مسئلہ ۱۴: از تحصیل چورو ریاست بیکانیر مرسلہ والد مولوی امتیاز احمد صاحب ۱۴ شعبان ۱۳۲۰ھ کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ جو بکرے نذر ونیاز یعنی تقرب وعبادت کسی پیر صاحب کے پرورش ہوتے ہیں اور قندوریاں بنائی جاتی ہیں اور پنڈا بھرتے ہیں جیسے ہنوز بھرتے ہیں اور ڈوری اور بدھی اور چوٹی اور جھرو لااور تاتے گلے میں ڈالتے ہیں، یہ امور اخص شرع ہیں یانہیں اور ان امور کا کرنے والا مشرک ہوتاہے یا نہیں؟ ہمارے شہر چوروریاست بیکانیر میں اندر ان مسائل کے بحث ہورہی ہے۔ بینوا توجروا (بیان فرماؤ تاکہ اجر وثواب پاؤ۔ت)
الجواب: اللھم احفظنا
( اے اللہ! ہماری حفاظت فرما۔ ت) آدمی حقیقۃ کسی بات سے مشرک نہیں ہوتا جب تک غیر خدا کو معبود یا مستقل بالذات وواجب الوجود نہ جانے۔ بعض نصوص میں بعض افعال پر اطلاقِ شرک تشبیہا یا تغلیظا یا بارادہ و مقارنت باعتقاد منافی توحید وامثال ذلک من التاویلات المعروفۃ بین العلماء وارد ہوا جیسے کفر نہیں مگر انکار ضروریات دین اگر چہ ایسی ہی تاویلات سے بعض اعمال پر اطلاق کفر آیا ہے یہاں ہر گز علی الاطلاق شرک وکفر مصطلح علم عقائد کہ آدمی کو اسلام سے خارج کردیں اور بے توبہ مغفور نہ ہوں زنہار مراد نہیں کہ یہ عقیدہ اجماعیہ اہلسنت کے خلاف ہے ہر شرک کفر ہے اور کفر مزیل اسلام، اور اہلسنت کا اجماع ہے کہ مومن کسی کبیرہ کے سبب اسلام سے خارج نہیں ہوتا ایسی جگہ نصوص کو علی اطلاقہا کفر وشرک مصطلح پر حمل کرنا اشقیائے خوارج کا مذہب مطرود ہے اور شرک اصغر ٹھہرا کر پھر قطعا مثل شرک حقیقی غیر مغفورماننا وہابیہ نجدیہ کا خبط مردود،
واﷲ المستعان علی کل اعنود
(اللہ تعالٰی ہی سے مدد مانگی جاتی ہے ہر عناد کرنے والےاے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیری بارگاہ تیری وحدانیت و بزرگی بیان کر کے ، حمد وثناء کے گیت الاپ کرکے ، تکبیر وتسبیح کے ساتھ ، تقدیس ونور ، رحمت وشفقت ، علم وحکم ، بلندی ووقار ، فضل وجلال ، احسان وکمال ، کبریائی و سلطان ، قدرت وتدبیر ، عطاء ومنت ، جمال ورعنائی ، برہان وغفران ، نبی وولی اور ان کی پاک عترت اور آقا دوجہاں اور سارے انبیاء و مرسلین پر درود وسلام کا واسطہ دے کر عرض کناں ہوں کہ تو مجھے اپنے فضل و کرم سے اپنی عطاء کے ثمرات سے محروم نہ کرنا کہ بیشک تیر ی عطاؤں کی بے بہا بارش کے سلسلہ کوبخل کے اسباب روک نہیں سکتے اور تیر ی نعمتوں کے شکر میں کمی تیر ے جود ونوال کو کم نہیں کرسکتی ، اور نہ ہی تیرے خزانے اور تیری لا محدود بخششیں ختم ہوسکتی ہیں اور نہ ہی تیرے پیہم بڑے خوبصوت عطیات تیرے عظیم جود وسخا کو متاثر کرسکتے ہیں،اور نہ ہی تجھےمفلسی کااندیشہ ہےکہ تجھے تنگی دامن کی پریشانی ہواور نہ ہی تجھے عدم کا خوف ہے کہ جس سے تیرے فضل وکرم کے بحر بے کنار کی سخاوت میں کمی واقع ہوسکےکہ بیشک ہر چیز تیری قدرت کے زیر سایہ ہے اورہماری عرض گزاریو ں کو قبول کرنا تیری شیان شان ہے۔
۔( اپنی ضرورت کے لیے سوال کریں)
اے جبرائیل کے رب ، اے میکائیل کے رب ، اے اسرافیل کے رب ، اے عزرائیل کے ، اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم کے رب میری مدد کیجیے۔
اے اللہ مجھے خشوع و خضوع ،تضرع وزاری سے لبریز دل ، تیرے خوف وشوق میں رونے والی آنکھیں ، صحت وسلامتی اورصبر سے معمور بدن، سچا حق کا خوگر یقین ، خالص توبہ ،حمد وشکر سے معمور زبان ، صحیح ایمان ، وسیع پاک حلال رزق ، نفع بخش علم ، نیک اولاد ، ہم نوا ساتھی، خیر کے کاموں مشغول و خالص عبادت میں محو دازیٔ عمر ، عمدہ اخلاق ، اچھے مقبول اعمال ،مقبول توبہ ،بلند درجات اور فرمانبردار مومنہ عورت عطافرما
اے اللہ! تیرے ذکر میں ہر دم محو رہوں ، تیری پردہ پوشی کوخو ہرآن میرے عیبوں کو چھپائے رکھے، ہمہ وقت تیری رحمت کی آغوش میں رہوں،اپنی دائمی قرب اور جوار رحمت میں جگہ عطافرما، اپنے جلال وغضب سے امان دیدے ، اپنی رحمت وشفقت میں پناہ عطافرمادے، میرے لیے میرے گھروالوں اور تمام بھائیوں کے لیے ہر قسم کے خوف و ڈر کی حالت میں اوراجنبیت وحشت وخشیت میں مونس وغمخوار ہوجا ، بچالے مجھے ہر طرح کی ہلاکت سے، نجات دے دے مجھے ہر قسم کی ناگہانی مصبیت سے ، آفت وبلا سے ، غصہ و تکلیف زلزلہ شدت اہانت ذلت ، غلبہ ، کمی بھوک ، پیاس ، فقر، فاقہ ، تندگی ، آزمائش ، وبا ،ڈوبنے ، جلنے ،بجلی ،چوری ، گرمی ،سردی ، اچکنے ، سرکشی ، گمراہی ، بے راہ روی ، زہریلے جانور ، ،لغزش ، غلطیوں ، حزن ، غم ، صورت کے بگڑنے ، دہنسنے ، دھتکاردیئے جانے ، محتاجی ، علت، بیماری ، جنون ،جذام برص ، فالج ، بواسیر، قطرات ، کمی ،ہلاکت ، اور دارین میںذلت و قباحت سےبچالے۔
اے اللہ مجھے بلند فرما، پست نہ کرنا، مجھے سے بلائیں دور فرما ، تومجھے اپنے سے دور نہ کر، مجھے عطافرما، محروم نہ کر،، نعمتوں میں اضافہ فرما ،کمی نہ کرنا،مجھ پر رحم فرما مجھے عذاب نہ دینا،حزن وملال سے نجات دے ،غم کو دور کردے ، میرے دشمن کو ہلاک کر،مجھے فتح ونصرت عطافرما ، ناکام نہ کرنا ، عزت واکرم دے ذلیل نہ کر ،، ، میری پردہ پوشی فرما م مجھے رسوا نہ کرنا ، ،مجھے غلبہ دے مغلوب نہ کر ،میری حفاظت فرما مجھے ضائع مت کربیشک تو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے اے سب سے زیادہ قدرت رکھنے والے اے جلد حساب لینے والے ۔ رحمت وسلامتی ہو اللہ کی ہمارے آقا محمد مصطفی پر اوران کی تمام آل پر اے ذالجلال و الاکرم(اے عظمت وبزرگی والے رب)(اس دعا کو تین مرتبہ پڑھیں)
اے اللہ تونے ہمیں دعا کاحکم دیا اور دعاؤںکو قبولیت کا ہم سے وعدہ بھی کیا چنانچہ ہم نے تیرے حکم کے مطابق دعاکی پس تو اپنے وعدہ کے مطابق ہماری دعاؤں کو قبولیت کا شرف عطافرما اے عظمت وبزرگی والے رب تو اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا ۔
اے اللہ جو بھلائی تونےمیرے مقدر میں لکھی تھی اس کی ابتداء میں نے تیری توفیق اور عطا کردہ آسانی سے کی ، پس تو اس کارخیر کو عمدہ ودرست طریقے سے پورا کردے کہ بیشک تو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے اورہماری التجاؤں پر نظر کرم کرنا تجھے ہی زیبا ہے تو کیا ہی اچھا مولی اور کیا ہی اچھا مددگار ہے اور جو برائی میرے مقدر میں تھی اورتو مجھےاس سے ڈراتا بھی تھا تو پھرے دےاس برائی کو مجھ سے اے زندہ اوردوسروں کو زندگی عطاکرنے والی ذات( حی و قیوم) ،اے وہ ذات کہ جس کےحکم سے زمین وآسمان قائم ہے، اے وہ ذات کہ روکے ہوئے ہے آسمان کو کہ زمین پر نہ گر پڑے مگر اس کے حکم سے ، اے وہ ذات جس کا کام تو یہی ہے کہ جب کسی چیز کو چاہے تو اس سے فرمائے ہو جا وہ فوراً ہوجاتی ہے ،تو پاکی ہے اسے جس کے ہاتھ ہر چیز کا قبضہ ہے اور اسی کی طرف پھیرے جاؤ گے، پاکی ہے اللہ کی جو قادر ہے قاہر ، قوی ، ہے عزیز ہے،جبار ہے، حی، قیوم ہے ،جس کو نہ کسی سہارےاور مدد گار کی ضرورت ہے تیری رحمت کے طفیل میں تیری بارگاہ میں فریاد کرتا ہوں (دعاکریں)
اے اللہ یہ میری دعا ہے اور تجھے سے ہی قبولیت کی امید ہے ، یہ میری طرف سے کوشش ہے اور تجھ پر ہی بھروسہ ہے نہ ہی ہے گناہوں سے بچنے کی طاقت اورنیکی کرنے کی قوت مگر اللہ عظیم برتر کی عطا سے ، سب خوبیاں ہیں اللہ کے لیے جو او ل بھی ہے آخر بھی ظاہر بھی ہے پوشیدہ بھی ۔قیامت تک جاوداں و دائمی بے حد بے شماررحمت وسلامتی ہو اللہ کی ہمارے آقا محمد مصطفی پر اوران کے تمام طیب و پاکیزہ آل و اصحاب پر ا ور اللّٰہ ہم کو بس ہے اور کیا اچھا کار ساز ہےاور سب خوبیاں اللّٰہ کو جو سارے جہان کا رب ہے ،جو کچھ علمی الٰہی میں اتنی تعداد اورہر لمحے اور ہر سانس کے ساتھ رحمت وسلامتی ہو اللہ کی ہمارے آقا محمد مصطفی اوران کی آل پاک پر۔پاکی ہے تمہارے رب کو عزّت والے رب کو ان کی باتوں سےاور سلام ہے پیغمبروں پراور سب خوبیاں اللّٰہ کو جو سارے جہان کا رب ہے ۔
کے مقابلے میں۔ ت)
اشراک یعنی شرک اللہ تعالٰی کی الوہیت میں کسی کو شریک سمجھنا ہے یعنی وجوب وجود میں شریک ماننا جیسے مجوس یا عبادت کے اسحقاق میں شریک بنانا جیسے بتوں کے پجاری۔ (ت)
(۱؎ شرح العقائد النسفیہ بحث واللہ تعالٰی خالق لافعال العباد دارالاشاعۃ العربیۃ قندھار افغانستان ص ۶۱)
متون عقائد میں ہے :
الکبیرۃ لاتخریج العبد المومن من الایمان ولاتدخلہ فی الکفر ۱؎۔
کوئی گناہ کبیرہ بندہ مومن کو ایمان سے نکال کر کفر میں داخل نہیں کرتا۔ (ت)
(۱؎ متن شرح العقائد بحث الکبیرۃ دارالاشاعۃ العربیۃ قندھار افغانستان ص۸۳۔ ۸۲)
(مجموع المتون فی مختلف الفنون فی التوحید الشؤن الدینیہ وولۃ قطر ص۶۱۵)
(اللہ تعالٰی ہمیں ان کی برکتوں سے مستفید فرمائے۔ ت) کرتے ہیں ہر گز قصد عبادت نہیں رکھتے نہ انھیں معبود والہ و مستحق عبادت جانتے ہیں، نہ یہ نذر شرعی ہے بلکہ اصطلاح عرفی ہے کہ سلاطین وعظماء کے حضور جو چیز پیش کی جائے اسے نذور نیاز کہتے ہیں اور نیاز تو اس سے بھی عام تر ہے۔ عام محاورہ ہے کہ مجھے فلاں صاحب سے نیاز نہیں، میں تو آپ کا نیاز مند ہوں،فقیر نے اپنے فتاوی میں ان اطلاقت کی بحث شافی لکھی ہے اور خود بھی کبائر مانعین سے ان کا اطلاق ثابت کیا۔
شاہ عبدالعزیز صاحب دہلوی تحفہ اثناء عشریہ میں فرماتے ہیں :
حضرت امیر وذریہ طاہرہ اوراتمام امت برمثال پیراں ومرشداں می پیرستند وامور تکوینیہ رابایشاں وابستہ م ی وانند وفاتحہ ودرود وصدقات ونذر بنام ایشاں رائج ومعمول گردیدہ چنانچہ باجمیع اولیاء ہمیں معاملہ است ۲؎۔
جناب امیر اور ان کی پاکیزہ اولاد کو تمام امت کے لوگ عقیدت ومحبت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اورتکوینی معاملات کو ان سے وابستہ خیال کرتے ہیں اسی لئے فاتحہ درود وصدقات خیرات اور نذر ونیاذ کی کارگزاریاں لوگوں میں ان کے نام کے ساتھ رائج اور معمول بن گئی ہیں جیسا کہ دیگراولیاء کرام کے معاملے میں یہی صورت حال ہے۔ (ت)
محبوبان خدا کی طرف تقرب مطلقا ممنوع نہیں جب تک بروجہ عبادت نہ ہو، تقرب نزدیکی چاہنے رضامندی تلاش کرنے کو کہتے ہیں اور محبوبات بارگاہ عزت مقربان حضرت صمدیت علیہم الصلٰوۃ والسلام کی نزدیکی ورضا ہر مسلمان کو مطلوب ہے اور وہ افعال کہ اس کے اسباب ہوں بجالانا ضرور محبوب ، کہ ان کا قرب بعینہٖ قرب خدا اور ان کی رضا اللہ کی رضا ہے۔
قال اﷲ تعالٰی واﷲ ورسولہ احق ان یرضوہ ان کانوا مومنین ۳؎۔
اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا: ایمان والوں کے لئے اللہ تعالٰی اور اس کا رسول زیادہ حق رکھتے ہیں کہ انھیں راضی کیا جائے۔ (ت)
(القرآن الکریم ۶ /۶۲)
حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیںـ :
ان الصدقۃ یبتغی بہا وجہ اﷲ تعالٰی والہدیۃ یبتغی بہا وجہ الرسول وقضاء الحاجۃ ۱؎ رواہ الطبرانی فی الکبیر عن عبدالرحمٰن بن علقۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔
صدقے سے اللہ تعالٰی عزوجل کی رضا مطلوب ہوتی ہے اور ہدیہ سے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی رضا اور اپنی حاجت روائی منظور ہوتی ہے (امام طبرانی نے اس کو معجم الکبیر میں حضرت عبدالرحمن بن علقمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حوالہ سے روایت کیا ہے۔ ت)
(۱؎ کنز العمال بحوالہ طب عن عبدالرحمن بن علقمہ حدیث ۱۵۹۹۷ مؤسسۃ الرسالۃ بیروت ۶ /۳۴۸)
درمختار میں ہے:
فی المنیۃ انا لانسیئ الظن بالمسلم انہ یتقرب الی الادمی بہذا النحر ونحوہ فی شرح الوہبانیۃ عن الذخیرۃ ۲؎۔
منیہ میں ہے کہ ہم کسی مسلمان کے بارے میں یہ بدگمانی نہیں کرتے کہ وہ اس قربانی اور اس جیسے کام سے کسی آدمی کا تقرب چاہتاہے شرح وہبانیہ میں ذخیرہ کے حوالے سے اسی طرح مذکورہے۔ (ت)
(۲؎ درمختار کتاب الذبائح مطبع مجتبائی دہلی ۲ /۲۳۰)
ردالمحتارمیں ہے:
قولہ انہ یتقرب الی الادمی ای علی وجہ العبادۃ لانہ المکفر وھذا بعید من حال المسلم ۳؎۔
مصنف درمختار کا قول ہے کہ کسی آدمی کی تقرب چاہتاہو یعنی اس تقرب سے عبادت مراد ہو تو یہ کفر ہے اور یہ چیز مسلمان کے حال سے بعید ہے۔ (ت)
(۳؎ ردالمحتار کتا ب الذبائح داراحیاء التراث العربی بیروت ۵ /۱۹۷)
ہاں جو شخص عبادت غیر کا قصد کرے ضرور مشرک ہے۔ مگریہ قصد مسلمان کلمہ گو سے بے اس کے صریح اقرار کے کہ وہ غیر خد ا کو معبود جانتاہے محض اپنے ظنوں سے ثابت نہ ہوگا، یہ سب سے بدتر بدگمانی ہے اور بدگمانی سب سے سخت تر جھوٹ اور اشد حرام۔
قال اﷲ تعالٰی یایھا الذین اٰمنوا اجتنبوا کثیرا من الظن ان بعض الظن اثم ۱؎۔
اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا: اے ایمان والوں! بہت سے گمانوں سے پرہیز کرو کیونکہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔ (ت)
لوگوں سے گمان بد کرنے سے پرہیز کرو کیونکہ بدگمانی سب سے بڑا جھوٹ ہے۔ الحدیث (ائمہ کرام مثلا امام مالک، بخاری، مسلم،ابوداؤد، امام ترمذی نے بحوالہ حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ تعالٰی عنہ اسے روات کیا ہے۔ ت)
(۲؎ صحیح مسلم کتاب البروالصلۃ باب تحریم الظن قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۳۱۶)
(جامع الترمذی ابواب البر باب ماجاء فی سوء الظن امین کمپنی دہلی ۲ /۲۰)
(صحیح البخاری کتاب الوصایا قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۳۸۴)
(موطاامام مالک ماجاء فی المہاجرۃ کتب خانہ کراچی ص۷۰۶)
مرد کے سر پر چوٹی رکھنا ویسے ہی حرام ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ سلم فرماتے ہیں :
لعن اﷲ المتشابہات من النساء بالرجال والمتشبہین من الرجال بالنساء رواہ الائمۃ احمد والبخاری ۳؎ وابوداؤد والترمذی وابن ماجۃ عن ابن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنہما وفیہ احادیث کثیرہ بالغۃ حد التواتر۔
اللہ تعالٰی نے ان عورتوں پر لعنت فرمائی ہے جو مردوں سے مشابہت اختیار کریں، اور ان مردوں پر بھی لعنت فرمائی ہے جو عورتوں کی مشابہت اختیار کریں۔ ائمہ کرام مثلا امام احمد، بخاری ، ابوداؤد، ترمذی، اور ابن ماجہ نے حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما کے حوالہ سے روایت کیا ہے۔ اس بارے میں بہت سی احادیث مروی ہیں جو تواتر کی حد تک پہنچی ہوئی ہیں۔ (ت)
(۳؎ مسند امام احمد بن حنبل مرویات ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ دارالفکر بیروت ۱ /۳۳۹)
(سنن ابن ماجہ کتاب النکاح باب فی المخنثین ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۱۳۸)
(صحیح البخاری کتا ب اللباس باب المتشبہین قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۴۷۴)
(سنن ابی داؤد کتا ب اللباس آفتاب عالم پریس لاہور ۲ /۲۱۰)
(جامع الترمذی ابواب الادب امین کمپنی دہلی ۲ /۱۰۲)
خصوصا کسی کے نام کی چوٹی کہ رسول کفار ہنود سے ہے یوہیں ڈوری بدھی کلاوہ بھی محض جہالت و بے اصل ہے۔ پنڈا بھرنا، قندوری بھرنا، تاتامیری زبان کے الفاظ نہیں، نہ مجھے ان کے معانی معلوم۔ یہ بھی اگر بدھی چوٹی وغیرہ کے مثل ہوں تو ان کا بھی وہی حکم ہے۔