں دے جاتے ہیں جس کے شاہد سماجی کتب ترک اسلام ، تہذیب الاسلام، آریہ مسافر جالندھر ، آریہ مسافر میگزین، مسافر بہرائچ، آریہ پتر بریلی، ستیارتھ پرکاش موجود ہیں، نمونے کے طور پر چن الفاظ نقل ذیل ہیں: ستیا، پرکاش، مسافر، بہرائچ، آیا ان مسلمانوں سے جو سماجوں میں ملازم ہیں میل جول رکا جائے اور مسلمان سمجھے جائیں، ایسے مسلمان جو مخالفین اسلام ودشمنان خدا ورسول کی اعانت کرنے والے ہیں ان کے جنازے کی نماز پڑھنا درست ہے اور ان کے ساتھ شراکت ونکاح جائز ہے یانہیں؟ مفصل بیان فرمائے، اللہ اس کا اجرعظیم عطا فرمائے۔
الجواب
اللہ عزوجل اپنے غضب سے پناہ دے۔ الحمدللہ فقیر ے وہ ناپاک ملعون کلمات نہ دیکھے، جب سوال کی اس سطر پر آیا جس سے معلوم ہوا کہ آگے کلمات لعینہ ملعونہ منقول ہوں گے ان پر نگاہ نہ کی، نیچے کی سطریں جن میں سوال ہے باحتیاط دیکھیں، ایک ہی لفظ اوپر سائل نے نقل کیا اور نادانستگی میں نظر پڑا وہی مسلمان کے دل پرزخم کو کافی ہے اب یہ کہ جواب لکھ رہاہوں کاغذ تہہ کرلیا ہے کہ اللہ تعالٰی ملعونات کو نہ دکھائے نہ سنائے جونام کے مسلمان کاپی نویسی کرتے ہیں اورعزوجل وقرآن عظیم ومحمدر سول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی شان میں ایسے ملعون کلمات ایسی گالیاں اپنے قلم سے لکھتے چاپتے ہیں یا کسی طرح اس میں اعانت کرتے ہیں ان سب پر اللہ تعالٰی کی لعنت اترتی ہے وہ اللہ ورسول کے مخالف اور اپنے ایمان کے دشمن ہیں قہر الٰہی کی آگ ان کے لئے بھڑکتی ہے صبح کرتے ہیں تو اللہ کے غضب میں اور شام کرتے ہیں تو اللہ کے غضب میں، اور خاص جس وقت ان ملعون کلموں کو آنکھ سے دیکھتے قلم سے لکھتے۔ مقابلہ وغیرہ میں زبان سے نکالتے یا پتھر پر اس کا ہلکا بھرا بناتے ہیں ہر کلمے پر اللہ عزجل کی سخت لعنتیں، ملائکہ اللہ کی شدید لعنتیں ان پر اترتی ہیں یہ میں نہیں کہتاہوں قرآن فرماتاہے:
بیشک وہ لوگ جو ایذا دیتے ہیں اللہ اور اس کے رسول کو ان پر اللہ کی لعنت ہے دنیا واخرت میں اللہ نے ان کے تیار کر رکھا ہے ذلت کا عذاب ۔
(۱؎ا لقرآن الکریم ۳۳/ ۵۷)
ان ناپاکوں کا یہ گمان کہ گناہ تو اس خبیث کا ہے جو مصنف ہے ہم تو نقل کردینے یا چھاپ دینے والے ہیں سخت ملعون ومردود وگمان ہے۔ زید کسی دنیا کی عزت دار کو گالیاں لکھ کر چھپوانا چاہے تو ہر گز نہ چھاپیں گے جانتے ہیں کہ مصنف کے ساتھ چھاپنے والی بھی گرفتار ہوں گے مگر اللہ واحد قہار کے قہر وعذاب و لعنت وعتاب کی کیا پرواہ یقینا یقینا کاپی لکھنے ولا پتھر بنانے والا ، چھاپنے والا ، کَل چلانے والا غرض جان کرکے کہ اس میں یہ کچھ ہے کسی طرح اس میں اعانت کرنے والا سب ایک ہی باندھ کر جہنم کی بھڑکتی آگ میں ڈالے جانے کے مستحق ہیں۔ اللہ عزوجل فرماتاہے:
والا تعاونوا علی الاثم والعدوان ۱؎۔
گناہ اور حد سے بڑھنے میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔
(۱؎ القرآن الکریم ۵ /۲)
حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
من مشی مع ظالم لیعینہ وھو یعلم انہ ظالم فقد خرج من الاسلام، رواہ الطبرانی ۲؎ فی الکبیر والضیاء فی صحیح المختارۃ عن اوس بن شرحبیل رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔
جو دانستہ کسی ظالم کے ساتھ اس کی مدد دینے چلا وہ یقینا اسلام سے نکل گیا (امام طبرانی نے معجم کبیر میں اور ضیاء نے صحیح مختارہ میں حضرت اوس بن شرحبیل رضی اللہ تعالٰی عنہ سے اسے روایت کیاہے۔ ت)
یہ اس ظالم کے لئے ہے جو گرہ بھر زمین یا چار پیسے کسی کے دبالے یا زید وعمرو کسی کو ناحق سست کہے اس کے مددگار کو ارشاد ہوا کہ اسلام سے نکل جاتاہے نہ کہ یہ اشد ظالمین جو اللہ ورسول کو گالیاں دیتے ہیں ان باتوں میں ان کا مددگار کیونکر مسلمان رہ سکتاہے۔
من آفات الید کتابۃ مایحرم تلفظہ من شعر المجون والفواحش والقذف والقصص التی فیہا نحو ذٰلک ولاھاجی نثر اونظما والمصنافات المشتملۃ علی مذاھب الفرق الضالۃ فان القلم احدی اللسانین فکانت الکتابۃ فی معنی الکلام بل ابلغ منہ لبقائہا علی صفحات اللیالی والایام والکلمۃ تذھب فی الہواء والاتبقی ۳؎ اھ مختصرا۔
ہاتھ کی آفتوں سے ایک ہے کہ وہ کچھ لکھا جائے جس کا بولنا حرام ہے یعنی جیسے مذمت کے اشعار، فحش باتیں۔ گالی گلوچ اور وہ واقعات جو اسی قسم کی باتوں پو مشتمل ہوں اور ہجوں کرنا خواہ نثر میں ہو یا نظم میں اور گمراہ فرقوں کے مذاہب پر مشتمل تصنیفات اس لئے کہ بولنے والی زبان کی طرح قلم بھی ایک زبان ہے (جس کے ذریعے اظہار خیال ہوتاہے) لہذا لکھنا بولنے ہی کی طرح ہے بلکہ بولنے سے بھی زیادہ بلیغ ہے جبکہ (زبان سے ادا ہونے والے) کلمات ہوا میں (منتشر ہوکر) گم ہوجاتے ہیں اور باقی نہیں رہتے مختصرا۔
(۳؎ الحدیقۃ الندیۃ شرح الطریقہ المحمدیہ الصنف الخامس مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد ۲ /۴۔ ۴۴۳)
ایسے اشد فاسق فاجر اگر توبہ نہ کریں تو ان سے میل جول ناجائز ہے ان کے پاس دوستانہ اٹھنا بیٹھنا حرام ہے۔ پھر مناکحت توبڑی چیز ہے۔ اللہ تعالٰی فرماتاہے:
واما ینسینک الشیطن فلا تقعد بعدالذکری مع القوم الظلمین ۱؎۔
اگر تجھے شیطان (غلط قسم کی مجلس میں بیٹھنے کی ممانعت کا حکم) بھلادے تو یاد آجانے کے بعد ظالموں کے پاس مت بیٹھو۔ (ت)
(۱؎ القرآن الکریم ۶ /۶۸)
اور جو ان میں اس ناپاک کبیرہ کو حلال بتائے اس پر اصرار واستکبارو مقابلہ شرع سے پیش آئے وہ یقینا کاف رہے اس کی عورت اس کے نکاح سے باہر ہے اس کے جنازے کی نماز حرام۔ اسے مسلمانوں کی طرح غسل دینا ، کفن دینا،دفن کرنا، اس کے دفن میں شریک ہونا ، اس کی قبر پر جانا سب پر حرام ہے۔ اللہ تعالٰی فرماتاہے :
ولاتصل علی احد مہنم مات ابدا ولاتقم علی قبرہ ۲؎۔ واﷲ سبحانہ وتعالٰی اعلم۔
جب ان کافروں میں سے کوئی مرجائے تو اس پر نماز مت پڑھو اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہو۔ واللہ سبحانہ وتعالٰی اعلم۔(ت)
(۲؎القرآن الکریم ۹ /۸۲)
فقیر کے یہاں فتاوی مجموعہ پر نقل ہوتے ہیں، میں نے نقل فرمانے والے صاحب سے کہہ دیا ہے کہ ان ملعون الفاظ کی نقل نہ کریں، سنا گیا ہے کہ سائل کا قصہ اس فتوے کے چھاپنے کاہے میں درخواست کرتاہوں کہ ان ملعونات کو نکال ڈالیں ان کی جگہ دو اایک سطریں خالی صرف نقطے لگا کر چھوڑ دیں کہ مسلمانوں کی آنکھیں ان لعنتی ناپاکوں کے دیکھنے سے باذنہ تعالٰی محفوظ رہیں،
فاﷲ خیر حافظا وھو ارحم الراحمین
(اللہ تعالٰی سب سے بہتر نگہبان ہے اور وہ سب سے بڑا رحم کرنے والا ہے۔ ت)