فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۰(کتاب الغصب، کتاب الشفعہ، کتاب القسمہ، کتاب المزارعہ، کتاب الصید و الذبائح، کتاب الاضحیہ)
8 - 126
مسئلہ ۲۱: ازاوجین علاقہ گوالیار مکان میرخادم علی صاحب اسسٹنٹ مرسلہ حاجی یعقوب علی خاں صاحب ۲جمادی الاولٰی ۱۳۱۶ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان پابند شرع برحق اس مسئلہ میں، ایک چشمہ گنگا بائی ومتھرا بائی کے مکان کا شرق رویہ ملحق مکان حکیم رحمت علی صاحب اور طرف جنوب شارع عام اور مغرب رویہ اس مکان کے صرف مکان رحمت علی صاحب ہے، اس چشمہ کو ایک برہمن غیر محلہ کو سات سو روپیہ میں فروخت کیا، ازاں جملہ دس روپیہ بیعنامہ ہوا، اس برہمی سے لے لئے، جب حکیم صاحب کو خبر پہنچی تو بوقت دستاویز دعوٰی حق شفعہ کیا تو اس عورت نے بعدم دعوٰی حق شفعہ حکیم صاحب اس چشہ کو جو منضم مکان حکیم صاحب ہے اس برہمن کو خیرات کردیا، اس خیال سے کہ دعوٰی حکیم صاحب رد ہوجائے، اس صورت میں بحق شفعہ دعوٰی حکیم صاحب درست ہے یانہیں؟ بیان فرمائیں بعبارت کتب علماء رحمۃ اللہ تعالٰی علیہم اجمعین۔
الجواب: اگر شفیع شرائط طلب بجالایا تو اس کا حق شفعہ ثابت ہے۔ اور اس خیرات کردینے سے شفعہ حاصل نہ ہوا، جب بیع تمام ہوچکی مشتری کا مالک ہوگیا، بائعہ کی اس میں ملک نہ رہی، اب یہ اسی کا مال اس پر خیرات کرنے والی کون، اور اگر خیرات یوں واقع ہوئی کہ بعد دعوٰی شفعہ بائعہ ومشتری نے باہم بیع کو فسخ کرلیا، پھر بائع نے مبیع مشتری پرخیرات کردی، تو یہ مشتری کا ایک تصرف تھا جسے شفعیع توڑ سکتاہے، بائع ومشتری کا باہم بیع فسخ کرلینا تیسرے شخص کے حق میں بیع جدید ہوتاہے یعنی مشتری نے اب وہ چیز بائع کے ہاتھ بیچ ڈالی اور مشتری کی بیع درکنار وقف تک کو شفیع رد کرسکتا ہے ان تصرفات سے اس کے حق شفعہ میں کوئی خلل نہیں آتا،
مشتری کے کئے ہوئے تصرفات حتی کہ وقف، مسجد مقبرہ، ہبہ جیسے کو بھی شفیع کالعدم کردے، زیلعی و زاہدی ۔ (ت)
(۱؎ درمختار کتاب الشفعۃ باب طلب الشفعۃ مطبع مجتبائی دہلی ۲/ ۲۱۳)
عالمگیری میں ہے :
لوتصرف المشتری فی الدار المشتراۃ قبل اخذ الشفیع بان وھبہا وسلمہا اوتصدق بہا اوأجرھا اوجعلہا مسجدا وصلی فیہا او وقفہا وقفا اوجعلہا مقبرۃ ودفن فیہا، فللشفیع ان یاخذ وینقض تصرف المشتری کذا فی شرح الجامع الصغیر لقاضی خاں ۲؎۔
اگر مشتری نے خرید کردہ پراپرٹی میں شفیع کے قبضہ سے قبل تصرفات کئے یوں کہ ہبہ کرکے قبضہ دے دیا،اس کو صدقہ کردیا، اُجرت پر دے دیا، اس کومسجد قرار دے کر اس میں نماز پڑھی گئی، مکمل وقف کردیا، یا قبرستان بنا کر اس میں دفن کا عمل کیا تو شفیع کو قبضہ کرکے ان تمام تصرفات کو ختم کرنےکا حق ہے۔ قاضی خاں کی شرح جامع الصغیر میں یوں ہے۔ (ت)
(۲؎ فتاوٰی ہندیہ کتاب الشفعۃ الباب الثامن نورانی کتب خانہ پشاور ۵/ ۱۸۱)
اسی میں ذخیرہ سے ہے :
المشتری لہ ان یبیع ویطیب لہ الثمن غیر ان للشفیع ان ینقض ۳؎اھ مختصرا۔
مشتری کوفروخت کرنے کا جواز ہے اور وہ ثمن اس کے لئے طیب ہے مگر شفیع کو اختیار ہوگا کہ وہ ان تصرفات کو توڑ دے اھ مختصرا۔ (ت)
(۳؎فتاوٰی ہندیہ کتاب الشفعۃ الباب الثامن نورانی کتب خانہ پشاور ۵/ ۱۸۱)
تنویر میں ہے :
الاقالۃ فسخ فی حق المتعاقدین بیع فی حق ثالث ۴؎ اھ ملتقطا۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
اقالہ فریقین کے حق میں فسخ ہے اورتیسرے شخص کے حق میں وہ جدید بیع ہے اھ ملتقطا۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔ (ت)
(۴؎ درمختار کتاب البیوع باب الاقالۃ مطبع مجتبائی دہلی ۲/ ۳۴۔ ۳۳)
مسئلہ ۲۲: از شہر کہنہ بریلی مرسلہ مولوی سید کرامت علی ۴ محرم الحرام ۱۳۲۱ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ شریعت غراء محمدیہ اس صورت میں کہ زید کا ہمسایہ عمرو ہے اور دونوں کے مکان ایک ہی قطعہ میں واقع ہے۔ صرف دیوار پر درمیان میں ہے۔ اور دروازہ دونوں کا متصل ہرایک جانب کو بفاصلہ تین چار گزرکے، اور کوئی دوسرا شخص ایساقریب نہیں رہتا جس کا دروازہ ملحق بدروازہ زید ہو۔ سوائے عمرومذکور کے، اب زید نے بنظر تکلیف دہی عمرو کی اپنی زمین مذکورہ کا تبادلہ بکر کے زمین سے جو بفاصلہ تقریبا دو صد گز ہےکرکے اقرار نامہ تحریر کردیا یعنی اپنی زمین بکر کے بیع کردیا، اب اس حالت میں عمرو کو حق شفعہ زمین پہنچتاہے یانہیں؟ بینوا توجروا
الجواب
ضرور حق شفعہ پہنچتاہے اگرچہ بجائے لفظ بیع مبادلہ زمین بزمین کہا، اگر چہ بجائے بیعنامہ اس مبادلہ کا اقرار نامہ لکھا، اس لئے کہ ان عقود میں معنی ہی معتبر ہیں، خاص لفظ کی حاجت نہیں۔
ہدایہ میں ہے :