فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۰(کتاب الغصب، کتاب الشفعہ، کتاب القسمہ، کتاب المزارعہ، کتاب الصید و الذبائح، کتاب الاضحیہ)
4 - 126
ردالمحتارمیں ہے:
الظاھر ان المرد وھبۃ بعد بیع ماعداہذا القدر بقرینۃ قولہ للمشتری ومثلہ مالو باعہ لہ لانہ صار شریکا فی الحقوق، فلاشفۃ للجار ۲؎ اھ یعنی مثل الھبۃ فی عدم الشفعۃ مالو باع البائع ھذا الزراع الباقی فی البیع الاول المشتری القطعۃ الاولٰی، لانہ بشرائہ القطعۃ الاولی صار شریاکا فی حقوق القطعۃ الثانیۃ، وھی الذراع المبیع ثانیا، فجار الداروان کان لہ حق الجوار فی ھذا الذراع، لوجود الاتصال لکن لاشفعۃ لہ لان المشتری خلیط فی الحقوق فلا شفعۃ معہ للجار المحض۔
ظاہر یہ ہے کہ اس کی مراد بیع کے بعد مشتری کوہبہ کرناہے اس پر قرینہ للمشتری کا لفظ ہے اوریونہ اگر وہ اتنا حصہ اس نے بعد میں مشتری کو فروخت کردیا ہو، کیونکہ وہ مشتری اب حقوق میں شریک ہوچکا ہے اس لئے اب پڑوسی کو شفعہ کا حق نہ ہوگا اھ یعنی شفعہ نہ ہونے میں وہ صورت کہ بائع نے پہلی بیع میں سے باقیماندہ گز کو پہلے مشتری کے پاس فروخت کیا تو ہبہ کی طرح پڑوسی کا شفعہ نہ ہوگا کیونکہ وہ مشتری پہلے قطعہ کو خریدنے کی بناء پر دوسرے باقیماندہ حصہ کے حق میں شریک ہوگیا تو اگر چہ جگہ کے پڑوسی کو پڑوس کی وجہ سے اس باقیماندہ میں اتصال ہے لیکن اس کا شفعہ نہیں کیونکہ مشتری حقوق میں شریک بن گیا لہذا اس کے مقابلہ میں محض پڑوسی کو حق شفعہ نہ رہا۔ (ت)
(۲؎ ردالمحتار کتاب الشفعۃ باب مایبطلہا داراحیاء التراث العربی بیروت ۵ /۱۵۴)
اسی میں ہے :
مشتری الذراع صارشریکا فی الحقوق فیقدم علی الجار کما قدمناہ ۱؎۔
باقیماندہ گزمیں مشتری حقوق کا شریک ہوگیا لہذا وہ پڑوسی پر مقدم ہوگا، جیسا کہ پہلے گزرا۔ (ت)
(۱؎ ردالمحتار کتاب الشفعہ باب مایبطلہا دراحیاء التراث العربی بیروت ۵/ ۱۵۵)
پس حامد حسن نے جس وقت پہلا قطعہ ===== گزبتعیین سمت ومقدار خریداباقی تمام زمین مملوکہ مینڈھو وعظیم اللہ میں خلیط فی الحق ہوگیا، اسی طرح دوسرے بار کی خریداری نے اس کا بھی استحقاق قائم رکھا، اور جبکہ وہ مکان مع آبچک وغیرہ بتمامہ قطعہ واحدہ ہے، تو اس کے مجموع سے حق حامد حسن متعلق ہوا، جس سے کسی جز کو مستثنٰی ماننےکی کوئی وجہ نہیں
کما لایخفی علی احد
(جیسا کہ کسی پرمخفی نہیں ہے۔ت ) اور خلیط فی الحق جار محض پر شرعا مقدم کہ جار خریدے تو یہ بذریعہ شفعہ ا س سے سب پرواپس لے سکتاہے۔
کما فی الکتب قاطبۃ
(جیسا کہ معتبر کتب میں ہے۔ ت)
عالمگیری میں ہے:
یراعی فیہا الترتیب فیقدم الشریک علی الخلیط ، والخلیط علی الجار ۲؎۔
اس میں ترتیب کی رعایت ہوگی تو شیریک مقدم ہوگا خلیط پر، اور خلیط مقدم ہے پڑوسی پر۔(ت)
(۲؎ فتاوٰی ہندیۃ کتاب الشفعہ الباب الثانی نورانی کتب خانہ پشاور ۵/ ۶۶۔ ۱۶۵)
پس ثابت ہوا کہ جس قدر زمین آبچک وغیرہ آبچک بدست وزیر الدین جار محض بیع کی گئی تمام وکمال حامد حسن شفیع خلیط فی حق المبیع کو بذریعہ شفعہ ملنی چاہئے، اگر وہ شرائط طلب کما ینبغی بجالایا ہو، اور عملہ اگر چہ جب اپنی زمین سے بیچا جائے محل شفعہ نہیں ،
شرح المجمع علامہ ابن ملک میں ہے:
وبیع النخل وحدہ اوالبناء وحدہ فلا شفعۃ لانہما الاقرار لہما بدون العرصۃ ۳؎۔
کھجور کے درخت کی علیحدہ یا عمارت کی علیحدہ بیع میں شفعہ نہیں کیونکہ زمین کے بغیر ان کو قرار حاصل نہیں ہے۔ (ت)
(۳؎ ردالمحتاربحوالہ شرح المجمع کتاب الشفعۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۵/ ۱۳۸)
مگر اس کابیع میں داخل ہونا زمین میں استحقاق شفعہ کا مانع نہیں، ردالمحتارمیں ہے :
الصفقۃ وان اتحدت فقد اشتملت علی مافیہ الشفعۃ،وعلی مالیست فیہ فیحکم بہا فیما تثبت فیہ اداء لحق العبد کذا فی درر البحار وشرح المجمع اھ ۱؎ واﷲ سبحانہ وتعالٰی اعلم۔
سودا ایک ہواور وہ ایسے حصوں پرمشتمل ہو کہ بعض شفعہ ہوسکتاہے اوردوسرے بعض میں نہیں ہوسکتا تو شفعہ والے میں بندے کا حق ہونے کی وجہ سے پورے سودے پر شفعہ کا حکم ہوگاکہ بندے کاحق ادا ہوسکے، جیسا کہ درالبحاراور شرح المجمع میں ہے اھ، واللہ سبحانہ وتعالٰی اعلم۔ (ت)
(۱؎ ردالمحتار کتا ب الشفعۃ باب مایبطلہا داراحیاء التراث العربی بیروت ۵/ ۱۵۷)
مسئلہ ۶: از بدایوں شیخ حامد حسن صاحب وکیل ۹ رمضان المبارک ۱۳۰۷ھ
بدایوں سے دوبارہ یہ سوال بعبارات طوال آیا جس کا خلاصہ یہ کہ کل مکان ۲۰۲ گز کا ظاہر کیا گیا ہے اوربیع اول بدست حامد حسن مین سے ======== گز نکل کر (ما عہ عہ) گز باقی تھا، اس میں سے منجملہ (ماعہ عہ) گز کے (لہ لعہ ۱۴ گرہ) گز شمالی کہ بروئے تقسیم خانگی حق مینڈھو ٹھہری، مینڈھو نے بایں حدودمعینہ بدست حامد حسن بیع کی اراضی آبچک زمین مبیعہ مملوکہ مقروبردار مقروبعد مکان سعد اللہ وغیرہ۔
غربی جنوبی شمالی
راستہ اراضی عظیم اللہ اراضی مشریہ حامد حسن
پھر باقی بدست وزیر الدین بیع ہوئی، اس مکان اور مکان وزیر الدین کا پانی اپنی اپنی خاص آبچکوں میں ہوکر شرقی مکانوں کے صحن مملوکہ سعد اللہ وغیرہ میں ملتاہے۔ اور وہاں یہ دونوں پانی اور ان مکانوں کے پانی سب ایک ہوکر اسی صحن مملوک کے دروازے سے نکل کر راہ میں گزر جاتے ہیں، اس صور ت میں وزیر الدین کو دعوی شرکت فی حقوق المبیع ہے۔ اورحامد حسن شفیع کو بدیں وجہ کہ کوئی تمیز خارجی نہیں دعوٰی شرکت فی نفس المبیع ہے، پس شرعا کیاحکم ہے۔ اور عملہ کہ اس مبیع بارسوم پر قائم اور بیع میں داخل ہےشفعہ میں داخل رہے گایانہیں؟ بینوا توجروا
الجواب : صورت مستفسرہ میں حامدحسن کو حق شفع حاصل ہے۔ اور وزیر الدین کو اس کے مقابل کوئی استحقاق مزاحمت نہیں کہ اگر چہ زمین کا محمدود بحدود معینہ ہونا ہی اس کے امتیاز وابطال شیوع کےلئے بس ہے۔ جس قطعہ کا آغاز وانجام جدا بتاسکیں وہ مشاع کب ہوا، مگر از انجا کہ ہنوز مکان میں حدیں فاصل نہ پڑیں، دیواریں نہ کھنچیں، راہیں نہ پھریں، صرف ذہنی امتیازات ہیں، تو حامد حسن کو بیع میں ایک اعلٰی درجہ کا حق خلیط فی حقوق المبیع حاصل ہے۔ اوریہ استحقاق اس کے لئے اسی وقت سے ثابت ومسلم تھا جب سے اس نے ======== گز کا پہلا قطعہ خریدا، ردالمحتارمیں ہے:
مشتری الذراع صار شریکا فی الحقوق فیقدم علی الجار، کما قدمناہ ۱؎۔
باقیماندہ گز کو خریدنے والا مشتری حقوق میں شریک بن گیا ہے تو وہ پڑوسی پر مقدم ہوگا۔ جیسا کہ پہلے ہم نے ذکر کیا۔ (ت)
(۱؎ ردالمحتار کتاب الشفعۃ باب مایبطلہا داراحیاء التراث العربی بیروت ۵/ ۱۵۵)
او رمکان وزیر الدین کو اس مبیع کے سیل آب سے جو علاقہ ہے اگر روایت تاتارخانیہ پر نظر کیجئے تو اصلا قابل التفات نہیں۔ اس میں صاف تصریح ہے کہ ایک مکان کا پانی خود اس دار مبیعہ میں بہتا ہو جب بھی یہ شرکت فی الحقوق نہ ٹھہریگی اور صرف جوار محض قرارپائے گا،
فروخت ہونے والی حویلی میں سے دوسرے شخص کا پانی بہتا ہے تو ا س پانی والے کو حویلی میں پڑوسی ہونے کی وجہ سے شفعہ کا حق شریک والا شفعہ نہ ہوگا اور پانی کا بھنا ، سیرابی کا حکم نہیں رکھتا۔ یوں تاتارخانیہ میں ہے۔ (ت)
(۲؎ فتاوٰی ہندیۃ کتاب الشفعۃ الباب الثانی نورانی کتب خانہ پشاور ۵/ ۱۷۰)
اوراگر روایت محیط وذخیرہ پر عمل کیجئے تو حامد حسن کہ شریک فی الطریق ہے۔ وزیر الدین سےجو صرف میل آب میں ایک علاقہ رکھتا ہے قطعامقدم ہے کہ اس کے ہوتے اسے کوئی استحقاق نہیں مزاحمت نہیں،
عالمگیری میں ہے :
صاحب الطریق الوی بالشفعۃ من صاحب مسیل الماء کذا فی المحیط ۳؎۔
راستے والا شفعہ میں پانی کے بہاؤوالے سے اولٰی ہے،یوں محیط میں ہے۔(ت)
(۳؎فتاوٰی ہندیۃ کتاب الشفعۃ الباب الثانی نورانی کتب خانہ پشاور ۵/ ۱۶۷)
ردالمحتار حاشیہ درمختارمیں ہے :
قال فی الدرالمنتقی ونقل البرجندی ان الطریق اقوی من المسیل فراجعہ انتہٰی ۴؎ ۔ قلت نقلہ عن الذخیرۃ کما رأیتہ فیہ۔
الدرالمنتقی میں فرمایا جس کو برجندی نے نقل کیا کہ راستہ کاحق پانی کے بہاؤ سے اقوی ہے۔ تو اس کی طرف مراجعت چاہئے، میں کہتاہوں کہ انھوں نے اس کوذخیرہ سے نقل کیا ہے جیسا کہ میں نے اس میں دیکھا ہے۔ (ت)
(۴؎ ردالمحتار کتاب الشفعۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۵/ ۱۴۰)
بہر حال حامد حسن اس تمام زمین مبیع کو مع اس کے جو اس مبیع پر قائم اورا س بیع میں داخل ہے بذریعہ شفعہ لے سکتاہے عملہ جب اپنی زمین کے ساتھ بیع میں آئے تو بالتبع وہ بھی محل شفعہ ہوجاتاہے۔
ردالمحتارمیں ہے:
خرج البناء والاشجار فلا شفعۃ فیہا الا بتبعیۃ العقار وان بیع بحق القرار، درمنتقی ۱؎۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
عمارت اور درخت خارج ہوگئے تو ان میں شفعہ نہ ہوگا بغیر زمین کے تابع بنے، اگرچہ قرار وبقاء کی شرط پر فروخت کئے ہوں درمنتقی، واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)
(۱؎ ردالمحتار کتاب الشفعۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۵/ ۱۳۸)