فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۱(کتاب الحظر والاباحۃ ) |
مسئلہ ۷: از کانپور مرسلہ مولوی وصی احمد سورتی ۲۱ ماہ رمضان المبارک ۱۳۱۱ھ کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک بت پرست کافر نے اپنے بت کے نام بغرض تقرب روپیہ اٹھارکھا اسی مبلغ منذور سے بایں نیت اسباب اکل وشرب خریدا کہ خاص دن جس میں نذر ادا کی جاتی ہے۔ دعوت کھلائی جائے جب وہ دن آن پہنچا تو وہ ہندو اہل اسلام سے کہنے لگا کہ میری نیت ہےکہ میں تمام اہل اسلام کو للہ اس مال مذکورسے کھلاؤں اسی موجب اس ہندو نے مسلمانوں کو بکرے چاول وغیرہا دئے ، بروقت دینے کے مکر رسہ کرر للہ دیتاہو کہا بعض مسلمانوں نے وہ مال منذور قبول کرلیا آپس میں پکا کر دعوتیں کیں بعض لوگ باز رہے لہذا باہمی اختلاف واقع ہوا ہے آپ للہ جواب سے سرفراز فرمائیں، آیا اس کافر کا قول ''جو للہ دیتاہوں'' کہا معتبر ہے یانہیں۔ کھانا درست ہوگا یا نہیں؟ در صورت ثانی جو لوگ کھا چکے ہیں وہ لوگ کس امر کے مرتکب ہوئے؟ مفصل تحریر ہو۔
بینوبالکتاب توجروا بالثواب
(کتاب اللہ کے حوالے سے بیان کرو تاکہ اجر وثواب پاؤ۔ ت)
الجواب: کافر مشرک کا کوئی عمل للہ نہیں
فان الکفر ھو الجہل باﷲ فاذا جہلہ فکیف یعمل لہ
(چونکہ اللہ تعالٰی کو نہ جاننا کفر ہے پھر جب یہ اس کو نہیں جانتا (یعنی اس کے معاملے میں جہالت کا برتاؤ کرتاہے تو اس کے لئے عمل کیسے کرسکتاہے۔ ت) مسلمان مال مذکور (نامکمل)
مسئلہ ۸: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ اہل اسلام میں سے کوئی شخص بغرض تماشہ دیکھنے کے کسی میلے اہل ہنود کے میں قصدا جائے تو اس کی عورت نکاح سے باہرہوجاتی ہے یا نہیں۔ اگر چہ وہ شخص یہ تو جانتاہے کہ ہنود کے میلے میں جانا گناہ ہے اور اس شخص کے واسطے کیا حکم ہے جو کسی رئیس قوم ہنود کا ملازم ہے وہ بوجہ ملازمت کے اپنے آقا کے ساتھ مجبورا جائے۔ بینوا توجروا
الجواب: کافروں کے میلے میں جانے سے آدمی کافرنہیں ہوتا کہ عورت نکاح سے نکل جائے ، جو لوگ ایسے فتوے دیتے ہیں شریعت مطہرہ پر افتراء کرتے ہیں، البتہ اس میں شریک ہونا مسلمان کو منع ہے۔
حدیث میں ہے :
من کثرسواد قوم فہو منہم ۱؎۔
جس شخص نے کسی قوم کی جماعتی تعداد میں اضافہ کیا تو وہ انہی میں سے ہے۔ (ت)
(۱؎ کنز العماال حدیث ۲۴۷۳۵ مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۹ /۲۲)
دوسری حدیث میں ہے :
من جامع المشرک وسکن معہ فانہ مثلہ ۱؎۔
جوکوئی کسی مشرک کے ساتھ جمع ہوا اور اس کے ساتھ ٹھہرا تو بیشک وہ اسی مشرک کی طرح ہے۔ (ت)
(۱؎سنن ابی داؤد کتاب الجہاد باب فی الاقامۃ بارض الشرک آفتاب عالم پریس لاہور ۲ /۲۹)
علماء فرماتے ہیں مسلمان کو چاہئےکہ مجمع کفار پر ہو کرنہ گزرے کہ ان پر لعنت اترتی ہے اور پر ظاہر کہ ان کا میلہ صدہا کفر کے شعار اور شرک کی باتوں پر مشتمل ہوگا اور یہ ممانعت وازالہ منکر پرقادرنہ ہوگاتو خواہی نخواہی گونگا ، شیطان اور کافر کا تابعدار ہوکر مجمع کفار میں رہنا اور ان کے کفریات کو دیکھنا سننا مسلمان کی ذلت ہے اور کافر کی نوکری مسلمان کے لئے وہی جائز ہے جس میں اسلام ومسلم کی ذلت نہ ہو
نص علیہ العلماء کمافی الغمز وغیرہ
(علماء کرام نے اس کی تصریح فرمائی جیساکہ الغمز وغیرہ میں مذکور ہے ۔ت) رزق اللہ کے ذمہ ہے اور اس کے راستے کھلے ہوئے، تو عذر مجبوری غلط ہے۔
واللہ تعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم
(اور اللہ تعالٰی سب کچھ اچھی طرح جانتاہے اور اس بزرگ وعظیم ذات کا علم بڑا کامل اور زیادہ محکم ہے۔ ت)
مسئلہ ۹: از ڈونگر گڑھ ضلع رائے پور سنٹرل پرونسس مرسلہ شیخ حسین الدین احمد صاحب ۸/ شعبان ۱۳۱۳ھ زید شراب پیتاہے اور زید عمرو کو ورغلا کر شراب پلائی وہ بھی پینے لگا تھوڑے عرصہ میں زید تائب ہوا اور قطعا شراب چھوڑ دی مگر عمر وپیتا رہا، تو کیا عمرو کے موأخذہ میں زید بھی پکڑا جائے گا، اگر پکڑا جائے گا تو زید کے بچنے کی کون سی صور ت ہے؟ بینوا توجروا (بیان فرماؤ تاکہ اجر پاؤ۔ت)
الجواب: سچی توبہ اللہ عزوجل نے وہ نفیس شیئ بنائی ہے کہ ہر گناہ کے ازالہ کو کافی ووافی ہے۔ کوئی گناہ ایسانہیں کہ سچی توبہ کے بعد باقی رہے یہاں تک کہ شرک وکفر، سچی توبہ کے یہ معنی ہیں کہ گناہ پر اس لئے کہ وہ اس کے رب عزوجل کی نافرمانی تھی نادم وپریشان ہو کر فورا چھوڑدے اور آئندہ کبھی اس گناہ کے پاس نہ جانے کا سچے دل سے پورا عزم کرے جو چارہ کار اس کی تلافی کا اپنے ہاتھ میں ہو بجالائے مثلا نماز روزے کے ترک یا غصب، سرقہ، رشوت، ربا سے توبہ کی توصرف آئندہ کے لئے ان جرائم کا چھورڈینا کافی نہیں بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ جو نماز روزے ناغہ کئے ان کی قضا کرے جو مال جس جس سے چینا ، چرایا، رشوت، سود میں لیا انھیں اور وہ نہ رہے ہوں تو ان کے وارثوں کوواپس کردے یا معاف کرائے، پتا نہ چلے توا تنا مال تصدق کردے اور دل میں نیت رکھے کہ وہ لوگ جب ملے اگرتصدق پرراضی نہ ہوئے اپنے پاس سے انھیں پھیردوں گا۔
شرح فقہ اکبر میں ہے :
قدنصوا علی ان ارکان التوبۃ ثلثۃ الندامۃ علی الماضی والا قلاع فی الحال والعزم علی عدم العود فی الاستقبال ھذا ان کانت التوبۃ فیما بینہ وبین اﷲ کشرب الخمر واما ان کانت ھما فرط فیہ من حقوق اﷲ کصلٰوۃ وصیام وزکوٰۃ فتوبتہ ان یندم علی تفریطہ اولا ثم یعزم علی ان لایعود ابداء ولو بتاخیر صلاۃ عن وقتہا ثم یقضی مافاتہ جمیعا وان کانت مما یتعلق بالعباد فان کانت من مظالم الاموال فتتوقف صحۃ التوبۃ منہا مع ماقدمناہ فی حقوق اﷲ تعالٰی علی الخروج عن عہدۃ الاموال وارجاء الخصم بان یتحلل عنہم ایردھا الیہم اوالی من یقوم مقامہم من وکیل او وارث وفی القنیۃ رجل علیہ دیون لاناس لایعرفہم من غصوب اومظالم اوجنایات یتصدق بقدر ھا علی الفقراء علی عزیمۃ القضاء ان وجدھم مع التوبۃ علی اﷲ تعالٰی فیعذر انتہی وان کانت المظالم فی الاعراض کالقذف والغیبۃ فیجب فی التوبۃ فیہا مع قدمناہ فی حقوق اﷲ تعالٰی ان یخبرا صحابہا بما قال من ذٰلک ویتحلل منہم فان تعذر ذٰلک فلیعزم علی انہ متی وجدھم تحلل منہم فان عجزبان کان میتا فلیستغفراﷲ والمرجو من فضلہ وکرمہ ان یرضی خصمائہ من خزائن احسانہ فانہ جواد کریم رؤف رحیم ۱؎ اھ ملتقطا۔
اہل علم نے تصریح فرمائی ہیے کہ توبہ کے ارکان تین ہیں (۱)گزشتہ جرم پر ندامت یعنی نادم وشرمسار ہونا (۲)موجودہ طرز عمل کو درست رکھنا اور گناہ کا ازالہ وبیخ کنی کرنا (۳) آئند کے لئے گناہ نہ کرنے کا پختہ عزم کرنا، یہ اس وقت کا کام ہے جبکہ توبہ بندے اور اللہ تعالٰی کے درمیان ہو، جیسے شراب نوشی، لیکن اگر اس نے حقوق اللہ میں کوتاہی کی اور ان سے توبہ کرنا چاہے جیسے نماز ،روزے اور زکوٰۃ وغیرہ کی ادائیگی میں غفلت اور کوتاہی کی تو اس کے لئے توبہ کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے اس کو تاہی پر نادم ہو پھر پختہ ارادہ کرے کہ آئندہ ان کی ادائیگی میں غفلت سے کام نہیں لے گا اور انھیں ہر گز ضائع نہیں کرے گا، پھر تمام ضائع کردہ حقوق کی قضا کرے اور اگر ضائع کردہ حقوق کا تعلق بندوں سے ہو تو صحت تو بہ اس پر موقوف ہے جس کو ہم نے پہلے حقوق اللہ کے ضمن میں بیان کردیا ہے کہ اس کی صورت میں اموال کی ذمہ داری سے سبکدوش ہونا اور مظلوم کو راضی کرنا ضروری ہے جن کا مال غصب کیا گیا، وہ انھیں واپس کیاجائے یا ان سے معاف کرایا جائے اور وہ متعلقہ افراد موجود اوربقید حیات نہ ہوں تو ان کے ورثاء متعلقین اور قائم مقام افراد و وکلاء کے ذریعے اموال کی واپسی او ر معافی عمل میں لائی جائے، قنیہ میں ہے اگر کسی شخص پر لوگوں کے قرضہ جات مثلا غصب، مظالم، اورجنایات کی قسم سے ہوں اور توبہ کرنے والا ان متعلقہ افراد کو نہیں جانتا پہچانتا تو اتنی مقدارفقراء ومساکین میں قضا کی نیت سے خیرات کردے، اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں توبہ کرنے کے باوجود اگر ان افراد کو کہیں پالے تو ان سے معذرت کرے (یعنی ان سے معافی مانگے اھ )اگر مظالم کا تعلق عزت وغیرہ سے ہو جیسے کسی کو گالی دینا، غیبت کرنا، تو ان میں وجوب توبہ اس شرط سمیت جو ہم نے حقوق اللہ کے ضمن میں بیان کئے ہیں یہ ہے کہ جو کچھ اس نے ان کے بارے میں کہا انھیں اس جرم پر اطلاع دے اور ان سے معافی مانگے، اگر یہ مشکل ہو تو پختہ ارادہ کرلے کہ جب بھی انھیں پائے گا تو ضرور معذرت کرے گا، اگر اس طریقہ سے بھی عاجز ہوجائے یعنی مظلوم وفات پاگیا ہو تو پھر اللہ تعالٰی سے بخشش مانگے، اور اللہ تعالٰی کے فضل وکرم سے قوی امید ہے کہ وہ مظلوم مرحوم کو اپنے جو دواحسان کے خزانوں میں سے دے کر راضی کردے گا اور دونوں میں صلح کر ادے گا کیونکہ وہ بے حد سخی، کرم کرنے والا۔ انتہائی شفقت فرمانے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ انتخاب کردہ عبارت مکمل ہوگئی۔ (ت)
(۱؎ منح الروض الازھر شرح الفقہ الاکبر التوبۃ وشرائطہا مصطفی البابی مصر ص۵۹۔۱۵۸)