وللدارمی وابن عبد الحکیم ابن عساکر عن مولی ابن عمر قال قال لہ عمر عما تسأل فحدثہ فارسل الی عمر یطلب الجرید ضربہ بہا حتی ترک ظہرہ دبرۃ ثم ترکہ حتی برء ثم دعا بہ لیعود بہ فقال صبیغ یا امیر المومنین ان کنت ترید قتلی فاقتلنی قتلا جمیلا وان کنت ترید تداوینی فقد واﷲ برئت فاذن لہ الی ارضہ وکتب لہ الی ابی موسٰی الاشعری ان لایجالسہ احد من المسلمین فاشتد ذٰلک علی الرجل فکتب ابو موسٰی الی عمر ان قد حسنت ھیأتہ ان ائذن للناس فی مجالستہ ۱؎ ولابن الابناری ولنصر واللالکائی وابن عساکر عن السائب بن یزید رضی اﷲ تعالٰی عنہ وذکر القصۃ قال فلم یزل یعنی صبیغا وضیعا فی قومہ حتی ھلک وکان سید قومہ ۲؎۔
دارمی، ابن عبدالحکیم اور ابن عساکر نے حضرت عبداللہ ابن عمر کے آزاد کردہ غلام سے روایت کی غلام نے کہا حضرت عمر فاروق نے اس سے دریافت فرمایا : تو کس بارے میں سوال کرنا چاہتاہے، اس نے جواب دیا اور بیان کیا۔ پھر امیر المومنین نے لاٹھیاں منگوا نے کے لیے میرے پاس آدمی بھیجا اور لاٹھیاں منگواکر اس سے مارا پیٹا یہاں تک کہ اس کی پیٹھ زخمی ہوگئی، اسے اس حالت میں رخصت کردیا تا آنکہ وہ صحت یاب ہوکر ٹھیک ہوگیا، پھر اسے طلب کیا تاکہ اسے مزید زدوکوب کریں، صبیغ مذکور نے عرض کی اے امیر المومنین! اگر مجھے ماڈالنا چاہتے ہیں تو مجھے مار ڈالیں اور اگر میرا علاج کرنا چاہتے ہیں تو خدا کی قسم اب میں ٹھیک ہوگیا ہوں، امیر المومنین نے پھر اسے اپنے وطن جانے کی اجازت دے دی اور اس کے بارے میں حضرت ابوموسٰی اشعری کی طرف یہ ہدایت تحریر بھیجی کہ کوئی مسلمان اس شخص کے پاس نہ بیٹھنے پائے، یہ حکم اسے گراں گزرا، کچھ عرصہ بعد ابوموسٰی اشعری نے امیر المومنین کو لکھا کہ اس کی حالت اچھی ہوگئی ہے۔ آپ نے انھیں جواب بھیجا کہ اب لوگوں کو اس کے پاس بیٹھنے کی اجازت دے دیں، ابن ابی الابناری نصر مقدسی لالکائی اور ابن عساکر نے حضرت سائب بن یزید رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حوالے سے روایت فرمائی کہ انھوں نے پورا واقعہ بیان کیا اور فرمایا کہ پھر ہمیشہ صبیغ اپنی قم (بے قدر)کہتر ہوگیا یہاں تک کہ اسے موت آگئی، باوجود یہ کہ وہ اپنی قوم کا سردار تھا۔ (ت)
(۱ تہذیب دمشق الکبیر ترجمہ صبیغ بن عسل ۶ /۳۸۷ وسنن الدارامی حدیث ۱۵۰ ۱/ ۵۱)
(۲؎ تہذیب دمشق ترجمہ صبیغ بن عسل داراحیاء التراث العربی بیروت ۶ /۳۸۷)
پھر صحت توبہ پر اطمینان کتنی مدت میں حاصل ہوتاہے صحیح یہ ہے کہ اس کے لئے کوئی مدت متعین نہیں کرسکتے جب اس شخص کی حالت کے لحاظ سے اطمینان ہوجائے کہ اب اس کی اصطلاح ہوگئی اس وقت اس سے دو قسم اخیر کے معاملات بر طرف ہوں گے،
فتاوٰی امام قاضی خاں پھر فتاوٰی عالمگیریہ میں ہے :
الفاسق اذا تاب لاتقبل شہادتہ مالم یمض علیہ زمان یظہر علیہ اثر التوبۃ والصحیح ان ذٰلک مفوض الی رائی القاضی ۳؎۔
بدکردار جب تائب ہوجائے تب بھی اس کی شہادت مقبول نہ ہوگی جب تک کہ کچھ زمانہ بیت جائے تاکہ اس پر توبہ کے آثار ہوجائیں، اور صحیح یہ ہے کہ یہ مسئلہ قاضی کی رائے پر منحصر ہے۔ (یعنی جب قاضی کو اس سے مکمل اطمینان ہوجائے توپھر شہادت مقبول ہوگی۔ مترجم) ۔ (ت)
(۳؎ فتاوٰی ہندیہ کتاب الشہادات الباب الرابع الفصل الثانی نورانی کتب خانہ پشاور ۳/۴۶۸)
ظاہر ہے کہ یہ بات نظر بحالات مختلف ہوجاتی ہے ایک سادہ دل راست گو سے کوئی گناہ ہوا اس نے توبہ کی اس کے صدقہ پر جلد اطمینان ہوجائے گا اور دروغ گو مکار کی توبہ کااعتبار نہ کریں گے اگر چہ ہزار مجمع میں تائب ہو،
امام اجل ملک العلماء ابو بکر مسعودکاشانی قدس سرہ، الربانی بدائع میں فرماتے ہیں : المعروف بالکذب لاعدالۃ لہ ولا تقبل شہادتہ ابدا وان تاب بخلاف من وقع فی الکذب سہوا اوابتلی بہ مرۃ ثم تاب ۱؎ واﷲ تعالٰی اعلم۔
جو کوئی دروغ گوئی یعنی جھوٹ بولنے میں مشہور ہو تو اس کے لئے کوئی عدالت نہیں لہذا کبھی بھی اس کی شہادت مقبول نہیں ہوسکتی اگر چہ تائب ہوجائے بخلاف اس شخص کے جس نے بھول کر جھوٹ کہہ دیا یا کبھی کبھار اس سے غلط بیان ہوگئی پھر اس نے توبہ کرڈالی (تو اس کی شہادت توبہ کرنےکے بعد مقبول ہوگی، مترجم) اور اللہ تعالٰی سب سے بڑاعالم ہے۔ (ت)
(۱؎ بدائع الصنائع کتاب الشہادۃ فصل اما الشرائط ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۶ /۲۶۹)
مسئلہ ۱۸: کیا فرماتے ہیں علمائے دین مسئلہ ذیل میں:
زید کہتاہے کہ حضرت محبوب سبحانی علیہ الرحمۃ صحابہ سے افضل ہیں اور ایصال نفع ونقصان کے مالک ہیں چنانچہ مجھ کو ان کی گیارھویں کرنے سے ترقی ہوئی، گیارھویں اورمولود میرا ایمان ہے۔ عمرو کہتاہےکہ حضرت محبوب سبحانی علیہ الرحمۃ صحابہ کرام سے افضل نہیں اور نہ مالک نفع وضرر ہیں البتہ ان کی مقدس روح کو فاتحہ شرینی وغیرہ کا ثواب پہنچانا موجوب خیر وبرکت ہے۔ گیارھویں اور مولود اقدس مروجہ داخل ایمان نہیں کیونکہ میں نے یہ دونوں اٰمنت باللہ کے معنی میں سے نہیں سنے، لیکن یہ بات ضرور ہے کہ ذکر ولادت جناب رسالتمآب علیہ افضل التحیات کا مشروع طور پر کرنا ایمان کے لوازمات سے ہے اور باعث فلاح دارین ہے ____ کس کا قول درست ہے؟ بینوا توجروا (بیا ن کروتاکہ اجرو ثواب پاؤ۔ت)
الجواب
حضور سیدنا غوث الاعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کو صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم سے افضل کہنا گمراہی ہے اور بعطائے الٰہی مالک نفع وضرر کہنے میں حرج نہیں، مسلمان جب ایسا لفظ کہتاہے اس کی مراد یہی ہوتی ہے نہ یہ کہ معاذاللہ بذات خود بے عطائے الٰہی مالک نفع وضرر جانے کہ یہ کفر خالص ہے اور کوئی مسلمان اس قصد سے نہیں کہتا۔ مجلس میلاد مبارک ویازد ہم شریف میں دو حیثیتیں ہیں ایک حیثیت خصوصی فعل اس طور پر تو فرائض حتی کہ نماز و روزہ بھی داخل ایمان وجزء ایمان نہیں، اٰمنت باللہ (میں اللہ پر ایمان لایا۔ ت) میں ان کا بھی ذکر صریح نہیں، دوسری حیثیت مقصدو منشاء یعنی محبت وتعظیم حضور پر نور سید المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو محبت وتعظیم اہلبیت وصحابہ واولیاء وعلماء رضی اللہ تعالٰی عنہ عنہم بھی اس میں داخل ہے یہ ضرور رکن ایمان ہے :
قال اﷲ تعالٰی وتعزر وہ وتوقروہ ۱؎۔
اللہ تعالٰی نے (قرآن مجید میں) ارشاد فرمایا ان کی (یعنی حضور اکرم علیہ الصلٰوۃ والسلام کی) تعظیم وتوقیر کرو۔ (ت)
(۱؎ القرآن الکریم ۴۸/ ۹)
وقال صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم لایؤمن احد کم حتی اکون احب الیہ من والدہ وولدہ والناس اجمعین ۲؎۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
اور حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا : تم لوگوں میں اس وقت تک کوئی ایمان دار نہیں ہوسکتا جب تک اس میں اس کے نزدیک اس کے والدین، اس کی اولاد او ر سب لوگوں سے زیادہ محبو ب نہ ہوجاؤ (یعنی وہ سب سے زیادہ مجھے محبوب رکھے)۔ اور اللہ تعالٰی سب سے زیادہ علم والا ہے۔ (ت)
(۲؎ صحیح البخاری کتاب الایمان باب حب الرسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم من الایمان قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۷)
مسئلہ ۱۹ تا ۲۲:
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ان مسائل میں :
(۱) زید نے ایک شخص کو حقہ بھر کردیا، شخص مذکور نے حقہ لے کر ایک شعر پڑھا، زید نے لاعلمی کی وجہ سے یہ کہا سمع اﷲ لمن ہمیں کیا، اس کے واسطے کیاحکم ہے؟
(۲) دیگرسوال یہ ہے کہ جس شخص کی قرابت داری رافضیوں سے ہو اور ان کے کھانے پینے میں اور زیست ومرگ میں بھی شامل ہو اور کوئی سمجھائے تو اس کا یہ جواب کہ ہم سے یہ ترک ہو نہیں سکتا،
(۳) اورمسئلہ سوم یہ ہے کہ جو شخص سود خور سے محبت قلبی رکھے اور بعد مرگ اس کے مال کی پیروی بہت سی کرے اس کے واسطے کیا حکم ہے؟
(۴) چہارم زید کی والدہ کا زید کی شادی کے وقت تک یہ عقیدہ تھا کہ حضرت علی شیر خدا کرم اللہ وجہہ کے برابر کسی صحابی کا رتبہ نہیں ہے۔ بینوا توجروا۔ (بیان کرو تاکہ اجروثواب پاؤ۔ ت)
الجواب
(۱) پہلا لفظ ناپاک جس نے بکا اسے نئے سرے سے کلمہ پڑھنا چاہئے اور اپنی عورت سے تجدید نکاح کرے
لا نہ استہزاء بکلمۃ الحمد الا لھی عزجلالہ
(اس لئے کہ یہ اللہ تعالٰی (کہ جس کا جلال ورعب غالب ہے) کے کلمہ حمد کے ساتھ مذاق ہے۔ ت)
(۲) رافضیوں سے میل جول حرام ہے اور اس کا مرتکب اگر رافضی نہ بھی ہو تو سخت درجہ کا فاسق فاجر ضرور ہے اور جب وہ اس پرا صرار کرتاہے تو مسلمانوں پر لازم ہے کہ خود اس سے ملنا جلنا ترک کردیں۔
قال اﷲ تعالٰی واما ینسینک الشیطن فلا تقعد بعدالذکرٰی مع القوم الظلمین ۱؎۔
اللہ تعالٰی نے (قرآن مجید میں ) ارشادفرمایا : اگر شیطان تمھیں بلاوے میں ڈال دے تو پھر یاد آنے پرظالموں کے پاس مت بیٹھو۔ (ت)
(۱؎ القرآن الکریم ۶ /۶۸)
(۳) سود خور سے محبت اگر پنی کسی قرابت، رشتہ، جائز احسان کی وجہ سے ہے تو اس قدر پر انسان مجبور ہے اور بے اس کے اس سے بھی خلط ملط منع ہے۔
فی التفسیر الاحمدی بما ذکر شمول الکریمۃ المتلوۃ لکل کافر والمبتدع والفاسق ان القعود مع کلہم ممنوع ۲؎۔
تفسیر احمدی میں یہ ذکر کرنے کے بعد کہ اوپر ذکرکردہ آیہ کریمہ ہر کافر بدعتی اور فاسق کو شامل ہے یہ بیان فرمایا کہ ان سب کے پاس بیٹھنا شرعا منع ہے۔ (ت)
(۲؎ التفسیرات الاحمدیہ تحت آیۃ وما علی الذین یتقون من حسابہم مطبعہ کریمیہ بمبئی ص۳۸۸)
اور بعد مرگ اس کے مال کی پیروی سے اگر مراد یہ ہے کہ اس کا سود جو لوگوں پر پھیلا ہوا تھا وصول میں کوشش کی جب تو یہ کوشش کرنے والا بھی سود خوار کی طرح ملعون ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
لعن اﷲ اکل الربا ومؤکلہ وکاتبہ وشاھدیہ ۳؎۔
سود کھانے والے، کھلانے والے، لکھنے والے اور اس کی گواہی دینے والے سب پراللہ تعالٰی کی لعنت ہے۔ (ت)
اور اگر کسی مال حلال کے لئے کوشش کی تو حرج نہیں۔
(۳؎ صحیح مسلم کتاب البیوع با ب الرباء قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۲۷)
(۴) زید کی والدی عقیدہ مذکورہ کے سبب اہلسنت سے خارج اور ایک گمراہ فرقے تفضیلیہ میں داخل ہے جن کو ائمہ دین نے رافضیوں کا چھوٹا بھائی کہا ہے مگر اس سے زید پر کچھ الزام نہیں جبکہ وہ اس عقیدہ میں شریک نہ ہو۔ واللہ تعالٰی اعلم۔