فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۰(کتاب الغصب، کتاب الشفعہ، کتاب القسمہ، کتاب المزارعہ، کتاب الصید و الذبائح، کتاب الاضحیہ)
12 - 126
مسئلہ ۲۴: ۱۶ذی القعدہ ۱۳۲۱ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ا س مسئلہ میںکہ اگر شفعہ کی اطلاع دے دی گئی ہو دو آدمیوں کے رو برو اور اس شخص نے لینے سے انکار کیا، تو اب وہ شفعہ مانگتاہے، استحقاق اس کا باقی ہے یانہیں؟ ینوا توجروا
الجواب : اگر بیع ہوجانے کے بعد شفیع نے شفعہ سے انکار کیا، اگرچہ ہنوز اسے خبر بیع بھی نہ پہنچی ہو، یاخبر سن کر شفعہ لینے سے منکر ہوا، یا سکوت ہی کیا، تو شفعہ ساقط ہوگیا، اب اسے دعوٰی شفعہ کا استحقاق نہیں جبکہ اس خبرمیں کوئی ایسی بات نہ بیان کی گئی ہو جس سے شفعہ لینے نہ لینے میں شفیع کی غرض بدلتی ہو، ورنہ اگر پیش ازبیع اس سے کہا گیا کہ یہ مکان بکنے والا ہے تو شفعہ چاہے گا، اس نے انکار کردیا اور جب بکا تو فورا طالب شفعہ ہوا، یا بعد بیع خبر بیع اسی غلط طور پر پہنچی جس سے رغبت وعدم رغبت مختلف ہو مثلا زر ثمن زیادہ بتایا گیا یامشتری کسی اور شخص کو ظاہر کیاگیا، پانسو کو بکا تھا، اس سے کہا گیا چھ سو کو بکا ہے تو شفعہ لے گا ، اس نے انکار کیا، اور بعد کو معلوم ہوا کہ پانسو بیع ہوئی ہے۔ تو فورا شفعہ طلب کیا یا مکان زید کے ہاتھ بکا تھا، شفیع کو خبردی گئی عمرو نے خریدا ہے۔ اس نے شفعہ سے انکار کیا، پھر اطلاع ہوئی کہ زید نے خریدا تو فورا خواستگار شفعہ ہوا، تو ان سب صورتوں میں انکار سے شفعہ ساقط نہ ہوگا۔ وہ پاسکتاہے۔
فتاوٰی عالمگیری میں ہے :
تسلیم الشفعۃ قبل البیع لایصح وبعدہ صحیح علم الشفیع بوجو الشفعۃ اولم یعلم، وعلم من اسقط الیہ ھذا الحق اولم یعلم کذا فی المحیط ۱؎۔
بیع سے قبل شفعہ کو سونپ دینا صحیح نہیں اس کے بعد صحیح ہے شفیع کو لزوم شفعہ کا علم ہو یا نہ ہو، جس کے حق میں شفعہ کا ساقط کر رہا ہے اس کا علم ہویانہ ہو، محیط میں یوں ہے۔ (ت)
(۱؎ فتاوٰی ہندیہ کتاب الشفعۃ الباب التاسع نورانی کتب خانہ پشاور ۵/ ۱۸۲)
اسی میں ہے :
مایبطل بہ حق الشفعۃ بعد ثبوتہ، اختیاری وضروری والاختیاری صریح ودلالۃ، اما الاول نحوان یقول الشفیع ابطلت الشفعۃ اواسقطہا، اوابرأتک عنہا اوسلمتہا، او نحو ذٰلک سواء علم بالبیع اولم یعلم ان کان بعد البیع ھکذا فی البدائع ۱؎۔
ثبوت کے بعد شفعہ کو باطل کرنے وا لا عمل اختیاری ہے اور ایک ضروری ہے اختیاری صریح ہے اور بطور دلالۃ بھی، لیکن اختیاری صریح مثلا شفیع یوں کہے میں نے شفعہ باطل کیا یا میں نے ساقط کیا ، میں نے تجھ کو اس سے بری کیا میں نے سونپ دیا۔ان کی مثل او رالفاظ یہ الفاظ بیع کے بعد کہے خواہ بیع کاعلم ہویانہ ہو، بدائع میں یوں ہے۔ (ت)
(۱؎ فتاوٰی ہندیہ کتا ب الشفعۃ الباب التاسع نورانی کتب خانہ پشاور ۵/ ۱۸۲)
اس میں ہے :
اذا قیل لہ ان المشتری فلان فسلم الشفعۃ ثم علم انہ غیرہ فلہ الشفعۃ واذا قیل لہ ان المشتری زید فسلم ثم علم انہ عمرو وزید صح تسلیمہ لزیدو کان لہ ان یأخذ نصیب عمرو، کذا فسرہ الجوہرۃ النیرۃ ولواخبر ان الثمن الف فسلم فاذ الثمن اقل من ذلک فہو علی شفعتہ فلو کان الثمن الفاء اواکثر فلاشفعۃ کذ افی الذخیرۃ ۲؎۔
جب اسے بتایا گیا مشتری فلاں شخص، تو اس نے شفعہ چھوڑدیا، پھر اسے معلوم ہوا کہ کوئی اور ہے تو اسے شفعہ کا حق باقی ہے۔ جب اسے بتایا گیا کہ مشتری زید ہے تو اس نے شفعہ چھوڑ دیا پھر بعد میں معلوم ہو اکہ زید کے ساتھ کوئی دوسرا بھی مثلا عمرو شریک ہے تو زید کے حق میں چھوڑنا صحیح ہوگا او رعمرو کے حصہ میں اسے شفعہ کا حق ہے_____ جوہر نیرہ نے اس کی یوں تفسیر کی ہے جب معلوم ہو اکہ مبیع کی قیمت ہزار ہے تو اس نے شفعہ چھوڑدیا ، بعد میں معلوم کہ ثمن اس سے کم ہے تو اس کا شفعہ قائم رہے گا، ہاں اگر ثمن ہزار یا زائد ہو تو پھر شفعہ نہ ہوگا ذخیرہ میں یوں ہے۔ (ت)
(۲؎فتاوٰی ہندیہ کتا ب الشفعۃ الباب التاسع نورانی کتب خانہ پشاور ۵/ ۱۸۴)
اسی میں ہے :
فالاصل فی جنس ھذہ المسائل ان ینظر ان کان لایختلف غرض الشفیع فی التسلیم صح التسلیم و بطلت الشفعۃ وان کان یختلف غرضہ لم یصح وھو علی شفعتہ کذ افی البدائع ۳؎۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
اس قسم کے مسائل میں ضابطہ یہ ہے کہ دیکھا جائے کہ شفعہ چھوڑ نے کی غرض بعد میں تبدیل نہیں ہوتی تو چھوڑنا برقراررہے گا اور شفعہ باطل ہوگا اور غرض تبدیل ہوجائے تو شفعہ باقی رہے گا اور ساقط نہ ہوگا، بدائع میں یوں ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)
(۳؎فتاوٰی ہندیہ کتا ب الشفعۃ الباب التاسع نورانی کتب خانہ پشاور ۵/ ۱۸۳)
مسئلہ ۲۵: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین ا س باب میں کہ ایک کوچہ غیر نافذہ میں ایک مکان زید کا ایسا واقع ہے جس پر حق شفعہ خلیط فی الطریق چنداشخاص باشندگان کوچہ مذکور پہنچاہے۔ اور ان میں سے بعض کوعلاوہ حق شفعہ خلیط فی الطریق کے حق شفعہ جارملاصق بھی حاصل ہے۔ مکان مذکور کی پچھیت کی طرف عمرو کا مکان واقع ہے۔ ا ور جس کا دروازہ دسرے کوچہ میں ہے اور اس کا حق شفعہ جارملاصق ہے۔ زید مالک مکان مشفوعہ نے اپنے مکان کی کچھ اراضی جو پچھیت کی طرف اورمکان عمرو سے متصل تھی، وہ بدست عمرو فروخت کی، چونکہ اراضی مذکور مکان مشفوعہ باشندگان کوچہ غیر نافذہ کاجز ہے۔ اس لئے استفتاء اس امر کا مطلوب کوہ شفیعان خلیط فی الطریق اور شفیعان جارملاصق کو حق شفعہ مکان مشفوعہ کے ایک جز پر شرعا پہنچتا ہے یانہیں؟ بینوا توجروا
واسطے سہولت کے نقشہ پشت ہذاپر تحریر کیا جاتاہے
20_3.jpg
الجواب: کل مکان بیع کیا جائے گا خواہ بعض، ہر صورت میں خلیط فی نفس المبیع وشریک فی حق المبیع کا شفعہ ہے اور جا رملا صق کا بھی، اگر خاص اس جز مبیع سے اتصال رکھتاہو،
الالا، الا علی رِوَایۃِ مُشْکِلَۃٍ ،
درمختار وغیرہ عامہ کتب میں ہے :
باع عقارالاذراعا مثلا فی جانب حد الشفیع فلا شفعۃ لعدم الاتصال۱؎، فی ردالمحتار استشکل السائحا ن ھذہ الحیلۃ بما نقلہ الشرنبلالی عن عیون المسائل ، دار کبیرۃ ذات مقاصیرباع منھا مقصورۃ فلجار الدا ر الشفعۃ لان المبیع من جملۃ الدار وجار الدار جار المبیع ، وان لم یکن متصلا بہ اھ، اقول المشکل مافی العیون لاماہنا، تأمل اھ ۲؎، ما قال العلامۃ الشامی وکتبت علیہ ان المحشی قدم صدر الکتاب عن القہستانی، ان الملاصق المتصل بالمبیع ولم حکما کما اذا بیع بیت من دار فان الملاصق لہ ولاقصی الدار فی الشفیع سواء ۳؎ اھ وھو مثل ما فی العیون ومثلہ ایضا فی الہندیۃ عن المحیط عن شرح ادب القاضی للخصاف، ووجہ اشکالہ ان ماھنا مصرح بہ فی عامۃ کتب المذھب العتمدۃ متونا وشروحا وفتاوٰی، فماخالفہ فہو المشکل لاھذا۔
کسی نے شفیع سے متصل ایک گز چھوڑ کر باقی زمین فروخت کی تو عدم اتصال کی وجہ سے شفعہ نہ ہوسکے گا، ردالمحتارمیں ہے اس حیلہ پر سائحانی نے اشکال پیش کیا جس کو شرنبلالی نے عیون المسائل سے نقل کیا کہ کسی نے بڑی حویلی جوکہ کئی چھوٹے کمروں پر مشتمل ہے میں سے یک چھوٹا مکان فروخت کیا تو اس حویلی کے پڑوسی کو شفعہ کا حق ہےکیونکہ وہ مبیع مکان حویلی کا حصہ ہے تو پوری حویلی کا پڑوسی اس مبیع کا پڑوسی ہے اگر چہ یہ مبیع مکان پڑوسی سے متصل ہی نہیں ہے اھ ۔ میں کہتاہوں کہ عیون المسائل کا ذکر کردہ خودمشکل ہے نہ کہ جویہاں مذکور ہے۔ غور کرو، علامہ شامی نے جو بیان کیا وہ ختم ہوا، میں نے شامی پر حاشیہ لکھا ہے کہ محشی یعنی علامہ شامی نے کتا ب کی ابتداء میں قہستانی سے نقل کرتے ہوئے بیان کیا کہ مبیع سے متصل اگر حکمی طو ر بھی ہوتو وہ متصل حصہ اور حویلی فروخت شدہ کاانتہائی حصہ شفعہ میں برابرہیں مثلاکسی نے حویلی میں سے ایک کمرہ فروخت کیا تو اس کمرہ سے متصل حصہ سمیت تمام دار شفعہ میں برابر ہے اھ۔ یہ عیون المسائل میں مذکور کی مثل ہئے اور اسی کی مثل ہندیہ میں ہے محیط سے انھوں نے خصاف کی شرح ادب القاضی سے نقل کیا ہے۔ اس کے اشکال کی وجہ یہ ہے کہ یہاں جو مذکور ہے وہی تمام معتمد کتب مذہب متون وشروح اور فتاوٰی میں تصریح شدہ ہے تو جوان کی تصریحات کے خلاف ہے وہ مشکل ہے نہ کہ یہ،
(۱ درمختار کتاب الشفعۃ باب مایبطلہا مطبع مجتبائی دہلی ۲/ ۲۱۶)
(۲؎ ردالمحتار کتاب الشفعۃ باب مایبطلہا داراحیاء التراث العربی بیروت ۵/ ۱۵۴)
(۳؎ردالمحتار کتاب الشفعۃ باب مایبطلہا داراحیاء التراث العربی بیروت ۵/ ۱۴۰)