Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۰(کتاب الغصب، کتاب الشفعہ، کتاب القسمہ، کتاب المزارعہ، کتاب الصید و الذبائح، کتاب الاضحیہ)
9 - 126
مسئلہ ۲۳: از ریاست رامپور محلہ بنگلہ آذاد خاں مطبع دبدبہ سکندری مرسلہ فاروق حسن خاں ۷ جمادی الاولٰی ۱۳۳۱ھ

زید نے دعوٰی دلاپانے ایک قطعہ سراکا جس کا منفرد عمرو مشتری ہے۔ اور دوسرے قطعہ سراکا جس کے عمرو مذکور وبکر وخالد وفہیم ونعیم پانچ اشخاص مشترکا خریدارہیں، باظہار حق شفعہ بہ نمبر ہائے جدا گانہ بنام مشتریان مذکور عدالت میں رجوع کیا، مشتریان مذکور بعد علم بالبیع ادائے طلب مواثبت واشہاد زید کے منکر ہیں، زید نے جو شہادتیں دربارہ طلب مواثبت عدالت میں پیش کیں ان سے طلب مذکور ثابت نہ ہوئی، پس زید اعتراف عدم ثبوت طلب موثبت اپنی طلب مواثبت پر خود خواستگار بجاآواری حلف کا ہے۔ علماء ماہرین علم فقہ سے دریافت طلب یہ امر ہے کہ بصور ت مسئلہ نسبت ادائے طلب مواثبت قول زید کا مع الیمین مقبول ہوگا یا باقتضائے روایات مفتی بہا واقوال مستندہ فقہیہ بسبب ہونے تحلیف علی فعل الغیر مشتریان سے علم طلب مواثبت زید پر قسم لی جائے گی، اور فریق ثانی نے جواستفتاء عدالت میں پیش کیا ہے اس کی نقل بجنسہٖ ہمرشتہ سوال ہذا ہے۔ نظر بمضمون سوال ہذا وتوجہ بروایات وعبارات سوال وجواب مندرجہ استفتاء گزرانیدہ، فریق ثانی بحوالہ روایات مفتی بہا با ستدلال اقوال مستندہ کتب فقہ جواب مرحمت ہو۔ بینوا توجروا
الجواب : یہ مسئلہ معرکۃ الآرا ومزلۃ الاقدام ہے۔ فقیر غفرلہ المولی القدیر نے اس سوال کے ورود پر عبارات کثیرہ علماء کو بظاہر نہایت متخالف ومتعارض تھیں بکثرت جمع کیں، اور ان کے محط انظارومنزع کلام و منظر مراد وملحظ مرام پر بتوفیقہ تعالٰی نظریں ڈالیں او ربعد تحقیق وتدقیق وتطبیق وتوفیق وہ حکم نفیس مشید بالاصول و مؤید بتظافر العقول والمنقول منقح کرلیا جس نے بحمداللہ تعالٰی ان تمام عبارات متعارضہ کو یک زبان کردیا اور تصادم و تزاحم یک لخت اٹھ گیا، اور مختلف ظنوں کو مختلف مناشی سے اکابر علماء مثل علامہ ابن قاضی سماوہ وعلامہ حموی و علامہ ابوالسعود ازہری وعلامہ سائحانی اور شامی رحمہم اللہ تعالٰی کو پیدا ہوئے تھے بعونہ سبحانہ سب کاکشف حجاب واظہار صواب کیا، فقیر نے اس تحریر کامل النحریر کانام
"اَفْقَہْ الْمُجَاوَبَۃِ عَنْ حَلَفِ الطَّالِبِ عَلٰی طَلَبِ الْمُوَاثَبَۃِ"
رکھا۔ وضاحت مرام وازاحت اوہام تو اسی تحریر پر محمول ۔ یہاں نفس حکم بکمال اجمال مذکور ۔ سوال کہ یہاں ارسال ہوا، اور دوسرا کہ فتوٰی منسلکہ میں تھادونوں نہایت گول اور ناتمام ہیں ان میں سے کسی پر ایک حکم قطعی کہ یہاں شفیع کا حلف لیں گے یا مشتری کا، ہرگز نہیں ہوسکتا بلکہ حق تفصیل ہے۔ اولا نظر کی جائے ، آیا شفیع نے طلب اشاد بینہ عادلہ سے ثابت کردی یا وہ بھی ناکام رہی، درصورت ثانیہ ہر گز شفیع کا حلف نہ لیا جائے گا۔ نہ مسموع ہوگا کہ شفیع ثبوت حق شفعہ کا دعوٰی کرتاہے۔ اور مشتری منکر ہے۔ اور شرعا حلف منکر پر ہے نہ کہ مدعی پر،  رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم حدیث مشہورمیں فرماتے ہیں:
البینۃ علی المدعی والیمین علی من انکر ۱؎۔
مدعی پر گواہ اور منکر پر قسم لازم ہے۔ (ت)
 (۱؎صحیح البخاری  کتاب الرھن باب اذا اختلف الراھن والمرتہن    قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/ ۴۳۲)

(جامع الترمذی    ابواب الاحکام باب ماجاء فی البینۃ علی المدعی    امین کمپنی دہلی        ۱/ ۱۶۰)

(سنن الکبرٰی للبیھقی    کتاب الدعوی والبنیات    دارصادر بیروت    ۱۰/ ۲۵۲)
ولہذا عامہ کتب معتمدہ میں تصریح فرمادی کہ بحال وانکار مشتری شفیع اپنی طلب بے گواہوں کے ثابت کرہی نہیں سکتا۔
ہدایہ وتبیین الحقائق وتکملہ طوری میں ہے:
لانہ یحتاج الی اثبات طلبہ عندالقاضی ولایمکنہ ذٰلک الابالاشہاد ۲؎۔
کیونکہ قاضی کےہاں وہ اپنی طلب کو ثابت کرنے کا محتاج ہے جبکہ یہ گواہ بنائے بغیر ا س کےلئے ممکن نہیں۔ (ت)
(۲؎ الہدایہ   کتاب الشفعۃ   مطبع یوسفی لکھنؤ    ۴/ ۳۹۰)
اور اگر طلب شہاد بینہ شرعیہ سے ثابت ہوچکی ہے۔ تو اب طلب مواثبت کے باب میں تین صورتیں ہیں :

(۱) اگر شفیع اپنی طلب مواثبت کے لئے کوئی وقت اس طلب اشہاد مشہود ومعہود ثابت بالبینہ سے پہلے بیان کیا اور مدعی ہواہے کہ اسی وقت بمجرد علم بالبیع میں طلب مواثبت بجالایاتھا، تو ہرگز بے بینہ مسموع نہیں، نہ شفیع کا حلف اصلا قابل سماعت کہ وہ باقرار خود سبقت علم مان چکا ہے اور اس کی معیت کا ایک ایسی طلب کے لئے مدعی ہے جو ہنوز مجہول وغیر ثابت ہے۔
فکیف یصدق فیما ھو غیر بین ولا مبین مع توقف ثبوت حقہ علیہ۔
تو غیر واضح چیز میں وہ کیسے تصدق کرے جبکہ اپنے حق کو ثابت کرنا خو د اس پر موقوف ہے۔ تو اور کون واضح کرے گا۔ (ت)
وہ حصول طلب فی الماضی کا مدعی ہے اور مشتری منکر۔
والاصل العدم ومن ادعی خلاف الاصل فعلیہ تنویر دعواہ بالبینۃ۔
عدم اصل ہے اور جوشخص اصل کے خلاف کا دعوٰی کرے اس پر اپنے دعوٰی کو روشن کرنا گواہی کے ساتھ ضروری ہے۔ (ت)
وہ ایک ایسی چیز کی حکایت کررہاہے جو اس وقت اس کے اختیار سے باہر ہے کہ وہ سبقت علم کا مقر ہوا، اور طلب مواثبت کا وقت اسی فور میں تھا اس وقت احداث طلب پر قدرت نہیں رکھتا۔ اور جو ایسی شیئ کا حاکی ہو اس کا قول بے بینہ مسموع نہیں،
درروغرر میں ہے :
من حکی مالایملک استئنافہ للحال، لایصدق فیما حکی بلا بینۃ ۱؎۔
جس کو فی الحال نافذکرنے کامالک نہیں تو اس کی حکایت بغیرگواہی قابل تصدیق نہ ہوگی۔ (ت)
(۱؎ الدررالمحکام فی شرح غرر الاحکام    کتاب الشفعۃ باب ماتکون ھی فیہ    میر محمد کتب خانہ کراچی    ۲/ ۲۱۶)
یہی معنی ہیں تصریحات کے کہ طلب مواثبت بے بینہ کے ثابت نہیں ہوسکتی۔
ای اذا کان طلب المواثبتۃ وحدہ بخلاف مایاتی فانہ لم یثبت فیہ انفرادہ عن طلب الاشہاد، کما ستعلم، وطلب واحد ربما یقوم مقام الطلبین فبعد اثبات طلب الاشہاد بالشہود اوثبوتہ باقرارالمشتری لایحتاج الی ا ثبات طلب المواثبۃ منفرزاعنہ، فان ادعی المشتری الانفراز بتقدم العلم علی الاشجار فعلیہ البینۃ لاعلی الشفیع۔
یعنی جب طلب مواثبت الگ ہو یہ آئندہ آنیوالی صورت کے برخلاف ہے جہاں طلب مواثبت میں اس بات کا ثبوت نہیں کہ وہ طلب اشہاد سے خالی ہے جیسا کہ عنقریب تجھے معلوم ہوگا جبکہ ایک ہی طلب وہ مطالبوں کے قائم مقام ہوسکتی ہے تو گواہوں کے ذریعہ طلب اشہاد کے اثبات یا خود مشتری کے اقرار سے ثبوت کے بعد شفیع کو اب طلب مواثبت کے اثبات کی الگ طور پر ضرورت نہیں، تو اگرمشتری یہ دعوٰی کرے کہ شفیع کو طلب اشہاد سے قبل بیع کا علم تھا اور اس نے مواثبت نہ کی تو اس صور ت میں مشتری پر لازم کہ وہ اس پر گواہی پیش کرے نہ کہ شفیع پر۔ (ت)
غایۃ البیان شرح الہدایہ للعلامۃ الاتقانی میں ہے :
المراد من المطالبۃ طلب المواثبت والاشہاد فیہ فی المجلس لیس بشرط والشراط ھو نفس الطلب ۔ وانما یشہد فیہ لانہ لایصدق علی الطلب الابینۃ ۱؎۔
مطالبہ سے مرا دطلب مواثبت ہے۔ رہا شہاد (گواہ بنانا) تو اس کا اس مجلس میں پایا جانا شرط نہیں ہے شرط صرف نفس طلب ہے۔ اس میں گواہ بنانا صرف اس لئے ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر طلب کی تصدیق نہ ہوسکے گی۔ (ت)
(۱؎ غایۃ البیان )
نہایہ امام سغناقی ومعراج الدرایہ پھر نتائج الافکار وشروح ہدایہ میں ہے :
طلب المواثبۃ لاینفک عن الاشہاد فی حق علم القاضی۔ ۲؎۔
  طلب مواثبت قاضی کے علم کے اعتبار سے اشہاد سے جدانہیں ہوسکتی۔ (ت)
 (۲؎ نتائج الافکار فی کشف الرموز والاسرار تکملہ  برفتح القدیر کتاب الشفعۃ باب مایبطل بہ الشفعۃ    مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر    ۸/ ۳۳۶)
ان دونوں صورتوں میں سبیل یہی ہے کہ شفیع چاہے تو مشتری سے حلف لے۔ اوریہاں حلف فعل غیر پر ہے۔مشتری کا حلف محض علم پر ہوگا کہ واللہ مجھے معلوم نہیں کہ اس زید مدعی نے یہ طلب مواثبت جس کا یہ مدعی ہے ادا کی ہو،   تنویر الابصارودرمختارمیں ہے:
لوانکر المشتری طلب المواثبۃ فانہ یحلف علی العلم ۳؎۔
اگر مشتری طلب مواثبت کا انکار کرے تو وہ اپنے علم کی قسم کھائے گا (کہ یہ مجھے معلوم نہیں) ۔ (ت)
 (۳؎ درمختار  کتاب الشفعۃ باب مایبطلہا     مطبع مجتبائی دہلی    ۲/ ۲۱۷)
Flag Counter