Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۱(کتاب الحظر والاباحۃ )
11 - 144
سوم جب یہ واقع میں تائب ہولے اور نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا :
التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ ۱؎۔
گناہ سے توبہ کرنے والا ایساہے جیسے اس نے گناہ کیا ہی نہیں۔ ت(ت)
(۱؎کنز العمال     برمزھ 'ق' طب عن ابن مسعود     حدیث ۱۰۲۴۹     مؤسسۃ الرسالۃ بیروت     ۴ /۲۲۰)
تو اب مسلمانوں کے وہ معاملات نظر بواقع بیجا ہوں گے اور انھیں اس بیجا پر خود یہ شخص حامل ہوا کہ اگر اپنی توبہ کا اعلان کردیتاہے تو کیوں وہ معاملات رہتے تو لازم ہوا کہ انھیں مطلع کردے جیسے کسی کے کپڑے میں نجاست ہو اور وہ مطلع نہیں تو جاننے والے پر اسے خبر دینی ضروری ہے۔
چہارم ایسے گناہوں میں جو بددینی ہے جیسے صور ت مسئولہ میں زید کے وہ کلمات خبیثہ ان میں ایک اور سخت آفت کا اندیشہ ہے کہ اگر یہ مرگیا اور مسلمانوں پر اس کی توبہ ظاہر نہیں اور بد مذہب کی مذمت اس کے مرنے پر بھی جائز بلکہ کبھی شرعا واجب ہے تو اہل سنت اسے برا اور بددین اور گمراہ کہیں گے اور ان کے سید ومولٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے انھیں زمین میں اللہ عزوجل  گواہ بتادیا ہے آسمان میں اس کے گواہ ملائکہ ہیں اور زمین میں اہلسنت تو ان کی گواہی سے اس پر سخت ضرر کا خوف ہے اور وہ خود اس میں تقصیر وار ہے کہ اعلان توبہ سے ان کا قلب صاف  نہ کردیا، رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم تشریف فرما تھے ایک جنازہ گزرا حاضرین نے اس کی تعریف کی نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ سلم نے فرمایا:
''وجبت''
واجب ہوگئی، ایک دوسرا جنازہ گزرا اس کی مذمت کی نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: ''وجبت'' واجب ہوگئی، امیر المومنین فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عرض کی : یا رسول اللہ کیا واجب ہوگئی۔ فرمایا:
ھذا اثنیتم علیہ خیرا فوجبت لہ الجنۃ و ھذا اثنیتم علیہ شرا فوجبت لہ النار انتم شہداء اﷲ فی الارض ۔رواہ احمد والشیخان ۱؎ عن انس رضی ﷲ تعالٰی عنہ۔
پہلے کی تم نے تعریف کی اس کے لئے جنت واجب ہوگئی، دوسرے کی مذمت کی اس کے لئے دوزخ واجب ہوگئی، تم اللہ تعالٰی کے گواہ ہو زمین میں، (امام احمد،بخاری اورمسلم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حوالہ سے اسے روایت کیا۔ ت)
 (۱؎ صحیح البخاری   کتاب الجنائز     باب ثناء الناس علی المیت     قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱ /۱۸۳)

(صحیح مسلم          کتاب الجنائز  باب فی وجوب الجنۃ والنار بشہادۃ المومنین الخ قدیمی کتب خانہ کراچی      ۱ /۳۰۸)
اور یہ نہ بھی ہو تو اتنا ضرور ہے کہ علماء وصلحاء اہلسنت اس کی تجہیز میں شرکت اور اس کے جنازہ پر نماز سے احتراز کریں گے شفاعت اخیار سے محروم رہے گا، یہ شناعت کیا کم ہے، والعیاذ باﷲ تعالٰی (اللہ کی پناہ۔ ت)

پنجم اصل یہ کہ گناہ علانیہ دوہرا گناہ ہے کہ اعلان گناہ دوہرا گناہ بلکہ اس گناہ سے بھی بدتر گناہ ہے۔رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں :
کل امتی معافی الاالمجاہرین، رواہ الشیخان ۲؎ عن ابی ھریرۃ والطبرانی فی الاوسط عن ابی قتادۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہما۔
میری سب امت عافیت میں ہے سوان کے جو گناہ آشکاراکرتے ہیں (بخاری ومسلم نے حضرت بوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حوالے سے اور امام طبرانی نے الاوسط میں حضرت ابوقتادہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حوالہے سے اسے روایت کیا ہے۔ ت)
 (۲؎ صحیح البخاری   کتاب الادب باب ستر المؤمن علی نفسہ     قدیمی کتب خانہ کراچی    ۲ /۸۹۶)

(صحیح مسلم         کتاب الزہد باب عقوبۃ من یامر بالمعروف الخ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۲ /۴۱۲)

(المعجم الاوسط         حدیث ۴۴۹۵         مکتبۃ المعارف ریاض    ۵ /۵۲۔ ۲۵۱)
نیز حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا :
لایزال العذاب مکشوفا عن العباد لما استتروا بمعاصی اﷲ فاذا اعلنوھا استر جبوا عذاب النار، رواہ فی مسند ۱؎ الفردوس عن المغیرۃ بن شعبۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔
ہمیشہ اللہ کا عذاب بندوں سے دور رہے گا جبکہ وہ اللہ تعالٰی کی نافرمانیوں کو ڈھانپیں  اور چھپائیں گے پھر جب علانیہ گناہ ور نافرمانیاں کریں گے تو وہ عذاب کے مستحق اور سزا وار ہوجائیں گے محدث دیلمی نے مسند الفردوس میں حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حوالے سے روایت کیا۔ (ت)
 (۱؎ الفردوس بما ثور الخطاب حدیث۷۵۷۸  دارالکتب العلمیہ بیروت    ۵/ ۹۶)
اعلان پر باعث نفس کہ جرأت وجسارت وسرکشی وبے حیائی اور مرض کا علاج ضد سے ہوتاہے جب مسلمانوں کے مجمع میں اپنی ندامت وپشیمانی ظاہر کرے گا اور اپنے قول یا فعل یا عقیدہ کی بدی وشناعت پر اقرار لائے گا تو اس سے جو انکساری پیداہوگا اس سرکشی کی دواہو گا، فکر حاضر میں اس وقت اتنی حکمتیں خیال میں آئیں اور شریعت مطہرہ کی حکمتوں کو کون حصر کرسکتاہے ان میں اکثر وجوہ یہ ہوتاہے کہ جن جن لوگوں کے سامنے گناہ کیا ہے ان سب کے مواجدہ میں توبہ کرے مگر یہ کثرت مجمع کی حالت میں مطلقا اور بعض صورتیں ویسے بھی حرج سے خالی نہیں اور حرج مدفوع بالنص ہے تاہم اس قدر ضرور چاہئے کہ مجمع توبہ مجمع گناہ کے مشابہ ہو سب میں ادنٰی درجہ کا اعلان اگر چہ دو کے سامنے بھی حاصل ہوسکتاہے۔
کما اجاب علماؤنا تمسک الامام مالک فی اشتراط الاعلان بحدیث اعلنوا النکاح ان من اشہد فقد اعلن کما فی مختصر الکرخی ومبسوط الامام محرر المذھب وغیرھما۔
جیساکہ ہمارے علماء کرام نے حضرت امام مالک کو ان کے استدلال سے جواب دیا کیونکہ امام مالک نے حدیث
اعلنوا النکاح
(لوگو! نکاح کا اعلان کیا کرو) سے نکاح کے لئے اسے شرط قرار دیا ہے ہمارے ائمہ نے فرمایا: جو شخص نکاح پر گواہ بنائیگا تو بلاشبہہ اس نے نکاح کا اعلان کردیا۔(گویا حدیث میں اعلان سے تشہیر مراد ہے۔ مترجم) جیسا کہ مختصر کرخی اور مذہب تحریر کرنے والے امام محمد رحمہۃ اللہ تعالٰی علیہ کی مبسوط اور ان دو کے علاوہ دوسری کتابوں میں مذکورہے۔ (ت)
مگر وہ مقاصد شرح یہاں بے مشاکلت ومشابہت حاصل نہ ہوں گے ولہذا علامہ مناوی نے فیض القدیر میں اس حدیث کی شرح میں لکھا :
احدث عندھاتوبۃ تجانسہا مع رعایۃ المقابلۃ وتحقق المشاکلۃ ۱؎ اھ مختصراً۔
گناہ کے ہوتے ہی ایسی نئی توبہ کریں جو اس گناہ کی مجانس (اس کی مثل) ہو باوجود یکہ اس میں رعایت مقابلہ وتحقق مشاکلت ہو( مختصرا عبارت مکمل ہوئی)۔ (ت)
 (۱؎ فیض القدیر شرح الجامع الصغیر للمناوی حدیث ۷۶۳         دارالمعرفۃ بیروت    ۱ /۴۰۶)
سو کے سامنے گناہ کیا اور ایک گوشہ میں دو کے آگے اظہار توبہ کردیا تو اس کا اشتہار مثل اشتہار گناہ نہ ہو اور وہ فوائد کہ مطلوب تھے پورے نہ ہوئے بلکہ حقیقۃ وہ مرض کہ باعث اعلان تھا توبہ میں کمی اعلان پر بھی وہی باعث ہے کہ گناہ تو دل کھول کر مجمع کثیر میں کرلیا اور اپنی خطا پر اقرار کرتے عار آتی ہے چپکے سے دو تین کے سامنے کہہ لیا وہ انکساری کہ مطلوب شرع تھا حاصل ہونا درکنار ہنوز خود داری واستنکاف باقی ہے اورجب واقع ایسا ہو تو حاشا توبہ سر کی بھی خبر نہیں کہ وہ ندامت صادقہ چاہتی ہے اور اس کا خلوص مانع استنکاف، پھر انصاف کیجئے تو اس کا یہ کہنا کہ میں نے توبہ کرلی ہے اور اس مجمع میں توبہ نہ کرنا خود بھی اسی خود داری واستنکاف کی خبر دے رہا ہے ورنہ گزشتہ توبہ کا قصہ پیش کرنا گواہوں کے نام گنانا ان سے تحقیقات پر موقوف رکھنا مگر یہ جھگڑا آسان تھا یا مسلمانوں کے سامنے یہ دو حروف کہہ لینا کہ الہٰی! میں نے اپنے ان ناپاک اقوال سے توبہ کی، پھر یہاں ایک نکتہ اور ہے اس کے ساتھ بندوں کے معاملے تین قسم ہیںِ ایک یہ کہ گناہ کی اس کی سزا دی جائے اس پر یہاں قدرت کہاں ، دوسرے یہ کہ اس کے ارتباط واختلاط سے تحفظ وتحرز  کیا جائے کہ بد مذہب کا ضرر سخت معتذر ہوتاہے، تیسرے یہ کہ اس کی تعظیم وتکریم مثل قبول شہادت و اقتدائے نماز وغیرہ سے احتراز کریں، فاسق و بدمذہب کے اظہار توبہ کرنے سے قسم اول تو فورا موقوف ہوجاتی ہے
الا فی بعض صورت مستثنیات مذکورۃ فی الدر وغیرہ
(مگر بعض ان صورتوں میں جو درمختاروغیرہ میں مذکورہیں۔ ت) مگر دو قسم باقی ہنوز باقی رہتی ہیں یہاں تک کہ اس کی صلاح حال ظاہر ہو اور مسلمان اس کے صدق توبہ پر اطمنان حاصل ہو اس لیے کہ بہت عیار اپنے بچاؤ اور مسلمانوں کو دھوکا دینے کے لئے زبانی توبہ کرلیتے ہیں اور قلب میں وہی فساد بھرا ہواہے۔ عراق میں ایک شخص صبیغ بن عسل تمیمی کے سر میں کچھ خیالات بد مذہبی گھومنے لگے، امیر المومنین فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حضور عرضی حاضر کی گئی طلبی کاحکم صادر فرمایا وہ حاضر ہوا امیر المومنین نے کھجور کی شاخیں جمع کررکھیں اور اسے سامنے حاضر ہونے کا حکم دیا فرمایا تو کون ہے؟ کہا میں عبداللہ صبیغ ہوں، فرمایا اور میں عبداللہ عمر ہوں اور ان شاخوں سے مارنا شروع کیا کہ خون بہنے لگا پھر قید خانے بھیج دی ، جب زخم اچھے ہوئے پھر بلایا اور ویسا ہی مارا پھر قید کردیا سہ بارہ  پھر ایسا ہی کیا یہاں تک کہ وہ بولا یا امیر المومنین! واللہ اب وہ ہوا میرے سر سے نکل گئی، امیر المومنین نے اسے حاکم یمن حضرت ابوموسٰی اشعری رضی االلہ تعالٰی عنہ کے پاس بھیج دیا اور حکم فرمایا کہ کوئی مسلمان اس کے پاس نہ بیٹھے وہ جدھر گزرتا اگر سو آدمی بیٹھے ہوتے سب متفرق ہوجاتے یہاں تک کہ ابوموسٰی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عرضی بھیجی کہ یا امیر المومنین! اب اس کا حال صلاح پر ہے اس وقت مسلمانوں کو ان کے پاس بیٹھنے کی اجازت فرمائی، دارمی سنن اور نصر مقدسی وابوالقاسم اصبہانی دونوں کتاب الحجہ ابن الابناری کتاب المصارف اور لالکائی کتاب السنۃ اور ابن عساکر تاریخ دمشق میں سلیمان بن یسار سے راوی :
رجل من بنی تمیم یقال لہ صبیغ بن عسل قدم المدینۃ وکان عندہ کتب فکان یسأل عن متشابہ القراٰن فبلغ ذٰلک عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہ فبعث الیہ وقد اعدلہ عراجین النحل فلما دخل علیہ قال من انت قال انا عبداﷲ صبیغ قال عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہ وانا عبداﷲ عمر واوما الیہ فجعل یضربہ بتلک العراجین فما زال بضربہ حتی فما زال یضربہ حتی شجہ وجعل الدم یسیل علی وجہہ فقال حسبک یا امیر المومنین واﷲ فقد ذھب الذی اجد فی رأسی ۱؎۔ ولنصر وابن عساکر عن ابی عثمان النہدی عن صبیغ کتب یعنی امیرالمومنین الی اھل البصرۃ ان لاتجالسوا صبیغا قال ابوعثمٰن فلوجاء ونحن مائۃ لتفرقناعنہ ۱؎۔
قبیلہ بنی تمیم کا ایک شخص جس کو ''صبیغ بن عسل'' کہا جاتاتھا مدینہ منورہ آیا اس کے پاس کچھ کتابیں تھیں اور قرآن مجید کے متشابہات کے بارے میں پوچھتا تھا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ تک یہ بات پہنچی تو آپ نے ایک آدمی بھیج کر اسے اپنے ہاں بلالیا اور اس کے لئے کھجوروں کی چند بڑی ٹہنیاں تیار رکھیں جب وہ امیر المومنین کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا: تم کون ہو؟ اس نے جواب دیا، میں عبداللہ صبیغ ہوں، حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا: میں اللہ تعالٰی کا بندہ عمر ہوں، پھر اس کی طرف بڑھے اور ان ٹہنیوں سے اسے مارنے لگے اسے مسلسل مارتے رہے یہاں تک کہ وہ زخمی ہوگیا اور اس کے چہرے پر خون بہنے لگا، اس نے کہا بس بھی کریں کافی ہوگیا ہے امیر المومنین ! خد ا کی قسم میں اپنے دماغ میں جو کچھ پاتا تھا وہ نکل گیا ہے یعنی ختم ہوگیا ہے نصر مقدسی اور ابن عساکر نے ابوعثمان نہدی کے حوالے سے صبیغ سے روایت کی، امیر المومنین نے اہل بصرہ کو لکھا کہ وہ صبیغ کے پاس نہ بیٹھاکریں، چنانچہ ابو عثمان نے بیان کیا (کہ اس حکم کے بعد لوگوں کی یہ حالت ہوگئی کہ) اگر وہ شخص آتا او رہم ایک سو کی تعداد میں موجود ہوتے تو ہم ادھر ادھر بکھر جاتے،
 (۱؎ تنہذیب تاریخ دمشق الکبیر         ترجمہ صبیغ بن عسل     داراحیاء التراث العربی بیروت    ۶ /۳۸۷)

(سنن الدارمی             حدیث ۱۴۶         دارالمحاسن للطباعۃ القاہرۃ        ۱ /۵۱)

 (۱؎ تہذیب دمشق الکبیر     ترجمہ صبیغ بن عسل     داراحیاء التراث العربی بیروت    ۶ /۳۸۷)
Flag Counter