فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۰(کتاب الغصب، کتاب الشفعہ، کتاب القسمہ، کتاب المزارعہ، کتاب الصید و الذبائح، کتاب الاضحیہ)
6 - 126
مسئلہ ۱۳: از اوجین محلہ مرزاباڑی مرسلہ میاں آفتاب حسین ۲۲ ذی الحجہ ۱۳۱۲ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میںکہ عمرو اپنا مکان فروخت کرتاہے زید ہمسایہ عمرو خریداری پر مستعد ہے مگر مالک مکان غیر ہمسایہ کو مکان دیتاہے۔ پس حق شفعہ خرید کر مکان میں اول میں درجہ ہمسایہ کو پہنچا ہے یاغیر کو؟
الجواب : شفیع کے لئے حق شفعہ بعد بیع ثابت ہوتاہے۔ مکان جب تک بیع نہ ہو شفیع مزاحمت نہیں کرسکتا، ہاں جب مالک غیر ہمسایہ کے ہاتھ بیچ ڈالے اس کے بعد ہمسایہ کے لئے بذریعہ شفعہ حق مطالبہ ہے اگر شرائط طلب بجا لاکر دعوٰی کرے گامکان خریدار سے کراسے دلا دیا جائے گا۔ تنویر الابصارمیں ہے:
تجب بعدالبیع ۱؎
(شفعہ بیع کے بعد لازم ہوتاہے۔ ت)
(۱؎ درمختار شرح تنویر الابصار کتا ب الشفعۃ مطبع مجتبائی دہلی ۲/ ۲۱۱)
درمختارمیں ہے :
اسقط الشفیع الشفعۃ قبل الشراء لم یصح لفقد شرطہ، وھو البیع انتہی ۲؎۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
خریداری سے قبل اگرشفیع نے شفعہ ساقط کیا تو صحیح نہیں کیونکہ شفعہ کی شرط جو کہ بیع ہے نہ پائی گئی انتہی واللہ تعالٰی اعلم (ت)
(۲؎درمختار شرح تنویر الابصار کتا ب الشفعۃ مطبع مجتبائی دہلی ۲/ ۲۱۱)
مسئلہ ۱۴: سیگرام پورتحصیل بسولی ضلع بدایوں مرسلہ شیخ برکت اللہ زمیندار ۱۲ جمادی الآخرہ ۱۳۱۳ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید کا شتکار ہے، اس کو زمیندار نے زمین اپنی سکونت کے واسطے دی جس میں اس نے چوپال اور مکان بنایا، اور اس کاشتکار نے کھیت میں باغ لگایا اب یہ مکان چوپال اس نے فروخت بدست زمیندار کیا، ایسی حالت میں اس بائع کے شرکاء شفیع ہوسکتے ہیں یا نہیں ؟ بینوا توجروا
الجواب: جبکہ کاشتکار صرف عملہ مکان ودرختان مالک ہے۔ زمین اس کی ملک نہیں تو مجرد عملہ ودرخت میں کسی کے لئے شفعہ نہیں۔
ردالمحتار میں بزازیہ سے منقول ہے، چوپال میں شفعہ نہیں کیونکہ وہ منقول چیزہے جس طرح عمارت اور درختوں وغیرہ میں نہیں ہے۔ نہایہ، تاتارخانیہ اورذخیریہ میں سراجیہ سے منقول ہے۔ اھ ملخصا۔ واللہ تعالٰی اعلم (ت)
(۱؎ ردالمحتار کتاب الشفعۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۵/ ۱۳۸)
مسئلہ ۱۵: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید نے بکر سے (مامہ عہ) روپیہ قرض لئے اور تین مکان رہن کردئے جبکہ مدت گزری ار روپیہ ادا نہ ہوا، بکر نے نالش کرکے مع سود وخرچہ (مالہ لعہ لعہ) کے ڈگری پائی، اس میں تینوں مکان جن کی قیمت کی حیثیت قریب پانسو روپیہ کے تھی، چھیاسٹھ روپیہ میں نیلام ہوگئے، نیلام کارندہ بکر نے خریدا اور بعدہ، اپنے آقا کے لئے خریدا ظاہر کرکے بنام بکر لکھ دیا، بکر نے ان مکانات پر قبضہ نہ کیا، زیدچھ سات برس تک بدستور قابض رہا، اس سے قبل از نیلام خواہ اس کے بعد کبھی کوئی بات ایسی صادرنہ ہوئی جو اس نیلام کے اجازت یارضامندی پر دلیل ہو، یہاں تک کہ دونوں انتقال کرگئے، اور بعد زید وارثان زید قابض ہوئے، اب ورثائے بکر نے نالش کرکے ڈگری دخلیابی حاصل کی، اور ہنوز دخل نہ ہوا تھا کہ ڈگری بدست خالد بیع کردی،اس خالد کو بھی دخل نہیں ملا ہے۔ اس صورت میں عمرو حویلی مذکور کا شفیع مدت دخل یابی خالد شفعہ طلب کرسکتاہے یانہیں، اور اگر خالد اپنی ڈگری ضائع کردے اورحق دخلیابی سے بعوض یا بلاعوض دستبردار ہوتو شفیع کے حق شفعہ کی کیا حالت ہوگی؟ بینوا توجروا
الجواب: صور ت مستفسرہ میں ان مکانات پر ہر گز کسی طرح دعوٰی شفعہ نہیں پہنچتا کہ شفعہ کے لئے مکان کا ملک مالک سے خارج ہونا ضروری ہے۔
فی ردالمحتار فی الفتاوٰی الصغرٰی الشفعۃ تعتمد زوال الملک عن البائع ۲؎ الخ۔
ردالمحتار میں فتاوٰی صغرٰی سے منقول ہے۔ شفعہ کامدار بائع کی ملکیت کا زوال ہے۔ الخ (ت)
(۲؎ردالمحتار کتاب الشفعۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۵/ ۱۳۸)
اوریہاں وہ مکانات شرعا ملک زید سے خارج نہ ہوئے، یہ بیع نیلام جو بلااجازت واقع ہوئی غیر مالک کی بیع تھی جسے شرع میں بیع فضولی کہتے ہیں، اور وہ اجازت مالک پر موقوف رہتی ہے۔
فی فتاوٰی الامام قاضی خاں اذا باع الرجل مال الغیر عندنا یتوقف البیع علی اجازۃ المالک ۱؎۔
امام قاضی خاں کے فتاوٰی میں ہے جب بائع نے غیر کا مال فروخت کیا تو ہمارے نزدیک یہ بیع مالک کی اجازت پر موقوف ہوگی۔ (ت)
(۱؎ فتاوٰی قاضی خاں کتاب البیوع فصل فی البیع الوقوف نولکشور لکھنؤ ۲/ ۳۵۱)
اب کہ زید خود ہی ان مکانات پر قابض رہا، پھر وہ بالااجازت انتقال کرگیا بیع باطل ہوگئی، یہاں تک کہ وارثان زیدکو بھی اجازت کااختیار نہیں۔
فی الہندیۃ اذا مات المالک لاینفذ باجازۃ الوارث ۲؎۔
ہندیہ میں ہے کہ جب مالک فوت ہوجائے تو وارث کی اجازت سے بیع نافذ ہوگی۔ (ت)
(۲؎ فتاوٰی ہندیہ کتاب البیوع الباب الثانی عشر نورانی کتب خانہ پشاور ۳/ ۱۵۲)
درحقیقت نہ بکر ان مکانوں کا مالک ہے نہ اس کے ورثہ نہ خالد خریدار پر ڈگری، بلکہ وہ سب متروکہ زید ہیں، اور ورثائے بکر کو صرف اپنی مقدار قرض کے مطالبہ پہنچتاہے وبس، اور دعوٰی شفعہ فقط عقد مبادلہ میں ہے نہ انتقال بوراثت میں،
فی العالمگیریۃ لا تجب الشفعۃ مالیس ببیع ولا بمعنی البیع حتی لا تجب بالھبۃ والصلۃ والمیراث والوصیۃ ۳؎۔
عالمگیری میں ہے، جب تک بیع یا معنی بیع نہ پایا جائے تو شفعہ لازم نہ ہوگا۔ حتی کہ ہبہ، صلہ، میراث اور وصیت میں لازم نہ ہوگا۔ (ت)
(۳؎فتاوٰی ہندیہ کتاب الشفعۃ الباب الاول نورانی کتب خانہ پشاور ۵/ ۱۶۰)
پس عمرو کو زنہار استحقاق شفعہ حاصل نہیں، شرع مطہر کا تویہ حکم ہے۔ اور حکم نہیں مگر شرع مطہر کے لئے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۱۶: زید ہندو ہے۔ اس نے ایک مکان بنایا، ایسی زمین دیہہ میں کہ آبادی او اراضی اس دیہہ کی ملکیت مشترکہ ہےدس بارہ اشخاص کی، اب اس زید مذکور نے صرف اس مکان وبناء سکنی اپنی کو بہ ثمن متعدد ہاتھ ایک شخص کے کہ مکان خاص رہنے اس کے کا تخمینا پچاس قدم کے فاصلہ سے ہے فروخت کیا، مگر راضی داخل بیع نہیں ہے۔ صرف عملہ وبناء کوفروخت کیا ہے۔ اب بعد انقضائے عرصہ دو ماہ کے منجملہ اور شرکاء کے ایک شریک کہ وبھی پچاس قدم اس مکان مبیعہ سے رہتاہے، بگمان شفیع ہونے کے شفعہ شرعی بربنائے دعوٰی قائم کرتاہے۔ ایسی صور ت میں عندالشرع شریف اس عملہ مبیعہ زید ہندو پر شفعہ جائز ہے یانہیں؟ بینوا توجروا۔ْ
الجواب: قطع نظر اس سے کہ وہ فی نفسہ شفیع ہونے کی صلاحیت رکھتاہے۔ اور طلب مواثبت واشہاد وغیرہما امور لازمہ جس کے بغیر شفعہ باطل ہوجاتاہے بجالایا یانہیں۔ دعوٰی اس کا صو رت مستفسرہ میں راسا باطل ہے کہ بناء محل شفعہ نہیں اور اس میں قصدا وبالذات شفعہ ثابت نہیں ہوسکتا۔
کمافی تنویر الابصار وشرحہ الدرالمختار لاتثبت قصدا الا فی عقار لا بناء ونخل اذا بیعا قصدا ولو حق القرار خلافا لما فہمہ ابن الکمال لمخالفتہ المنقول کما افادہ شیخنا الرملی ۱؎ اھ ملخصا، وذکر ہ من قبل فقال فردہ شیخنا الرملی وافتی بعدمہا تبعا للبزازیۃ وغیرھا فلیحفظ ۲؎ ۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
جیساکہ تنویر الابصارمیں اور اس کی شرح درمختارمیں ہےکہ شفعہ قصدا صرف زمین میں ہوسکتا ہے عمارت او ر کجھور کے درخت میں شفعہ نہیں، جب ان کو قصدا فروخت کیا جائے اگرچہ بشرط قرار فروخت کیا جائے، یہ ابن کمال کے فہم کے خلاف ہے کہ انھوں نے منقول کے خلا ف کہا جیسا کہ ہمارے شیخ رملی نے افادہ کیا اھ ملخصا انھوں نے قبل ازیں ذکر کیا ہے اور کہا کہ ہمارے شیخ رملی نے اس کارد کیا ہے اور عدم شفعہ کافتوٰی بزازیہ وغیرہا کی اتباع میں دیا ہے پس اسے محفوظ کرلو۔ واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)
(۱؎ درمختار شرح تنویر الابصار کتاب الشفعۃ باب ماتثبت ھی فیہ اولا مطبع مجتبائی دہلی ۲/ ۲۱۴)
(۲؎ درمختار کتاب الشفعۃ باب ماتثبت ہی فیہ اولا مطبع مجتبائی دہلی ۲/ ۲۱۱)