فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۰(کتاب الغصب، کتاب الشفعہ، کتاب القسمہ، کتاب المزارعہ، کتاب الصید و الذبائح، کتاب الاضحیہ) |
الجواب :اس مقدمہ کے متعلق عرضی دعوٰی وجواب دعوٰی از جانب شہنشاہی بیگم، ورد جواب از جانب مدعی واظہار عثمان خاں وعبدالرزاق خاں وسید دلاور علی خاں ونتھو خان وبشیر الدین خاں وعبدالغفار خاں گوہان مدعی و نیاز حسین خاں وعزیز محمد خان وامین الدین خان وسعید الدین خاں گواہان مدعاعلیہما وروبکار مفتی صاحب حاکم مجوز کے نقول باضابطہ فقیر کے سامنے پیش ہوئیں، اس دعوٰی کی حالت دعوی اصغر علی خاں مدعی بنام شہنشاہی بیگم مذکورہ سے بھی بدترہے مشہود مدعی میں صرف تین گواہوں نے مکان مدعی ملک ہونے کی طرف توجہ کی، ازیں جملہ عبدالغفار خاں کا بیان ہے ''مکان جانب مشرق مملوک بائع کا ہے، اور جانب غرب شفیع کا ہے پکھا دونوں مکان کا مشترکہ ہے'' یہ گواہ ایک ایسے دو مکانوں کا قصہ بیان کرتاہے جسکا پکھا مشترک اور ان میں ایک مملوک بائع دوسرا شفیع کا ہے، مگر اس کی شہادت کچھ پتانہیں دیتی کہ وہ مکان کس شہر، یا شہر کے کس گوشہ میں واقع ہیں، شہادت میں نہ مکانوں کی تعیین، نہ ان کی طرف اشارہ یہ شہادت اس پایہ کی ہے کہ مقدمہ اصغر علی خاں بنام شہنشاہی بیگم میں شہادت علی بہادر خاں تھی، نتھو خاں نے کہا''یہ مکان سید محمد شاہ کا جس کی وجہ سے دعوٰی شفعہ کیا ہے موروثی ہے سید دلاورعلی نے کہا ''مکان شفیع کا مملوکہ موروثی ہے'' لفظ اگرچہ مطلق تھا مگر اظہارمیں لکھا کہ'' نشان دہی کردی'' تو انھیں دوگواہوں سے ملک مشفوع بہا کا پتا چلا شہنشاہی بیگم یہاں بھی مشفوع بہا میں ملک مدعی سے منکر ہے اور مدعی نے نہ اس سے حلف لیا نہ اس نے حلف سے انکار کیا بلکہ مدعی نے شہادت پر اپنے کام کامدار رکھا، اور وہ حسب قاعدہ شرع ادانہ ہوئی کہ کسی شہادت میں بیع مشفوعہ سے پہلے مشفوع بہا کا ملک مدعی ہونا اور اب تک بالاستمرار اس کی ملک میں رہنا اصلا مذکور نہیں، مقدمہ اصغر علی خاں میں اگر چہ دعوٰی محض مجمل تھا، بجواب استفسار حاکم اور تفصیل نہ کرسکا ، تو نام موث تو بتادیا، یہاں اس قدر بھی نہیں، بیان مدعی یا بیان شاہد ان کسی سے پتانہیں چلتا کہ یہ مکان محمد شاہ کو بیع مشفوعہ کے کتنے مہینے بعد میراث میں ملا ہے، بیع مشفوعہ ۱۶ دسمبر ۱۹۰۶ء کو ہوئی، اور شہادتیں ۱۳۹۹ جون ۱۹۰۷ء کو ہیں کیا اگر ۸ جون ۱۹۰۷ء تک سید محمد شاہ کاکوئی مورث باپ یا بھائی یا چچا وغیرہم اس مکان مشفوع بہا کا مالک رہا، اور اس تاریخ اس کی وفات ہوئی، اورمکان ملک سید محمد شاہ میںآیا تو ۹ جون کو گواہوں کاکہناکہ یہ مکان شفیع کا موروثی ہے، غلط ہوگا، ہر گز نہیں، ضرور صحیح وحق ہوگا، مگر مدعی کے کسی مصرف کا نہیں، اس کی ملک تو وقت بیع مشفوعہ سے پہلے ہواور اب تک مستمر رہے، اس کا ثبوت درکارتھا، جس کا نام تک کسی شاہد نے نہ لیا، تو ایسی شہادتیں محض ناکافی اور بے معنٰی ہیں، اور دعوٰی اصلا پایہ ثبوت کونہ پہنچا اجناس وذخیرہ ومحیط وغیرہا میں ہے :
ینبغی ان یشہدوا ان ھذہ الدار التی بجوار الدار المبیعۃ ملک ہذا الشفیع قبل ان یشتری ہذا المشتری ہذا الدارو ہی لہ الی ہذا الساعۃ لانعلمہا خرجت عن ملکہ فلوقالا ان ھذہ الدارلہذا الجار لایکفی ۱؎۔
گواہ یوں شہادت دیں کہ مبیع مکان کے پڑوس میں یہ مکان اس مشتری کے اس مکان کو خریدنے سے قبل شفیع کی ملکتی میں اس قت تک ہے اور اس کی ملکیت سے خارج ہونا ہمیں معلوم نہیں، تو اگر صرف یہ کہیں کہ یہ مکان اس پڑوسی کا ہے تو اتنا کافی نہیں ہے۔ (ت)
(۱؎ فتاوٰی ہندیہ بحوالہ الاجناس والمحیط والذخیرۃ کتاب الشفعۃ الباب السابع نورانی کتب خانہ پشاور ۵/ ۱۷۹)
معہذا شہنشاہی بیگم کی طرف سے جو شہادتین نیاز حسین خان وعزیز محمد خاں وسعید الدین خاں نے دیں وہ اس پیمانے پر جو آج کل تمام ہند میں رائج اور جملہ مقدمات اور خودا س مقدمہ میں مدعی ومدعٰی علیہ سب کے شہود اسی رنگ پر چلے اور چلتے ہیں، اس امر کا ثبوت دے رہے ہیں کہ سید محمد شاہ نے بعد بیع خبر سن کر تسلیم شفعہ کردی، اور طلب سے انکار کیا، اگریہ پیمانہ مقبول نہیں تو خود شہادت شہود مدعی ایک اور وجہ سے مردود ہوئی، او ر مقبول ہو تو بطلان شفعہ ثابت ہوگیا، جیسا کہ فیصلہ میں مذکورہے، بہرحال دعوٰی شفعہ محض ناثابت ہے، اور اپیل اصلا قابل منظور نہیں، واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۳۱ــ: کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید نے ایک بیعنامہ مکان کا قبل نکاح زبیدہ جس کا نکاح اس کے پسر کے ساتھ ہونے والا ہے۔ بدیں مضمون لکھ کر زر ثمن کی وصولیابی کا اقرار لکھ کر معاف کردیا ، اس قسم کا بیعنامہ معافی کاشرعا جائز ہے یاناجائز؟ اگر بعد نکاح زید یا اس کے ورثاء انکار وصولیابی زر ثمن کا کرکے کہیں کہ بیعنامہ بطور قرض لکھا گیا تھا شرعا قرض قرارپائے گا یا نہیں؟ اور کبھی شفیع کی شفعہ اس قسم کے بیعنامہ میں ہوسکتی ہے یانہیں؟ بینوا توجروا
میں کہ فلاں ابن فلاں ساکن رامپور ہوں جوکہ ایک منزلہ مکان چنیں وچناں واقع رامپور محدودہ ذیل مملوکہ ومقبوضہ میرا ہے۔ وہ اب میں نے بحالت صحت نفس وثبات عقل بلااکراہ واجبار ورغبت اپنے مع جمیع حقوق و مرافق بعوج مبلغ پانچسو روپیہ چہرہ دار ہمدست مسماۃ زبیدہ جس کا نکاح حسب خواہش میری بکر پس نطفے میرے سے بتاریخ امروز ہوگا، بیچااور بیع کیا میں نے اور مکان مبیعہ مشتریہ مذکورہ کو مثل ذات اپنی کے مالک وقابض کردیا، میں نے زرثمن تمام وکمال مشتریہ سے وصول پایا، میں نے یعنی زرثمن اس کا بوجہ محبت فطری بکر پسر مذکور کے زبیدہ مشتریہ کو معاف کیا میں نے پس نجشش ومعافی مجھ کو اور قائم مقامان میرے کو دعوی زرثمن کا نہیں ہے اور نہ ہوگا تقابض البدلین واقع ہوا، اب مجھ بائع کو مکان مبیعہ سے کچھ سروکار نہ ہوگا، اگر کوئی سہیم یا شریک پیدا ہو تو جواب دہ میں بائع ہوں۔
الجواب : صورت مستفسرہ میں بیع مطلقا صحیح ہے،ا ورا گر ایجاب وقبول بیع قبل معافی ثمن اقع ہوئے تھے وتو معافی ثمن بھی صحیح ہے، اب زیدیا وارثان زید کو اس جائداد خواہ اسکے زرثمن میں اصلا دعوٰی نہیں پہنچتا، ہاں اگر قبل قبول مشتریہ یا وکیل مشتریہ معافی ثمن بائع نے لکھی اور اس کے بعد مشتریہ کی طرف سے قبول واقع ہوا تو معافی صحیح نہ ہوگی، بیع صحیح ہوگی، اورثمن دینا آئے گا جب تک بائع بعد قبول مشتریہ کی طرف نہ کرے، رہا شفعہ وہ ہر حال میں ثابت ہے، اگرچہ ثمن معاف ہوجائے، کل ثمن شفیع اگر شرط بجالائے، لے سکے گا، کہ ثمن کی معافی سے شفیع کا فائدہ نہیں اٹھا سکتا،
عالمگیری میں ہے :
اذا حط کل الثمن، اووھبہ، اوأبراہ عنہ، فان کان ذٰلک قبل قبض الثمن صح الکل الخ ۱؎۔
جب مشتری کو بائع تمام ثمن ساقط کردے یا ہبہ کردے یا ثمن سے اس کو بری کردے تو اگر ثمن پر بائع کے قبضہ سے قبل ہو تو یہ سب جائز ہے۔ الخ (ت)
(۱؎ فتاوٰی ہندیہ کتاب البیوع الباب السادس عشر نورانی کتب خانہ پشاور ۳/ ۱۷۳)
ردالمحتارمیں ہے :
قال فی الذخیرۃ اذا حط کل الثمن، اووھب اوأبراعنہ، فان کان قبل قبضہ صح الکل ولا یلتحق باصل العقد، فی البدائع من الشفعۃ ، ولو حط جمیع الثمن ولا یسقط عنہ شیئ لان حط کل الثمن لایلتحق باصل العقد، لانہ لو التحق لبطل البیع لانہ یکون بیعا بلاثمن فلم یصح الحط فی حق الشفیع و صح فی حق المشتری وکان ابراء لہ عن الثمن اھ ۱؎۔
ذخیرہ میں فرمایا، اگر تمام ثمن ساقط کردے یا ہبہ کردے یا اس کو بری کردے اگر ثمن پر اپنے قبضہ سے قبل کرے تو سب صحیح ہے اور یہ ثمن چھوڑنا اصل عقد سے ملحق نہ ہوگا، بدائع کے شفعہ میں ہے اگر بائع نے مشتری سے کل ثمن ساقط کئے تو وہ شفیع سے ساقط نہ ہوں گے کیونکہ کل ثمن کا اسقاط اصل عقدسے ملحق نہ ہوتا کیونکہ اگر اصل بیع سے ملحق ہو تو بیع باطل ہوجائے، اس لئے کہ وہ بیع بلاثمن قرار پائیگی، تو وہ شفعی کے حق میں اسقاط نہ ہوگا، مشتری کے حق میں صحیح ہوگا اور مشتری کو ثمن سے برأت ہوگی اھ (ت)
(۱؎ ردالمحتار کتاب البیوع فصل فی التصرف فی المبیع والثمن داراحیاء التراث العربی بیروت ۴/ ۱۶۷)
فتاوی قاضی خاں میں ہے :
قال بعتک ھذا الشیئ بعشرۃ دراہم ووھبت لک العشرۃ ثم قبل المشتری البیع جاز البیع، ولایبرأ المشتری عن الثمن لایجب الابعد قبول البیع ، فاذا ابرأ عن الثمن قبل القبول کان ابرأ قبل السبب فلایصح ۲؎ اھ، واﷲ تعالٰی اعلم۔
بائع نے کہا میں نے تجھے یہ چیز دس دراہم کے بدلے فروخت کی اور میں نے تجھے وہ دس ہبہ کئے پھر مشتری نے بیع قبول کرلی تو بیع صحیح ہوگی اور مشتری ثمن سےء بری نہ ہوگا جبکہ ثمن کا وجوب بیع کو قبول کرنے کے بعد ہوتا ہے اگر قبول کرنے سے قبل مشتری کو بری کردے تو یہ سبب سے قبل بری کرنا ہوگا جوکہ صحیح نہیں ہے اھ واللہ تعالٰی اعلم (ت)
(۲؎ فتاوٰی قاضی خاں کتاب البیوع فصل فی احکام البیع الفاسد نولکشور لکھنؤ ۲/ ۳۴۹)