فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۰(کتاب الغصب، کتاب الشفعہ، کتاب القسمہ، کتاب المزارعہ، کتاب الصید و الذبائح، کتاب الاضحیہ)
7 - 126
مسئلہ ۱۷ : کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید نے ایک کوٹھری جس کا صحن مملوک عمرو اور اس صحن میں اس کوٹھری کے اور(عہ) ہے اور سقف اس کی ملک بکر ہے۔ اور اس کی دوجانب بھی مکانات بکر واقع ہیں بکر کے ہاتھ فروخت کی، اس صورت میں شفیع اس کا بکر ہے یا عمرو، اور عمرو کو بدعوی شفعہ وہ کوٹھری مل سکتی ہے یا نہیں؟ بینوا توجروا
عہ: اصل میں اس طرح ہے، اغلب یہ ہے کہ عبارت اس طرح ہو''اسی کوٹھری کے برابر ایک کوٹھری اور ہے'' عبدالمنان اعظمی
الجواب
صورت مستفسرہ میں شفیع اس کا عمرو ہے نہ کہ بکر، اور اگر عمرو شرائط شفعہ بجالایا تھا تو بدعوی شفعہ اس کوٹھری کو بکر سے لے سکتاہے کہ جب طریق اس مکان کا زمین عمرو میں ہے تو عمرو خلیط فی حق المبیع ہوا، اور بکر اسی وجہ سے کہ مالک علو ہے اور اس کے مکانات کوٹھری کے دونوں جانب ہیں محض جوار ہے۔ اور خلیط جار پر شرعا مقدم مکانات بکر دونوں جانب ہونے سے وہ صرف جارہوسکتا ہے۔ اسی طرح قابض علو ہونا بھی اگر بوجہ ملک ہو تو فقط مثبت جوار ہے۔ ورنہ لغو بحث۔
فی الفتاوٰی العالمگیریۃ سفل بین رجلین و لاحدھما علیہ علو بینہ وبین اٰخر فباع الذی لہ نصیب فی السفل والعلو نصیبہ فلشریکہ فی السفل الشفعۃ فی السفل ولشریکہ فی العلو الشفعۃ فی العلوا ولاشفعۃ لشریکہ فی السفل فی العلو ولا لشریکہ فی العلو فی السفل لان شریکہ فی السفل جار للعلو و شریک فی حقوق العلو ان کان طریق العلو فیہ وشریکۃ فی العلو جار للسفل اوشریک فی الحقوق اذا کان طریق العلو فی تلک الدار فکان الشریک فی عین البقعۃ اولٰی ۱؎ ۔ وفی الفتوٰی قاضی خاں باع صاحب السفل سفلہ کان لصاحب العلوان یاخذ السفل بالشفعۃ لان السفل متصل بالعلو فکانا جارین ۲؎۔
فتاوٰی عالمگیری میں ہے نچلی منزل دو حضرات کی مشترکہ ہے اور دونوں میں سے ایک کا اس پر بالاخانہ ہے جس میں کوئی تیسرا شخص بھی شریک ہے تو نچلی منزل والوں میں سے جس کا بالاخانہ میں حصہ ہے اس نے اپنےنچلے اور اوپر والے حصوں کو فروخت کیا تو نچلے شریک کو نچلے حصہ میں اور اوپر والے شریک کو اوپر والے حصہ میں شفعہ کا حق ہے نیچے والے کو اوپراور اوپروالے شریک کو نیچے والے حصہ میں شفعہ کا حق نہیں ہے کیونکہ نیچے والا شریک بالاخانہ کا پڑوسی ہے اور اگر بالاخانہ کا راستہ مشترکہ ہو تو وہ بالاخانہ کے حقوق میں بھی شریک ہے اور یوں ہی بالاخانہ کا حصہ دار نیچے والے حصہ کا پڑوسی ہے اگر راستہ بالاخانہ نیچے والی منزل میں سے گزرتا ہو توہ بھی نچلی منزل کے حقوق میں شریک ہو گا لہذا پڑوسی یا حقوق میں شریک کی بنسبت عین مبیع میں شریک کا حق مقدم اور اولٰی ہے۔ اور فتاوٰی قاضی خاں میں ہے کہ نچلی منزل والےنے اپناحصہ فروخت کیا تو اوپر والے کو شفعہ کا حق ہے کیونکہ نچلی اور اوپر منزل میں اتصال ہے تو دونوں پڑوسی قرار پائیں گے۔ (ت)
(۱؎ فتاوٰی ہندیہ کتاب الشفعۃ الباب الثانی نورانی کتب خانہ پشاور ۵/ ۱۶۷)
(۲؎ فتاوی قاضی خاں کتاب الشفعۃ فصل فی ترتیب الشفعاء نولکشورلکھنؤ ۴/ ۸۶۴)
غرض بہر حال بکر جار محض سے زائد نہیں اور عمرو خلیط فی حق المبیع ہے کہ راستہ مکان مبیع کا اس کی زمین مملوک ہے۔ اور شرعا خلیط جار پر مقدم۔
کما ہو فی عامۃ الکتب
(جیسا کہ یہ عام کتب میں ہے۔ ت) پس صورت مسئولہ میں برتقدیر مدعی ہونے کسی شریک فی نفس المبیع کے عمرو ہے۔ نہ بکر اور عمرو شرائط شفعہ بجالایا تو در صورت عدم مزاحم مکان مبیع کو بکر سے لے سکتاہے۔
واللہ تعالٰی اعلم وعلمہ اتم واحکم۔
مسئلہ ۱۸: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک مکان واقع کوچہ غیر نافذہ ایک شخص اجنبی کے ہاتھ کہ اس مکان سے کوئی علاقہ شفعہ نہیں رکھتا فروخت ہوا، راستہ اسی مکان کا اراضی پیش دروازہ زید ہے۔ اور راہ دونوں کو شارع عام تک مشترک، پس زید بعد بجا آوری شرائط شفعہ بحسب شفعہ دعوٰی کرتاہے۔ اس صورت میں وہ مکان زید کو مل سکتاہے یانہیں۔ بینوا توجروا
الجواب : صورت مسئولہ میں زید خلیط فی حق المبیع ہے۔ اور حق شفع اس کے لئے ثابت ، پس جس صورت میں کہ وہ سب شرائط بجالایا اگر کوئی خلیط فی نفس المبیع مدعی شفعہ نہ ہو، تو مکان اسے قطعا مل سکتاہے واللہ تعالٰی اعلم وعلمہ اتم واحکم۔
الجواب الصحیح محمد نقی علی میاں
مسئلہ ۱۹ : ۲۷ صفر ۱۳۱۴ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک مکان کی اراضی میں زید کے چند ورثہ شریک ہیں، ان میں سے بعض نے اپنے حصے عمرو شخص اجنب کے ہاتھ بیع کردئے، پھر ان اشخاص میں سے جنھوں نے اپنے حصے بیع نہیں کئے تھے ایک نے اسی عمرو کے ہاتھ اپنا حصہ بیع کردیا، اب ان اشخاص مذکورین میں ایک شخص شفیع ہے۔ تو یہ شخص عمرو اجنب پر ترجیح رکھتاہے یانہیں؟ اور اس اراضی مبیعہ کو عمرو سے شفعہ میں لے سکتا ہے یانہیں؟بینوا توجروا
الجواب :عمرو جبکہ ایک حصہ اسی زمین کا خرید چکاہے۔ اور ہنوز حدود جدا نہ ہوں تو وہ بھی شریک ہے اور یہ شفیع بھی شریک ہے تو کسی دوسری پر ترجیح نہیں ، اگر اس شریک نے بیع ثانی کی کل مبیع کا مطالبہ بذریعہ شفعہ کیا اور عمرو دینے پر راضی نہ ہوا، تو نصف شفیع کو دلادیں گے، اور عمرو راضی ہوگیا تو کل دلادیں گے۔
فی ردالمحتار باع احد شریکین فی دارحصہ منہا للاخرفجاء ثالث وطلب الشفعۃ فان کان شریکا قمست بینہ وبین المشتری لانہما شفیعان ای اذا طلب ولم یسلم للشفیع الاٰخر ۱؎ اھ مختصرا۔ واﷲ تعالٰی اعلم
ردالمحتارمیں ہے ایک مکان میں دوشریکوں میں سے ایک نے اپنا حصہ شریک کے پاس فروخت کیا تو ایک تیسرا شخص آیا اس نے شفعہ کا مطالبہ کیا اگر وہ بھی مکان میں شریک ہو تو وہ مکان شفیع اور مشتری میں مشترکہ قرار پائے گاکیونکہ وہ دونوں شفعہ کےحقدار ہیں یعنی جب تیسرے نے اپناحق شفعہ نہ چھوڑا اور مطالبہ پرقائم رہا اھ مختصرا۔ واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)
(۱؎ ردالمحتار کتاب الشفعۃ باب ماتثبت ھی فیہ اولا داراحیاء التراث العربی بیروت ۵/ ۱۵۲)
مسئلہ ۲۰: از دیورنیا تحصیل بہیڑی ۱۷ صفر مظفر ۱۳۱۵ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین مسئلہ میں کہ موضع دیورنیا میں تخمینا دو بسوہ زمینداری ہے۔ منجملہ اس کے تخمینا ۵ کچوانسی خلیل الدین کے پاس، اور ۱۰ کچوانسی خواجہ بخش کے پاس، او نمبرداری دونوں بسوہ پر خواجہ بخش کی ہے۔ دیگر نے انہی دو بسوہ سے ۱۶ بسوانسہ خلیل الدین کے ہاتھ بیع کی ، تو شفعہ خواجہ بخش اور خلیل الدین کس کو کتنا پہنچتاہے؟ بینوا توجروا
الجواب : اگر وہ دیہہ مملوکہ ہے کہ زمیندار اس میں اپنے اپنے حصوں کے مالک ہیں، تو بلا شبہ اس میں حق شفعہ جاری ہے اور خلیل الدین مشتری اور خواجہ بخش دونوں شفیع ہیں، خواجہ بخش اگر طلب مواثبت وغیرہ شرائط بجالایا اور کل مبیع ۱۶ بسوانسی پوری پر بذریعہ شفعہ دعوٰی کیا تو اگر خلیل الدین مزاحمت کرے تو آٹھ بسوانسی خلیل الدین کے پاس رہیں گے، اور آٹھ بسوانسی شفعہ خواجہ بخش کو دلادی جائینگی اس بات پر کچھ لحاظ نہ ہوگا کہ ان میں ایک دوکچوانسی کا مالک ہے اور دوسرا دس کا، اور اگر خلیل الدین مزاحمت نہ کرے بلکہ کل دے دے تو کل خواجہ بخش کو ملے گی، اور اگر خواجہ بخش نے کل مبیع پردعوٰی نہ کیا بلکہ یہ سمجھ کر کہ مجھے آدھی ملیں گی ، ابتداء آٹھ ہی بسوانسی پر شفعہ چاہا، تو اس کا حق شفعہ ساقط ہوا، اب کچھ نہ پائے گا،
خیریہ میں مذکور ہے کہ زمین کا عشری یا خراجی ہونا ملکیت ہونے کے منافی نہیں ہے تو بہت سی کتب میں ہے کہ مملوکہ عشری یاخراجی زمین کا فروخت کرنا ، وقف کرنا، میراث ہونا جائز ہے، تو ان میں شفعہ ثابت ہوگا۔ بخلاف سرکاری زمین جو مزارعت میں دی جائے اور قابل فروخت نہ ہو اس میں شفعہ نہیں ہے الخ۔ (ت)
(۱؎ ردالمحتار کتاب الجہاد باب العشر والخراج داراحیاء التراث العربی بیروت ۳/ ۲۵۶)
اگر خریدر خود شریک تھا جبکہ اس میں کوئی اور بھی شریک ہو تو دونوں کو شفعہ کا حق ہے۔ (ت)
(۲؎ درمختار کتاب الشفعۃ باب ماتثبت ھی فیہ اولا مطبع مجتبائی دہلی ۲/ ۲۱۵)
ردالمحتارمیں ہے :
فی القنیۃ اشتری الجار دارا ولہا جار اٰخر فطلب الشفعۃ وکذا المشتری فہی بینہما نصفین، لانہما شفیعان قال ابن الشحنۃ فقولہ وکذا المشتری ای اذا طلب ولم یسلم للشفیع الاٰخر، وفی کلام ابن الشحنۃ اشارۃ الی ان قول القنیۃ فطلب الشفعۃ المراد بہ انہ لم یسلم اکل للاخر لاحقیقۃ الطلب، فلاینا فی ماقدمناہ عن الخانیۃ ان الاصیل لایحتاج الی الطلب ۳؎۔
قنیہ میں ہے ایک نے پڑوس والا مکان خریدا جبکہ اس مکان کا پڑوسی ایک اور شخص بھی ہے تو اس نے شفعہ کا مطالبہ کیا تووہ اور مشتری دونوں اس مکان میں شریک ہونگے، کیونکہ وہ دونوں برابر کے شفیع ہیں، ابن شحنہ نے کہا، تو اس کا قول یوں مشتری بھی، یعنی جب وہ شفعہ کا مطالبہ کرے اور دوسرے کو اپنا حق نہ چھوڑے، اور ابن شحنہ کے کلام میں یہ اشارہ ہے کہ قنیہ کے قول ''توشفعہ طلب کیا'' اس سے مراد یہ ہے کہ دوسرے کو کل نہ سونپا، یہ مراد نہیں کہ حقیقتا طلب کیا، تویوں خانیہ سے ہمارے ذکر کردہ کے منافی نہ ہوا کہ اصل شخص طلب کرنے کا محتاج نہیں ہے۔ (ت)
(۳؎ ردالمحتار کتاب الشفعۃ باب ما تثبت ھی فیہ اولا داراحیاء الترا ث العربی بیروت ۵/ ۱۵۲)
رضا مندی یا قاضی کی قضاء سےشفعہ کرنے والوں کی تعداد کے مطابق نہ کہ ملکیت کے مطابق حاصل کرنے پر مالک ہوجائیں گے۔ (ت)
(۴؎ درمختار شرح تنویر الابصار کتاب الشفعۃ مطبع مجتبائی دہلی ۲/ ۲۱۱)
درمختار میں ہے:
لو طلب احدالمشریکین النصف بناء علی انہ یستحقہ فقط بطلت شفعتہ ا ذ شرط صحتہا ان یطلب الکل کما بسطہ الزیلعی فلیحفظ ۱؎ واﷲ تعالٰی اعلم۔
اگر دونوں شریک حضرات میں، سے ایک نے نصف کا مطالبہ صرف اپنے استحقاق کے مطابق کیا تو شفعہ باطل ہوگیا کیونکہ شفعہ کی صحت کے لئے شرط ہے کہ وہ کل کا مطالبہ کرے، جیسا کہ زیلعی نے اس کو مبسوط پر بیان کیا، اسے محفوظ کرنا چاہئے، واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)