فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۰(کتاب الغصب، کتاب الشفعہ، کتاب القسمہ، کتاب المزارعہ، کتاب الصید و الذبائح، کتاب الاضحیہ) |
اقول: ویؤید ماھنامانص علیہ المتون ان سبب الشفعۃ اتصال ملک الشفیع بالمشتری، وظاہر ان المشتری اذا کان مفرزا مفصولا عن ملک الشفیع لم یکن بینہما اتصال، ولایکفی الاتصال بالواسطۃ والالکان الجار الغیر الملاصق المحاذی ایضا شفیعا ولاقائل بہ۔ ولاینکر علیہ بماصرحوا بہ ان الماصق بشبر کالملاصق بجمیع حدود، وذٰلک لان الاتصال بجزالشیئ اتصال بالشیئ، ولا نسلم ان لاتصال بجزء من شیئ یکون اتصالا بجزئہ الاخر، الاتری ان العمامۃ الملاصقۃ لرأس زید ملاصقۃ لزید لالرجلہ والنعل المتصل برجل زید متصلۃ بزید لابرأسہ، فاتضح ان روایۃ العیون مشکلۃ والحاصل ان المبیع اذا کان الکل کفی الاتصال بجزئہ واذا کان جزء معین من شیئ لم یکف الاتصال بجزئہ الاٰخر، فان الاتصل بالجزء اتصال بالکل مجملا، لابکل جزء منہ فردا فرادافافترقا ۱؎۔
میں کہتاہوں یہاں پر ذکرکردہ کی تائید میں تمام متون کی نصوص ہیں کہ شفعہ کا سبب خرید کردہ چیز شفیع کی ملکیت کا اتصال ہے اور ظاہر بات یہ ہے کہ جب خریدکردہ چیز شفیع کی ملکیت سے علیحدہ فاصلہ پر ہو تو اتصال نہ ہوگا جبکہ بالواسطہ اتصال کافی نہیں ہے نہ ورنہ پڑوسی کا پڑوسی غیر اتصال والا بھی شفیع بن جائے گا حالانکہ اس کا کوئی بھی قائل نہیں ہے اس پر یہ بیان وار دنہیں ہوسکتاجس کی تصریح یوں ہے کہ ایک بالشت کا اتصال جمیع حدود کا اتصال اور یہ اس لیے کہ چیز کی جز سے اتصال چیز سے اتصال ہے لیکن ہمیں یہ تسلیم نہیں کہ ایک جز سے اتصال اس کی دوسری جز سے اتصال ہے۔ آپ دیکھ رہے کہ عمامہ کا اتصال سرے سے ہونے کی وجہ سے زید کے پاؤں سے اتصال نہیں اور زید کے پاؤں کو اس کے جوتے کااتصال ہے اس کے سر سے اتصال نہیں ہے۔ تو واضح ہوگیا کہ عیون المسائل والی روایت مشکل ہے اور حاصل یہ کہ جب کل مبیع ہو تو اس کی کسی جز کا اتصال شفعہ کے لئے کافی ہے اور جب کوئی معین جز مبیع ہو تو اس مبیع کی دوسری جزء کااتصال کافی نہیں کیونکہ جزء کے اتصال سے کل کا اتصال مجمل ہوتاہے نہ کہ ہر ہر جز ء سے فردا فردا ہوتاہے۔ تو یوں دونوں صورتوں میں مختلف ہیں ۔ (ت)
(۱؎ جدا لممتار علی ردالمحتار)
شریک فی حق المبیع کے لئے مبیع سے اتصال ضرور نہیں۔ صرف شرکت حق مثل طریق خاص وغیرہ کافی ہے۔ درمختارمیں ہے :
فی شرح المجمع وکذا للجار المقابل فی السکۃ الغیر النافذۃ الشفعۃ ۲؎۔
شرح مجمع میں ہے یونہی بندگلی کا سامنے والا پڑوسی بھی شفعہ کا حقدارہے۔ (ت)
(۲؎ درمختار کتاب الشفعۃ مطبع مجتبائی دہلی ۲/ ۲۱۱)
ردالمحتارمیں ہـےــ :
وجہہ ابوالسعود بان استحقاقہا فیہ الشرکۃ فی حق المبیع فلاتعتبر الملاصقۃ۳؎۔
اس کی وجہ ابوسعود نے یہ بیان کی کہ بند گلی کا استحقاق شفعہ مبیع کو حقوق میں شرکت پر مبنی ہے اس میں اتصال کا اعتبار نہیں ہے۔ (ت)
(۳؎ ردالمحتار کتاب الشفعۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۵ /۱۴۱)
ا ور چند شرکاء حق میں اگر ایک جار ملاصق بھی ہے باقی نہیں تو اسے ان باقیوں پر کوئی ترجیح نہ ہوگی، وہ سب یکساں ہیں، عالمگیریہ میں بدائع سے ہے :
الشفعۃلاہل السکۃ کلہم یستووی فیہا الملاصق وغیر الملاصق لانہم کہم خلطاء فی الطریق ۴؎۔
بندگلی والوں کو شفعہ کاحق مساوی ہے خواہ اتصال والے ہو یا نہ ہوں کیونکہ وہ تمام گلی کے راستہ میں شریک ہیں۔ (ت)
(۴؎ فتاوٰی ہندیۃ بحوالہ البدائع کتاب الشفعۃ البا ب الثانی نورانی کتب خانہ پشاور ۵/ ۱۶۶)
پس صورت مستفسرہ میں خالد، بکر، یحیٰی، یوسف، یعقوب اور سامنے کو چاروں مکان اور کوٹھی والے سب اس جز مبیع کے یکساں شفیع ہیں، ان کے ہوتے عمرو اور اس کے برابر کےچاروں محلہ دار جن کے دروازے دوسرے کوچہ میں ہیں شفیع نہیں ہوسکتے جبکہ او رکوئی استحاق نہ رکھتے ہو، واللہ تعالٰی اعلم
مسئلہ ۲۶: مرسلہ عبدالعزیز ونورمحمد واحسان کریم قصبہ آنولہ ضلع بریلی محلہ کٹرہ پختہ بتاریخ ۴ جمادی الاول ۱۳۲۵ھ کیا فرماتے ہیں علمائے دین ا س مسئلہ میں کہ زید نے ایک قطعہ مملوکہ مقبوضہ اپنا جس کا نقشہ ذیل میں درج ہے ۔ اپنی حین حیات بروئے فرائض شرعی خالد پسر، ہندہ زوجہ، کلثوم ومریم وزبیدہ ومیمونہ دختران کو تقسیم کرکے مالکانہ قابض ودخیل کرادیا، خالد اپنے حق پر جدا گانہ اور ہندہ زوجہ اور ہر چہار دختران مشترکا اپنے حق پر مالکانہ قابض ہوگئے، اور درمیان مکان کی دیوار سرخ رنگ قائم کرلی، قطعہ شمالی خالد کی او رجنوبی ہندہ، اور ہرچہاردختران کے قبضہ میں رہا، بعد وفات زید کے ہندہ اور ہر چہار دختران زید نے اپناقطعہ جنوبی عبداللہ کے ہاتھ بیع کردیا، بعد فوت عبداللہ مذکور کے اس کے ورثاء نے قطعہ جنوبی مذکور بدست شیخ نوراحمد فروخت کردیا اور نوراحمد اب تک مالکانہ قابض ہے۔ خالد کے مرنے پر عمرو پسر، رضیہ زوجہ، صفیہ وذکیہ ورشدیدہ وحمیدہ ودختران ورثاء خالد شمالی متروکہ خالد پر مالکانہ قابض ہوگئے۔ جوکہ محدود بدیں حدود اربعہ ہے۔ مکان اور صحن مکان عبدالعزیز مکان حافظ مظہر مکان نوراحمد مکان عبدالعزیز واحسان کریم عمرو وغیرہ۔ ورثاء خالد نے اپنا حق قطعہ شمالی بدست عبدالعزیز بیع کرنا چاہا او رمعاہدہ باہمی عبدالعزیز ہوگیا باخذ رسید مبلغ (عہ) زربیعانہ عبدالعزیز مذکور سے حاصل کرلیا، نوراحمد شفیع بھی آمادہ خریداری تھا کہ احسان کریم مذکور نے خبر بیع مذکور سن کر کچھ قیمت بڑھائی، رشیدہ، حمیدہ ودختران خالد نے اپنے حق حقوق کابیعنامہ بنام نوراحمد شفیع کے کردیا۔ ہنوز رجسٹری نہیں ہوئی ہے کہ عمرو نے خلاف معاہدہ باہمی عبدالعزیز کے مع رضیہ مادر کے کل مکان متروکہ خالد کابیعنامہ اپنی اور رضیہ کی جانب سے بنام احسان کریم تحریرکردیا، اور ایک دستبرداری لادعوٰی وراثت شفیعہ وغیرہ ہشیرگان کی جانب سے تحریر کراکربغرض تصدیق رجسٹری میں پیش کی شفیعہ ذکیہ نے تصدیق اس کی کردی ، اور رشیدہ وحمیدہ نے کہ جن کی بلاعلم واطلاع کاروائی دستبرداری کی ہوئی تھی اور یہ اپنے حق کا بیعنامہ بھی بنام نوراحمد تحریر کرچکی تھیں،تحریر دست برداری سے انکار کردیا، اور بیعنامہ موسومہ نوراحمد کی رجسٹری کرادی، چونکہ معاہدہ بیع پیشتر سے عبدالعزیز وعمرو وغیرہ منعقد ہوا تھا، حالانکہ گفتگو بیع کی نوراحمد مذکور سے بھی تھی، بکر، عمرو وغیرہ نے مبلغ (مہ روپیہ) بطور بیعنامہ عبدالعزیز سے بہ تحریر رسید حاصل کرلی تھی، ایسی صورت میں جبکہ عبدالعزیز دوجانب سے اور نوراحمد ایک جانب سے اور احسان کریم ایک جانب سے کچھ مکان کی وجہ سے استحقاق شفیع رکھتے ہیں، بلکہ نور احمد بوجہ خریداری مقدم کے شفیع خلیط بقیہ حقوق عمرو ورضیہ شفیعہ وذکیہ پہنچ چکاہے۔ تو بلحاظ واقعات متذکرہ صدر کون شخص مستحق خریداری مکان متنازعہ کا ہے۔ اور شرعاکس کو پہنچتاہے۔ عبدالعزیز کے مکان کا درووازہ بھی دوسرے محلہ میں ہے۔ بینوا توجروا
20_4.jpg
الجواب : بیان سائلان سے واضح ہواکہ عبدالعزیز سے صرف گفتگو بیع ہوئی تھی اور بیعنامہ دیا گیا عقد بیع تمام نہ ہو اتھا، نور احمد کلکتہ میں ہے، اس نے اپنے ایک بھائی کو اس قطعہ کی خریداری کے لئے لکھا، اس نے وکالۃ نوراحمد کے لئے اس میں سے رشیدہ وحمیدہ کے حصے خرید لئے، عبدالعزیز ونوراحمد دونوں خلیط فی حق المبیع ہیں، اور احسان کریم محض جار ملاصق کہ اس کا راستہ اس کو چہ غیر نافذہ میں نہیں، جب عبدالعزیز کو معلوم ہوا خود اس کا بیان ہے کہ اس نے مشتری مذکور یعنی وکیل نوراحمد سے جاکر کہا کہ میری گفتگوبیع سابق سے ہے۔ یہ حصے جنتے کو تم نے خریدے ہیں انھیں داموں کو مجھے دے دو ورنہ میں شفیع ہوں شفعہ سے لے لوں گا ، اس کہنے سے عبدالعزیز کا ان دونوں حصوں میں شفعہ جاتا رہا کہ اس نے طلب شفعہ نہ کی بلکہ ابتداء انھیں داموں کو خریدنا چاہا۔ اور نہ دینے کی حالت میں بذریعہ شفعہ لے لینے کی دھمکی دی، یہ امر مبطل شفعہ ہے،
درمختار میں ہے :
یبطلہا ان ساومہا بیعا اواجارۃ اوطلب منہ ان یولیہ عقد الشراء ۱؎،
اگر شفیع نے مشتری سے بیع یا اجارہ یا ا س کی شراء کا ولی (وکیل) بننے کا مطالبہ کرے تو اس سے شفعہ کا حق باطل ہوجائے گا۔ (ت)
(۱؎درمختار کتاب الشفعہ باب مایبطلہا مطبع مجتبائی دہلی ۲/ ۲۱۵)
پس نوراحمد دوحصوں کا مالک مستقل ہوگیا جس سے کوئی نہیں لے سکتا ، اگر وہاں اورکوئی شفیع مثل کریم بخش وغیرہ بادائے شرائط طالب شفعہ نہ ہوا ہو، رہی احسان کریم کے ہاتھ بیع جس میں کل مکان صررف زوجہ وپسر خالد نے اس کے ہاتھ بیچا اور دختران خالد کونامستحق قرار دیا، شفیعہ، ذکیہ تو بوجہ تصدیق و اقرار نامستحق ٹھہریں، مگر رشیدہ وحمیدہ نے اقرار نہ کیا بلکہ اپنی بیع کی بنام نوراحمد کے تکمیل کرادی، تو بعض مبیع احسان کریم کے ہاتھ سے نکل گیا، اور بقیہ کی بیع معرض زوال میں آگئی یعنی احسان کریم کو اختیار ہوگا، چاہئے دو حصہ رشیدہ وحمیدہ علاوہ بقیہ مکان بحصہ قیمت لینا قبول کرے۔ خواہ کل بیع کردے،