فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۰(کتاب الغصب، کتاب الشفعہ، کتاب القسمہ، کتاب المزارعہ، کتاب الصید و الذبائح، کتاب الاضحیہ)
1 - 126
بسم اللہ الرحمن الرحیم
کتاب الشفعۃ
(شفعہ کا بیان)
مسئلہ ۱: ۲۷ جمادی الآخرہ ۱۳۰۵ھ
کیافرماتےہیں علمائےدین اس مسئلہ میں کہ زید ہندو ایک قطعہ زمین کا مالک تھا، اپنے کارندے کی معرفت سب اہل محلہ پر ارادہ بیع کاا علان کرتا رہا،کسی نےخواہش خریداری نہ کی،بکر مسلمان نے جو بذریعہ فیصلہ ثالثی ایک قطعہ زمین ملحقہ قطعہ مذکورہ کا قبل بیع مالک ہوچکا تھا، اسے خریدا، ا وریہ قطعہ بکر قطعہ خالد کا جز ء تھا کہ اب تقسیم ہوگئی ہے۔ اور قطعہ خالد کہ وہ بھی مسلمان ہے قطعہ زید کی پشت پر واقع ہے۔ مگراس کی راہ قطعہ زید کی راہ سے بالکل جداہے اور قطعہ زید قطعہ بکر دونوں کے راہ ایک کوچہ سربستہ میں ہے، تکمیل بیع سے چھ دن بعد خالد نے بکر مشتری سے کہایہ زمین میرے ہاتھ بیچ ڈال ورنہ میں بذریعہ شفعہ لے لوں گا۔ بکر نے کہا میں خود شفیع تھا، میرے سامنے تیرا شفعہ نہیں خالد ڈیڑھ مہینے تک خاموش رہا اور وپیہ پیش نہ کیا ، بلکہ کہا تمھیں مبارک ہو، بعدہ روپیہ پیش کیا اور آمادہ خریداری ہوا، اس صورت میں خالدشفیع ہے یانہیں؟ اور اس کا حق شفعہ ساقط ہو ایا نہیں؟ بینوا توجروا (بیان کیجئے اجر دیئے جاؤ گے۔ ت)
الجواب: صور ت مستفسرہ میں خالد کو ہر گز استحقاق شفعہ نہیں۔
اولا وہ جار ملاصق ہے۔ اور بکر شریک فی حق المبیع۔ درمختارمیں ہے:
لو کان المشتری شریکا وللدار جارفلا شفعۃ للجار مع وجودہ ۱؎ اھ ملخصا۔
اگر مشتری مکان میں خود شریک ہو تو اس کی موجودگی میں پڑوسی کو اس مکان میں شفعہ کاحق نہیں ہے اھ ملخصا۔ (ت)
(۱؎ درمختار کتاب الشفعۃ باب ماتثبت ہی فیہ اولا مطبع مجتبائی دہلی ۲ /۲۱۵)
عقودالدریہ میں ہے :
لوکان الثالث جار افقط فلاشفعہ لہ لان المشتری خلیط، فیقدم علی الجار ۲؎۔
اگر تیسرا آدمی صرف پڑوسی ہو تو اس کو شفعہ کاحق نہیں ہے کیونکہ مشتری خود شریک ہے لہذا وہ پڑسی پر مقدم ہے۔ (ت)
(۲؎العقود الدریۃ کتاب الشفعۃ ارگ بازار قندہار افغانستان ۲ /۱۸۱)
ثانیا اگر شفیع ہوتا بھی تو اس کا مشتری سے طالب بیع ہونا خود ہی اسقاط شفعہ کے لئے بس ہے۔
درمختارمیں ہے :
یبطلہا ان استاجرہا اوساومہا بیعا اواجارۃ ''ملتقی'' اوطلب منہ ان یولیہ عقد الشراء ۳؎۔
مبیع کو اجارہ پر مانگا۔ یا اجارہ یا بیع کے طورپر بھاؤ لگایا تو اس کا حق شفعہ باطل ہوجائے گا۔ ملتقی یا مشتری سے شراء کا متولی ہونا چاہا۔ (ت)
(۳؎ درمختار کتاب الشفعۃ باب یبطل الشفعۃ مطبع مجتبائی دہلی ۲ /۲۱۵)
منح الغفار میں ہے:
لان بالاقدام علی الشراء من المشتری اعرض عن الطلب وبہ تبطل الشفعۃ انتہی ۴؎۔
کیونکہ اس کا مشتری سے خریدنے کا اقدام شفعہ کے طلب سے اعراض ہے جبکہ اس اعراض سے شفعہ باطل ہوجاتاہے انتہی (ت)
(۴؎ ردالمحتاربحوالہ منح الغفار کتاب الشفعۃ باب مایبطلہا داراحیاء التراث العربی بیروت ۵ /۱۵۲ )
اقول: ومن ھٰھنا علم جہل بعض من یدعی (عہ) العلم۔ حیث قال فی جواب ھذاالسوال معللا لا نعدام شفعۃ خالد ان خالدا اعرض عن الاشتراء من المشتری ھذہ المدۃ فلایفید عرض الثمن بعد ذٰلک اھ بالتعریب، فانظرکیف جعل المسقط مثبتا، والاعراض عن المسقط مسقطا۔ ومن جہلہ ایضا التعلیل بعدم طلب المواثبۃ، فانہ لاذکر لہ فی السوال، فمن این لک انہ لم یواثب ومن جہلہ ایضا التعلیل الثالث بان قطعۃ بکر لما کانت جزء من قطعۃ خالد، فالبکر شفیع بنفسہ، لان الرجل فی امثال الصورۃ یکون شفیعا بدون القبض فکیف والبکر قابض، قال فی الہندیۃ ولوا شتری دار اولم یقبضہا حتی بیعت داراخری بجنبہا ، فلہ الشفعۃ کذا فی محیط السرخسی ۱؎، فثبت انہ لا شفعۃ لخالد مع بکر اھ معربا۔
اقول:(میں کہتاہوں) یہاں سے ایک مدعی علم کی جہالت معلوم ہوئی، جب اس نے اس سوال کے جواب میں خالد کا شفعہ نہ بننے کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ خالد نے اس مدت میں مشتری سے خریدنے سے اعراض کیا لہذا اس کے بعد خالد کا ثمن کی پیشکش کرنا مفید نہ ہوگا اھ عربی کے ساتھ ، تو غور کرو اس نے کس طرح مسقط کو مثبت اور مسقط سے اعراض کو شفعہ کے لئے مسقط بنایا، اور اس کی یہ بھی جہالت ہے کہ حق شفعہ کے عدم مطالبہ کویہاں علت بنایا حالانکہ اس کا سوال میں کوئی ذکر نہیں ہے تو اے مدعی علم! تجھے کہاں سے معلوم ہوگیا کہ اس نے اس حق کا مطالبہ نہیں کیا، اور ایک جہالت یہ بھی ہے کہ اس نے تیسری علت یہ بنائی کہ بکر کا قطعہ زمین خالد کے قطعہ کا جز ہے تو یوں بکرخود شفیع ہوا کیونکہ اس جیسی صورت میں بغیر قبضہ کے آدمی شفیع ہوجاتاہے جبکہ بکر قابض ہےتو کیوں شفیع نہ ہو، ہندیہ میں ہے اگر مکان خریدا اور ابھی قبضہ نہ کیا تھا کہ پڑوس میں ایک مکان فروخت ہوا تو اس خریدار کو شفعہ کا حق ہے۔ محیط میں یوں ہے۔ تو ثابت کہ خالد کو شفعہ کا حق بکر کے مقابلہ میں نہیں ہے اھ،
عہ: وھو امیرا حمد سہسوانی ۱۲
(۱؎ فتاوٰی ہندیہ کتاب الشفعۃ الباب السابع عشر نورانی کتب خانہ پشاور ۵ /۲۰۰)
اقول: کون قطعۃ بکر جزء من قطعۃ خالد، ان جعلہ شفیعا فلقطعۃ خالد لا لقطعۃ زید، وانما الکلام فی قطعۃ زید، وایضا شفعۃ بکر مبتنیۃ علی کونہ شریکا لقطعۃ زید فی الطریق حق، لو لم یکن ھناک خالد ولاارضہ لکان بکر شفیعا ایضا، فقد اخطاء من وجہین، اھمال المبنی الحقیقی والبناء علی امراجنبی وایضا کیف ینفی ھذا کون خالد شفیعا، لامکان ان یکونا شفیعین، فان فزعت الی الترجیح، فہو امرزائد علی ماذکرت، وقد کان فیہ المغنی، علی انہ لا یتم الکلام الا بضم المقدمۃ القائلۃ ان حق الشفعۃ یثبت للمشتری ایضا، وھی مقدمۃ غامضۃ، فذکر الواضح وترک الدقیق جہل فاضح، اوعدول عن الطریق وبالجملۃ فمفاسد التکبر وادعاء التصدر اکثر من ان تحصر، فانظر الی این صار حال العلم والرجل یدعی شمس العلماء ، ویکتب ذٰلک مع اسمع نفسہ، مع مافیہ من البدع والطغیان، وسلاطۃ اللسان، والطعن، والوقیعۃ فی جمیع علماء الزمان، بل وکثیر ممن قبلہم من اھل السنۃ والعرفان، فاﷲ المستعان و لاحول ولاقوۃ الاباﷲ العزیز الرحمن۔
اقول: (میں کہتاہوں) بکر کے قطعہ کا خالد کے قطعہ کا جز ہونا اگر شفعہ کو بنائے تو خالد کے قطعہ کے لئے بنائے نہ کہ بکر کے قطعہ کے لئے ، حالانکہ بات بکر کے قطعہ کے ہورہی ہے، نیز یہ کہ بکر کو شفعہ کاحق زید کے قطعہ کے راستہ میں شریک ہونے پر مبنی ہے اور وہ برحق ہے خواہ وہاں خالد اور اس کی زمین نہ ہو، بکر پھر بھی شفیع ہے تو اس نے دو طرح کی خطائیں کیں، حقیقی مبنی کومہمل بنانا اور اجنبی چیز کو مبنٰی بنانا، نیز یہ صاحب اپنے (بیان کی روشنی میں) خالد کے شفعہ کی نفی کیسے کرسکتے ہیں جبکہ دونوں کاشفیع ہونا ممکن ہو۔ اگر آپ کو ترجیح کی مجبوری ہے تو یہ آپ کے بیان کردہ سے زائد ہے حالانکہ اسمیں مستغنٰی کرنے والا امر موجود ہے۔ علاوہ ازیں یہ کلام اس مقدمہ کے بغیر تام نہیں کہ مشتری کو بھی شفعہ کا حق ثابت ہوتاہے جس کو یہاں ضم کرنا ضروری تھا اور یہ مقدمہ قابل وضاحت تھا، تو مقدمہ غامضاہ اور دقیق کو ترک کرنا اور واضح کو ذکر کرنا کھلی جہالت ہے۔ یا طریقہ بیان سے انحراف ہے۔ خلاصہ یہ کہ اپنے کوبڑا ظاہر کرنے اور تکبر کرنے میں بیشمار مفاسد ہیں، آپ غور کرلیں کہ کہاں علم کایہ حال جبکہ دعوٰی کررہا ہے شمس العلماء ہونے کا، اورپھر خود اپنے نام کے ساتھ یہ لقب لکھتاہے حالانکہ اس میں بدعت اورتعلی، زبان درازی، طعن اور زمانہ کے تمام علماء کرام بلکہ بہت سے پہلے کے اہل سنت واہل عرفان پربڑائی کا دعوٰی ہے
لاحول ولاقوۃ الا باللہ العزیز الرحمن۔ (ت)
ثالثا اس کاکھنا تمھیں مبارک ہو صریح دلیل رضا وتسلیم ہے۔ اور شفعہ بعد تسلیم باطل۔
تنویر میں ہے۔
یبطلھا تسلیمہا بعد البیع ۱؎ اھ ملخصا۔
(بعد از بیع اسے تسلیم کرنا شفعہ کو باطل کردیتاہے اھ ملخصا۔ت) واللہ تعالٰی اعلم۔
(۱؎ درمختار کتاب الشفعہ باب مایبطلہا مطبع مجتبائی دہلی ۶ /۲۱۵)