فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۱(کتاب الحظر والاباحۃ ) |
مسئلہ ۱۷: از گونڈا ملک اودھ مرسلہ مسلمانان گونڈا عموما وحافظ عبدالعزیز صاحب مدرس انجمن اسلامیہ گونڈا ذوالحجہ ۱۳۲۴ھ زید نے پیشتر جس کو عرصہ قریب چار سال کے ہو ا تین چارشخصوں کے سامنے یہ کلمات توہین وبے ادبی کے کہے کہ جملہ انبیاء علیہم السلام نے گناہ کیا اور گناہ میں مبتلا رہے جب بہت کچھ کہا گیا تو پھر زید نے بلا توبہ یہ کلمہ کہا کہ اچھا ہی نبی معصوم سہی مگر ہم سوائے انبیاء کے کسی کو قطعی جنتی نہیں کہہ سکتے۔ اور یہ کلمات ساٹھ ستر مسلمانوں کے سامنے مکرر سہ کررکہے، اس کا جواب زید کو دیا گیا کہ تم نے یہ بھی خلاف کلام اللہ وحدیث شریف کے کہاکیونکہ عشرہ مبشرہ واصحاب بدر وشہداء وغیرہ وغیرہ ضرور قطعی جنتی ہیں اور ان کی نسبت حدیث وکلام پاک میں حکم آچکا ہے مگر زید نے ایک نہ مانی اور یہ ہی کہتا رہا کہ ہم ہر گز نہیں کہہ سکتے بلکہ فوجداری کرنے کو مستعد وامادہ ہوگیا، بروقت استفسار علمائے دین نے فتوٰی دیا کہ زید ایسے کلمات کہنے سے قطعا بد مذہب وگمراہ وبے دین وخارج ازا دائرہ اہلسنت وجماعت ہے۔ اور اس کے پیچھے نماز ناجائز کیا بلکہ بالکل باطل ہے اس کو مناسب ہے کہ توبہ کرے جبکہ زید مذکور کو توبہ کرنے کے واسطے کہا گیا تو اول تو ا س نے کلمات بالا کے کہنے سے انکارکیا جب سب لوگوں پر پورے طور سے کلمات ناشائستہ بالا کا کہنا ثابت ہوگیا تو پھر یہ حیلہ کیا کہ فلاں فلاں دوشخصوں کے روبروہم نے توبہ کرلی، اور ان دو شخصوں کا نام لیا جو زید کے دست واحباب ہیں اور جنھوں نے سابقا مثل زید کے یہ کہا تھا کہ ایسے کلمات زید نے نہیں کہے اور پھر وہی دونوں شخص کہنے لگے کہ زید نے توبہ کرلی ہے۔ لیکن دیگر صاحبان نے اس کہنے زید اور ان کے احبابوں کے کہنے کو تسلیم نہ کیا اور اس کے پیچھے نماز پڑھنی ترک کردی جب علماء سے دریافت کیا کہ زیددو شخص کو گواہ دتیاہے کہ ان کے رو برو توبہ کرلی وہ شاہد ہیں تویہ توبہ لائق پذیر ائی ہے یانہیں۔ تو عالم صاحب نے ارقام فرمایا کہ جب زید نے کلمات ضلالت علانیہ ساٹھ ستر مسلمانو کے مجمع میں کہے اور مسلمانوں کواپنی گواہی پر گواہ کرلیا اس کو لازم ہے کہ یونہی علی الاعلان توبہ کرکے مسلمانوں کو ان کلمات کے ضلالت ہونے اور اپنے رجوع کرنے پر گواہ کرلے جبکہ خود زید زندہ ہے تو توبہ کرسکتاہے شہادت کی کیا حاجت ہے۔ اور مفتی صاحب نے یہ حدیث شریف بھی ارقام فرمادی ہے:
اذا علمت سیئۃ فاحدث عندھا التوبۃ السر بالسر والعلانیۃ بالعلانیۃ،رواہ الطبرانی ۱؎فی معجمہ الکبیر۔
جب تم کوئی گناہ کرو تو اسی وقت توبہ کرو پوشیدہ گناہ کی تو بہ پوشیدگی ہے اور اعلانیہ گناہ کی توبہ اعلانیہ، چنانچہ امام طبرانی نے اپنی معجم کبیر میں اسے روایت کیا ہے۔ (ت)
(۱؎ المعجم الکبیر عن معاذ بن جبل حدیث ۳۳۱ المکتبہ الفیصلیۃ بیروت ۲۰ /۱۵۹) (کنز العمال برمزحم فی الفردوس حدیث ۱۰۱۸۰ مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۴ /۲۰۹)
اور مولوی صاحب نے یہ کل مسئلہ تحفہ حنفیہ میں طبع کراکے شائع کرادیا ہے ۔ اب پھر بعد چار سال کے دو تین آدمیوں کے سامنے کلمات لاطائل کا اقرار کرکے توبہ کرلی ہے اور یہ تین شخص ضرور معتبر اور معتمد ہیں مگر جس وقت زید نے ایک مجمع میں وہ کلمات بیہودہ کہے تھے اس وقت یہ صاحب اس مجمع میں نہ تھے اور معاملہ کو ضرورسنا تھا، ایک مفتی صاحب سے جو اس بارہ میں استفسار کیا گیا تو وہ فرماتے ہیں کہ جب دو تین شخص معتبر توبہ کے شاہد ہیں اور وہ اس کی توبہ کی خبر دیتے ہیں تو یہ بھی ایک قسم کا اعلان ہے جب مجمع میں کہتاہے کہ میں نے فلاں فلاں کے رو برو توبہ کرلی ہے تو اخبار عن التوبۃجو مجمع میں ہوا بمنزلہ توبہ کے ہے پس اعلان حاصل ہوگیا اس لئے یہ توبہ معتبر وصحیح ہوگی اس کا اعتبار کرلینا چاہئے اگر چہ اس فرمان عالم صاحب کو مان لیا گا مگر دوسرے صاحبوں نے کہا کہ آپ سے بھی استفسار لیا جائے یعنی دیگر علماء سے تاکہ کامل اطمینان ہوجائے۔
الجواب اقول : وباﷲ التوفیق (میں اللہ کی توفیق ہی سے کہتاہوں۔ ت) اس مسئلہ میں مجملا تحقیق حق یہ ہے کہ وہ گناہ جو خلق پربھی ظاہر ہو جس طرح خود اس کے لئے وہ تعلق ہیں ایک بندے اور خدامیں کہ اللہ عزوجل کی نافرمانی کی اس کا ثمرہ حق جل وعلا کی معاذا للہ ناراضی اس کے عذاب منقطع یا ابدی کا استحقاق دوسرا بندے اور خلق میں کہ مسلمانوں کے نزدیک وہ آثم وظالم یا گمراہ کافربحسب حیثیت گناہ ٹھہرے اور اس کے لائق سلام وکلام وتعظیم وکرام واقتدائے نماز وغیرہاامور ومعاملات میں اس کے ساتھ انھیں برتاکرنا ہو۔ یوہیں اس سے توبہ کے لئے بھی دو رخ ہیں، ایک جانب خدا، اس کا رکن اعظم بصدق دل اس گناہ سے ندامت ہے فی الحال اس کا ترک اور اس کے آثار کامٹانا اورآئندہ کبھی نہ کرنے کا یہ صحیح عزم، یہ سب باتیں سچی پشیمانی کو لازم ہیں۔ ولہذا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
الندم توبۃ۱؎ رواہ احمد والبخاری فی التاریخ وابن ماجۃ والحاکم عن ابن مسعود والحاکم والبیہقی فی شعب الایمان عن انس والطبرانی فی الکبیر وابونعیم فی الحلیۃ عن ابی سعید الانصاری رضی اﷲ تعالٰی عنہم وھو حدیث صحیح۔
ندامت توبہ ہے (امام احمد اور امام بخاری نے تاریخ میں، ابن ماجہ اورحاکم نے حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے اسے روایت کیا امام حاکم اورامام بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ کی سند سے اسے روایت کیا۔ امام طبرانی نے معجم کبیر میں اور ابونعیم نے حلیہ میں حضرت ابوسعیدانصاری رضی اللہ تعالٰی عنہم سے اسے روایت کیا اور وہ صحیح حدیث ہے۔ (ت)
(۱؎ مسند امام احمد عن عبداللہ بن مسعود رضی اللہ دارالفکر بیروت ۱ /۳۷۶) (سنن ابن ماجہ کتاب الزھد باب ذکر التوبۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۳۲۳) (المستدرک للحاکم کتا ب التوبۃ والانابۃ دارالفکر بیروت ۴ /۲۴۳) (شعب الایمان حدیث ۷۱۸۳ دارالکتب العلمیہ بیروت ۵ /۴۳۷)
یعنی وہی سچی صادقہ ندامت کہ بقیہ ارکان توبہ کو مستلزم ہے اسی نام تو بۃ السر ہے۔ دوسرا جانب خلق کہ جس طرح ان پر گناہ ظاہر ہوا اور ان کے قلوب میں اس کی طرف سے کشیدگی پیدا ہوئی اور معاملات میں اس کے ساتھ اس کے گناہ لائق انھیں احکام دئے گئے اسی طرح ان پر اس کی توبہ ورجوع ظاہر ہو کہ ان کے دل اس سے صاف ہوں اور احکام حالت برأت کی طرف مراجعت کریں یہ توبہ علانیہ ہے توبہ سر سے تو کوئی گناہ خالی نہیں ہوسکتا اور گناہ علانیہ کے لئے شرع نے توبہ علانیہ کاحکم دیا ہے امام احمد کتاب الزہد میں بسند حسن اور طبرانی معجم الکبیراور بیہقی شعب الایمان میں بسند جید سیدنا معا ذ بن جبل سے اور ویلمی مسند الفردوسی میں انس بن مالک سے موصولا اور امام احمد زہد میں عطار بن یسار سے مرسلا بالفاظ عدیدہ مطولہ ومختصرہ راوی کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں :
علیک بتقوی اﷲ عزوجل مااستطعت و اذکر اﷲ عزوجل عند کل حجر وشجر واذا علمت سیئۃ فاحدث عندھا تو بۃ السر بالسر والعلانیۃ بالعلانیۃ ۱؎۔ ھذا لفظ احمد عن معاذ وفی مرسلہ من قولہ اذا عملت سیئۃ الحدیث ۲؎۔ ولفظ الدیلمی اذا احد ثت ذنبا فاحدث عند توبۃ ان سرا فسر وان علانیۃ فعلانیۃ ۳؎۔
اللہ عزوجل سے تقوی لازم رکھ اور ہر پتھر اور پیڑ کے پاس اللہ کی یاد کر، اور جب کوئی گناہ کرے اس وقت توبہ لا۔ خفیہ کی خفیہ اور آشکارا کی آشکارا۔ (یہ حضرت معاذ کے حوالے سے مسند احمد کے الفاظ ہیں اور مسند احمد کی مرسل حدیث میںان کے
قول اذا عملت
(الحدیث) تک الفاظ میں اور محدث ویلمی کے الفاظ ہیں) جب تجھ سے نیا گناہ ہو تو فورا نئی توبہ کر۔ نہاں کی نہاں، اور عیاں کی عیاں۔
(۱؎ الزھد لاحد بن حنبل مقدمہ الکتاب دارالدیان للتراث القاہرۃ ص۳۵) (۲؎ اتحاف السادۃ المتقین برمزاحمد فی الزھد عن عطاربن یسار مرسلا دارالفکر بیروت ۸/ ۶۰۳) (۳؎ کنز العمال بحوالہ الدیلمی عن انس حدیث ۱۰۲۴۸ موسسۃ الرسالہ بیروت ۴ /۲۲۰)
اقول: وباﷲ التوفیق (اللہ تعالٰی کی عطا کردہ توفیق ہی سے میں کہتاہوں۔ت) اس حکم میں بکثرت حکمتیں ہیں: اول اصلاح ذات بین کا حکم ہے یعنی آپس میں صفائی اور صلح رکھو، یہ گناہ علانیہ میں توبہ علانیہ ہی پر موقوف کہ جب مسلمان اس کے گناہ سے آگاہ ہوئے اگر توبہ سے وقاقف نہ ہوں تو ان کے قلوب اس سے ویسے ہی رہیں گے جیسے قبل توبہ تھے۔ دوم جب وہ اسے برا سمجھتے ہوئے ہیں تو اس کے ساتھ وہی معاملات بعد وتنفر رکھیں گے جو بدون کے ساتھ درکار ہیں علی الخصوص بد مذہب لوگ جیسا زید کا حال ہے یہ بہت برکات سے محرومی کا باعث ہوگا۔