وخصوص الغسل بالماء من الامور العادیۃ الشائعۃ بین المؤمنین والکفار فاذا نوی شرط ۱۲ سنۃ التنظیف عـــــــــہ ای التنظیف لانہ سنۃ ادخلہ بنیتہ تحت عام محمود فکان کمتوضیئ توضأ للتعلیم۔
اور پانی کیساتھ دھونے کی خصوصیت ایک عادی امر ہے اس میں مومن وکافر کا بھی فرق نہیں، اب اگر اس نے تنظیف سے سنّت کی نیت کی تو اس نے اس کو اپنی نیت سے ایک محمود عام کے تحت داخل کیا تو یہ اس شخص کی طرح ہوگا جس نے تعلیم کے لئے وضو کیا۔
عـــــــــہ :یرید ان الاضافۃ بیانیۃ لالامیۃ لیصیر الغسل سنۃ فی ھذا التنظیف بل المعنی نوی سنۃ ھو التنظیف ای نوی التنطیف لکونہ سنۃ اھ منہ(م)
اضافت بیانیہ مراد ہے لامیہ نہیں تاکہ اس تنظیف میں دھونا سنّت بن جائے بلکہ معنی یہ ہے کہ سنّت کی نیت کی اور وہ تنظیف ہے یعنی تنظیف کی نیت کی کیونکہ وہ سنّت ہے اھ(ت)
ثم اقول تحقیق(۱) المقام علی ماعلمنی الملک العلام ان(۲) لیس کل ماجُعل قربۃ مغیرا للماء عن الطھوریۃ بل یجب ان یکون الفعل المخصوص الذی یحصل بالماء اولا وبالذات قربۃ مطلوبۃ فی الشرع بخصوصہ ومرجعہ الی ان تکون القربۃ المطلوبۃ عینا لاتقوم الا بالماء اذلو جازان تحصل بدونہ لکان لتحققہا موارد منھا مایحصل بالماء ومنھا غیرہ فما یحصل بالماء اولاوبالذات لایکون مطلوبا بعینہ بل محصلا لمطلوب بعینہ فیتحصل ان یکون نفس انفاق الماء فی ذلک الفعل مطلوبا فی الشرع عینا اذ المطلوب عینا لم یحصل الا بہ کان ایضا مطلوبا عینا کالمضمضۃ والاستنشاق فی الوضوء والتثلیث فیہ وفی الغسل ولو للمیت ولعلک تظن ان ھذہ فائدۃ لم تعرف الا من قبل العلامۃ صاحب البحر وتبعہ علیہ اخوہ فی النھر۔
اللہ تعالٰی کے فضل وکرم سے اس مقام کی جو تحقیق میری سمجھ میں آئی ہے وہ یہ ہے کہ ہر وہ چیز جو قُربۃ ہے وہ پانی کو طہوریۃ سے بدلنے والی نہیں ہے بلکہ ضروری ہے کہ وہ مخصوص فعل جو پانی سے ادا کیا جارہا ہے وہ اوّلا وبالذات شریعت کی نگاہ میں قُربۃ مطلوبہ ہو، اور اُس کا خلاصہ یہ ہے کہ قربۃ مطلوبہ ایک ایسا عین ہو جو پانی کے ساتھ ہی قائم ہو کیونکہ اگر اُس کے بغیر وہ قربۃ حاصل ہوجائے تو اُس کے وجود کے کئی موارد ہوں گے کچھ توپانی سے حاصل ہوں گے اور کچھ بغیر پانی کے حاصل ہوں گے تو جو چیز پانی سے اولاً وبالذات حاصل ہو تو وہ بعینہٖ مطلوب نہ ہوگی بلکہ بعینہ مطلوب کو حاصل کرنے والی ہوگی اس کا حاصل یہ ہوگا کہ محض پانی کا اس فعل میں صرف کرنا شرعاً مطلوب بعینہٖ ہو کیونکہ مطلوب بعینہٖ جب اس پر موقوف ہے تویہ بھی مطلوب بعینہٖ ہوجائے گا جیسے کُلّی، ناک میں پانی ڈالنا وضو میں، اور تثلیث وضو وغُسل میں اگرچہ میت کے غسل میں ہو، اور شاید ہمارے قارئین کو یہ خیال گزرے کہ یہ فائدہ تو صاحب بحر اور ان کے بھائی صاحب نہر کے کلام ہی سے معلوم ہوا ہے،
اقول کلا بل المسألۃ اعنی وضوء المتوضیئ للتعلیم منصوص علیھا فی المبتغی والفتح وغیرھما من کتب المذھب وقد نص فی الدّرانھا متفق علیھا ولا شک انھا صریحۃ فی تلک الافادۃ فان التعلیم قربۃ مطلوبۃ قطعا وقد نواہ بھذا التوضی وھو فی ھذا الخصوص ایضا متبع للسنۃ الماضیۃ ان البیان بالفعل اقوی من البیان بالقول ومع ذلک اجمعوا انہ لایصیر مستعملا فکان اجماعا ان لیس کل قربۃ تغیر الماء بل التی لاتقوم الا بالماء اذلا فارق فی التوضی بنیۃ التعلیم وبنیۃ الوضوء علی الوضوء الا ھذا ثم لابدان تکون التی تتوقف علی الماء قربۃ مطلوبۃ بعینہا والا لعاد الفرق ضائعا اذلا شک ان الوضوء للتعلیم محصل لقربۃ مطلوبۃ شرعا فیکون قربۃوھولایقوم الابالماء لکن الشرع لم یطلبہ عینا انما طلب التعلیم وھو لایتوقف علی انفاق الماء فاستقر عرش التحقیق علی ماافاد البحر وظھر ان الصواب فی فرع القدور والقصاع مع الغنیۃ فلذا عولنا علیہ۔
تو میں کہتا ہوں یہ بات نہیں ہے بلکہ تعلیم کیلئے وضو کرنے کا مسئلہ مبتغی اور فتح وغیرہ کتب مذہب میں منصوص ہے اور دُرّ میں تصریح کی ہے کہ یہ متفق علیہا ہے، اور اس میں شک نہیں کہ وہ اس فائدہ میں صریح ہے، کیونکہ تعلیم قطعی طور پر قُربۃ ہے اور اس وضو سے اُس نے اُسی کی نیت کی ہے اور وہ اس خصوص میں گزشتہ سنت کی پیروی کرنے والا ہے کہ فعل کے ذریعہ بیان قول کے ذریعہ بیان سے اقوٰی ہوتا ہے، باوجود اس کے اُن کا اس امر پر اتفاق ہے کہ پانی مستعمل نہ ہوگا، تو یہ اجماع ہوگیا اس امر پر کہ ہر قربۃ پانی کو متغیر نہیں کرتی ہے بلکہ صرف وہ قربت کرتی ہے جو پانی کے ساتھ ہی قائم ہو کیونکہ بہ نیت تعلیم وضو کرنے اور وضو بر وضو کی نیت میں فرق کرنے والی یہی چیز ہے۔ پھر جس قربت کا پانی پر موقوف ہونا لازم ہے وہ بعینہا مطلوب ہو ورنہ فرق ضائع ہوجائے گا کیونکہ تعلیم کیلئے کیا جانے والا وضو شرعی قربت کو حاصل کرنے والا ہے تو یہ قربت ہوگا، اور وضو صرف پانی سے ہی ہوتا ہے لیکن شریعت میں وہ بعینہٖ مطلوب نہیں ہے وہ تعلیم کیلئے مطلوب ہے اور تعلیم پانی خرچ کرنے پر موقوف نہیں ہے تو تحقیق وہی درست ہے جو بحر میں ہے اور یہ بھی ظاہر ہوا کہ ہانڈیاں اور پیالوں کے مسائل متفرقہ میں حق وہ ہے جو غنیہ میں ہے لہٰذا ہم نے اسی پر اعتماد کیا۔ ت
اقول ومما(۱) یؤیدہ اطلاقھم قاطبۃ مسألۃ التوضی والاغتسال للتبرد مع(۲) ان التبرد ربما یکون لجمع الخاطر للعبادۃ والتقوی علی مطالعۃ کتب العلم وھو لاشک اذن من القرب فکل مباح فعلہ العبد المؤمن بنیۃ خیر خیر غیرانہ لم یطلب عینا فی الشرع وان ساغ ان یصیرو سیلۃ الی مطلوب واعظم منہ(۱) مسألۃ الاغتسال لازالۃ الدرن(۲) فھو مطلوب عینا فی الشرع فانما بنی الدین علی النظافۃ وقد کانت ھذہ حکمۃ الامر بالاغتسال یوم الجمعۃ کما افصحت بہ الاحادیث بیدان ازالۃ الوسخ لایتوقف علی الماء فلم یکن مما طلب فیہ الشرع انفاق الماء عینا بخلاف غسل(۳) الجمعۃ والعیدین وعرفۃ والاحرام فان من اغتسل فیھا بماء ثمراو نبیذ تمر مثلا لم یکن اٰتیا بالسنۃ قطعا اوان ازال بہ الوسخ وبالدرن(۴) وذلک ان الحکم یکون لحکمۃ ولکن العباد مامورون باتباع الحکم دون الحکمۃ کما قدعرف فی موضعہ وھنا لک تم الرد علی مسألۃ القصعۃ والقدر،
پھر اس کی تائید تمام فقہاء کے اس اطلاق سے ملتی ہے کہ وہ فر ماتے ہیں کہ وضو اور غسل ٹھنڈک حاصل کرنے کیلئے کرنا، حالانکہ ٹھنڈک حاصل کرنا کبھی اس غرض سے بھی ہوتا ہے کہ انسان عبادت میں پرسکون رہے یا مطالعہ اطمینان سے کرسکے اور بلا شبہ اس صورت میں یہ عبادت ہوگا کیونکہ ہر مباح جو انسان خیر کی نیت سے کرے خیر ہے، البتہ وہ بعینہٖ مطلوب شرع نہیں، اگرچہ مطلوب کا وسیلہ بن سکتا ہے اس سے بڑی بات غسل کا مسئلہ ہے میل دور کرنے کیلئے یہ بعینہٖ مطلوب شرع ہے دین کی بنیاد ہی نظافت پر ہے اور جمعہ کے دن غسل کے حکم کی حکمت یہی ہے، جیسا کہ احادیث میں مذکور ہے کہ البتہ میل کا زائل کرنا پانی پر ہی موقوف نہیں، لہٰذا پانی کا خرچ کرنا بعینہ مطلوب شرع نہ ہوا، اور جمعہ، عیدین، وقوف بعرفہ، اورا حرام کا غسل شرعاً مطلوب ہے، ان غسلوں کو اگر کسی نے پھلوں کے عرق یا شیرہ کھجورسے کیا تو قطعی طور پر سنّت کی اتباع نہ ہوگی، خواہ اس سے میل کچیل زائل ہوجائے، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ حکم کسی نہ کسی حکمت پر مبنی ہوتا ہے، لیکن بندوں پر حکم کی پابندی ہے نہ کہ حکمۃ کی۔ یہ بات اپنے مقام پر مذکور ہے یہاں تک پیالہ اور ہانڈی کے مسئلہ پر ردمکمل ہوا،
وتبین وللّٰہ الحمد ان المراد بالقربۃ ھھنا ھی المتعلقۃ بظاھر بدن الانسان مما ادار الشرع فیہ اقامۃ نفس القربۃ المطلوبۃ ولو ندبا علی امساس الماء عینا ولو مسحا بشرۃ بشر ولو میتا فزال الابہام واتضح المرام وظھرت فی الفروع کلھا الاحکام والحمدللّٰہ ولی الانعام،
اور الحمدللہ یہ بات واضح ہوگئی کہ قربت سے مراد اس مقام پر وہ قربۃ ہے جس کا تعلق ظاہر بدن سے ہو جس میں شریعت نے قربت مطلوب، خواہ ندبا ہی ہو، کا دارومدار اس پر کیا ہے کہ انسان، خواہ مردہ ہی ہو، کی جلد پر بعینہٖ پانی لگے، خواہ بطور مسح ہی ہو، اس سے ہمارا مقصود واضح ہوا اور مسئلہ کے فروع واحکام ظاہر ہوئے الحمدللہ ولی الانعام۔
والاٰن عسی ان تقوم تقول اٰل الامر الی ان الماء انما یصیر مستعملا اذا انفق فیما کان انفاقہ فیہ مطلوبا فی الشرع عینا فما الفارق فیہ وفیما اذا انفق فی قربۃ مطلوبۃ شرعا من دون توقف علی الماء خصوصا کیف لعموم قولہ تعالی
ان الحسنات یذھبن السیاٰت ذلک ذکری للذاکرین ۱؎o
اب اس مقام پر ممکن ہے کہ یہ کہا جائے کہ مستعمل پانی وہ ہوتا ہے جو کسی ایسے عمل میں خرچ ہوا ہو کہ جس میں اس کا خرچ کیا جانا بعینہ مطلوب شرع ہو تو اِس صورت میں اور جب پانی ایسی قربۃ میں خرچ کیا گیا ہو جو شرعاً مطلوب تو ہو مگر پانی پر موقوف نہ ہو کیا فرق ہوگا؟ جبکہ پانی میں تغیر پیدا کرنے والی چیز اس کی طرف نجاست حکمیہ کا آنا ہے اور گناہوں کی نجاست بھی نجاست حکمیہ ہی ہے، جو کُلَّا یا بعضاً ہر قربت سے دُھل جاتی ہے جیسا کہ فرمانِ الٰہی ''
ان الحسنٰت یذھبن السیئٰت
(نیکیاں برائیوں کو ختم کردیتی ہیں یہ ذاکرین کیلئے نصیحت ہے( کہ عموم کا تقاضا ہے۔(ت)
میں کہتا ہوں ہاں یہ درست ہے گناہ ہر عبادت سے اللہ کی رحمت سے زائل ہوجاتے ہیں ....... مگر گناہوں کا کسی قربت کی وجہ سے زائل ہونا اس امر کا متقاضی نہیں کہ وہ آلہ تطہیر کی طرف منتقل ہوجائیں، یہ بات صرف اُسی آلہ میں ہے جس کو شریعت نے متعین کیا ہو جیسے زکوٰۃ میں مال اور طہارت میں پانی، کیونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ زکوٰۃ لوگوں کا میل کچیل ہے، اس کو احمد ومسلم نے عبدالمطلب بن ربیعہ سے روایت کیا۔
(۲؎ صحیح للمسلم تحریم الزکوٰۃ علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/۳۴۵)
وقولہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم من توضأ فاحسن الوضوء خرجت خطایاہ من جسدہ حتی تخرج من تحت اظفارہ ۳؎ رواہ الشیخان عن امیر المومنین عثمان رضی اللّٰہ تعالی عنہ،
اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے اچھی طرح وضو کیا تو گناہ اُس کے جسم سے نکلیں گے یہاں تک کہ اُس کے ناخنوں کے نیچے سے نکلیں گے، اس کو شیخین نے امیر المؤمنین عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت کیا،
(۳؎ صحیح للمسلم خروج الخطایا مع ماء الوضوء قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/۱۲۵)
وقولہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم اذا توضأ العبد المسلم اوالمؤمن فغسل وجہہ خرج من وجہ کل خطیئۃ نظر الیہا بعینیہ مع الماء اومع اٰخر قطر الماء فاذا غسل یدیہ خرج من یدیہ کل خطیئۃ کان بطشتھا یداہ مع الماء اومع اٰخر قطرالماء فاذا غسل رجلیہ خرج کل خطیئۃ مشتھارجلاہ مع الماء اومع اٰخر قطرالماء حتی یخرج نقیامن الذنوب ۱؎ رواہ مسلم عن ابی ھریرۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ،
اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب مسلم یا مومن بندہ وضو میں اپنا چہرہ دھوتا تو اُس کے چہرہ سے ہر گناہ نکل جاتا ہے جس کی طرف اس نے اپنی دونوں آنکھوں سے دیکھا ہو پانی کے ساتھ یا آخری قطرہ کے ساتھ، جب وہ اپنے دونوں ہاتھ دھوتا ہے تو جو گناہ اس نے اپنے ہاتھوں سے کئے وہ پانی کے ساتھ یا پانی کے آخری قطرہ کے ساتھ نکل جاتے ہیں اور جب وہ اپنے پیر دھوتا ہے تو اُس کے پیروں کے گناہ پانی کے ساتھ یا پانی کے آخری قطرہ کے ساتھ نکل جاتے ہیں یہاں تک کہ وہ گناہوں سے پاک وصاف ہوجاتا ہے۔ اس کو مسلم نے ابو ھریرہ سے روایت کیا۔
(۱؎ صحیح للمسلم خروج الخطاء مع ماء الوضوء قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/۱۲۵)
والاحادیث کثیر شھیر فی ھذا المعنی واصحاب(۱) المشاھدۃ الحقۃ اعاد اللّٰہ علینا من برکاتھم فی الدنیا والاٰخرۃ یشاھدون ماء الوضوء یخرج من اعضاء الناس متلوثا بالاٰثام متلونا بالوانھا البشعۃ وعن ھذا حکم امام اھل الشھود ابو حنیفۃ رضی اللّٰہ تعالی عنہ ان الماء المستعمل نجاسۃ مغلظۃ لانہ کان یراہ متلطخا بتلک القاذورات فما کان یسعہ الا الحکم بھذاوکیف یردالانسان امرا یراہ بالعیان قالا الامام العارف باللّٰہ سیدی عبدالوھاب الشعرانی قدس سرہ الربانی وکان من کبار العلماء الشافعیۃ فی میزان الشریعۃ الکبری سمعت سیدی علیا الخواص رضی اللّٰہ تعالی عنہ(وکان ایضا شافعیا کما سیأتی)یقول(۲) مدارک الامام ابی حنیفۃ رضی اللّٰہ تعالی عنہ دقیقۃ لایکاد یطلع علیھا الا اھل الکشف من اکابر الاولیاء قال وکان الامام ابو حنیفۃ اذ رأی ماء المیضأۃ یعرف سائر الذنوب التی خرت فیہ من کبائر وصغائر ومکروہات فلہذا جعل ماء الطہارۃ اذا تطھر بہ المکلف لہ ثلثۃ احوال احدھا انہ کالنجاسۃ المغلظۃ لاحتمال ان یکون المکلف ارتکب کبیرۃ الثانی کالنجاسۃ المتوسطۃ لاحتمال ان یکون ارتکب صغیرۃ الثالث طاھر غیر مطھر لاحتمال ان یکون ارتکب مکروھا ۱؎
اور اس مفہوم کی احادیث بکثرت مشہور ومعروف ہیں، اور اصحاب مشاہدہ اپنی آنکھوں سے وضو کے پانی سے لوگوں کے گناہوں کو دھلتا ہوا دیکھتے ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ اہل شہود کے امام ابو حنیفہ نے فرمایا کہ مستعمل پانی نجاست مغلظہ ہے کیونکہ وہ اس پانی کو گندگیوں میں ملوّث دیکھتے تھے، تو ظاہر ہے کہ وہ دیکھتے ہوئے، اس کے علاوہ اور کیا حکم لگا سکتے تھے۔امام شعرانی نے میزان الشریعۃ الکبری میں فرمایا کہ میں نے سیدی علی الخواص(جو بڑے شافعی عالم تھے( کو فرماتے سُنا ہے کہ امام ابو حنیفہ کے مشاہدات اتنے دقیق ہیں جن پر بڑے بڑے صاحبانِ کشف اولیاءاللہ ہی مطلع ہوسکتے ہیں، فرماتے ہیں امام ابو حنیفہ جب وضو میں استعمال شدہ پانی دیکھتے تو اس میں جتنے صغائر وکبائر مکروہات ہوتے ان کو پہچان لیتے تھے، اس لئے جس پانی کو مکلّف نے استعمال کیا ہو اس کے تین درجات آپ نے مقرر فرمائے:
اوّل: وہ نجاست مغلظہ ہے کیونکہ اس امر کا احتمال ہے کہ مکلّف نے گناہِ کبیرہ کا ارتکاب کیا ہو۔
دوم: نجاست متوسطہ اس لئے کہ احتمال ہے کہ مکلف نے صغیرہ کا ارتکاب کیا ہو۔
سوم: طاہر غیر مطَہِّر، کیونکہ احتمال ہے کہ اس نے مکروہ کا ارتکاب کیا ہو،
(۱؎ المیزان الکبرٰی کتاب الطہارۃ مصطفی البابی مصر ۱/۱۰۹)
وفھم جماعۃ من مقلدیہ ان ھذہ الثلثۃ اقوال فی حال واحد والحال انھا فی احوال بحسب حصر الذنوب فی ثلٰثۃ اقسام کما ذکرنا اھ وفیہ ایضا رضی اللّٰہ عن الامام ابی حنیفۃ ورحم اصحابہ حیث قسموا النجاسۃ الی مغلظۃ ومخففۃ لان المعاصی لاتخرج عن کونھا کبائر اوصغائر ۲؎
ان کے بعض مقلدین سمجھ بیٹھے کہ یہ ابو حنیفہ کے تین اقوال ہیں ایک ہی حالت میں، حالانکہ امر واقعہ یہ ہے کہ یہ تین اقوال گناہوں کی اقسام کے اعتبار سے ہیں جیسا کہ ہم نے ذکر کیا اھ اور اسی کتاب میں ہے کہ امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب نے نجاست کو مغلظہ اور مخففہ میں تقسیم کیا ہے، کیونکہ معاصی، کبائر ہوں گے یا صغائر۔
(۲؎ المیزان الکبری کتاب الطہارۃ مصطفی البابی مصر ۱/۱۰۸)