فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۰(کتاب الغصب، کتاب الشفعہ، کتاب القسمہ، کتاب المزارعہ، کتاب الصید و الذبائح، کتاب الاضحیہ)
17 - 126
مسئلہ ۳۲: از بدایوں سوتھ محلہ مرسلہ نواب عبداللہ خاں ۳ ربیع الاول شریف ۱۳۲۸ھ
حنفی المذہب جارکو وہابی غیر مقلد پر حق شفعہ حاصل ہے یانہیں؟ بینوا توجروا
الجواب: بیشک حاصل ہے، تمام کتب فقہ میں حکم شفعہ عام معلق ہے،
ہدایہ میں ہے :
الشفعۃ واجبۃ للخلیط فی نفس البیع، ثم للخلیط حق المبیع کشرب والطریق ،ثم للجار ۳؎۔
عین مبیع میں شریک کو شفعہ کا حق لازم ہے پھر مبیع کے حقوق میں شریک کو جیسے زمین کو سیراب کرنے والے پانی اور اس کے راستے میں شرکت ہو اس کے بعد پڑوسی کو حق ہوگا۔ (ت)
(۳؎ الہدایہ کتاب الشفعۃ مطبع یوسفی لکھنؤ ۴/ ۳۸۷)
درمختار میں ہے:
سبیہا اتصال ملک الشفیع بالمشترٰی بشرکۃ اوجوار ۱؎۔
شفعہ کا سبب خرید کردہ کے ساتھ شفیع کی ملک کااتصال بطور شرکت یابطور پڑوس ہو۔ (ت)
(۱؎درمختار کتاب الشفعۃ مطبع مجتائی دہلی ۲ /۱۱۔۲۱۰)
اسی میں ہے :
الشفعۃ للجار الملاصق ۲؎۔
شفعہ کا حق متصل پڑوس کو ہے۔ (ت)
( ۲؎ درمختار کتاب الشفعۃ مطبع مجتائی دہلی ۲ /۱۱۔۲۱۰)
عالمگیری می ہے:
اذا اسلم الخلیط وجبت للجار ۳؎۔
جب شریک شفعہ کو چھوڑ دے تو پھر پڑوسی کا حق ہے۔ (ت)
(۳؎ فتاوٰی ہندیہ کتاب الشفعۃ الباب الثانی نورانی کتب خانہ پشاور ۵ /۱۶۶)
اسی میں ہے:
للجار حق الشفعۃ اذا کان الجار قد طلب الشفعۃ حین سمع البیع ۴؎۔
پڑوسی کو شفعہ کا حق تب ہے کہ اس نے بیع کو سنتے ہی طلب کی ہو۔ (ت)
(۴؎فتاوٰی ہندیہ کتاب الشفعۃ الباب الثانی نورانی کتب خانہ پشاور ۵ /۱۶۷)
قاضی خاں میں ہے :
الشفعۃ حق شرع نظرا لمن کان شریکا اوجارا عند البیع ۵؎۔
حق شفعہ شریک یا پڑوسی کی رعایت کے لئے مشروعات ہے بوقت بیع (ت)
(۵؎ فتاوی قاضیخاں کتاب الشفعۃ الباب الثانی نولکشور لکھنؤ ۴ /۸۶۰)
اصلا کہیں یہ قید نہیں کہ بائع یا مشتری کا مقلد ہو ناضروری ہے ورنہ حق شفع نہ ہوگا جو اس کا ادعا کرے کسی کتاب معتبر میں دکھائے، اور ہر گزنہ دکھا سکے گا۔ اور جب تمام کتب میں حکم بلا شبہہ عام ہے، تو اپنی طرف سے تخصیص کب قابل سماعت ہے۔ ناواقف جاہل کو یہاں دوہی شبہے عارض ہوسکتے ہیں ایک یہ کہ غیر مقلد شفعہ جار کا قائل نہیں تو وہ اپنے زعم میں اس مطالبہ سے بری ہے۔ دوسرے یہ کہ غیر مقلد بہت مسائل اصول دین میں اہل حق کا مخالف ہے۔ وہ ا یک دین ہی جداگانہ رکھتاہے تو ہمارے دین کے احکام اسے شامل نہ ہوں گے، اور یہ دونوں شبہے محض باطل وبے معنی ہیں، کتابوں میں صاف تصریح ہے کہ اگر کھلے کافرنے دوسرے کے ہاتھ مکان بیچا اور مسلمان اس کا شفیع ہے۔ مسلمان کو شفعہ ملے گا، تو کھلے کفار جن کے یہاں شفعہ سرے سے کوئی چیز ہی نہیں اور وہ صراحۃ نفس اسلام سے منکر ہیں، جبکہ اپنے خیال میں عدم شفعہ یا تخالف دین کے سبب شفعہ سے بری نہ ہوئے، تو غیر مقلد کہ اصل شفعہ کا قائل ہے، اگرچہ شفعہ جوار میں کلام کرے، اور دین اسلام کا دعوٰی رکھتاہے اگرچہ اپنے دعوے میں غلط کار ہو، کیونکہ اپنے خیال یا تخالف مذہب کے باعث شفعہ سے بری ہوسکتاہے۔
فتاوٰی عالمگیری میں ہے :
لواشتری ذی من دار بخمر اوخنزیر وشفیعہا ذمی اومسلم وجب الشفعۃ عند اصحابنا ۱؎۔
اگر کسی ذمی نے ذمی سے مکان بعوض شراب یا خنزیر خریدا اور ا س پر شفعہ کرنیوالا ذمی ہو یامسلمان ہو اس کو ہمارے اصحاب کے نزدیک شفعہ کا حق ہے۔ (ت)
(۱؎ فتاوٰی ہندیۃ کتاب الشفعۃ الباب الخامس عشر نورانی کتب خانہ پشاور ۵ /۱۹۴)
مسلمان، کافر، بڑا، چھوٹا، مرد اور عورت شفعہ ان کے حق میں ہو یا خلاف ہو سب برابر ہیں۔ (ت)
(۲؎ فتاوٰی قاضی خاں کتاب الشفعۃ مطبع نولکشور لکھنؤ ۴ /۸۶۰)
ہدایہ میں ہے:
اذاشتری ذمی بخمر اوخنزیر ان کان شفیعہا مسلما اخذ بقیمۃ الخمر والخنزیر وبالاسلام یتاکد حقہ لا ان یبطل ۳؎ اھ ملتقطا۔
جب شراب یا خنزیر کے عوض کسی ذمی نے مکان خریدا اگر مسلمان شفعہ کا حقدار ہو تو شراب اورخنزیر کی قیمت کے عوض شفعہ حاصل کرے گا، اسلام اس کے حق کو مضبوط بناتاہے نہ کہ باطل کرتاہے اھ ملتقطا (ت)
(۳؎ الہدایہ کتاب الشفعۃ باب الشفعۃ مطبع یوسفی نولکشور لکھنؤ ۴ /۹۸۔ ۳۹۷)
بالجملہ مدعاعلیہ اپنے کسی خیال ومذہب کے باعث اس حق کو مدعی کے لئے باطل نہیں کرسکتا، اور وجہ اس کی ظاہر ہے کہ شرعی مطہر نے حق شفعہ شفیع سے وضع ضرور کے لئے مشروع فرمایا ہے، مدعی کہ اپنا ضرر دفع کرنا چاہتاہے، مدعاعلیہ یہ جواب کیونکر دے سکتاہے کہ میرے خیال ومذہب میں تو اپنے ضرر کے دفع کا استحقاق نہیں رکھتا ، ایسا جواب کب قابل التفات ہوسکتاہے،
ہدایہ میں ہے :
الاتصال علی ھذہ الصفۃ انما انتصب سببا فیہ لدفع ضررالجواب اذہو مادۃ المضار علی ماعرف ۱؎۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
اس طریقہ کا اتصال پڑوس کے ضرر کو دفع کرنے کے لئے سبب ہے کیونکہ پڑوس محل ضرر ہے جیسا کہ معروف ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)
(۱؎ الہدایۃ کتاب الشفعہ مطبع یوسفی نولکشور لکھنؤ ۴/ ۳۸۸)
مسئلہ ۳۳: مسئولہ محمد حیدر حسن خاں رامپوری ۲۲ ربیع الاول شریف ۱۳۲۸ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک مکان کاحصہ فروخت ہوا، شفیع جو خلیط فی نفس المبیع ہے اس نے خبر سن کر فورا طلب مواثبت کی، ادا کے وقت چند اشخاص شفیع کے پاس موجود تھے، اور اس جگہ سے مکان مبیعہ بھی نظر آتا ہے۔ شفیع طلب مواثبت کرکے خود اشخاص مذکورہ کو ساتھ لےکر مکان مبیعہ کے پاس آیا، سب آدمی مکان کے دروازے کے پاس کھڑے رہے اور شفیع مکان کے اندر چلا گیا اور وہاں پردہ کرایا، اور پھر باہر آکر سب آدمیوں کو مکان کے اندر لے گیا، تب شفیع نے طلب اشہاد ادا کی، شفیع اگر چاہتا تو جس جگہ اس نے طلب اول ادا کی تھی اور وہاں سے مکان مبیعہ بھی نظر آتا تھا اس جگہ طلب ثانی بھی ادا کرسکتا تھا، یہ امر دریافت طلب ہے کہ شفیع نے جو دو تاخیریں ادا ئے طلب اشہاد میں کیں، یہ دونوں تاخیریں یا ان میں سے کوئی مبطل شفعہ ہے یانہیں؟ بینوا توجروا
الجواب: صورت مستفسرہ میں نہ شفعہ باطل ہوا نہ طلب اشہاد میں تاخیر ہوئی، نہ یہاں طلب مکرر کی حاجت تھی ، بلکہ وہی طلب مواثبت جو اس نے دار مبیعہ کے منظر میں کی، جہاں وہ مکان کے سامنے اور حسب بیان زبانی سائل نے صرف پچاس قدم کے فاصلہ پر تھا، وہی دونوں طلبوں کا کام دے گئی، اصل یہ ہے کہ یہاں طلب خصومت سے پہلے دو طلبیں لازم کی ہیں، ایک بفور علم اگرچہ اس وقت وہاں اور کوئی نہ ہو، دوم احدالمعاقدین یا مبیع کے سامنے، اورا گر وقت علم احدالبائعین حاضر یا مبیع پیش نظرہے، تو یہی طلب اول و ددم دونوں ہوجائیں گی، پھر طلب اشہاد میں حاضرین سے یہ کہنا کچھ ضرور نہیں کہ تم گواہ ہوجاؤ بلکہ فی الواقع دونوں میں سے کسی طلب میں گواہوں کا موجود ہونا ہی شرط نہیں، وہ صرف ثبوت دینے کے لئے درکارہوتے ہیں جبکہ مشتری انکار کرے تو گواہوں کے سامنے طلب مواثبت منظر مبیعہ میں کرنا بدرجہ اولٰی طلب اشہاد بھی ہے اگر چہ گواہوں سے نہ کہا ہو کہ گواہ رہو، اور یہیں سے ظاہر ہے کہ اس کے بعد شفیع کا شہود کو دروازہ پر پھر اندر لے جانااور طلب کرنا سب فضول وزوائد از حاجت تھا، جس کی تاخیر بلکہ عدم سے بھی شفعہ کو کوئی ضرر نہیں پہنچتا۔
درمختارمیں ہے:
لو اشہد فی طلب المواثبۃ عنداحد ھٰؤلاء (ای البائعین والمبیع)کفاہ وقام مقام الطلبین ۱؎۔
اگر شفعہ کی طلب پر ان میں سے کسی کے اس گواہ بنائے یعنی خرید وفروخت کرنے والوں اور مبیع کے پاس تو اس کو کافی ہے اور یہ عمل دونوں طلب کے قائم مقام ہوگا۔ (ت)
(۱؎ درمختار کتاب الشفعۃ باب طلب الشفعۃ مطبع مجتبائی دہلی ۲/ ۲۱۲)
عالمگیری میں ہے :
انما یحتاج الی طلب المواثبۃ ثم الی طلب الاشہاد بعد اذالم یمکنہ الاشہاد عند طلب المواثبۃ بان سمع الشراء حال غیبۃعن المشتری والبائع والدار، امااذا سمع عند حضرۃ ھٰؤلاء الثلث (ای احد ھم کما لایخفی) واشہد علی ذٰلک فذٰلک یکفیہ، ویقوم مقام الطلبین کذا فی خزانۃ المفتین ۲؎۔
طلب مواثبت کے بعد طلب اشہاد کی ضرورت تب ہوگی جب طلب مواثبت پر وہ گوہ نہ بنا سکے، مثلا یوں کہ شفیع نے خریداری کی خبر مشتری بائع اور مبیع مکان سے غائب ہونے پر سنی لیکن جب ان کی موجودگی میں سنی ہو اور اس وقت گواہ بھی اس طلب پر قائم کرلئے ہوں تو اسےکافی ہے اور یہ عمل دو طلب کے قائم مقام ہوگا خزانۃ المفتین میں اسی طرح ہے (ت)
انما سمی الثانی طلب الاشہاد لا لان الشہادۃ شرط بل لتکمنہ اثبات الطلب عند جحود الخصم ۳؎۔
چنانچہ دوسری طلب کانام طلب اشہاد ا س لئے رکھا گیا ہے کیونکہ اس میں گواہ بنانا شرط ہے تاکہ مخالف فریق کے انکار پر ثابت کرسکے (ت)
(۳؎ فتاوٰی قاضی خان کتاب الشفعۃ فصل فی الطلب نولکشور لکھنؤ ۴/ ۸۶۱)
نتائج الافکار میں بدائع سے ہے :
اماالاشہاد علی ھذا الطلب فلیس بشرط و انما ھو لتوثقۃ علی تقدیر الانکر کما فی الطلب الاول ۱؎۔
دوسری طلب میں گواہ بنانا شرط نہیں بلکہ اس لئے گوہ بنائے کہ مخالف کے انکار پر اپنے حق کو ثابت کرسکے جیساکہ پہلی طلب میں شرط نہیں ہے۔ (ت)
(۱؎ نتائج الافکار فی کشف الرموز والاسرار تکملہ فتح القدیر کتا ب الشفعۃ باب طلب الشفعہ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۸/ ۳۰۸)
فتح اللہ المعین میں ہے :
الاشہاد علی الطلب التقریر لیس بشرط کما فی البدائع ۲؎۔
طلب تقریریعنی طلب ثانی میں گواہ بنانا شرط نہیں، جیسا کہ بدائع میں ہے۔ (ت)
(۲؎ فتح المعین کتاب الشفعۃ باب طلب الشفعۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۳/ ۳۳۰)
ہندیہ میں محیط سرخسی سے ہے:
اما طلب الاشہاد فہو ان یشہد علی الطلب المواثبۃ حتی یتأکد الوجوب بالطلب علی الفور، ولیس الاشہاد شرطا لصحۃ الطلب لکن لیتوثق حق الشفعۃ اذا انکر المشتری طلب الشفعۃ ۳؎ واﷲ تعالٰی اعلم۔
طلب اشہاد یہ ہے کہ طلب مواثبت یعنی پہلی طلب پر گواہ بنائے تاکہ فوری طورپر طلب کا وجوب پختہ ہوجائے جبکہ صحت طلب کے لئے اس وقت گواہ بناناشرط نہیں ہے بلکہ اس لئے ہے کہ مخالف فریق جب انکار کرے تو یہ اپنے حق شفعہ کو مضبوط بناسکے واللہ تعالٰی اعلم۔
(۳؎ فتاوٰی ہندیہ کتاب الشفعۃ الباب الثالث نورانی کتب خانہ پشاور ۵/ ۱۷۲)