فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۰(کتاب الغصب، کتاب الشفعہ، کتاب القسمہ، کتاب المزارعہ، کتاب الصید و الذبائح، کتاب الاضحیہ)
11 - 126
امام فقیہ النفس خانیہ میں فرماتے ہیں:
ان قال المشتری انی قد اشتریت ھذہ الدار التی یرید ان یاخذھا بالشفعۃ منذ سنۃ وقد علم ھذ المدعی بشرائی ولم یطلب الشفعۃ یقول القاضی للمدعی متی اشتری ھذہ الدار فان قال المدعی طلبت الشفعۃ حین علمت کان صحیحا اکفاہ ذٰلک فان قال المشتری ماطلبت حین علمت کان القول الشفیع، وان قال الشفیع علمت منذ سنۃ وطلبت وقال المشتری لم تطلب کان القول قول المشتری، وھو کالبکراذا زوجت فبلغہا الخبر فردت فاختصما الی القاضی فقال الزوج حین بلغہا الخبر سکتت ، وقالت رددت حین علمت، کان القول قولہا، وان قالت علمت یوم کذا و رددت لایقبل قولہا(الی ان قال) ولو قیل للشفیع متی علمت، فقال امس اوفی یومی قبل ھذہ الساعۃ لایقبل قولہ الاببینۃ ۱؎۔
اگر مشتری کہے کہ میں نے یہ دارسال سے خرید کر رکھا ہے جس کو وہ شفعہ کی بناء پر حاصل کرنا چاہتاہے اور اس مدعی شفعہ کو میری خریداری کا علم ہوا تواس نے طلب نہ کی تو اس صورت میں قاضی مدعی سے کہے گا کہ یہ دار کب سے خرید اگیا تو مدعی نے اگر جواب میں کہا کہ میں نے علم کے وقت ہی طلب کی تھی تو مدعی کا یہ بیان صحیح ہوگا اور قاضی اس کو کافی قرار دے گا تو مشتری اگر کہے کہ تو نے علم کے وقت طلب نہ کی تو شفیع کی بات معتبر ہوگی، اور اگر شفیع نے یوں کہا کہ میں نے سال سے جانا اور طلب کی اور مشتری کہے تو نے اس وقت طلب نہ کی تو مشتری کا قول معتبر ہوگا ، یہ معاملہ باکرہ لڑکی کے نکاح کی طرح ہے کہ اس کو نکاح کی خبر پہنچی تو اس نے نکاح کو رد کیا تو خاوند بیو ی کا یہ اختلاف قاضی کے سامنے پیش ہو تو خاوند کہے اس کو جب نکاح کی خبر پہنچی تو یہ خاموش رہی اور عورت کہے میں نے علم ہوتے ہی رد کردیا تھا تو عورت کی بات معتبر ہوگی اور اگر عورت کہے کہ مجھے فلاں روز علم ہوا اور میں نے رد کردیا تھا تو عورت کی بات معتبر نہ ہوگی (یہاں تک فرمایا) او ر اگر شفیع کوکہا گیاتونے کب معلوم کیا تو اس نے کہا گزشتہ روز یاآج ایک گھنٹہ قبل تو شفیع کی بات بغیر گواہی قبول نہ ہوگی۔ (ت)
(۱؎ فتاوٰی قاضی خان کتاب الشفعۃ فصل فی ترتیب الشفعاء نولکشور لکھنؤ ۴/ ۸۶۶)
علامہ مولی خسرو غررمیں فرماتے ہیں :
قال الشفیع طلبت حیط علمت فالقول لہ بیمینہ ، ولو قال علمت امس وطلبتہ کلف اقامۃ البینۃ ۲؎۔
شفیع کہے جس وقت مجھے علم ہوا اس وقت میںطلب کی تو اس کی بات قسم کے ساتھ معتبر ہوگی، اور اگر کہے مجھے گزشتہ روز علم ہوا اور میں نے طلب کی تو اسے گواہی کاپابند کیاجائے گا۔ (ت)
(۲؎الدرالحکام فی شرح غرر الاحکام کتاب الشفعہ باب ماتکون ہی فیہ میرمحمد کتب خانہ کراچی ۲/ ۲۱۶)
دررمیں ہے :
کلف اقامۃ البینۃ ولایقبل قولہ لانہ اضاف الطلب الی وقت ماض فقد حکی مالایملک استئنافہ للحال ، ومن حکی مالا یملک استئنافہ للحال لایصدق فیما حکی بلا بینۃ، واذا لم یضف الطلب الی وقت ماض بل اطلق الکلام اطلاقا تامافقد حکی مایملک استئنافہ للحال لانہ نجعلہ کانہ علم بالشراء الآن، وطلب الشفعۃ الآن فلذا جعل القول قولہ کذا فی العمادیۃ وغیرھا ۱؎۔
اس کو گواہی کا پابند کیا جائے گا اور اس کی بات قبول نہ ہوگی کیونکہ اس نے طلب کو ماضی کی طرف منسوب کیا ہے تو ایسی بات کوحکایت کیا جس کو فی الحال نافذ کرنےپر قادرنہیں، اور جو شخص ایس بات کی حکایت کرے جس کو وہ فی الحال ابتداء نافذ کرنے کا مالک نہ ہوتو اس حکایت میں اس کی تصدیق بغیر گواہی نہ ہوگی، اور شفیع جب طلب کو ماضی کی طرف منسوب نہ کرے گا بلکہ کلام کو مطلقا ذکر کرے تو یہ ایسی بات کی حکایت ہوگی جس کو ابتداء نافذ کرنے کا فی الحال مالک ہے کیونکہ ہم اس کو یوں سمجھیں گے کہ ا بھی اس کو خریداری کا علم ہوا ہے اور ابھی شفعہ طلب کیا ہے اس لئے شفیع کی بات معتبر ہوگی، عمادیہ وغیرہ میں یوں ہے۔ (ت)
(۱؎ الدرالحکام شرح غرر الاحکام کتاب الشفعۃ باب ماتکون ھی فیہ میر محمدکتب خانہ کراچی ۲/ ۲۱۶)
اقول وباللہ التوفیق
(میں کہتاہوں اور توفیق اللہ تعالٰی سے ہے۔ت) ان عبارات توفیق کا جس طرح یہ مطلب نہیں کہ مجرد اضافت طلب بزمان ماضی شفیع کو مدعی کو دے گا کہ اسے قاضی کے حضور اضافت الی الماضی سے کیاچارہ کہ دونوں مواثبت واشہاد کا طلب عندالقاضی سے پہلے ہونالازم ، یہاں تک کہ اگر بفور علم طلب تملک سے آغاز کیا اور وہ طلبیں پہلے نہ کرلیں شفعہ باطل ہوجائے گا۔
فتاوٰی خیریہ میں ہے :
صرح علمائنا قاطبۃ انہ متی تمکن من طلب الاشہاد لم یشھد بطلت شفعتہ فلو اضرب عنہ ومضی الی المحکمۃ ابتداء وطلب عند القاضی بطلت والطلب عند القاضی متأخر عن الطلبین ای طلب المواثبۃ والاشہاد فاذا قدمہ علیہما اوعلی احدھما بطلت شفعتہ ۔ ولیس فی ھذا اختلاف بین ائمتنا فیما علمت ۱؎۔
ہمارے تما م علماء نے تصریح فرمائی ہے کہ جب بھی طلب اشہاد پر قدرت ہوئی اور گواہی نہ بنائے تو اس کا شفعہ باطل ہوجائے گا اور اگر اس نے اول وقت میں طلب نہ کی اور محکمہ قضاء کی طرف چل پڑا اور قاضی کے پاس جاکر طلب کی شفعہ باطل ہوگا جبکہ قاضی کے ہاں طلب پہلی دو طلب کے بعد ہوتی ہے پہلی طلب مواثبت ہے دوسری طلب اشہاد ہے اورجب قاضی کے ہاں طلب کوپہلی دونوں یا ایک طلب سے مقدم کردیا تو اس کا شفعہ باطل ہوگا۔ اورمیرے علم کے مطابق ا س میں ہمارے ائمہ کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔ (ت)
(۱؎ فتاوٰی خیریہ کتاب الشفعۃ دارالمعرفۃ بیروت ۲/ ۱۵۴)
ناچار عندالقاضی نسبت الی الماضی ہی کرے گا، ولہذا فتح اللہ المعین میں فرمایا:
انہ لایستحلف الا اذا اسند الطلب الی الزمن الماضی ۲؎۔
شفیع سے قسم نہ لی جائے گی مگر جب اس نے طلب کو زمانہ ماضی کی طرف منسوب کیا قسم لی جائیگی۔ (ت)
(۲؎ فتح المعین کتاب الشفعۃ باب طلب الشفعۃ ایچ ایم سعیدکمپنی کراچی ۳/ ۳۲۹)
اسی طرح یہ معنی بھی زنہار مراد نہیں ہوسکتا کہ شفیع کا اتنا کہہ دینا کہ ''میں نے بمجرد علم طلب کی'' مطلقا کا فی ووافی ہے اگرچہ اس طلب کا زمانہ طلب اشہاد سے مقدم بتا چکا ہو۔ ایسا ہی ہوتا ہو جس صورت میں اہل توفیق نے قول شفیع معتبر نہ رکھا،
یعنی علمت امس وطلبت
(مجھے گزشتہ روز علم ہوااور میں نے طلب کی۔ ت) واجب تھا کہ اس میں بھی قبول ہوتا۔ اور فرق محض ضائع رہتا کہ شفیع یہاں طلب مواثبت سےخبردے رہا ہے۔ اور وہ نہیں ہوتی مگر بفور علم، تو اس طلبت کے معنی قطعا یہی ہے کہ
طلبت کما علمت
(میں نے طلب کیا جب مجھے معلوم ہوا۔ ت) ولہذا اس صورت میں عدم قبول قول شفیع کو سراجیہ میں بلفظ فاء تعقیب بیان کیاکہ:
الشفیع لو قال طلبت الشفعۃ حین علمت کان القول لہ، ولو قال علمت منذ کذا فطلبت وقال المشتری ماطلبت فالقول للمشتری ۳؎۔
شفیع نے اگر کہا میں نے اسی وقت طلب کی جب مجھے علم ہوا تو اس کا قول معتبر ہوگا اور اگر کہا مجھے فلاں دن سے معلوم ہے تو میں نے طلب کی تھی اورمشتری کہے تو نے طلب نہ کی تھی تو مشتری کی بات معتبر ہوگی۔ (ت)
(۳؎ فتاوٰی سراجیہ کتاب الشفعۃ نولکشورلکھنؤ ص۱۱۰)
شرح مبسوط میں خاص انھیں الفاظ اتصال پر حکم عدم قبول دیا:
حیث قال کما نقل عنہ فی جامع الفصولین برمز ''شصل'' بلغت بکرا فقالت رددت کما بلغت، والزوج یقول سکت فالقول للزوج، فکذا لوقال طلبت الشفعۃ کما سمعت فقال المشتری سکت فالقول للمشتری ۱؎۔
جہاں انھوں نے فرمایا جیسا کہ ان سے جامع الفصولین میں منقول ہے برمز ''شصل'' باکرہ لڑکی بالغ ہوئی تو اس نے کہا میں نے اپنا نکاح ردکیا جب یہ خبرپہنچی اور خاوند کہتاہے تو خاموش رہی تو خاوند کی بات معتبرہوگی تو یوں ہی اگر شفیع کہے جب مجھے معلوم ہوا میں نے شفعہ طلب کیا تو مشتری کہے تو خاموش رہا،تو مشتری کی بات معتبرہوگی۔(ت)
(۱؎ جامع الفصولین بحوالہ ''شصل'' الفصل الخامس والعشرون فی الخیارات اسلامی کتب خانہ کراچی ۱/ ۳۲۸)
اسی میں ہے :
لو لم یکن عندھا شہود فاذا وجدتہم فلو بلغت بحیض تقول حضت الاٰن و نقضتہ، فاشہد واعلیہ ولو بلغت باحتلام اوبسن تقول کما بلغت نقضتہ، فاشہدوا اوتقول اشہدوا، انی بلغت ونقضتہ فان قالوا متی بلغت تقول کما بلغت نقضتہ ولا تزید علی ھذا الانہا لو قالت بلغت قبل ھذ اونقضتہ حین بلغت لاتصدق ۲؎۔
اگر بالغ ہونے کے وقت گواہ موجود نہ تھے اور اس نے گواہ پاکر گواہی بنائی تو اگر وہ لڑکی حیض کے ساتھ بالغ ہوئی ہو تو یوں کہے کہ مجھے ابھی حیض آیا ہے اور میں نکاح کو توڑتی ہوں تم اس پر گواہ ہوجاؤ، اور اگر وہ احتلام یا عمرو کی بناء پر بالغ ہوئی ہو تو یوں کہے جونہی میں بالغ ہوئی میں نے نکاح توڑدیا تو تم گواہ ہوجاؤ، یاکہے تم گواہ بن جاؤ میں بالغ ہوئی اور میں نے نکاح توڑدیا، اگروہ پوچھیں تو کب بالغ ہوئی، جواب میں کہے جیسے ہی میں بالغ ہوئی میں نے نکاح توڑ دیا اور اس پر مزید کچھ نہ کہے، کیونکہہ اس نے کہا میں قبل ازیں بالغ ہوئی اور میں نے توڑ دیا، جب بالغ ہوئی تو اس کی بات قابل تصدیق نہ ہوگی۔ (ت)
(۲؎جامع الفصولین بحوالہ ''شصل'' الفصل الخامس والعشرون فی الخیارات اسلامی کتب خانہ کراچی ۱/ ۳۲۸)
دیکھو زمانہ متقدم بتانے کی حالت میں ادعائے فورا اتصال کو بھی رد فرمادیا، غرض نہ مدار قبول مجرد ادعائے اتصال پر ہے، نہ مناط عدم قبول محض اضافت بماضی، بلکہ طلب شہود معہود سے اتصال کا صراحۃ بیان یا طلب مواثبت کے لئے کوئی وقت متقدم علی وقت الاشہاد نہ بیان کرنا، اور صرف بیان اتصال پر قانع ہونا درکار ہےکہ عینا یا احتمالا یہی طلب مشہود مراد ہوسکے ، او رطلب مشہود سے تقدم علم کا اقرار موجوب عدم قبول قول ہے۔ اگر چہ لاکھ مدعی اتصال ہوں، اوریہیں سے ظاہر ہواکہ جس طرح
طلبت کما علمت
(علم ہوتے ہی میں نے طلب کی۔ ت) سے طلب عند القاضی مراد نہیں ہوسکتی،
لماعلمت ان اتصالہ بالعلم مبطل للشفعۃ لعدم تقدم الطلبین۔
اس وجہ کی بناء پر جوتجھے معلوم ہوئی کہ قاضی کے ہاں علم سے متصل گواہی شفعہ کو باطل کرتی ہے کیونکہ اس سے قبل د وطلب نہ پائی گئیں (ت)
یوہیں کوئی طلب مجہول جس کا بیان محض مدعی کی زبان سے ہو، مقصود ماننا بھی بدیہی البطلان ہے۔
لما تقدم ان مدع فیہ فکیف یقبل قولہ ولما علمت انہ یضیع علی ھذا الفرق المطبق علیہ من اھل التوفیق، ولما من نصوص السراجیۃ وشرح المبسوط علی بطلانہ۔
اور گزشتہ کی بناء پرکہ وہ مدعی ہے تو اس کا قول کیسے معتبر ہو اور اس بناء پر جو تم معلوم کرچکے کہ وہ تمام اہل توفیق کے متفقہ علیہ فرق کو نظر انداز کررہا ہے اور سراجیہ ، شرح المبسوط کی اس کے بطلان پر نصوص کی بناء پر ۔ (ت)
لاجرم اس سے مرادوہی طلب اشہاد ہے جبکہ مشہود و معہود اور بینہ عادلہ یا اقرار مشتری سے ثابت و معروف ہو، تو حاصل تنقیح وتحقیق وعطر تنقید وتدقیق بحمداللہ تعالٰی وہی نکلا کہ طلب اشہاد ہر گز بے گواہان یا اعتراف مشتری ثابت نہیں ہوسکتی نہ بے اس کے ثبوت کے طلب مواثبت پر ہر گز حلف شفیع لیا جاسکتاہے ہاں جب وہ ثابت ہو اور طلب مواثبت کے لئے کوئی زمانہ طلب شہاد سے پہلے اگر چہ ایک ہی ساعت حفیفہ ہو ، بیان نہ کیا، بلکہ صراحۃ اسی طلب اشہاد کو طلب مواثبت بنایا، بایں معنی کہ اسی وقت علم ہوا تھا، معا طلب اشہاد کی کہ دونوں طلبوں کے قائم ہوئی، یا طلب مواثبت کے لئے اصلا کوئی وقت نہ بتایا، صرف اتنے کہنے پر قانع ہوا کہ میں نے معلوم ہوتے ہی طلب کی، تو اس صور ت میں قول شفیع بحلف معتبر ہوگا۔ ورنہ قول قول مشتری ہے۔
تحقیق یوں مناسب ہے۔ اور اللہ تعالٰی توفیق کا مالک ہے۔ اس کو مضبوط کرلو کیونکہ اس عبد ضعیف کے بغیر اس کو نہ پاؤ گے، اور اللہ تعالٰی اپنے بندوں پر مہربان ہے۔