فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۱(کتاب الحظر والاباحۃ ) |
مسئلہ ۱۰: از لکھنؤ محلہ رام گنج متصل حسین آباد مرسلہ اسد اللہ خاں کوبک غرہ شعباہ معظم ۱۳۱۵ھ چہ مے فرمایند علائے دین ومفتیان شرع متین دریں باب کہ شیرینی از دکان حلوائی ہندو خرید کردہ اگر فاتحہ خواند وثواب آں بروح رسول مقبول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم یا دیگر بزرگان دین رساند جائز ست یا نہ، وجمہور ایں طریق فاتحہ راجواز گفتہ اندیانہ، واحتراز از یشاں بایآت قرآنی واحادیث نبوی جائز ست یانہ، وایشاں کافراند یا مشرک، وبصورت دیگر اگر کسے ایشاں را کافر ومشرک گوید دربارہ اوچہ حکم است بینو توجروا
علمائے دین اور مفتیان شرع متین اس بارے میں کیا فرماتے ہیں کہ ہندو حلوائی کی دکان سے مٹھائی خرید کر فاتحہ پڑھی جائے اور اس کا ثواب رسول مقبول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی روح مبارک یا دیگر بزرگان دین کی ارواح کو ایصال کیا جائے تو کیایہ جائز ہے؟ جمہور اہل علم اس کے جواز کے قائل ہیں یا نہیں؟ قرآن وحدیث کی رو سے یہ لوگ کافر ومشرک قرار پاتے ہیں یا نہیں؟ اور ان سے پرہیز کرنا چاہئے یانہیں؟ اگر کوئی شخص انھیں کافر و مشرک نہ خیال کرے تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ بیان کرو تاکہ اجر پاؤ۔ (ت)
الجواب : ہندو ان قطعا کافران ومشرکانند ہر کہ ایشاں را کافر ومشرک نداند خود کافر ست آرے درویشاں طائفہ تازہ بر آمدہ کہ خود را آریہ خوانند وبزبان دعوٰی توحید کنند ودم تحریم بت پرستی زنند فاما برادری والفت ویک جہتی ایشاں ہر چہ ہست یاہمیں بت پرستان ست کہ سنگ وآب ودرخت وپیکر ہائے تراشیدہ رابخدائے پرستند ایناں راہم مذہب وبرادری دینی خواشاں دانند وازنام مسلمانان درآب وآتش مانند
قاتلہم اﷲ انی یؤفکون ۱؎ ۔
ہندو بلاشبہ قطعی طور پر کافر اور مشرک ہیں لہذا جو انھیں کافر ومشرک نہ جانے وہ خود کافر ہوجاتاہے ان میں ایک نیا فرقہ نکلا ہے جو آریہ کہلاتاہے وہ زبانی طور پر توحید کادعوٰی کرتے ہیں اور بت پرستی کے حرام ہونے کا اقرار بھی کرتے ہیں لیکن برادری الفت ومحبت اور اتحاد میں ان کا رویہ بت پرستوں سے مختلف نہیں، ان بت پرستوں کے ساتھ ان کی الفت ومحبت ان کا اتحاد قائم ہے جو پتھر، پانی، درختوں اور تراشیدہ مورتیوں کو خدا سمجھتے ہوئے پوجتے ہیں اور یہ انھیں اپنا ہم مذہب اور دینی بھائی خیال کرتے ہیں (اور مسلمانوں کے نام سے پانی آگ بن جاتےہیں یعنی ان کے نام سے بھی جلتے ہیں اللہ تعالٰی ان کا ستیا ناس کرے کہا ں اوندھے پھرے جاتے ہیں۔
(۱؎ القرآن الکریم ۹ /۳۰)
باز ایں خبیثاں اگر چہ بظاہر از پرستش غیر محترز مانند مادہ وروح ہر دو راہمچو خدا قدیم وغیر مخلوق دانند پس شرک اگر درعبارت نشد در وجوب وجود شد بہر وجہ سہ الہ برایشاں لازم ست واو قطعا بمشرکیت پس آں ادعائے توحید ہمہ پادر ہواست واگر فر کنیم غایت آنکہ ہمیں مشرک نباشد اما ادر کفر ایشاں چہ جائے سخن ہر کہ بامحمد رسول اﷲ صلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم نگردہ کافر ست دہر کہ را کافر نداند خود باوہمسر ست قال اﷲ تعالٰی ومن یبتغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ وھو فی الاخرۃ من الخسرین ۱؎ اگر دوستی ومولات با ہرکافر کہ باشد حرام اشد وکبیرہ اعظم ست واگربربنائے میل دینی باشد خود کفر قال اﷲ تعالٰی ومن یتولہم منکم فانہ منہم ۲؎ وصحبت ومخالطت بے دوستی وموانست اگر درکار دنیوی بربنائے ضرورت بقدر ضرورت بے تعظیم وتکریم وبے مداہنت درکار دین باشد رخصت ست ورنہ اینہم حرام مگر بحالت اکراہ شرعی قال اﷲ تعالٰی
فلا تقعد بعد الذکر مع القوم الظلمین ۳؎ o
وقال تعالٰی
الامن اکرہ وقبلہ مطمئن بالایمان ۴؎ ۔
پھریہ خبیث اگرچہ غیر کی عبادت وبندگی سے پرہیز کرتے ہیں مگر مادہ اور روح دونوں کہ اللہ تعالٰی کی طرح قدیم اور غیر مخلوق مانتے ہیں اور کہتے ہیں۔ پس اگرعبادت میں شرک نہ ہوا تو وجوب وجود میں شرک ہوگیا پس ہر وجہ سے ان پر تین خدا لازم ہوگئے لہذا وہ یقینا مشرک ہیں، ان کا دعوٰی توحید ہوا میں پاؤں رکھنے کے مترادف ہے۔ اگر ہم آخری درجہ پر فرض کرلیں کہ ہوہ مشرک نہیں تاہم ان کے کفر یعنی کافر ہونے میں بات کرنے کی کوئی گنجائش نہیں اس لئے کہ جو حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کے ساتھ نہ ہو وہ کافر ہے اور جو انھیں کافر نہ جانے وہ خود کفر میں ان کے ساتھ برابر ہے، چنانچہ اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا :جو کوئی اسلام کے علاوہ کوئی اور دین چاہے (اور اس کا طلب گار ہو) تو وہ اس سے ہر گز قبول نہ کیا جائےگا۔بلکہ وہ دار آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں ہوگا، لہذا ہر کافر سے دوستی اور ملاپ سخت منع حرام اور بہت بڑا گناہ ہے اور اگر دینی رجحان کی بناء پر ہو تو بلا شبہ کفر ہے۔ چنانچہ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے: جو کوئی تم میں سے ان (کافروں) سے دوستی رکھے گا تو بلا شبہ وہ انہی میں سے ہے۔ اور اگر مجلس اور میل جول بر بنائے ضرورت بقدر ضرورت بغیر دوستی اور انس ومحبت کے بلا تعظیم وتکریم اور بغیر دینی نقصان یا کمزوری کے ہو تو اس کی اجازت اور رخصت ہے۔ بصورت دیگر میل جول اور مجلس بھی حرام ہے۔ ہاں اگر کوئی فریق مخالف کے جبر واکراہ کے باعث مجبور ہوجائے تو وہ مستثنٰی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالٰی کاارشاد ہے کہ یاد آجانے کے بعد ظالموں کے پاس ہر گز مت بیٹھو نیز ارشاد فرمایا: ''کفر یہ بات زبان سے نکالنی کفر ہے مگر اس کہ کسی پر زبردستی کی جائے (یعنی اسے کفر کہنے پر مجبور کیا جائے۔ مترجم) تو وہ (اپنی جان بچانے کے لئے ۔مترجم) کلمہ کفر کہہ سکتا ہے بشرطیکہ اس کا دل (بدستور) ایمان پر قائم اور مطمئن ہو،
(۱؎ القرآن الکریم ۳ /۷۵) (۲؎ القرآن الکریم ۵/ ۵۱) (۳؎القرآن الکریم ۶/ ۶۸) (۴؎القرآن الکریم ۱۶ /۱۰۶)
و درشرینی ساختہ ایشاں تاآنکہ بالخصوص دروخلط نجاستے یا چیزے حرام معلوم بناشد فتوی جواز ست وتقوٰی احتراز کماا نص علیہ فی الاحتساب ودرفاتحہ از واحتر از نسب ست فان اﷲ طیب لایقبل الا الطیب ۵؎ وطیب بودن اشیائے ایشاں اگر چہ بحکم طاہر ست اما بیاطن مشکوک پس اسلم ہماں ست کہ حتی الامکان در ہمچوں امور نفیسہ گرد اونگر دند کما فصلنا ہ فی فتاوٰنا ورنہ خیر کہ اصل دراشیاء طہارت ست ویقین بہ شک زائل نشود والدین یسر ۱؎ قال محمد بہ ناخذ مالم نعرف شیئا حرام بعینہ ۲؎۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
رہی یہ بات کہ ان کے ہاتھوں کی بنی ہوئی مٹھائی کا استعمال تو جب تک خصوصیت سے اس میں کسی نجاست یا حرام کی ملاوٹ نہ ہو تو بنائے فتوٰی اس کا استعمال جائز ہے۔ مگر تقوٰی یہ ہے کہ اس سے بھی پرہیز کیا جائے جیسا کہ ''نصاب الاحتساب'' میں صراحۃ مذکور ہ۔ لہذ فاتحہ کے عمل کے لئے اس سے پرہیز زیادہ مناسب ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالٰی (بیحد) پاک ہے لہذا وہ پاکیزہ چیزوں کے علاوہ کوئی چیز قبول نہیں فرماتا۔ اور کافروں کی چیزیں اگر چہ ظاہری اور سرسری حکم میں پاک متصور ہوتی ہیں مگر درحقیقت مشتبہ اور مشکوک ہوتی ہیں لہذا وہ سلامتی اسی میں ہے کہ اس قسم کے نفیس کاموں کے سلسلے میں حتی الامکان کفارومشرکین کے نزدیک نہ جائیں جیسا کہ ہم نے اپنے فتوٰی میں اس کو تفصیل سے بیان کیاورنہ خیر (کچھ مضائقہ نہیں) کیونکہ اصل اشیاء میں طہارت پائی جاتی ہے اور یقین شک سے زائل نہیں ہوتا اور دین کی بنیاد آسانی پرہے، چنانچہ امام محمد رحمہ اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں جب تک کسی معین چیز کے حرام ہونے کو نہ جانیں، اللہ تعالٰی خوب جانتاہے۔ (ت)
(۵؎ مسند امام حمد بن حبنل حدیث ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۲ /۳۲۸) (۱؎ صحیح البخاری کتاب الایمان باب الدین یسر قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۰) (۲؎ فتاوٰی ہندیہ کتاب الکراھیۃ الباب الثانی عشر نورانی کتب خانہ پشاور ۵/ ۳۴۲)
مسئلہ ۱۱:کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ اگر کوئی عالم وفقیہ کو گالی دے یا حقارت کرے تو اس کے اوپر حکم کفرجاری ہوگا یانہیں؟ اور اکثر عوام الناس اس زمانے میں عالموں کو گالی دیتے اور حقارت اور غیبت کرتے ہیں؟ بینوا توجروا
الجواب : غیبت تو جاہل کی بھی سوا صور مخصوصہ کے حرم قطعی وگناہ کبیرہ ہے۔ قرآن عظیم میں اسے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانا فرمایا۔ اور حدیث میں آیا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں :
ایاکم والغیبۃ فان الغیبۃ اشد من الزنا ان الرجل قد یزنی ویتوب اﷲ علیہ وان صاحب الغیبۃ لایغفر لہ حتی یغفرلہ صاحبہ، رواہ ابن ابی الدنیا فی ذم الغیبۃ ۱؎ وابو الشیخ فی التوبیخ عن جابر بن عبداﷲ وابی یوسف الخدری رضی اﷲ تعالٰی عنہم۔
غیبت سے بچو کہ غیبت زنا سے بھی زیادہ سخت ہے کبھی ایسا ہوتا ہے کہ زانی توبہ کرے تو اللہ تعالٰی اس کی توبہ قبول فرمالیتا ہے اور غیبت کرنے والے کی بخشش ہی نہ ہوگی جب تےک وہ نہ بخشے جس کی غیبت کی تھی (اس کو ابن ابی الدنیا نے ذم الغیبۃ میں اور ابو الشیخ نے توبیخ میں جابر بن عبداللہ اور ابوسعید خدری سے روایت کیا اللہ تعالٰی ان سے راضی ہو۔ (ت)
(۱؎ الغیبۃ والنمیمۃ رسالہ عن رسائل ابن ابی الدنیا باب الغیبۃ وذمہا حدیث ۲۵ موسسۃ الکتب الثقافیۃ ۲ /۴۶)