فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۰(کتاب الغصب، کتاب الشفعہ، کتاب القسمہ، کتاب المزارعہ، کتاب الصید و الذبائح، کتاب الاضحیہ)
5 - 126
مسئلہ ۷ : ۳ شوال ۱۳۱۰ھ
علمائے دین ومفتیان شرع متین کیا فرماتے ہیں اس صورت میں کہ ملوخاں نے ایک قلعہ حویلی معہ اراضی جس کے شمال میں ملحق حویلی محمد خاں، جنوب میں ملحق رفیع الدین کی ہے۔ کلن خاں اور علی حسن خان شخص غیر کے ہاتھ بیع کردی، اور اس کی خبر پاکر محمد خان ورفیع الدین ہمسایہ بائع مستدعی شفعہ ہوئے، چنانچہ کلن خاں وعلی حسن خان مشتری حال نے حسب دعوٰی شفعہ محمد خاں کے نام بیعنامہ لکھ دیا، رفیع الدین نے نالش شفعہ کی ہے۔ پس رفیع الدین مدعی بذریعہ شفعہ بمقابلہ محمد خاں مشتری شفعہ کے کامیابی شرعا حاصل ہوسکتاہے ،یادونوں شفیعوں کو قطعہ مشفوعہ تقسیم ہوسکتاہے تو کس مقدار سے یعنی مساوی یا کم وبیش ؟ بینو ا توجروا
الجواب: صورت مستفسرہ میں رفیع الدین کل مکان مشفوع بذریعہ شفعہ محمدخاں سے پائے گا کہ محمد خاں کا اس کو مشتری اول سے خریدنا اس کے ملک کو تسلیم کرنا ہے اور اس کی ملک تسلیم کرنا بیع اول کے تسلیم شفعہ سے اعراض ، اورشفعہ سے اعراض حق شفعہ کا مسقط، تو محمد خاں اس مکان کا شفیع نہ رہا اور رفیع الدین کا استحقاق باقی، لہذا وہ کل مکان محمدخان سے لے سکتاہے۔
فتاوٰی عالمگیری میں ہے :
لوکان الشفیع الحاضر اشتری الدار من المشتری ثم حضر الغائب فان شاء اخذ کل الدار بالبیع الاول، وان شاء اخذ کلہا بالبیع الثانی ۱؎
ایک حاضر شفیع نے مشتری سے مکان خریدلیا، پھر دوسرا شفیع جو غائب تھا حاضر ہوگیا تو اس کو اختیار ہے چاہے تو پورا مکان پہلے سودے پر اورچاہےدوسرے سودے پر پور امکان شفعہ کے ذریعہ حاصل کرلے۔ (ت)
(۱؎ فتاوٰی ہندیہ کتاب الشفعۃ الباب السادس نورانی کتب خانہ پشاور ۵/ ۱۷۸)
اسی میں ہے :
قدبطل حق الشفیع الحاضر بالشراءلکون الشراء دلیل الاعراض ۲؎۔ واﷲ سبحانہ وتعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم۔
حاضر شفیع نے اپنا حق شفعہ خریداری کی وجہ سے باطل کرلیاکیونکہ خریدنا شفعہ سے اعراض کی دلیل ہے۔ واللہ سبحانہ وتعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم۔ (ت)
(۲؎فتاوٰی ہندیہ کتاب الشفعۃ الباب السادس نورانی کتب خانہ پشاور ۵/ ۱۷۸)
مسئلہ ۸ تا ۱۲: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ان مسائل میں: بینوا توجروا
(۱) بعد علم بیع قبل قبضہ کرنے مشتری کے شیئ مبیع پر دعوٰی شفعہ ہوسکتاہے یانہیں؟
(۲) ایک شخص کے احاطہ واحد ہ میں چند منازل ہیں جن کا دروازہ ایک ہی ہے اور حدودا ربعہ اس کی ایک ہی ہیں، اس احاطہ کے ایک طرف زید کا مکان ملحق ہے۔ اب یہ کل مکان بیع کیاجائے، تو آیا اس صورت میں زید اس قطعہ کو بذریعہ شفعہ لے سکتاہے، جو اس کے مکان سے متصل ہے یا کل مکان کو۔
(۳) جس محلہ میں رواج شفعہ نہ ہو وہاں شرعا دعوٰی شفعہ ہوسکتاہے یا نہیں؟
(۴) اگر قبل بیع ہمسایہ خریداری سے انکار کرے۔ پھر بعد بیع دعوٰی شفعہ کرے تو مسموع ہوگا یا نہیں؟
(۵) اگر شفیع مشتری کی طرف سے وکیل خریدنے کا ہو تو اس کا شفعہ قائم رہے گایا نہیں؟
الجواب
(۱) شفعہ بمجرد بیع ثابت ہوتاہے۔ قبضہ مشتری کی حاجت نہیں ۔ ہدایہ میں ہے :
یشہد علی البائع ان کان المبیع فی یدہ معناہ لم یسلم الی المشتری ۳؎۔
اگر مبیع زیرقبضہ بائع ہو تو وہاں گواہی قائم کرے اس کا معنی یہ ہے کہ ابھی مشتری کو نہ سونپا ہو ۔ (ت)
(۳؎ الہدایۃ کتاب الشفعۃ باب طلب الشفعۃ الخ مطبع یوسفی لکھنؤ ۴/ ۳۹۱)
درمختارمیں ہے :
ثم یشہد علی البائع لو العقار فی یدہ اوعلی المشتری وان لم یکن ذاید ۱؎ باختصار، واﷲ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم۔
اگر زمین بائع کے قبضہ میں ہو تو وہاں گواہی قائم کرے یا مشتری کے پاس گواہ بنائے اگر چہ زمین اس کے قبضہ میں نہ ہو باختصار، واللہ سبحانہ وتعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم۔ (ت)
(۱؎درمختار کتاب الشفعۃ باب مایبطلہا مطبع مجتبائی دہلی ۲/ ۲۱۲)
(۲) کل کو کہ جب احاطہ واحد، دروازہ واحد ہے تو وہ دار واحد ہے۔ ہدایہ میں ہے:
الداراسم لما ادیر علیہ الحدود ۲؎۔
جس دائرہ پر حدود قائم کی گئی ہیں اس کو دار کہتے ہیں ۔ (ت)
(۲؎ الہدایۃ کتاب البیوع باب الحقوق مطبع یوسفی لکھنؤ ۳/ ۸۸)
اورواحد کے کسی ٹکڑے سے جسے اتصال ہو وہ کل دار کا شفیع ہے،حتی کہ اگر ایک شخص صرف ایک جانب بقد ایک بالشت کے اتصال رکھتاہو اور دوسرا تینوں جانب بروجہ کمال تو دونوں شفعہ میں برابر ہیں۔
ردالمحتارمیں ہے :
الملاصق من جانب واحد ولو بشبر کالملاصق من ثلثۃ جوانب، فہما سواء اتقانی۳؎۔
ایک جانب سے اتصال اگر چہ ایک بالشت ہو تو وہ باقی تین اطراف والے سے اتصال کے برابر ہے اتقانی (ت)
(۳ ؎ ردالمحتار کتاب الشفعۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۵/ ۱۴۰)
یہاں تک کہ اگر دارواحد اپنے جمیع منازل کے ساتھ شخص واحد کے ہاتھ بیچے، اور شفیع چاہےکہ بذریعہ شفعہ ان میں سے صرف وہ منزل لے جس سے اس کا مکان متصل ہے۔ تو ہر گز اجازت نہ دیں گے، اگرچہ بیچنے والے جدا جدا ہوں بلکہ کل لے یا کل ترک کرے۔
عالمگیری میں ہے :
ان اراد الشفیع ان یاخذ بعض المشترٰی دون البعض وان یاخذ الجانب الذی یلی الدرار دون الباقی لیس لہ ذٰلک بلا خلاف بین اصحابنا ، ولکن یاخذ الکل اویدع، لانہ لواخذ البعض دون البعض تفرقت الصفقہ علی المشتری سواء اشتری واحد من واحد او واحد من اثنین اواکثر حتی لوارادالشفیع ان یاخذ نصیب احدالبائعین لیس لہ ذٰلک الخ ۱؎ ۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
ایک غیر ممتاز مبیع میں سے شفیع بعض حصہ کو لینا چاہے اور کچھ چھوڑنا چاہے اور اپنے دار سے متصل حصہ کو شفعہ میں لینا اور باقی کو چھوڑنا چاہے تو اس کو یہ اختیار نہیں، اس میں ہمارے اصحاب کا کوئی اختلاف نہیں، لیکن وہ سب کو لے یا سب کوچھوڑے کیونکہ اگر بعض کو لے اور بعض کو نہ لے تو اس سے مشتری پر سودا متفرق ہوجائے گا خواہ ایک مشتری نے ایک بائع متفرق ہوجائے گا خواہ ایک مشتری نے ایک بائع سے ایک نے متعدد حصہ داروں سے خریدا ہو حتی کہ اگر دو فروخت کرنے والوں میں سے ایک کے حصہ کولینا چاہے تو شفیع کویہ اختیار نہیں ہے الخ، واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)
(۱؎ فتاوٰی ہندیہ کتاب الشفعۃ الباب الرابع نورانی کتب خانہ پشاور ۵/ ۱۷۵)
(۳) بیشک ہوسکتاہے اگر چہ شہر بھر میں رواج نہ ہو کہ شفعہ حکم شرعی ہے۔ رواج وغیرہ پر مبنی نہیں وہذا ظاہر جدا (یہ بالکل ظاہر ہے۔ ت) واللہ اعلم۔
(۴) ضرور مسموع ہوگا، حق شفعہ بعد بیع ثابت ہوتاہے۔ تو قبل از انکار کوئی چیز نہیں۔
درمختارمیں ہے :
یبطلہا تسلیمہا بعد البیع لاقبلہ ۲؎۔
بیع کے بعد شفعہ کو چھوڑنا اس کو باطل کرتاہے بیع سے پہلے باطل نہیں کرتا۔ (ت)
(۲؎ درمختار کتاب الشفعۃ باب مایبطلہا مطبع مجتبائی دہلی ۲/ ۲۱۵)