Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۰(کتاب الغصب، کتاب الشفعہ، کتاب القسمہ، کتاب المزارعہ، کتاب الصید و الذبائح، کتاب الاضحیہ)
10 - 126
وجیز امام کردری میں ہے :
انکر طلب الشفیع مواثبۃ حلفہ علی العلم، وان طلبہ عندلقائہ فعلی البتات ۱؎۔
مشتری نے شفیع کی طلب مواثبت کاانکارکیا تو اپنے علم کی قسم کھائے گا اور اگر شفیع نے مشتری سے ملاقات کے وقت طلب کا دعوٰی کیا تو اس صور ت میں مشتری قطعی قسم کھائے گا (کہ شفیع نے قبل ازیں مواثبت نہیں کی) ۔ (ت)
(۱؎فتاوٰی بزازیہ علی ہامش فتاوٰی ہندیہ   کتاب الشفعۃ الفصل الثالث   نورانی کتب خانہ پشاور    ۶/ ۱۶۷)
اشباہ میں ہے  :
انکر المشتری طلب الشفعۃ حین علم فالقول لہ مع یمینہ علی نفی العلم ۲؎۔ْ
مشتری نے طلب کا انکار کیا کہ شفیع نے بیع کی خبر سننے پر مواثبت نہیں کی تو مشتری اپنے علم کی قسم کھائیگا اور اس کی بات مان لی جائے گی۔ (ت)
(۲؎ الاشباہ والنظائر الفن الثانی    کتاب الشفعۃ     ادارۃ القرآن کراچی    ۲/ ۸۷)
خزانۃ المفتین میں فتاوٰی کبرٰی سے ہے :
المشتری اذا انکر طلب الشفعۃ عند سماع البیع فالقول لہ مع الیمین علی العلم باﷲ ما یعلم ان الشفیع حین علم بالبیع طلب ۳؎۔
مشتری نے طلب شفعہ کا انکار کیاکہ شفیع نے بیع کی خبر سننے پر مواثبت نہیں کی تو اپنے علم کی قسم پر اس کی بات قبول کرلی جائے گی اور یوں کہے گا کہ اللہ کی قسم مجھے علم نہیں کہ شفیع نے سن کر موقعہ پر طلب کی ہو۔ (ت)
(۳؎ خزانۃ المفتین   کتاب الشفعۃ  قلمی نسخہ        ۲/ ۱۹۴)
ہندیہ میں ملتقط سے ہے :
المشتری اذا انکر طلب الشفیع الشفعۃ عند سماع البیع یحلف علی العلم ، وان انکر طلبہ عند لقائہ حلف علی البتات ۴؎۔
شفیع کا بیع کی خبر سننے پر طلب کا اگر مشتری انکا ر کرے تو اپنے علم کی قسم دے گا۔ اور اگر اس کی ملاقات کے موقعہ پر طلب کا مشتری انکار کرے تو قطعی قسم دے۔ (ت)
 (۴؎ فتاوٰی ہندیہ کتاب الشفعۃ  الباب الثالث    نورانی کتب خانہ پشاور  ۵/ ۱۷۴)
اسی طرح کتب کثیرہ میں ہے۔ اسی میں محیط امام سرخسی سے ہے :
اذا انکر المشتری طلب الشفعۃ فیقول لہ لم تطلب الشفعۃ حین علمت بل ترکت الطلب وقمت عن المجلس والشفیع یقول طلبت فالقول قول المشتری فلا بد  من الاشہاد وقت الطلب توثیقا ۱؎۔
مشتری طلب شفعہ کاانکار کرتے ہوئے شفیع کو کہے کہ تو نے بیع کی خبر سن کر شفعہ طلب نہ کیا بلکہ تو مجلس سے اٹھ گیا اور طلب کو ترک کیا، اور شفیع کہے کہ میں نے اس وقت طلب کیا ہے تو مشتری کی بات مانی جائے گی اسی لئے کہ وقت الشہاد ضروری ہے تاکہ معاملہ پختہ ہو۔ (ت)
 (۱؎ فتاوٰی ہندیہ کتاب الشفعۃ الباب الثالث    نورانی کتب خانہ پشاور    ۵/ ۱۷۲)
اور اگر شفیع نے طلب مواثبت کے لئے کوئی وقت اس طلب الشہاد ومشہود سے پہلے نہ بیان کیا، بلکہ صراحۃ تصریح کردی کہ جس وقت میں نے طلب اشہاد کی اسی وقت مجھے علم ہواتھا اس سے پہلے علم بالبیع نہ تھا، تو شفیع ہی کا قول حلف کے ساتھ مقبول ہے ۔ا سے طلب مواثبت پر جداگانہ گواہی دینے کی حاجت نہیں، مشتری اگر دعوٰی کرے کہ طلب اشہاد سے پہلے شفیع کوعلم بالبیع ہولیا تھا، اور اس نے اس وقت طلب مواثبت نہ نکی تو اب مشتری مدعی ہے۔ یہ گواہی دے، اسی لئے کہ اب یہ حصول علم فی الماضی کا ادعا کرتا اور شفیع منکر ہے۔
والحادث یضاف الی اقرب الاوقات،والاصل العدم فمن خالف ھذین الاصلین فعلیہ البینۃ۔
نیا معاملہ اقرب وقت کی طر ف منسوب ہوگا، اور یہ کہ عدم اصل ہے۔ جو شخص ان دونوں قاعدوں کے خلاف کرے تو اس پر گواہ لازم ہوں گے  (ت)
فتاوٰی امام قاضی خاں میں ہے:
لوقال الشفیع لم اعلم بالشراء الاالساعۃ کان القول قولہ، وعلی المشتری البینۃ انہ علم قبل ذٰلک ولم یطلب ۲؎۔
اگر شفیع کہے کہ مجھے خریداری کا علم نہ تھا اب ہواہے ، تو اس کاقول معتبر ہوگا۔ اور مشتری گواہی پیش کرے کہ اس کو پہلے علم ہوچکا اور اس نے طلب نہ کیا۔ (ت)
(۲؎ فتاوٰی قاضیخان  کتاب الشفعۃ  فصل فی ترتیب الشفعاء نولکشور لکھنؤ        ۴/ ۸۶۶)
سراجیہ میں ہے  :
الشفیع اذا طلب الشفعۃ فقال المشتری علمت بالبیع قبل ھذا ولم تطلب وقال الشفیع علمت بہ الساعۃ فالقول للشفیع۔ ۳؎۔
شفیع نے طلب کیا تو مشتری نے کہا تجھے قبل ازیں بیع کا علم ہوگیا تھا تو نے مطالبہ نہ کیا جبکہ شفیع کہے کہ مجھے ابھی علم ہوا ہے تو شفیع کی بات قبول ہوگی۔ (ت)
(۳؎ فتاوٰی سراجیہ      کتاب الشفعۃ     باب طلب الشفعۃ      نولکشور لکھنؤ    ص۱۱۰)
خزانۃ االمفتین میں فتاوٰی ظہیریہ اور عالمگیری میں محیط سے ہے:
لو قال الشفیع علمت الساعۃ وانا اطلبہا وقال المشتری علمت قبل ذٰلک ولم تطلب فالقول قول الشفیع ۱؎۔
اگر شفیع نے کہا مجھے اب علم ہو ااور طلب کررہاہوں مشتری نے کہا تو نے پہلے علم ہونے کے باوجود طلب نہیں کیا ہے تو شفیع کی بات مانی جائے گی۔ (ت)
 (۱؎ فتاوٰی ہندیہ         کتاب الشفعۃ الباب الثالث     نورانی کتب خانہ پشاور    ۵/ ۱۷۴)
یوہیں اگر شفیع نے طلب اشہاد ثابت کردی اور طلب مواثبت کے لئے کوئی وقت متقدم اصلا معین نہ کیا بلکہ لوگوں مجمل کہا کہ معا علم ہوتے ہی میں نے شفعہ طلب کیا تو اس صورت میں بھی شفیع کا حلف معتبر ہے اگر واقع میں اسی وقت طلب اشہاد سے پہلے علم نہ ہوا تھا جب تو ظاہر اور ہوچکا تھااور فورا طلب مواثبت کرلی تھی اگرچہ اس وقت کوئی دوسرا موجودنہ تھا ت وہ اپنے اس حلف میں عنداللہ سچاہے اور قاضی اس گول لفظ کو اسی طلب معلوم مشہود پر حمل کرے گا اور اس سے زیادہ تفصیل وقت کی شفیع کو تکلیف نہ دیگایہی منشا ہے ان عبارات کا کہ شفیع کو اگر چہ تنہائی میں علم بالبیع ہو معا زبان سے طلب شفعہ کرلے کہ عنداللہ تعالٰی اس کا شفع ساقط نہ ہو اور وقت حاجت حلف کرسکے۔
فتاوٰی بزازیہ میں ہے :
یصدق علی انہ طلب کما علم مع الحلف ۲؎۔
شفیع نے کہا میں نے علم ہوتے ہی طلب کیا تو قسم کے ساتھ اس کی تصدیق کردی جائے گی۔ (ت)
(۲؎ فتاوٰی بزازیہ علٰی ہامش الفتاوٰی الہندیۃ کتاب الشفعۃ الفصل الثالث  نورانی کتب خانہ پشاور   ۶/ ۱۶۶)
دررمیں ہے :
اذا اسمع بالبیع فی مکان خال عن الشہود فسکت تبطل شفعتہ، واذا قال طلبت الشفعۃ ولم یسمعہ احد لا تبطل ، حتی اذا حضر عند القاضی، وقال الشفیع طلبت الشفعۃ ولم اترکہا وحلف علی ذٰلک کان بارا فی یمینہ، ویثبت طلب المواثبۃ ۳؎۔
جب ایسی جگہ اس نے بیع کی خبر سنی جاں کوئی گواہ نہ تھا تو یہ خاموش رہا، اس کا شفعہ باطل ہوجائے گا ا و رجب یہ کہے کہ میں نے وہاں طلب کیا اور کسی نے نہ سنا شفعہ باطل نہ ہوگا حتی کہ جب قاضی کے ہاں حاضر ہوکر شفیع نے کہا میں نے شفعہ طلب کیا اور ترک نہیں کیا اور قاضی نے اس پر قسم لی او راس نے قسم کھائی تو اپنی قسم میں سچا ہوگا۔ اورطلب مواثبت ثابت ہوجائے گی۔ (ت)
 (۳؎ الدررالحکام فی شرح غرر الاحکام    کتاب الشفعۃ باب ماتکون ہی فیہ     میر محمد کتبخانہ کراچی    ۲/ ۲۱۵)
تبیین الحقائق میں ہے :
ان لم یکن بحضرتہ احد یطلب من غیراشہاد، لان ھذا الطلب صحیح من غیرا شہاد والاشہاد لمخالفۃ الجحود۔ والطلب لا بد منہ کیلا یسقط حقہ فیما بینہ وبین اﷲ تعالٰی ولیمکنہ الحلف اذا حلف ۴؎۔
اگر کوئی بھی حاضر نہ ہو تب بھی طلب بغیر گواہی کردے، کیونکہ یہ بغیر گواہوں کے طلب صحیح ہوگی اور گواہی تو انکار کے مقابلہ کے لئے ہوتی ہے جبکہ طلب ضروری ہے تاکہ اس کا عنداللہ حق ساقط نہ ہواور اس سے قسم لی جائے تو قسم دینا ممکن ہو۔ (ت)
 (۴؎ تبیین الحقائق     کتاب الشفعۃ باب طلب الشفعۃ     المکتبۃ الکبرٰی الامیریہ بولاق مصر ۵/ ۲۴۳)
کفایہ میں ہے :
ذکرفی المبسوط لو لم یکن بحضرتہ احد حین سمع ینبغی ان یطلب الشفعۃ، والطلب صحیح من غیر اشہاد، والاشہاد لمخالفۃ الجحود فینبغی لہ ان یطلب حتی اذا احلفہ المشتری امکنہ ان یحلف انہ طلبہا کما سمع ۱؎۔
مبسوط میں ذکر فرمایا کہ اگر کوئی بھی اس کے پاس موجود ہو تو بیع کی خبر سنتے ہی شفعہ طلب کرنا مناسب ہے جبکہ بغیر گواہ بنائے طلب صحیح ہے گواہ تو انکار کے مقابلہ کے لئے ہے تو اس کوطلب کرنا مناسب ہے، تاکہ جب اس سے مشتری قسم لے تو اس کو یہ قسم دینا ممکن ہو کہ میں نے سنتے ہی طلب کیا ہے۔ (ت)
(۱؎ الکفایۃ مع فتح القدیر     کتاب الشفعۃ باب طلب الشفعۃ    مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر    ۸/ ۳۰۷)
متتبع کلمات علماء بہت جگہ تصریح پائے گا کہ جب دربارہ میں طلب شفیع ومشتری میں اختلاف ہے قول قول مشتری ہے۔ اور بہت جگہ یہ کہ قول قول شفیع ہے، اس ظاہری اضطراب میں توفیق وتطبیق بتانے والی وہی عبارات کثیرہ ہیں جن میں تفصیل فرمادی کہ شفیع نے طلب مواثبت کو وقت سابق کی طرف مسند کیا تو قول قول مشتری ہے۔ اورگول چھوڑا کوئی وقت اس کا بیان نہ کیا صرف اتناکہ کہ بمجرد علم میں نے بطلب کی تو قول قول شفیع ہے۔
خانیہ وبزازیہ ودرر وغرر وجامع الفصولین وسراجیہ وواقاعات المفتین وفتاوٰی صغرٰی ومحیط و مبسوط وفتاوٰی ظہیریہ ووھبانیہ وخزانۃ المفتین وتکملہ طوری وحواشی رملی وشامی وشرح وھبانیہ وغیرہا کتب کثیرہ
میں یہ توفیق وتفصیل ارشاد ہوئی،
امام اجل قاضی الشرق والغرب شیخ المذھب سیدنا امام ابویوسف نوادرمیں فرماتے ہیں:
اذا قال الشفیع طلبت الشفعۃ حین علمت فالقول قولہ، ولو قال علمت امس و طلبت اوکان البیع امس وطلبتہا فی ذٰلک الوقت لم یصدق الا ببینۃ ۲؎ اھ نقلہ العلامۃ الطوری فی تکملہ البحر۔
جب شفیع کہے میں نے علم ہونے پر شفعہ طلب کیا تو اس کا قول معتبر ہوگا اور اس نے کہا مجھے گزشتہ روز علم ہوا اور میں نے طلب کیا یا یوں کہا کہ بیع گزشتہ روز ہوئی اور میں نے طلب کیا، اسی وقت، تو بغیر گواہی اس کی تصدیق نہ کی جائے گی، اھ اس کو علامہ طوری نے بحر کے تکملہ میں نقل کیا ہے۔ (ت)
 (۲؎ تکمہ من البحرالرائق    کتاب الشفعۃ       ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۸/ ۱۲۹)
امام جلیل خصاف شرح ادب القاضی میں فرماتے ہیں :
قال المشتری اشتریت ھذہ الدار منذ سنۃ وقد علم الشفیع شرائی ولم یطلب فأسالہ عن ذٰلک، فان القاضی یسأل  المدعی متی اشتریت ھذہ الدار فان قال الشفیع طلبت الشفعۃ حین علمت فان القاضی یکتفی منہ بہذا المقدار، لان لایمکنہ ان یقول اشتراھا منذ سنۃ لاحتیاجہ الی اثباتہ فاحترز عنہ بذکر طلب الشفعۃ۔ فان قال لہ المشتری طلبت حین علمت فالقول للشفیع، لانہ فی ھذہ الحلۃ ظہر علمہ للقاضی مقارنا للطلب، بخلاف ما اذا قال الشفیع علمت منذکذ اوطلبت وقال المشتری ما طلبت کان القول للمشتری اذا لم یظہر للقاضی بالاسناد لذٰلک الوقت فیحتاج الی الاثبات ، ونظیرہ البکر اذا زوجت ۱؎ اھ، نقلہ العلامۃ الشرنبلالی فی تیسیر المقاصد شرح نظم الفرائد۔
مشتری نے کہامیں نے یہ دار ایک سال سے خرید رکھاہے اور شفیع کو میری خریداری کا علم ہوا اور طلب نہ کی، تو اس سے سوال کریں تو اگر قاضی مدعی شفعہ سے سوال کرے کہ اس دار کی خریداری کب ہوئی، تو شفیع نے اگر کہا میں نے علم ہوتے ہی طلب کی تو قاضی اس کی اس قدربات کو کافی قرار دے گاکیونکہ شفیع کویہ ممکن نہیں کہ وہ یوں کہے کہ مشتری نے سال سے خرید رکھا ہے وہ طلب کے اثبات کا محتاج بنے، لہذا اس بیان سے احتراز کرتے ہوئے طلب شفعہ کو ذکر کیا ہے۔ تو اگر مشتری اس کو کہے کہ تو نے علم کے وقت طلب کیا تھا تو شفیع کی بات معتبر ہوگی کیونکہ اس حالت میں طلب اور علم اکٹھے قاضی پر ظاہر ہوئے، اس کے برخلاف اگر شفیع یوں کہے کہ میں نے اتنی مدت سے جانا اور طلب کی اور مشتری طلب کا انکار کردے تو مشتری کا قول معتبر ہوگا کیونکہ قاضی پر اس وقت کی طلب ظاہر نہ ہوئی تو اثبات کامحتاج ہوگا۔ اور اس کی نظیر باکرہ لڑکی کا نکاح ہے۔ اس کو علامہ شرنبلالی نے تیسیر القاصد شرح نظم الفرائد میں نقل فرمایاہے۔ (ت)
(۱؎ شرح ادب القاضی للخصاف تیسیر المقاصد شرح نظم الفرائد۔)
Flag Counter