Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۱(کتاب الحظر والاباحۃ )
13 - 144
مسئلہ ۲۳ : از سنھبل ضلع مراد آباد محلہ ٹیلہ مرسلہ نادر حسین صاحب ۱۴ جمادی الاولٰی ۱۳۳۱ھ

زید نے بھنگی کے گھر پر جاکر اس کے گھر کے کھانے پکے ہوئے پر فاتحہ جناب شاہ بدیع الدین یعنی مدار صاحب دے کر کچھ دام اور شیرینی اور خشک آٹا وغیرہ اپنے گھر لاکر استعمال میں لایا اور سالہا سال سے ایسا ہی کیا کرتاہے یعنی وہ اپنا اسے پیر سمجھتے ہیں، اب دریافت طلب امریہ ہے کہ زید کایہ فعل شرعا جائز تھایا ناجائز؟ اگر جائز تھا تو احکام شرعیہ کے کون شے کے جواز سے؟ اور اس کے لائے جنس کا کھانا دوسرے مسلمان کو چاہئے یا نہیں؟ اور اگر ناجائز تھا تو اس کی نسبت کیاحکم؟ مسلمانوں کو اس سے بچنا بہترہے یانہیں؟
الجواب

زید بیقید کا یہ فعل بہت ناپاک وبد ہے۔ یہاں علی العموم بھنگی کفا رہیں، اور کافر کی کوئی نیاز کوئی عمل قبول نہیں، نہ ہر گز اس پر ثواب ممکن جسے پہنچایاجائے۔
قال اﷲ تعالٰی وقدمنا الی ماعملوا من علی فجعلناہ ھباء منثورا ۱؎۔
اللہ تعالٰی نے (قرآن مجید میں) ارشاد فرمایا: اور ہم نے ان کاموں کا ارادہ کیا جو انھوں نے (دنیاوی زندگی میں) کئے پھر ہم انھیں بکھرا ہوا گرد وغبار نباکر اڑادیں گے۔ (ت)
(۱؎ القرآن الکریم    ۲۵/ ۲۳)
ا س کے کھانے پر فاتحہ دینا اس کا ثواب پہنچنے کا اعتقاد ہے اور یہ قرآن عظیم کے خلاف ہے زیر پر توبہ فرض ہے بلکہ تجدید اسلام ونکاح چاہئے، بھنگی کا صدقہ جو یہ شخص لاتااور کھاتا ہے اسلام کو ذلیل اور مسلمانوں کو متنفر کرتاہے مسلمان اسے نہ کھائیں، اوریہ شخص تائب نہ ہو تو اسے بھنگیوں ہی پر چھوڑدیں۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۲۴: از ڈیسہ اسحاق اللہ ملک گجرات مرسلہ پیر زادہ محمد معصوم شاہ صاحب ۱۷ جمادی الاولٰی ۱۳۳۱ھ

بخدمت جناب مجدد ہند مولانا مولوی صاحب احمد رضا خاں صاحب، بعد تسلیم کے گزارش حال یہ ہے کہ آپ کے نام پیرڈیسہ سے فتوٰی لکھا ہے وہ شخص مولوی اشرفعلی کاپیرو ہے اور یہاں پر چار سو مکان اہلسنت وجماعت کے ہیں ان کو مولوی اشرفعلی کے سپرد کرنا چاہتاہے یعنی ہمارے ہاں دستور ہےکہ شادی میں نکاح کے وقت تاشہ بجایاکرتے ہیں اس کا سبب یہ ہے کہ غیر مقلد ہماری جماعت میں نہ آنے پائیں مگریہ شخص اشرفعلی کے پیرو ہوکر تاشہ بجانا منع کرتاہے اور جس شے میں گناہ نہ ہو اس کو بھی منع کرتا ہے اس واسطہ آپ اسحاق اللہ کے نام پر لکھنا تاکہ ہم ان شیطانوں کے پھندوں سے بچیں اگر چہ یہاں پر تاشہ بجن بند ہووے تو ہم کو اپنے مذہب سے پھر جانے کا خوف ہے۔
الجواب

جناب پیر زادہ صاحب دام مجدہم تسلیم!

شرح مطہر نے شادی میں دف جس میں جلاجل نہ ہوں اور قانون موسیقی پر نہ بجائیں جائز رکھا ہے۔ ڈھول تاشے باجے جس طرح رائج ہیں جائز نہیں ناجائز بات کو اگر کوئی بد مذہب یا کافر منع کرے تو اسے جائز نہیں کہا جاسکتا، کل کو کوئی وہابی ناچ کو منع کرے تو کیا اسے بھی جائز کردینا ہوگا، سنی مسلمانوں کو دین پر ایسا بودا پوچ اعتقا نہ چاہئے کہ گناہ کی اجازت نہ ملے تو دین ہی سے پھر جائیں، دین پر اعتقاد ایسا چاہئے کہ
لاتشرک باﷲ وان حرقت
 (اللہ تعالٰی کے ساتھ کسی کو شریک نہ کر اگر چہ تجھے جلادیا جائے۔ ت) اگر کوئی جلا کر خاک کردے تو دین سے نہ پھرے، اللہ عزوجل فرماتاہے :
ومن الناس من یعبد اﷲ علی حرف فان اصابہ خیر ن اطمان بہ وان اصابتہ فتنۃ ن انقلب علی وجہ خرالدنیا والاخرۃ ذٰلک ھو الخسران المبین ۱؎۔ والعیاذ باﷲ تعالٰی، واﷲ تعالٰی اعلم۔
کچھ لوگ کنارے پر کھڑے اللہ کو پوجھتے ہیں اگر کوئی بھلائی پہنچی جب تو خوش ہیں اور کوئی آزمائش ہوئی تو الٹے منہ پلٹ گئے ایسوں کا دنیا وآخر ت دونوں میں گھاٹا ہے یہی صریح زیاں کاری ہے۔ اللہ تعالٰی کی پناہ۔ اور اللہ تعالٰی سب سے زیادہ جاننے والا ہے۔ (ت)
(۱؎ القرآن الکریم    ۲۲/ ۱۱)
مسئلہ ۲۵: 

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ :

سود کھانا اور جوا کھیلنا اور زانی وغیرہا سب فعل بدکی گناہ ایک برابر ہے یا نہ؟ اور ایسے آدمی کے ساتھ کھانا پینا کیساہے؟ بینوا توجروا (بیان فرماؤ تاکہ اجر وثواب پاؤ۔ ت)
الجواب

یہ سب افعال حرام اور سخت کبائر ہیں، اور ان میں سے کسی فعل کا مرتکب مستحق نار وغضب جبار ہے پھر زنا کہ سخت خبیث کبیرہ ہے اس میں اگر حق العبد شامل نہ ہو تو سود اور جوا  اس سے بد تر ہیں سودم کی نسبت صحیح حدیث میں حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا :
الربٰو ثلث وسبعون حوبا ادناھن ان یقع الرجل علی امہ ۱؎۔
سود کھانا تہتر گناہوں کا مجموعہ ہے ان میں سے سب سے ہلکا گناہ ایساہے جیسے آدمی ماں سے زنا کرے۔
 (۱؎ سنن ابن ماجہ     ابواب التجارات با ب التغلیظ فے الرباء  ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ص۱۶۵)
اور اگر زنا میں حق العبد بھی شامل ہے تو وہ سود اور جوئے دونوں سے بد ترہے کہ سو دا ورجوئے کا اثر مال پر ہے اور زنا کا ناموس پر اور ناموس مال سے عزیز تر ہے۔ ایسے لوگوں کے ساتھ کھانا کھانا نہ چاہئے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۲۶ تا ۲۹: از مقام سوجت مارواڑ بازار کے اند ر مسئولہ شیخ ننے میاں کلاہ فروش داہن منڈی

(۱) یہ کہ کاہنوں اور جوتشیوں سے ہاتھ دکھلاکر تقدیر کا بھلا یا برا دریافت کرنا۔

(۲) اور بیچاری نوجوان بیوہ عورتوں کے نکاح ثانی کو برا سمجھنے اورنکاح ثانی کرنے والوں پر طعن کرنا۔

(۳) اور بیاہ شادیوں میں طوائف اوربھانڈ نچانا

(۴) اور جوئے کا انگہہ لگانا ہارجیت کا جیسا کہ اکثر ہندو مہاجن وغیرہ لگایاکرتے ہیں ایسا کام کرنے والے حنفی المذہب اور اہلسنت وجماعت رہے یا نہیں، کیا حکم ہے؟ بینوا توجروا (بیان فرماؤتاکہ اجروثواب پاؤ۔ ت)
الجواب

(۱)کاہنوں اور جوتشیوں سے ہاتھ دکھا کر تقدیر کا بھلا برا دریافت کرنا اگر بطور اعتقاد ہو یعنی جویہ بتائیں حق ہے تو کفر خالص ہے۔ اسی کو حدیث میں فرمایا :
فقد کفر بما نزل علی محمد صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ۲؎۔
بے شک اس سے انکار کیا جو کچھ حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام پراتار اگیا۔(ت)
  (۲؎ جامع الترمذی     کتاب الطہارت بب ماجاء فی کراھیۃ ایتان الحائض     امین کمپنی دہلی        ۱/ ۱۹)
اور اگر بطور اعتقاد وتیقن نہ ہو مگر میل ورغبت کے ساتھ ہو توگناہ کبیرہ ہے۔ 

اسی کو حدیث میں فرمایا :
لم یقبل اﷲ لہ صلٰوۃ اربعین صباحا۔ ۱؎
اللہ تعالٰی چالیس دن تک اس کی نماز قبول نہ فرمائیگا۔
 (۱؎ جامع الترمذی     کتاب الاشربۃ باب ماجاء فی شارب الخمر     امین کمپنی دہلی        ۲ /۸)
اور اگر ہزل واستہزاء ہو تو عبث ومکروہ حماقت ہے۔ ہاں اگر بقصد تعجیز ہو تو حرج نہیں، واللہ تعالٰی اعلم۔

(۲) نکاح ثانی کو بر اسمجھنا اور اس پر طعن کرنا اگر محض بربنائے رسم ورواج ومصالح عرفیہ ہے نہ یوں کہ اسے شرعا حرام جانیں یا شرعا حلال جان کر تحلیل تکمیل شرع کو برا سمجھے تو چنداں مورد الزام نہیں۔
کما فصلناہ باطیب تفصیل فی رسالتنا عقائد التہانی فی حکم النکاح الثانی۔
جیسا کہ ہم نے اس مسئلہ کی بہت عمدہ تفصیل اپنے رسالہ عقائد التہانی فی حکم نکاح الثانی میں بیان کی ہے۔ (ت)

اور اگر اسے شرعا حرام سمجھتاہے تو حکم کفر ہے اور شرعا حلال جان کر تحلیل شرع کو معاذاللہ برا جانتاہے تو صریح مرتد، واللہ تعالٰی اعلم۔

(۳) طوائفوں کا ناچ مطلقا حرام قطعی ہے جس کی حرمت پر متعد د آیات قرآنیہ ناطق ہیں بھانڈ جس طرح نقلیں بنایا اور لوگوں کو ہنسایا کرتے ہیں یہ بھی شرعا حرام ہے۔
نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں :
من قعدو سط الحلقۃ فہو ملعون ۲؎.
جو مجلس بری کے درمیان بیٹھا وہ ملعون ہے۔ (ت)
 (۲؎جامع الترمذی        کتاب الادب ماجاء فی کراھیۃ القعود وسط الحلقہ     امین کمپنی دہلی      ۲ /۱۰۰)
اور مزامیر کے ساتھ ان کا گانا بھی حرام ہے اور اگر لچکے توڑے کے ساتھ ناچتے ہوں تویہ بھی حرام ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔

(۴) جو ابھی بنص قطعی قرآن حرام ہے مگر ان افعال کے کرنے سے آدمی گنہگار ہوتاہے مستحق عذاب نار ہوتاہے مگر حنفیت یا سنیت سے خارج نہیں ہوتا جب تک اعتقاد میں فرق نہ ہو واللہ تعالٰی اعلم۔
Flag Counter