Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۱(کتاب الحظر والاباحۃ )
3 - 144
بالجملہ زید کی جہالت وضلالت میں شک نہیں اور اس کا دعوٰی کہ میں نے بعض کتابوں میں ایسا ہی دیکھا ہے۔ یا تو محض حکایت بے محکی عنہ ہے یا کسی ایسے ہی سفیہ جاہل خواہ ضال مضل نے کہیں لکھ دیا ہوگا اور اگر فقہائے کرام کے ارشاد سنئے، تو زید کے لئے حکم نہایت سخت وجگر شگاف نکلتاہے۔ اس کا کہنا کہ حضور میں یہ نیاز قبول ہوتی ہے بعینہٖ یہ کہنا ہے کہ حق سبحانہ وتعالٰی اس پر ثواب دیتاہے کہ نیاز کاحاصل نہیں مگر یہ کہ لوجہ اللہ تصدق کریں اور اس کا ثواب کسی محبوب خدا کی نذر ہو ورنہ یہ عین طعام ولباس وہاں نہیں پہنچتے۔
نظیر ذٰلک قولہ تعالٰی ''لن ینال اﷲ لحومہا ولادماؤہا ولکن ینالہ التقوٰی منکم ۲؎''
اس کی مثال اللہ تعالی کا ارشاد ہے: اللہ تعالٰی کی بارگاہ تک قربانیوں کے گوشت اور خون نہیں پہنچتے بلکہ اس تک تمھارا تقوٰی پہنچتا ہے۔ (ت)
 (۲؎القرآن الکریم    ۳۲ /۳۷)
خود قریات وطاعات میں قبول ووصول ثواب کا ایک حاصل۔ ردالمحتارمیں ہے :
القبول ترتب الغرض المطلوب من الشیئ علی شیئ کترتب الثواب علی الطاعۃ ۱؎۔
قبول کہتے ہیں کسی شے کی غرض مطلوب کا کسی شے پر مرتب ہونا جیسے ثواب کا عبادات پر مرتب ہونا۔(ت)
 (۱؎ ردالمحتار  کتا ب الصلٰوۃ  باب صفۃ الصلٰوۃ    داراحیاء التراث العربی بیروت    ۱ /۳۴۹)
اسی میں ہے :
معنی الصلاۃ علی النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم قد ترد عدم اثابۃ العبد علیہا ۲؎ الخ۔
حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی ذات اقدس پر صلٰوۃ کے مردود ہونیکا مفہوم یہ ہوتاہے کہ بندے کو ثواب نہیں پہنچتا (یعنی اس نے درود تو بھیجا مگر اس کو نفع یعنی ثواب نہ ہوا۔ ) (ت)
 (۲؎ردالمحتار     کتا ب الصلٰوۃ   باب صفۃ الصلٰوۃ    داراحیاء التراث العربی بیروت    ۱ /۳۴۹)
تفسیر کبیر میں ہے :
قال المتکلمون کل عمل یقبلہ اﷲ تعالٰی فہو یثیب صاحبہا ویرضاہ عنہ واللذی لایثیبہ علیہ ولایرضاہ منہ فہو المردود ۳؎۔
متکلمین نےفرمایاکہ جس عمل کو اللہ تعالٰی قبول فرمائے تو اس کاثواب اس کے صاحب تک پہنچا دیتاہے اور اس سے راضی ہوتاہے اور جس کا ثواب اسے نہ پہنچائے اور اس سے راضی نہ ہو تو وہ مردود ہے۔ (ت)
 (۳؎ مفاتیح الغیب (التفسیر الکبیر)
تو صاف ثابت کہ زید کے نزدیک مال حرام سے تصدق پر بھی استحقاق ثواب ہے اور علماء فرماتے ہیں جو حرام مال سے تصدق کرکے اس پر ثواب کی امید رکھے کافرہو جائے،
خلاصہ میں ہے:
رجل تصدق من الحرام ویرجوا الثواب یکفر ۴؎ الخ۔
کسی شخص نے حرام مال سے صدقہ کیا اور اس پر ثواب کی امید رکھتاہے تو وہ کافر ہوجائے گا۔ الخ (ت)
 (۴؎ خلاصہ الفتاوٰی کتاب الکراھیۃ الجنس السابع   مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ  ۴ /۳۸۷)
عالمگیریہ میں ہے :
لوتصدق علی فقیر شیئا من المال الحرام و یرجوا الثواب یکفر ۱؎ الخ۔
اگر فقیر پر حرام مال میں سے کچھ صدقہ کیا اور ثواب کی امید رکھتاہے تو وہ کافر ہوجائے گا۔ الخ (ت)
 (۱؎ فتاوٰی ہندیہ         کتاب السیر الباب التاسع         نورانی کتب خانہ پشاور    ۲ /۲۷۲)
زید پر فرض ہے کہ ایسے خرافات سے توبہ کرے اور اسے از سر نو کلمہ اسلام پڑھنا اور اس کے بعد اپنی عورت سے نکاح جدید کرنا چاہئے۔
نظرا الی ماقالہ الفقہاء کما یظہر بمراجعۃ الدرالمختار وغیرہ من الاسفار ، واﷲ سبحانہ وتعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم۔
اس بات پر نظر رکھتے ہوئے کہ جو کچھ فقہاء کرام نے ارشاد فرمایا جیسا کہ درمختار وغیرہ بڑی کتابوں کی طرف مراجعت سے ظاہر ہوتاہے، اللہ تعالٰی پاک وبرتر ۔ سب سے زیادہ علم رکھتاہے اور اس بزرگی والے کا علم زیادہ کامل اور زیادہ پختہ ہے۔ (ت)
مسئلہ ۳:  ۴ رجب ۱۳۰۸ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ ایک شخص کو عارضہ جذام کی ابتداء ہے اس کے بھائی بند اور اولاد نے اس کے ساتھ کھانا پینا چھوڑ دیا ہے اور اس سے کہتے ہیں کہ تجھ سے تیری زوجہ بھی بلاطلاق علیحدہ ہوسکتی ہے، ایسی حالت میں جو حکم شرع مطہرہ میں ایسے مریض کے واسطے ہو بیان فرمائیں، اللہ تعالٰی اجر دے گا۔ فقط
الجواب 

 فی الواقع ضعیف الاعتقاد لوگ جنھیں خدا ئے تعالٰی پر سچا توکل نہ ہو اور وہمی خیالات رکھتے ہوں انھیں جذامی کے ساتھ کھانے پینے سے بچنا چاہئے۔ نہ اس خیال سے کہ اس کے ساتھ کھانے کی تاثیر سے دوسرا شخص بیمار ہوجاتاہے۔ یہ خیال محض غلط ہے تقدیر الٰہی میں جو کچھ لکھا ہے ضرور ہوگا اور جو نہیں لکھا ہے ہرگزنہ ہوگا اللہ تعالٰی مسلمانوں کو ارشاد فرماتاہے کہ یوں کہیں :
لن یصیبنا الا ماکتب اﷲ لنا ھو مولانا و علی اﷲ فلیتوکل المؤمنون ۲؎۔
   ہمیں ہر گز نہ پہنچے گی مگر وہ بات جو اللہ تعالٰی نے ہمارے لئے لکھ دی ، وہ ہمارا مولٰی ہے اور مسلمانوں کو اللہ ہی پر بھروسہ چاہئے۔
(۲؎ القرآن الکریم     ۹ /۵۱)
خود نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ایک جذامی کو اپنے ساتھ کھلایا بلکہ یہ لحاظ کرے کہ اس کے ساتھ کھایا پیا اور معاذاللہ شاید حسب تقدیر الٰہی کچھ واقع ہوا، توشیطان دل میں ڈالے گا کہ اس فعل نے ایسا کیا ورنہ نہ ہوتا، اس شیطانی خیال سے بچنے کے لئے اس سے احتراز کرے اس لئے حدیث میں حکم ہے کہ : ''جذامی سے بچو جیسا کہ شیر سے بچتے ہیں۱؎ اگر وہ ایک نالے میں اترے تم دوسرے نالے میں اترو۲؎'' ۔

 اور ایک حدیث میں ہے کہ: ''جذامی سے نیزہ دو نیزہ کے فاصلہ سے بات کرو''۳؎۔
(۱؎ و ۲؎ کنز العمال    حدیث ۲۸۳۳۱  ۱۰ /۵۴)

 (۳؎ کنز العمال    حدیث ۲۸۳۲۹     ۱۰/ ۵۴)
والعیاذ باللہ رب العالمین، یہ اسی کے لئے ہے جسے واقعی جذام ہو نہ یہ کہ خون میں صرف قدرے جوش کی کچھ علامت سی پاکر اسے دور دور کرنے لگیں کہ یہ تو ناحق مسلمان کا دل دکھانا ہے۔ خصوصا بھائی بند اولاد کا ایسا کرنا کس قدر خدا ترسی وانسانیت سے بعید ہے۔ اللہ تعالٰی کی پناہ مانگیں کیا وہ ان کو مبتلا نہیں کرسکتا والعیاذ باللہ رب العلمین اس طرح کے جوش کی علامت معاذاللہ بعض اوقات بے مرض جذام بھی خون کی حدت وغیرہ سے پیدا ہوجاتی ہے اور باذن الٰہی مصفیات وغیرہا کے استعمال سے جاتی رہتی ہے، اللہ تعالٰی اپنے بلاؤں سے پناہ عطا فرمائے آمین، اور لوگوں کا یہ کہنا کہ تیری زوجہ بلاطلاق علیحدہ ہوسکتی ہے اگر اس سے یہ مقصود کہ بے طلاق اس کے نکاح سے نکل سکتی ہے تومحض خطا ہے، ہمارے مذہب میں جب تک یہ طلاق نہ دے گا وہ ہر گز اس کے نکاح سے باہر نہ ہوگی۔
درمختارمیں ہے:
لایتجرا حدالزوجین بعیب الاٰخر ولو فاحشا کجنون وجذام وبرص ورتق وقرن ۴؎ الخ۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
میاں بیوی میں سے کوئی ایک دوسرے میں عیب پائے جانے کی وجہ سے خواہ عیب حد سے بھی زیادہ ہو جدائی کاحق نہیں رکھتا، عیب سے مراد دیوانگی، کوڑھ، برص (پھلبہری) ، رتق(مقام ستر کا جڑ جانا) قرن(وہاں ہڈی نکل آنا) اللہ تعالٰی خوب جانتاہے۔ (ت)
 (۴؎ درمختار  کتاب الطلاق  کتا ب العنین   مطبع مجتبائی دہلی    ۱ /۵۵۔۲۵۴)
مسئلہ ۴:  کیا فرماتے ہیں دین اس مسئلہ میں کہ ایک بھنگی نے کسی برتن میں مردار بکری کی چربی رکھی تھی وہ برتن کتا اس کے یہاں سے لاکر ایک مسلمان عورت کے دروازہ پر ڈال دیا گیا وہ عورت جب باہر کے لوٹے میں چربی دیکھ کر گھر میں لے گئی اور تھوڑی سی چربی اپنے بالوں میں لگائی جس شخص نے اسے لوٹا لے جاتے دیکھا تھا اس نے مطعون کیا کہ اس نے سور کی چربی استعمال کی۔ یہ سن کر زید اس کے یہاں گیا اور کہا تیرے ایمان میں فرق آگیا تو پھر مسلمان ہو، اسے مسلمان کیا ، بعدہ، کہا ہمارا حق مسلمان کرنے کا پانچ روپیہ دے، وہ بیچاری اپنی محتاجی کا عذر بھی کرتی رہی ، آخر سوا روپیہ لے کر چھوڑا۔ اور جس نے لوٹالے جاتے دیکھا تھا اسے بھی دبایا کہ تو نے منع کیوں نہ کیا چارآنہ اس سے لیے۔ یہ ڈیڑھ روپیہ زید کے لئے حلال تھا یاحرام؟ اور وہ عورت اس صورت میں مسلمان رہی تھی یانہیں؟ بینوا توجروا (بیان کرو تاکہ اجر پاؤ۔ت) فقط
الجواب : صورت مستفسرہ میں وہ عورت گنہگار تو بیشک ہوئی کہ اگر جانتی تھی کہ اس میں مردار کی چربی ہے پھر بالوں میں لگائی تو یہ گناہ، اور اگر نہ جانتی تھی تو بزعم خود  پرایامال بے مشہور کے اپنے تصرف میں لانے کی مجرم ہوئی، بہر حال اس کی معصیت میں شک نہیں مگر معاذاللہ اتنی بات پر کافرہ نہیں ہوسکتی تجدید کلمہ اسلام بہتر ہے مگر اس فعل کے باعث اس کی حاجت نہ تھی، تو زید اس وجہ سے اس عورت کے ایمان میں فرق بتا کر گناہ گا ر ہوا، پھر تلقین اسلام پر اُجرت لینا اس کا دوسرا گنا تھ۔ پھر اس دیکھنے والے کو دبا کر اس س چار آنہ لینا تیسرا گناہ ہوا۔
فان ائمتنا لایقولون بالتعزیر بالمال و علی القول بہ فذاک ای الامام دون العوام۔
کیونکہ ہمارے ائمہ کرام مال جرمانہ اور تاوان کے قائل نہیں اور مالی تاوان اور جرمانہ کے قول پر تو یہ امام کو حق ہے عوام کونہیں۔ (ت)
یہ ڈیڑھ روپیہ کہ زید نے لیا اس کے حق میں حرام ہے اس پر واجب ہے کہ جن جن سے لیا انھیں پھیر دے کہ اگر کھاچکا ہو تو اپنے پاس سے دے۔ بغیر اس کے اس گناہ سے توبہ نہ ہوگی۔
قال تعالٰی:
ولا تاکلوا اموالکم بینکم بالباطل ۱؎۔
واﷲ تعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم فقط۔
اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا: (لوگو) ایک دوسرے کا مال ناجائز طریقے سے باہم نہ کھایا کرو۔ اللہ تعالٰی سب کچھ خوب جانتا ہے ا ور اس بڑی شان والے کاعلم زیادہ مکمل اور پختہ ہے فقط (ت)
(۱؎ القرآن الکریم   ۲ /۱۸۸)
Flag Counter