کتاب الحظروالاباحۃ
(ممنوع اور مباح کاموں کا تفصیل بیان)
اعتقادات وسیر ، ایمان ،کفر، شرک، تقدیر، ردت، ہجرت، سنیت، گناہ، توبہ وغیرہا سے متعلق مسائل
مسئلہ ۱: ۱۹ رجب ۱۳۰۵ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک برات میں کچھ لوگ جمع تھے، ان میں ایک جذامی تھا، لوگوں نے اس کے ساتھ کھانا پسند نہ کیا۔ ایک شخص مصر ہوا، جب بحث بڑھی تو براتیوں نے اس سے کہا واسطے خدا اور رسول مقبول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے اس وقت اسے علیحدہ کردو اور صاحب مکان کاکھانا خراب نہ کرو۔ وہ بولا ہم خدا ار رسول کو نہیں جانتے۔ اس وقت سب نے کہا یہ شخص کلمہ کفر بولا جذامی کے ساتھ اسے بھی الگ کردیا اور اپنے جلسہ سے نکال دیا چند شخص اور بھی اس کے شریک ہوکر چلے گئے اس صورت میں اس شخص اور اس کے شریکوں کے لئے کیاحکم ہے ؟ بینوا توجروا (بیان فرماؤ تاکہ اجر پاؤ)
الجواب : ہر چند جذامی کے ساتھ کھانا جائز ہے بلکہ خود حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے مجذوم کو اپنے ساتھ کھلایا اور فرمایا :
کل معی بسم اﷲ ثقۃ باﷲ وتوکلا علی اﷲ۔ رواہ ابوداؤد والترمذی۱؎ وابن ماجہ بسند حسن وابن حبان والحاکم وصححاہ۔
میرے ساتھ ہو کر اللہ تعالی کانام لے کر کھائے اللہ تعالی پر اعتماد اور اس پر بھروسا رکھتے ہوئے ابوداؤد، ترمذی اور ابن ماجہ نے اچھی سند کے ساتھ اسے روایت کیا ہے۔ ابن حبان اور حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے (ت)
(۱؎ جامع الترمذی کتاب الاطعمۃ باب ماجاء فی الاکل مع المجذوم امین کمپنی دہلی ۲ /۴)
(سنن ابی داؤد کتاب الکہانۃ والطہر آفتاب عالم پریس لاہور ۳ /۱۹۱)
(سنن ابن ماجہ ابواب الطب باب الجذام ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۲۶۱)
یہاں تک کہ اگر بقصد تواضع وتوکل واتباع ہو تو ثواب پائے گا۔
اخرج الطحطاوی عن ابی ذر رضی اﷲ تعالٰی عنہ عن النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کل مع صاحب البلاء تواضعا لربک و ایمانا ۲؎۔
امام طحطاوی نے حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حوالہ سے حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام سے تخریج فرمائی کہ صاحب مصیبت کے ساتھ کھاؤ اپنے پروردگار کے لئے عجز وانکساری کرتے ہوئے اور اس پر یقین رکھتے ہوئے (ت)
(۲؎ شرح معانی الآثار لطحطاوی الکراہیۃ باب الاجتناب من ذی واء الطاعون الخ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۲ /۴۱۷)
مگر خواہی نخواہی اس کے ساتھ کھانا ضرور بھی نہیں بلکہ جس کی نظر اسباب پر مقتصر ہو اور خدا پر سچاتوکل نہ رکھتا ہو اس کے حق میں بچنا ہی مناسب ہے نہ یہ سمجھ کر کہ بیماری اڑ کر لگ جاتی ہے۔ کہ یہ خیال تو باطل محض ہے۔ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے صحیح حدیثوں میں اسے ردفرمایا:
قال صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم لاعدوٰی، اخرجہ احمد والشیخان۳؎ وابوداؤد عن ابی ہریرۃ واحمد بن مسلم عن جابر بن عبداﷲ وعن السائب عن زید رضی اﷲ تعالٰی عنہم قال صلی اﷲ تعالٰی علیہ سلم فمن اعدی الاول اخرجہ الشیخان۱؎ وابوداؤد عن ابی ہریرۃ ایضا رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔
حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کسی مرض میں تعدیہ نہیں۔ امام احمد، بخاری، مسلم اور ابوداؤد نے حضرت ابوہریرہ سے اس کی تخریج فرمائی، مسند احمد اور مسلم نے حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت فرمائی اور حضرت سائب بن یزید سے بھی (للہ تعالٰی ان سب سے راضی ہو) حضور اقدس نے ارشاد فرمایا پہلے اونٹ میں تعدیہ مرض کیسے ہوا۔ بخاری، مسلم اور ابوداؤد نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے اسکی تخریج فرمائی۔ (ت)
(۳؎ صحیح البخاری کتاب الطب باب لجذام قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۵۸۰)
(صحیح مسلم کتاب السلام باب لاعدوی الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۲۳۰)
(۱؎صحیح البخاری کتاب الطب باب لاعدوٰی قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۸۵۹)
(صحیح مسلم کتاب السلام باب لاعدوٰی قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۲۳۰)
بلکہ اس نظر سے کہ شائد قضائے الٰہی کے مطابق کچھ واقع ہوا ور اس وقت شیطان کے بہکانے سے یہ سمجھ میں آیا کہ فلاں فعل سے ایسا ہوگیا ورنہ نہ ہوتا تو اس میں دین کا نقصان ہوگا۔
فان ''لو'' تفتح عمل الشیطان قالہ النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ۔
لوگو! حرف ''لو'' سے بچوں کیونکہ یہ شیطان کاموں کا دروازہ کھول دیتاہے۔ حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے یہ فرمایا۔ (ت)
غرض قوی الایمان کو توکلا علی اللہ اس سے مخالطت میں کچھ نقصان نہیں، اور ضعیف الاعتقاد کے حق میں اپنے دین کی احتیاط کو احتراز بہتر، ولہذا سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیںـ:
کوڑھے سے اسی طرح بھاگو جس طرح تم شیر سے بھاگتے ہو، امام بخاری نے حضرت ابوہریرہ کے حوالہ سے اس کی تخریج فرمائی۔ (ت)
(۲؎ صحیح البخاری کتاب الطب باب الجذام قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۸۵۰)
دوسری حدیث میں ہے:
اتقوا صاحب الجذام کما یتقی السبع اذا ھبط وادیا فاھبطوا غیرہ رواہ ابن سعد فی الطبقات۳؎ عن عبداﷲ بن جعفر رضی اﷲ تعالٰی عنہما۔
کوڑھ کے مریض سے اسی طرح بچوں جس طرح موذی درندے سے بچاء کیا جاتاہے۔ جب وہ کسی وادی میں اترے تو تم کسی دوسری میں اتر جاؤ، ابن سعد نے طبقات میں حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے اسے روایت کیا ہے۔ (ت)
(۳؎ طبقات الکبرٰی لابن سعد ترجمہ عبداللہ ابن جعفر دارصادر بیروت ۴ /۱۱۷)
نیز حدیث میں ہے :
کلم المجذوم وبینک وبینہ قدرَ رمح اور محین، رواہ ابن السنی۱؎ وابونعیم فی الطب النبوی عن عبداﷲ بن اوفٰی رضی اﷲ تعالٰی عنہ عن النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ۔
کوڑھی سے اس حالت میں بات کرو کہ تمھارے اور اس کے درمیان ایک دونیزے کی مسافت کی مقدار ہو، محدث ابن سنی اور ابونعیم نے طب نبوی میں حضرت عبداللہ بن ابی اوفٰی کے حوالے سے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے اسے روایت کیا ہے۔ (ت)
(۱؎ کنزالعمال بحوالہ ابن السنی وابی نعیم فی الطب حدیث ۲۸۳۲۵ مؤسسۃ الرسالۃ بیروت ۱۰ /۵۴)
بہر حال برات والوں کا انکار بے جا نہ تھا اور اس شخص کا اصرار محض ناحق ۔ پھر جب انھوں نے خدا کا واسطہ دیا اس پر بلاوجہ نہ ماننا گناہ ہوا، حدیث میں ہے :
ملعون من سئل بوجہ اﷲ ثم منع سائلہ مالم یسئل ھجرا اخرجہ الطبرانی ۲؎ فی الکبیر بسند حسن عن ابی موسٰی الاشعری عن النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ۔
وہ شخص ملعون ہے کہ جس سے خدا کے نام پر کچھ مانگاجائے تو وہ سائل کو کچھ نہ دے بشرطیکہ وہ کسی کو چھوڑنے کا سوال نہ کرے۔ امام طبرانی نے معجم کبیر میں سند حسن کے ساتھ حضرت ابو موسٰی اشعری کے حوالے سے حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام سے تخریج فرمائی۔ (ت)
(۲؎ مجمع الزوائد بحوالہ الطبرانی کتا ب الزکوٰۃ باب فیمن سأل بوجہ اللہ ۳ /۱۰۳)
(الترغیب والترھیب بحوالہ الطبرانی کتاب الصدقات ۱ /۶۰۱)
یہاں تک تو حماقت یا گناہ ہی تھا اس کے بعد وہ لفظ جو اس نے کہا کہ ہم خدااور رسول کو نہیں مانتے یہ صریح کلمہ کفر ہے۔ والعیاذ باللہ تعالٰی، اس شخص پر فرض ہے کہ تو بہ کرے اور از سر نو مسلمان ہو، اور اگر عورت رکھتاہے تو نئے سرے سے نکاح چاہئے۔ اور جس طرح وہ کلمہ مجمع میں کہا تھا تو بہ بھی مجمع میں کرے، اگر نہ مانے تو مسلمان ضرور اسے اپنے گروہ سے نکال دیں، نہ اپنے پاس بٹھائیں نہ اس کے پاس بیٹھیں نہ اس کے معاملات میں شریک ہوں، نہ اپنی تقریبوں میں اسے شریک کریں۔ اللہ تعالٰی فرماتاہے۔
واما ینسینک الشیطن فلا تقعد بعد الذکری مع القوم الظلمین ۳؎۔
اگر تجھے شیطان بھلادے تویاد آنے کے بعد ظالموں کے ساتھ مت بیٹھ۔ (ت)
(۳؎ القرآن الکریم ۶ /۸)
اور جو لوگ اس کا ساتھ دے کر اٹھ گئے وہ بھی سخت گنہ گار ہوئے ان پر بھی توبہ واجب اگر نہ کریں تو مسلمانوں کو ان سے بھی جدائی مناسب۔ واللہ تعالٰی اعلم۔