فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۰(کتاب الغصب، کتاب الشفعہ، کتاب القسمہ، کتاب المزارعہ، کتاب الصید و الذبائح، کتاب الاضحیہ)
15 - 126
مسئلہ ۲۹ و ۳۰: از ریاست رامپور کٹرہ خلاں خاں مرحوم مرسلہ غلام معین الدین خاں ۱۱ ربیع الاول شریف ۱۳۲۶ھ
(۱) حاکمان شریعت مفتیان ملت کے حضور تمام کاغذات مقدمہ اصغرعلی خاں عرف بنے خاں مدعی بنام شہنشاہی بیگم مشتریہ وتصور شاہ بائع مدعا علیہا نمبری ۱۹۳/۲ دعوٰی شفہ بر اراضی واقعہ کٹرہ جلا ل الدین خاں فیصلہ مفتی عدالت ریاست رامپور واقع ۲۲ دسمبر ۱۹۰۷ء کی نقول باضابطہ پیش کرکے درخواست ہے کہ شرع مطہر کے حکم سے اس مدقدمہ میں فیصلہ بحق مدعاعلیہا ہونا صحیح ہے یانہیں ؟بینوا توجروا
الجواب: مقدمہ مذکورہ کے متعلق عرضی دعوٰی وعرضٰ مدعی مورخہ ۱۶مارچ ۱۹۰۷ ء بجواب استفسار حکم، واظہارات عبدالطیب خاں، وڈاکٹر مدن خاں، وعلی بہادر خان، وصفدر علی خاں ولد عباس خان و بشیرالدین خان، وضیا ء الدین خاں، واحمد حسن خاں، وصفدر علی خاں ولد نثار علی خاں وعبدالغنی خاں نہ کس گواہان اصغرعلی خاں مدعی، وفیصلہ مفتی صاحب حاکم مجوز کی نقول باضابطہ فقیر کے سامنے پیش ہوئے، اور سائل نے بیان کیا کہ شہنشاہی بیگم مدعاعلیہہا کی طر ف سے اس مقدمہ میں صرف دو گواہ نیاز حسین خاں وعزیز محمد خاں پیش ہوئے، او ران کا بیان اس مقدمہ میں بھی بعینہٖ وہی ہے جو انھوں نے مقدمہ سید محمد شاہ میں بنام شہنشاہی بیگم مذکورہ میں کیا ہے۔ او رجس کی نقول باضابطہ اس وقت یہاں دارالافتاء میں حاضر ہے۔ نیز حاکم نے فیصلہ میں ان کے بیانوں کا خلاصہ ذکر کیا، اور تحقیقات موقع پر شہادت سعیدالدین خاں کا بھی بیان لکھا ہے جس میں اصغر علی خاں و سید محمد شاہ دونوں مدعیوں کا بعد بیع تسلیم شفعہ مذکورہے، اور مجوز نے دونوں فیصلوں میں بعد اس بیان کے کہ شہادات شہود مدعیان میں نقائص ہیں، برتقدیر نقائص ان تین گواہان مدعیہ کے بیان پر مدار فیصلہ رکھاہے کہ ان سے دونوں مدعیوں کا بعد بیع طلب شفعہ سے انکار کردینا ثابت ہے۔ تو ان کوکسی طرح استحقاق دعوٰی نہ رہا، اور گواہان اصغر علی خاں جو وقت بیع اس کا رام پور میں نہ ہونا بیان کرتے ہیں گواہان نفی ہیں کہ مسموع نہیں، مگر ہماری رائے میں گواہان مدعاعلیہا اس مقدمہ میں حاجت سے محض زیادہ ہیں جن کی شہادت پر بحث کی اصلا ضرورت نہیں، ولہذا ان کے اظہارات کی نقل پیش نہ ہونا اس مقدمہ میں بیاں حکم سے مانع نہیں، نہ اس پر نظر کہ عزیز محمد خاں نے اصغر علی خاں کی نسبت کہا، ولدیت نامعلوم شکل جانتاہوں نہ اظہار سے ثابت کہ
گواہ نے مدعی کو اشارہ سے بتایا ، نہ اس پر لحاظ کی حاجت کہ سعید الدین خاں دوسرے مقدمہ کا گواہ ہے جس کا مدعی شخص آخر ہے، گو مدعاعلیہ وہی ہے۔ اس کا بیان ا س مقدمہ کا شاہد بناکر کہا تک قابل استناد ہے۔ یہ سب امور زوائد ہیں، مدعی شفعہ میں لازم ہے کہ یا تو مدعہ مقر ہو کہ دار مشفوع بہا شفیع کی ملک ہے، یا شفیع اسے بینہ سے ثابت کرے اور یہ بھی نہ ہو تو شفیع مدعاعلیہ کا حلف چاہے اور وہ قسم کھانے سے انکار کردے، بے ان صورتوں کے دعوٰی شفعہ ہرگز ثابت نہیں ہوسکتا،
زیلعی میں ہے :
اذا تقدم الشفیع، وادعی الشراء وطلب الشفعۃ عندا لقاضی ، ولم یخل بشیئ من شروطہ، اقبل علی المدعی علیہ فسألہ عن الدار التی یشفع بہا ہل ہی ملک الشفیع ام لا، و ان کانت ھی فی یدالشفیع وھی تدل علی الملک ظاھرا، لان الظاھر لایصلح للاستحقاق فلا بد من ثبوت ملکہ بحجۃ، فیسألہ عنہ فان انکران یکون ملکالہ یقول للمدعی اقم البینۃ انہا ملکک، فان عجز عن البینۃ وطلب یمینہ استحلف المشتری باﷲ مایعلم انہ مالک للذی ذکرہ مما یشفع بہ، فان نکل اوقامت للشفیع بینۃ، اواقرالمشتری بذلک ثبت ملک الشفیع فی الدار التی بشفع بہا وثبت السبب وبعد ذٰلک یسأل القاضی المدعی علیہ ھل اشتریت ام لا الخ ملخصا ۱؎۔
شفیع نے قاضی کے ہاں آگے بڑھ کر خریداری کا دعوٰی کیا اور شفعہ طلب کیااور دعوٰی کی شرائط میں کوتاہی نہ ہو، پھر قاضی مدعاعلیہ کی طرف متوجہ ہوکر اس سے اس دار کے متعلق سوال کرے گا جس کی بناء پر شفیع شفعہ کا دعوٰی کرتاہے کہ کیا یہ شفیع کی ملکیت ہے یانہیں اگر چہ وہ دار شفیع کے قبضہ میں ہو قبضہ کے باوجود سوال حالانکہ قبضہ ملکیت پر ہی ظاہرا دلالت کرتاہے یہ اس لیے کہ ظاہر چیز استحقاق ثابت نہیں کرتی تو اس کی ملکیت کے ثبوت کے لئے کوئی دلیل ضروری ہےلہذاقاضی مدعا علیہ سے مدعی کی ملکیت کا سوال کرے گا، اگر مدعی علیہ اس کی ملکیت کا انکار کرے تو قاضی مدعی کوکہے گا کہ اپنی ملکیت پر گواہ پیش کر، تو اگر وہ گواہ لانے سے عاجز ہے او رمدعی علیہ سے اس پر قسم لینے کا مطالبہ کرے توقاضی مدعی علیہ سے یوں قسم لے کہ مدعی جس بناء پر شفعہ کررہاہے تو اس ذکر کردہ پر اس کی ملکیت کوجانتاہے تو مدعی علیہ اگر قسم سے انکار کرے یا شفیع کے گواہ شہادت دے دیں یا خود مشتری اس کی ملکیت کا اقرار کردے تو جس دار کی بناء پر شفعہ طلب کرتاہے اس کی ملکیت شفیع کے لئے ثابت ہوجائیگی یوں شفعہ کا سبب ثابت ہوجائیگا اس کے بعد قاضی مدعی علیہ (مشتری) سے سوال کرے کیا تو نے یہ دار خریدا ہے یا نہیں الخ ملخصا (ت)
(۱؎ تبیین الحقائق کتاب الشفعۃ باب طلب الشفعۃ المطبعۃالکبرٰی الامیر بولاق مصر ۵/ ۴۵۔ ۲۴۴)
اس مقدمہ میں ظاہر ہے کہ مدعاعلیہا ملک شفیع کی منکر ہے۔ نہ شفیع نے حلف چاہا نہ اس نے حلف سے انکار کیا، تو صرف صور ت شہادت رہی، او روہ محض ناکافی گزری، یہاں شہادت اس مضمون کی درکار ہے کہ دار مشفوعہ کی بیع سے پہلے دار مشفوع بہا شفیع کی ملک تھی او راب تک اس کی ملک ہے ہمارے علم میں جب سے اب تک اس کی ملک سے خارج نہ ہوئی،
محیط وہندیہ میں ہے :
ان یقر المدعی علیہ بشراء الدار وینکر کون المدعی شفیعہا بالدار التی حدہا وینکرکون الدرا التی حدہا ملکا اللمدعی، احضر المدعی الشہود وشہد کل منہم ۲؎۔ (ملخصا)۔
مدعی علیہ دا ر کی خریداری کا اقرا رکرے اور شفیع جس مکان کی بناء پر مدعی کے بیان کردہ دار پر مدعی کی ملکیت کا انکار کرے تو مدعی گواہ پیش کرے اور ہر گواہ شہادت دے (ملخصا)۔ (ت)
گواہی میدہم کہ خانہ کہ بفلاں موضع ست حد ہائے وے کذا وکذا ملک ایں مدعی بودیپیش از انکہ ایں مدعی علیہ مرایں خانہ راخریدوبرملک وے ماند تا امروز وامروز ایں خانہ ملک ایں مدعی ست۔
میں گواہی دیتاہوں کہ جو مکان فلاں موضع میں ہے اس کی حدود یوں یوں ہیں وہ اس مدعی کی ملکیت میں دعی علیہ کے اس خاص مکان کو خریدنے سے قبل تھی اورآج یہ مکان اس مدعی کا ہے۔ (ت)
ا وریہ اس لئے کہ اگر وقت بیع دار مشفوع بہا ملک شفیع میں نہ تھا، تو اس سبب سے اس میں استحقاق شفیع نہیں ہوسکتا اگر چہ بعد بیع یہ دار مشفوع بہاوراثت یا بیع یاہبہ یا وصیت وغیرہا سے ملک مدعی میں آجاوے،
عالمگیریہ میں ہے:
الشفعۃ شرطہا ملک الشفیع وقت الشراء فی الدار التی یاخذبہا الشفعۃ ۱؎۔
شفعہ کی صحت کے لئے یہ شر ط ہے جس دار کی بناء پر شفعہ کادعوٰی ہے اس پر مشتری کی خریدار تک شفیع کی ملکیت قائم ہو۔ (ت)
(۱؎ فتاوٰی ہندیہ کتاب الشفعۃ البا ب الاول نورانی کتب خانہ پشاور ۵/ ۱۶۱)
اسی میں ہے :
رجل اوصی لہ بدار، ولم یعلم حتی بیعت دار بجنبہا، ثم قبل الوصیۃ فلا شفعۃ لہ ۲؎۔
ایک شخص نے اس کے لئے ایک مکان کی وصیت کی حالانکہ اس کو ابھی تک وصیت کا علم نہ ہوا حتی کہ اس مکان کے پڑوس میں کوئی مکان فروخت کیا اس کے بعد اس کو علم ہوا توصیت قبول کی۔ تو اب شفعہ نہ ہوگا۔ (ت)
(۲؎فتاوٰی ہندیہ کتاب الشفعۃ البا ب الاول نورانی کتب خانہ پشاور ۵/ ۱۶۴)
اور اگر شفیع بعد بیع وطلب شفہ قبل قضائے قاضی دار مشفوع بہا کو بیع کردے، تو شفعہ ساقط ہوجاتاہے
درمختارمیں ہے :
یبطلہا بیع مایشفع بہ قبل القضاء بالشفعۃ مطلقا ۳؎۔
جس کے سبب شفعہ کا حق ہواس کو قاضی کے فیصلہ سے قبل فروخت کردینا شفعہ کو مطلقاباطل کردیتاہے۔ (ت)
(۳؎ درمختار کتاب الشفعۃ باب مایبطلہا مطبع مجتبائی دہلی ۲/ ۲۱۵)
تو لازم ہے کہ قبل بیع دار مشفوعہ سے اس وقت تک مشفوع بہا میں شفیع کی ملک مستمر پر شہود شہادت دیں، اس کی طرف کچھ میلان اس مقدمہ میں بظاہر صرف ضیاء الدین خاں کے بیان میں ہے کہ اس مکان مشفوعہ کے پورب کی جانب مکان اصغر علی خاں موروثی واقع ہے اور وہ قبل بیع مشفوعہ سے اس وقت تک وہ اس پر مالک وقابض ہیں اور حقیقۃ دیکھئے تو اصلااسے بھی اس مطلوب سے مس نہیں، مکان مشفوعہ سے پورب کی جانب ہزاروں میل تک ہے۔ نہیں معلوم کہ گواہ جس کو اصغر علی خاں کا موروثی ومملوک بملک مستمر بتارہا ہے کس عملے بلکہ کس شہر میں واقع ہے۔ جبکہ دار مشفوع بہا کی طرف نہ اشارہ نہ اس کے حدود کا بیان تو صرف اتنی تعریف کہ وہاں پورب کو ہے کیا کام دے سکتی ہے۔ باقی آٹھ گواہوں سے چا رنے ملک شفیع کا اصلا ذکر ہی نہ کیا، صفدر علی خاں ولد نثار علی خاں نے اتنا کہا کہ''یہ بات کہہ کر اصغرعلی خاں اپنے مکان موروثی میں گئے اصغرعلی خان کو چہ غیر نافذہ میں اپنے مکان موروثی کے دروازہ پر بیٹھے تھے، میں نے آٹھ روز سے نماز نہیں پڑھی، داڑھی مظہر کی جو برابر ہے'' اس کا بھی وہی حال ہے اس سے یہ بھی نہ کھلا کہ اصغر علی خاں کا مکان موروثی دار مشفوعہ کے محلہ واقع ہے یا شہر کے دوسرے کنارے پر، تو مشفوع بہا کی ملک سے اس میں بھی اصلا بحث نہیں ، علی بہادر خاں نے کہا سید تصور شاہ کے مکان سے پورب کو مکان موروثی مدعی کاملاہوا ہے۔ معلوم نہیں تصور شاہ کے کسی مکان سے ؟ ہاں دو گواہیاں ملک مشفوع بہا کا پتا دے رہی ہیں، صفد ر علی خاں ولدعباس خاں نے کہا مکان موروثی مدعی سے کھپریل مکان متنازعہ کے دکھن کہ دیوار ودرمیان میں ہے'' اس سے جار ملاصق ہونا معلوم ہوا، اگر چہ مدعی خلیط فی المبیع ہونے کا مدعی ہے۔ بشیر الدین خاں نے کہا '' جس مکان کی کوٹھی کی اراضی فروخت ہوئی ہے اس مکان سے پورب کی جانب کی مکان اصغر علی خاں کا ہے۔ اور وہ مکان اصغر علی خاں کا موروثی ہے ان دونوں مکانوں کا راستہ بھی ایک ہی کوچہ میں ہے'' اوریہی گواہ بمقدمہ سید محمد شاہ بنام شہنشاہی بیگم مذکورہ بیان کرچکا ہے کہ اس کی ڈاڑھی چٹکی میں آجاتی ہے۔ اول ڈاڑھی کترواتا تھا اب توبہ کرلی اب نہیں منڈائے گا، ان سب گواہیوں میں یہی گواہی چست ہے کہ اس نے ان لفظوں سے کہ ''جس مکان کی کوٹھی کی اراضی فروخت ہوئی ہے'' اپنے تنگ خیال کے مطابق تعیین مکان بھی کی اور دونوں کا راستہ ایک ہی کو چہ میں ہونے سے خلط فی حق المبیع بھی بتایا، مگر ت،تمام نقائص سے قطع نظر کرکے ان میں سے کسی نے مورث کا نام تک نہ لیا، ا س کی تاریخ موت بتانا تو بڑی بات ہے، تونری موروثی ہونے سے کیا کھلا کہ یہ مکان کب سے اصغر علی خاں کی ملک ہے، ممکن کہ وہ مورث جس کے ترکہ سے یہ مکان مدعی کو وراثۃ بعد بیع دار مشفوعہ مراد ہو، تو اس مکان کے ذریعہ سے مدعی کو کیا استحقاق شفعہ ہوسکتاہے ، شہادت اس لئے ہوتی ہے کہ حق حاکم پر ظاہر ہو، ان شہادتوں کا اجمال واہمال یہ ہے کہ مجوزنے فیصلہ میں کہا کہ گواہان مدعی نے یہ نہ بیان کیا کہ مدعی مورث کا بیٹا ہے یا بھائی ہے یاکون'' جب قاضی کو مورث کا ہی پتہ نہ چلا تو تاریخ موت کیونکر معلوم ہوسکتی ہے جس سے جانا جائے کہ دار مشفوعد بہا عندالبیع ملک شفیع تھی یا نہیں، لاجر م شہادتیں محض مہمل ہیں اور دعوٰی اصلا پایہ ثبوت کو نہ پہنچا،
ردالمحتارمیں ہے :
لوقالا انہا لہذا الجار لایکفی کما فی المحیط۔ ۱؎۔
اگر دونوں گواہ یہ کہیں کہ مکان اس پڑوسی کا ہے تو کافی نہیں، جیسا کہ محیط میں ہے۔ (ت) لہذا واجب تھا کہ دعوٰی خارج ہو، جیسا کہ مفتی ریاست نے کیا، اور لازم ہے کہ اپیل نامنظور ، واللہ تعالٰی اعلم۔
(۱؎ ردالمحتار کتاب الشفعۃ باب طلب الشفعۃ داراحیاء الترا ث العربی بیروت ۵/ ۴۴)
(۲) حکام شریعت علماء ملت کے حضور تمام کاغذات مقدمہ سید محمد شاہ مدعی بنام شہنشاہی بیگم مشتریہ وتصور شاہ بائع مدعا علیہا نمبری ۲۰۵/۴ دعوٰی شفع براراضی واقعہ کٹرہ جلال الدین خاں، فیصلہ مفتی ریاست رامپور واقع ۲۲ دسمبر ۱۹۰۷ء کی نقول باضابطہ حاضر کرکے کہ شرع شریف کے حکم سے اس مقدمہ فیصلہ بحق مدعاعلیہا ہونا صحیح یا کیا؟ بینوا توجروا