فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۰(کتاب الغصب، کتاب الشفعہ، کتاب القسمہ، کتاب المزارعہ، کتاب الصید و الذبائح، کتاب الاضحیہ)
14 - 126
فتاوٰی عالمگیری میں ہے :
اذا کان المشتری شیئا واحدا واستحق بعض قبل القبض اوبعدہ فللمشتری الخیار فی الباقی ، ان شاء اخذہ بالحصۃ وان شاء ترک ۱؎۔
اگر خرید شدہ چیز ایک ہو اور اس کے بعض حصہ کا استحقاق ثابت ہو جائے خواہ قبضہ سے قبل یا بعد ثابت ہو تو مشتری کو باقی حصہ میں اختیار ہوگا اگر چاہے تو باقی کو اس قیمت کے حصہ پر لے یا چاہے تو چھوڑ دے۔ (ت)
(۱؎ فتاوٰی ہندیہ کتاب البیوع الباب الخامس عشر نورانی کتب خانہ پشاور۳/ ۱۶۶)
پس اگر احسان کریم نے بیع رد کردی تو سرے سے مبنائے شفعہ ہی کی بیع تھی جاتار ہے گا، اور وہ بقیہ قطعہ ایسا ہوجائے گا گویابکا ہی نہیں کسی کو اس میں حق شفعہ نہ ہوگا، اور اگر بقیہ بحصہ قیمت لینا قبول کیا، اور نوراحمد شرائط شفعہ بجالایا تو اب وہی عبدالعزیز وغیرہ سب پرمرجح رہے گا کہ اب بوجہ خریداری حصہ رشیدہ وحمیدہ نوراحمد خلیط فی نفس المبیع ہوچکاہے۔ اور عبدالعزیز صرف خلیط فی حق المبیع ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۲۷: ۳۰ شعبان المعظم ۱۳۳۵ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید وعمرو کا ایک مکان اور دکان کے مالک تھے، زید عمرو کی ملکیت کا شفیع تھا، عمرو نے اپنا حصہ دکان ومکان مذکور کا بکرکے ہاتھ فروخت کیا، تو زید بفور سنے اس خبرکے مع چند آدمیوں کے جوکہ گواہ طلب شفیع کے ہیں، اور جن کے سامنے کہ زید نے شرائط شفیع بغور سننے خبر بیع کے ادا کی ہیں، جن میں سے کہ ایک زید کا قریبی رشتہ دار،ونیز عمرو بکر کا بھی رشتہ دار ہے ودیگر لوگ زید کے ملنے والے دوست ہیں، بکر کے پاس بغرض طلب شفیع گیا، روپیہ رومال میں باندھ کراپنے ہاتھ میں لے گیا اور بکر سے جاکر اس نے کہا کہ میں ان حصہ دکان ومکان کا شفیع ہوں، تم نے اس حصہ کو کیسے خریدکیا میں خریدوں گا۔ زیدنے زبان سے یہ نہیں کہا کہ میں روپیہ لایاہوں، قیمت لو اور یہ جائداد میرے نام کرو، بکر نے زید کی گفتگو کے جواب میں جائداد مذکور دینے سے انکار کردیا، زید کے اس امر کے اظہار نہ کرنے سے کہ میں روپیہ لایاہوں قیمت لو اور یہ جائداد میرے نام کردو،حالانکہ روپیہ اسی نیت سے لے گیا تھا اور وہ اس کے ہاتھ میں موجود تھا صرف زبان سے اس کا ذکر نہیں کیا، تو ایسی حالت میں مراتب شفیع بموجب شرع شریف پورے طور سے ادا ہوئے یانہیں؟ بینوا توجروا
الجواب : نہ روپے لے جانا ضرور نہ مشتری سے روپیہ لانا کاذکر ضرور، یہ سب بیکار ومہمل باتیں ہیں، مگر طلب مواثبت ایسے لفظ سےجس سے فی الحال طلب ثابت ہو، ضرور ہے۔ سائل نے بعد دریافت بیان کیا کہ میں نے خبر سنتے ہی یہ لفظ کہے تھےکہ میں اس کا شفیع ہوں، ریاض الدین نے کیسی خریدی میں خریدوں گا، اس سے طلب فی الحال ثالث ثابت نہیں ہوتی ''خریدوں گا'' سے اگر یہ مراد ہےکہ مشتری سےخریدوں گا، جب تو ظاہر ہے کہ مشتری سے خریداری کا ذکر شفعہ کو باطل کردیتاہے۔
درمختارمیں ہے:
یبطلہا شراء الشفیع من المشتری وکذا ان ساومہا بیعا واجارۃ اوطلب منہ ان یولیہ عقدالشراء ۱؎ (ملخصا)
شفیع کا مشتری سے خریدنا ا وریونہی بیع یا اجارہ کا سودا کرنا یا عقد شراء کا ولی بننے کا مطالبہ کرنا اس کے حق شفعہ کو باطل کردیتاہے۔ ملخصا (ت)
(۱؎درمختار کتاب الشفعہ باب مایبطلہا مطبع مجتبائی دہلی ۲/ ۲۱۵)
اور اگر یہ مراد ہو کہ بائع سے خریدوں گا تو یہ بھی طلب شفعہ نہیں، خریداری تملک بالرضا ہے۔ اور شفعہ تملک بالجبر،
درمختارمیں ہے:
تملیک البقعۃ جبرا علی المشتری بما قام علیہ ۲؎۔
شفعہ کسی ٹکڑا زمین کا مشتری سے اس پر لازم قیمت کے ساتھ جبر امالک بننے کا نام ہے۔ (ت)
(۲؎درمختار کتاب الشفعہ باب مایبطلہا مطبع مجتبائی دہلی ۲ /۲۱۰)
اورا گر مجازا یہی معنی مرادلئے جائیں کہ بذریعہ شفعہ لے لوں گا، تویہ بھی وعدہ وانذار ہے۔ طلب فی الحال نہیں، عالمگیری میں ہے:
لوقال الشفعۃ لی اطلبہا بطلت شفعتہ، ولو قال للمشتری انا شفیعک واٰخذ الدار منک بالشفعۃ بطلت ۱؎۔
اگرکہا میرا شفعہ ہے میںاس کی طلب کروں گا ، تو اس کا شفعہ باطل ہوگا، اوراگر مشتری کو کہا میں تیرا شفیع ہوں اور شفعہ کی بناء پر تجھ سے دار لوں گا تو شفعہ باطل ہوگیا۔ (ت) لہذا صورت مسئولہ میں زید کا شفعہ باطل ہوگیا۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
(۱؎ فتاوٰی ہندیہ کتاب الشفعہ باب الثالث نورانی کتب خانہ پشاور ۵/ ۱۷۲)
مسئلہ ۲۸: از ریاست رامپور کٹرہ جلال الدین خاں مرحوم مرسلہ پیرازدہ غلام معین الدین صاحب پنجم صفر ۱۳۲۶ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید نے دعوٰی کیا کہ مسماۃ فلاں نے اراضی فلاں اتنی قیمت کو فلاں شخص سے میری غیبت میں خریدی، اور میں خلیط فی الطریق ہوں مشتریہ جارملاصق ہے۔ میراحق مقدم ہے اور میں شرائط شفعہ بھی ادا کرچکاہوں، مسماۃ مجیب ہوئی کہ زید نےہر گز شرائط شفعہ اد انہ کئے، نہ مکان مشفوع بہازید کا مملوکہ ہے۔ اور دعوٰی پر تمادی ہے۔ بلکہ زید تسلیم الشفعہ کرچکاہے۔ زیداور مسماۃ سے ثبوت طلب ہوا۔ زید نے جو شہادت پیش کی عندالعدالت ناکافی قرار دے کر نامقبول فرمائی گئی، ایک وجہ عدالت نے یہ تحریر فرمائی ہے کہ شہادت مدعی کو نقائض سے مبرامان لیاجائے تب بھی شہادت جو مدعی علیہا کی جانب سے گزری، اس سے تسلیم شفعہ بعد ا ز بیع ثابت ہے۔ لہذادعوٰی خارج اور منجانب مدعی کئی استفتاء پیش ہوئے ہیں، اس بارہ میں کہ خلیط فی الطریق جارہ ملاصق پر مقدم ہے۔ کیا یہ استفتاء مفید ہوسکتے ہیں ، مدعی نے تمادی سے بچنے کی غرض سے دو گواہوں سے یہ ثابت کرایا کہ میں وقت بیع مقام رچھا میں موجود تھا یعنی رامپور میں نہ تھا، مدعی علیہا کی جانب سے جو شہادت تسلیم شفعہ کی پیش ہوئی ہیں اس سے کماحقہ ثابت ہے کہ بعد تصدیق بیعنامہ اسی روز مدعی کو علم بیع ہوااور مدعی نے تسلیم شفعہ کیا، تو کیا شہادت مذکور منجانب مدعی واسطے ثبوت کے کافی ہے، اور تمادی مرتفع ہوسکتی ہے یانہیں؟ بینوا توجروا
الجواب: اس مسئلہ میں زوائد سے قطع نظر کرکے صررف دوباتوں پر نظر کافی ہے۔
اولا گواہان مدعیان کا ان کی ملک دار مشفوع بہا میں ہونے کی نسبت صرف اتنا بیان کہ وہ مکان مدعیوں کی ملک یا ان کا موروثی ہے اظہارات شہود ومدعیان دیکھے جائیں، اگران کے بیان میںصرف اسی قدر ہو کہ اور یہ ظاہر نہ کیا ہو کہ شرائے مشتریہ سے پہلے یہ مکان یاجز مکان مدعیان تھا اور اب تک ہے۔ ہمارے علم میں ملک مدعیان سے خارج نہ ہوا، تو ایسی شہادت ثبوت دعوٰی شفعہ کے لئے ہر گز بکارآمد
نہیں کہ مدعاعلیہا دار مشفوع بہا میں ملک ، مدعیان کی منکر ہے۔ اور یہ اس طریقہ پر جو شرعا درکار ہے یعنی ملک متقدم علی البیع ومستمرالی الآن پر اقامت بینہ نہ کرسکے،
تنویر الابصار ودرمختار وردالمحتارمیں ہے:
اذا طلب الشفیع سأل القاضی الخصم عن مالکیۃ الشفیع لما یشفع بہ فان اقربہا او نکل عن الحلف علی العلم، اوبرھن الشفیع انہا ملکہ (بان یقولا انہا ملک ھذا الشفیع قبل ان یشتری ھذا المشتری ھذا العقار، وھی لہ الی الساعۃ ولم نعلم انہا خرجت عن ملکہ ، فلو قالا انہا لہذا الجار لایکفی کما فی المحیط) سألہ عن الشراء ھل اشتریت ام لا ۱؎ اھ
جب شفیع نے طلب کی توقاضی شفیع کی اس ملکیت کے متعلق سوال کرے جس کی وجہ سے وہ شفعہ کررہا ہے۔ تو اگر مخالف فریق اس کی اس ملکیت کا اقرارکرے یا اپنے علم پرقسم دینے سے انکار کرے یا شفیع اپنی اس ملکیت پر گواہی پیش کردے کہ وہ اس کی ملکیت ہیں ہے یوں کہ دونوں گواہ کہہ دیں کہ مشتری کی خریداری سے قبل یہ زمین اس کی اب تک ملک ہے۔ اور اس کی ملکیت سے خارج ہوجانے کا ہمیں علم نہیں ہے۔ اگر گواہ یہ کہیں کہ وہ اس پڑوسی کی ہے تو کافی نہ ہوگا جیساکہ محیط میں ہے، قاضی مشتری سے سوال کرے کہ کیا تو نے اسے خریدا ہے یانہیں۔ اھ (ت)
(۱؎ درمختار شرح تنویر الابصار کتاب الشفعۃ باب الشفعۃ مطبع مجتبائی دہلی ۲/ ۲۱۲)
(ردالمحتار کتاب الشفعۃ باب الشفعۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۵/ ۱۴۴)
جبکہ شہادت گواہان مدعیان اس طریقہ مطلوبہ شرع پر نہ تھی، حاکم پر لازم تھا کہ فقط اسی قدر پر مقدمہ ختم کردیتا اور دعوٰی خارج کرتا، مقدمہ کا آگے بڑھانا محض تطویل ہوئی
ثانیا گواہان مدعا علیہا جنھوں نے دربارہ تسلیم مدعیان شہادت دی ہے کہ روز بیع بعد بیع معین الدین خاں نے مدعیوں کو اطلاع بیع اراضی مشفوعہ دی، اور ان سے کہا کہ اگر تمھیں لینا منظور ہو لے لو، انھوں نے کہا جواب دیا کہ ہم کو ضرورت نہیں، بحیث ادا نہایت کافی ووافی شہادت ہے، اس کے الفاظ پر جو اعتراض کئے جاتے ہیں بے معنی ہے، اس میں فقط اتنا دیکھنا چاہئے کہ گواہوں کی حالت کیسی ہے اگر ان میں دو گواہ بھی قابل قبول شرع ہوں تو فیصلہ بحق مدعا علیہا لازم ہے۔ ملاحظہ تحریر سے ظاہرہوا کہ حکم مجوز نے گواہان مشتریہ پر اعتماد کیا کہ اور ان کے بیان پر فیصلہ رہا، اور جانب مدعیان سے ان پر کوئی جرح قابل لحاظ شرع نہ کی گئی، تو اس صورت میں واقعہ میں حکم یہی ہونا چاہئے کہ دعوٰی شفعہ ساقط، ا ور مشتریہ مطالبہ سے بری ہے۔
اس کے مقابل مدعیوں کی یہ گواہیاں کہ ہم یہاں نہ تھے شہادت علی النفی ہیں قابل لحاظ نہیں، نہ وہ فتوٰی دوخلیط جار پر مقدم ہے۔ کچھ مفید مدعی ہوسکتے ہیں کہ اول تو خلیط ہونا ہی پایہ ثبوت کو نہ پہنچا، پھر بعد تسلیم شفعہ خلیط فی نفس المبیع کا بھی کچھ حق نہیں رہتا۔ واللہ تعالٰی اعلم۔