Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۱(کتاب الحظر والاباحۃ )
4 - 144
مسئلہ ۵: از امروہہ مرسلہ مولوی سید محمد شاہ صاحب میلاد خواں ۲۲ شعبان ۱۳۱۱ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ان مسائل میں :بینوا توجروا (بیان کرواور اجر پاؤ۔ ت)
مسئلہ ۵ اُولٰی : اللہ تعالٰی کو عاشق اور حضور پرنور سرور عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا معشوق کہنا جائزہے یانہیں؟
الجواب: ناجائز ہے کہ معنی عشق اللہ عزوجل کے حق میں محال قطعی ہے۔ اور ایسا لفظ بے ورودثبوت شرعی حضرت عزت کی شان میں بولنا ممنوع قطعی۔
ردالمحتارمیں ہے :
مجردایھام المعنی المحال کافٍ فی المنع ۱؎۔
صرف معنی محال کا وہم ممانعت کے لئے کافی ہے۔ (ت)
(۱؎ ردالمحتار    کتاب الحظروا لاباحۃ فصل فی البیع     داراحیاء التراث العربی بیروت    ۵ /۲۵۳)
امام علامہ یوسف اردبیلی شافعی رحمہ اللہ تعالٰی کتا ب الانوار لاعمال الابرار میں اپنے اور شیخین مذہب امام رافعی وہ ہمارے علماء حنفیہ رضی اللہ تعالٰی عنہم سے نقل فرماتے ہیں :
لوقال انا اعشق اﷲ اویعشقنی فبتدع و العبارۃ الصحیحۃ ان یقول احبہ و یحبنی کقولہ تعالٰی یحبہم ویحبونہ ۲؎۔
اگر کوئی شخص کہے میں اللہ تعالٰی سے عشق رکھتاہوں اور وہ مجھ سے عشق رکھتاہے تو وہ بدعتی ہے لہذا عبارت صحیح یہ ہے کہ وہ یوں کہےکہ میں اللہ تعالٰی سے محبت کرتاہوں اور وہ مجھ سے محبت کرتاہے اللہ تعالٰی کے اس ارشاد کی طرح '' اللہ تعالٰی ان سے محبت رکھتاہے اور وہ لوگ اللہ تعالٰی سے محبت رکھتے ہیں'' (ت)
 (۲؎ الانوار  لاعمال الابرار   کتا ب الردۃ         المطبعۃ الجمالیہ مصر        ۲ /۳۲۱)
اسی طرح امام ابن حجر مکی قدسی سرہ الملکی نے اعلام میں نقل فرما کر مقر رکھا۔
اقول : وظاھر ان منشاء الحکم لفظ یعشقنی دون ادعائہ لنفسہ الاتری الی قولہ ان العبارۃ الصحیحۃ یحبنی ثم الظاھر ان تکون العبارۃ بواؤالعطف کقولہ احبہ ویحبنی فیکون الحکم لاجل قولہ یعشقنی والا فلا یظہر لہ وجہ بمجرد قولہ اعشقہ فقد قال العلامۃ احمد بن محمد بن المنیر الاسکندری فی الانتصاف ردا علی الزمخشری تحت قولہ تعالٰی فی سورۃ المائدۃ یحبہم ویحبونہ بعد اثبات ان محبۃ العبد اﷲ تعالٰی غیر الطاعۃ وانہا ثابتۃ واقعۃ بالمعنی الحقیقی اللغوی مانصہ ثم اذا ثبت اجراء محبۃ العبد ﷲ تعالٰی علی حقیقتہا لغۃ فالمحبۃ فی اللغۃ اذا تاکدت سمیت عشقا فمن تاکدت محبتہ للہ تعالٰی وظھرت آثارتأکدھا علیہ من استیعاب الاوقات فی ذکرہ وطاعتہ فلا یمنع ان تسمی محبتہ عشقا اذ العشق لیس الا المحبۃ البالغۃ ۱؎ اھ لکن الذی فی نسختی الانوار ونسختین عندی من الاعلام انما ھو بأو فلیستأمل ولیحرر ثم اقول لست بغافل عما اخرج واﷲ تعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم۔
اقول : (میں کہتاہوں) ظاہر یہ ہے کہ منشائے حکم لفظ ''یعشقی'' ہے نہ کہ وہ لفظ جس میں اپنی ذات کے لئے دعوٰی عشق کیا گیا ہے کیا تم اس قول کو نہیں دیکھتے کہ صحیح عبارت ''یحبنی'' ہے پھر ظاہرہے کہ عبارت واؤ عاطفہ کے ساتھ ہے جیسے اس کا قول ہے اُحِبُّہ، وَیُحِبُّنِی یعنی میں اس سے محبت رکھتاہوں اور وہ مجھ سے محبت رکھتاہے پھر حکم اس کے یعشقنی کہنے کی وجہ سے ہے ورنہ اس کے صرف اعشقہ کہنے سے کوئی امتناعی وجہ ظاہر نہیں ہوتی۔ چنانچہ علامہ احمد بن محمد منیر اسکندری نے ''الانتصاف'' میں علامہ زمحشری کی تردید کرتے ہوئے فرمایا جو اللہ تعالٰی کے اس ارشاد کے ذیل میں جو سورۃ مائدہ میں مذکور ہے ـــ:یُحِبُّھُمْ وَیُحِبُّوْنَہ، (اللہ تعالٰی ان سے محبت رکھتاہے اور وہ اس سے محبت رکھتے ہیں) اس بات کو ثابت کرنے کے بعد کہ  بندے کا اللہ تعالٰی سے محبت کرنا اس کی اطاعت (فرمانبرداری) سے جدا ہے (الگ ہے) اور محبت معنی حقیقی لغوی کے طور پر ثابت اورواقع ہے (جیسا کہ) موصوف نے تصریح فرمائی پھر جب بندے کا اللہ تعالٰی سے محبت کرنے کا اجراء حقیقت لغوی  کے طریقہ سے ثابت ہوگیا اور محبت بمعنی لغوی  جب پختہ اور مؤکد ہوجائے تو اسی کو عشق کا نام دیاجایاتاہے پھر جس کی اللہ تعالٰی سے پختہ محبت ہوجائے اور اس پر پختگی محبت کے آثار ظاہر ہوجائیں (نظر آنے لگیں) کہ وہ ہمہ اوقات اللہ تعالٰی کے ذکر وفکر اور اس کی اطاعت میں مصروف رہے تو پھر کوئی مانع نہیں کہ اس کی محبت کو عشق کہا جائے۔ کیونکہ محبت ہی کا دوسرا نام عشق ہے اھ لیکن میرے پاس جو نسخہ ''الانوار'' ہے وہ دو نسخے میرے پاس ''الاعلام'' کے ہیں ان میں عبارت مذکورہ صرف ''آوْ'' کے ساتھ مذکور ہے لہذا غور وفکر کرنا چاہئے اور لکھنا چاہئے میں کہتاہوں کہ میں نے اس سے بے خبر نہیں جس کی موصوف نے تخریج فرمائی اور اللہ تعالٰی خوب جانتاہے اور اس عظمت والے کاعلم بڑا کامل اوربہت پختہ ہے۔ (ت)
 (۱؎ کتاب الانتصاف علی تفسیر الکشاف     تحت آیۃ یحبہم و یحبونہ الخ    ا نتشارات آفتا ب تہران ایران    ۱ /۶۲۲)
مسئلہ ۶ ثانیہ: کیا حکم شرع شریف کا اس بارے میں کہ مدینہ شریف کو ''یثرب'' کہنا جائز ہے یا نہیں؟ اور جو شخص یہ لفظ کہے اس کی نسبت کیا حکم ہے؟ بینوا توجروا
الجواب: مدینہ طیبہ کو یثرب کہنا ناجائز وممنوع وگناہ ہے اور کہنے والا گنہگار ۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
من سمی المدینۃ یثرب فلیستغفر اﷲ ھی طابۃ ھی طابۃ، رواہ الامام ۱؎ احمد بسند صحیح عن البراء ان عازب رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔
جو مدینہ کو یثرب کہے اس پر توبہ واجب ہے۔ مدینہ طابہ ہے مدینہ طابہ ہے۔ (اسے امام احمد نے بسند صحیح براء بن عازب رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ۔ ت)
 (۱؎ مسند امام احمد بن حنبل     عن براء بن عازب رضی اللہ تعالٰی عنہ     المکتب الاسلامی بیروت    ۴ /۲۸۵)
علامہ مناوی تیسیر شرح جامع صغیر میں فرماتے ہیں :
فتسمیتھا بذٰلک حرام لان الاستغفار انما ھو عن خطیئۃ ۲؎۔
یعنی اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مدینہ طیبہ کا یثرب نام رکھنا حرام ہے کہ یثرب کہنے سے استغفار کاحکم فرمایا اور استغفار گناہ ہی سے ہوتی ہے۔
 (۲ ؎ التیسیر شرح جامع الصغیر     تحت حدیث من سمی المدینۃ یثر ب الخ     مکتبہ الامام الشافعی ریاض    ۲ /۴۲۴)
ملا علی قاری رحمہ الباری مرقاۃ شریف میں فرماتے ہیں :
قد حکی عن بعض السلف تحریم تسمیۃ المدینۃ بیثرب ویؤیدہ مارواہ احمد لافذکر الحدیث المذکور ثم قال) قال الطیبی رحمہ اﷲ تعالٰی فظہران من یحقر شان ما عظمہ اﷲ تعالٰی ومن وصف ماسماہ اﷲ تعالٰی بالایمان بمالایلیق بہ یستحق ان یسمی عاصیا ۱؎ الخ۔
بعض اسلاف سے حکایت کی گئی ہے کہ مدینہ منورہ کویثرب کہنا حرام ہے اور اس کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے جس کو امام احمد نے روایت فرمایا ہے۔ پھر حدیث مذکور بیان فرمائی۔ پھر علامہ طیبی رحمہ اللہ تعالٰی علیہ نے فرمایا پس اس سے ظاہر ہو اکہ جو اس کی شان کی تحقیر کرے کہ جس کو اللہ تعالٰی نے عظمت بخشی اور جس کو اللہ تعلٰی نے ایمان کانام دیا اس کا ایسا وصف بیان کرے جو اس کے لائق اور شایان شان نہیں تو وہ اس قابل ہے کہ اس کا نام عاصی (گنہگار) رکھا جائے الخ (ت)
(۱؎ المرقاۃ شرح المشکوٰۃ      کتاب المناسک  تحت حدیث ۲۷۳۸   مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ    ۵ /۶۲۲)
قرآن عظیم میں کہ لفظ یثرب آیا وہ رب العزت جل وعلا نے منافقین کا قول  نقل فرمایا ہے :
واذاقالت طائفۃ مہنم یااھل یثرب لامقام لکم ۲؎۔
جب ان میں سے ایک گروہ نے کہااے یثرب کے رہنے والو! تمہارے لئے کوئی جگہ اور ٹھکانا نہیں۔ (ت)
(۲؎ القرآن الکریم  ۳۳ /۱۳)
یثرب کا لفظ فساد وملامت سے خبر دیتاہے وہ ناپاک اسی طرف اشارہ کرکے یثرب کہتے اللہ عزوجل نے ان پر رد کے لئے مدینہ طیبہ کا نام طابہ رکھا، حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں :
یقولون یثرب وھی المدینۃ۔ رواہ الشیخان ۳؎ عن ابی ہریرۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔
وہ اسے یثرب کہتے ہیں اور وہ تو مدینہ ہے۔ (اس کو بخاری ومسلم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ہے۔ ت)
 (۳ ؎ صحیح البخاری    فضائل المدینۃ         قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱ /۲۵۲)

(صحیح مسلم         کتاب الحج باب المدینۃ تنفی خبثہا  الخ            ۱ /۴۴۴)
اور فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم :
ان اﷲ تعالٰی سمی المدینۃ طابۃ ۔ رواہ الائمۃ احمد ومسلم ۱؎ والنسائی عن جابر بن سمرۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔
بے شک اللہ عزوجل نے مدینہ کا نام طابہ رکھا۔ (اسے ائمہ احمد، مسلم اور نسائی نے جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ ت)
 (۱؎ مسند احمد بن حنبل   عن جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ    المکتب الاسلامی بیروت  ۵ /۸۹)

(صحیح مسلم         کتا الحج باب المدینۃ تنفی خبثہا  الخ     قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱ /۴۴۵)
مرقاۃ میں ہے :
المعنی ان اﷲ تعالٰی سماھا فی اللوح المحفوظ او امرنبیہ ان یسمیھا بہا  ردا علی المنافقین فی تسمیتھا بیثرب ایماء الی تثریبہم فی الرجوع الیہا ۲؎۔
مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے لوح محفوظ میں مدینہ منورہ کانام ''طابہ'' رکھا ہے یا اپنے محبوب نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو حکم فرمایا کہ وہ مدینہ پاک کا نام طابہ رکھیں، یثرب رکھنے میں اہل نفاق کارد کرتے ہوئے ان کی سرزنش (توبیخ) کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ انھوں نے پھر نازیبا (یامتروک) نام کی طرف رجوع کرلیا۔ (ت)
(۲؎ المرقاۃ شرح المشکوٰۃ     کتا ب المناسک حدیث ۲۷۳۸     مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ    ۵/ ۶۲۲)
اسی میں ہے :
قال النووی رحمہ اﷲ تعالٰی قد حکی عیسٰی بن دینار ان من سماھا یثرب کتب علیہ خطیئۃ واما تسمیتھا فی القراٰن بیثرب فہی حکایۃ قول المنافقین الذین فی قلوبہم مرض ۳؎۔
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا عیسٰی بن دینار رحمۃ اللہ علیہ سے حکایت کی گئی ہے کہ جس کسی نے مدینہ طیبہ کا نام یثرب رکھا یعنی اس نام سے پکارا تو وہ گناہ گار ہوگا، جہاں تک ک قران مجید میں یثرب نام کے ذکر کا تعلق ہے تو معلوم ہونا چاہئے کہ وہ منافقین کے قول کی حکایت ہے کہ جن کے دلوں میں بیماری ہے۔ (ت)
 (۳؎المرقاۃ شرح المشکوٰۃ     کتا ب المناسک حدیث ۲۷۳۸     مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ ۵ /۶۲۲)
بعض اشعار اکابرمیں کہ یہ لفظ واقع ہوا، ان کی طرف سے عذر یہی ہے کہ اس وقت اس حدیث وحکم پر اطلاع نہ پائی تھی جو مطلع ہوکر کہے اس کے لئے عذر نہیں معہذا شرع مطہر شعر وغیرہ شعر سب پر حجت ہے۔ شعر شرع پر حجت نہیں ہوسکتا،  مولانا شیخ محقق عبدالحق محدث دہلوی قد سرہ، مشکوٰۃمیں فرماتے ہیں :
آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم او رامدینہ نام نہاد از جہت تمدن واجتماعی مردم واستیناس و ایتلاف ایشاں دردے ونہی کرد از خواندن یثرب یا از جہت آنکہ نام جاہلیت است یا سبب آنکہ مشتق از یثرب بمعنی ہلاک وفساد وتثریب بمعنی توبیخ وملامت ست یا بتقریب آنکہ دراصل نام صنمے یا یکے از جبابرہ بود، بخاری درتاریخ خود حدیثے آوردہ کہ یکبار یثرب گوید باید کہ دہ بار مدینہ گوید تاتدارک و تلافی آں کند ودر روایتے دیگر آمدہ باید کہ استغفار کند و بعضے گفتہ اند کہ تعزیر باید کرد قائل آں را وآنکہ درقرآن مجید آمدہ است یا اہل یثرب از زباں منافقان ست کہ بذکر آں قصد اہانت آن می کردند عجب کہ برزبان بعضے اکابر دراشعار لفظ یثرب آمدہ ۱؎ انتہی۔ واللہ تعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ ۔
آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اس کا نام ''مدینہ'' رکھا، اس کی وجہ وہاں لوگوں کارہنا سہنا اور جمع ہونا اور اس سے انس ومحبت رکھنا ہے اور آپ نے اسے یثرب کہنے سے منع فرمایا اس لئے کہ یہ زمانہ جاہلیت کا نام ہے یا اس لئے کہ یہ ''ثرب'' سے بنا ہے جس کے معنی ہلاکت اور فساد ہے اور تثریب بمعنی سرزنش اور ملامت ہے یا اس وجہ سے کہ یثرب کسی بت یا کسی جابر و سرکش بندے کا نام تھا۔ امام بخاری اپنی تاریخ میں ایک حدیث لائے ہیں کہ جو کوئی ایک مرتبہ ''یثرب'' کہہ دے تو اسے دس مرتبہ ''مدینہ'' کہنا چاہئے تاکہ اس کی تلافی اور تدارک ہو جائے قرآن مجیدجو ''یا اھل یثرب'' آیا ہے تو وہ اہل نفاق کی زبان سے اد اہوا ہے کہ یثرب کہنے سے وہ مدینہ منورہ کی توہین کا ارادہ رکھتے تھے، ایک دوسری روایت میں ہے کہ یثرب کہنے والا اللہ تعالٰی سے استغفار کرے اور معافی مانگے اور بعض نے فرمایا کہ اس نام سے پکارنے والے کو سزا دینی چاہئے۔ حیرت کی بات ہے کہ بعض بڑے لوگوں کی زبان سے اشعار لفظ یثرب صادر ہوا ہے۔ انتہی، اور اللہ تعالٰی خوب جانتا ہے اور عظمت وشان والے کا علم بہت پختہ اور بڑا مکمل ہے۔ (ت)
(۱؎ اشعۃ اللمعات شرح المشکوٰۃ     کتا ب المناسک باب حرم المدینۃ        مکتبہ نوری رضویہ سکھر  ۲ /۹۴۔ ۳۹۳)
Flag Counter