Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲(کتاب الطہارۃ)
7 - 176
فانہ یصیر مستعملا اذا انفصل عن عضو وان لم یستقر فی شیئ علی المذھب وقیل اذا استقر ۱۰؎ (فی مکان من ارض اوکف اوثوب ویسکن عن التحرک وھذا قول طائفۃ من مشائخ بلخ واختارہ فخر الاسلام وغیرہ،
کیونکہ پانی مستعمل اُس وقت ہوگا جبکہ عضو سے جُدا ہو، اگرچہ کسی چیز پر نہ ٹھہرے، مذہب یہی ہے۔ اور ایک قول یہ ہے کہ جبکہ کسی جگہ پر ٹھہرے، (زمین پر یا ہاتھ پر یا کپڑے پر، اور حرکت کے بعد اس میں سکون پیدا ہوچکا ہو، یہ بلخ کے مشائخ میں سے بعض کا قول ہے اس کو فخرالاسلام وغیرہ نے پسند کیا ہے،
 (۱۰؎ درمختار     باب المیاہ    مصطفی البابی مصر    ۱/۱۴۶)
وفی الخلاصۃ وغیرھا انہ المختار الا ان العامۃ علی الاول وھو الاصح واثر الخلاف یظھر فیما لو انفصل فسقط علی انسان فاجراہ علیہ صح علی الثانی لاالاول نھر وقدمران اعضاء الغسل کعضو واحد فلو انفصل منہ فسقط علی عضو اٰخر من اعضاء الغسل فاجراہ علیہ صح علی القولین ۱؎ اھ ملتقطا
اور خلاصہ وغیرہ میں ہے کہ یہی مختار ہے، مگر عام علماء پہلے قول پر ہی ہیں اور وہی اصح ہے، اس اختلاف کا اثر اُس صورت میں ہوگا جبکہ پانی جدا ہوکر کسی انسان پر گرے اور وہ اس کو اپنے اوپر جاری کرے تو دوسرے قول پر صحیح ہے نہ کہ پہلے پر، نہر۔ اور یہ گزر چکا ہے کہ اعضاء غسل ایک عضو کی طرح ہیں، تو اگر اُس سے پانی جُدا ہو کر اعضاءِ غسل پر گرا اور اُس نے وہ اُن پر جاری کرلیا تو دونوں اقوال کے مطابق صحیح ہوگا اھ ملتقطا،
 (۱؎ ردالمحتار        باب المیاہ        مصطفی البابی مصر    ۱/۱۴۷)
وفی الھندیۃ عن التاتارخانیۃ لوتوضاء بالخل اوماء الورد لایصیر مستعملا عندالکل ۲؎ اھ
اور ہندیہ میں تاتارخانیہ سے نقل کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر سرکہ سے یا گلاب کے عرق سے وضو کیا تو سب کے نزدیک مستعمل نہ ہوگا اھ۔ ت
 (۲؎ ہندیۃ        فیما لایجوزبہ الوضو    نورانی کتب خانہ پشاور    ۱/۲۳)
تنبیہ قال فی المنیۃ(۱) بعدما عرف المستعمل بماء ازیل بہ حدث اواستعمل فی البدن علی وجہ القربۃ مانصہ امرأۃ غسلت القدر اوالقصاع لایصیر الماء مستعملا ۳؎ اھ۔
تنبیہ مُنیہ میں ماءِ مستعمل کی تعریف میں کہا کہ ''وہ پانی جس سے کوئی حَدَث زائل کیا گیا ہو یا بدن پر قُربۃ کے طور پر استعمال کیا گیا ہو، پھر فرمایا کہ اگر کسی عورت نے ہانڈی یا بڑا پیالہ دھویا تو پانی مستعمل نہ ہوگا اھ۔ ت
 (۳؎ منیۃ المصلی    فی النجاسۃ         مکتبہ قادریہ لاہور    ص۱۰۸)
اقول وھو کما تری مطلق یشمل مااذانوت بہ اقامۃ سنۃ لاجرم ان قال فی الغنیۃ قولہ فی البدن احتراز عما اذا استعمل فی غیرہ من ثوب ونحوہ بنیۃ القربۃ فانہ لایصیر مستعملا ویتفرع علی ماذکرنا امرأۃ غسلت القدر اوالقصاع ۱؎ الخ
میں کہتا ہوں یہ مطلق ہے اس میں یہ صورت بھی شامل ہے جبکہ اُس عورت نے اس دھونے سے سنّت کی ادائیگی کا ارادہ کیا ہو، غنیہ میں کہا کہ اُن کا قول ''فی البدن'' اس صورت سے احتراز ہے جب کپڑے وغیرہ میں استعمال کیا ہو بہ نیت ''قُربۃ'' تو وہ مستعمل نہ ہوگا، اور جو ہم نے ذکر کیا اُس پر یہ تفریع ہوگی کہ کسی عورت نے ہانڈی یا پیالے دھوئے الخ
 (۱؎ غنیۃ المستملی        فی النجاسۃ    سہیل اکیڈمی لاہور    ص۱۵۳)
لکن قال فی الحلیۃ اما القدر والقصاع ونحوھمامن الاعیان الطاھرات کالبقول والثمار والثیاب والاحجارفلان الجمادات لایلحقھا حکم العبادۃ امالو نوت بذلک قربۃ بان غسلتھما من الطعام بقصد اقامۃ السنۃ کان ذلک الماء مستعملا ۲؎ اھ
مگر حلیہ میں فرمایا ''بہرحال ہانڈی پیالے وغیرہ یعنی پاک اشیا جیسے سبزیاں، پھل، کپڑے، پتھّر، تو اس لئے کہ جمادات پر عبادات کا حکم جاری نہیں ہوتا ہے، اگر ان کے ساتھ قربت کا ارادہ کیا یعنی کھانا لگ جانے کے بعد ان کو بطور سنّت دھویا تو یہ پانی مستعمل ہوجائے گا اھ(ت)
 (۲؎ حلیہ)
اقول اولا فیہ بعد(۱) ولم یعزہ لاحد وقد قید فی مختصر القدوری والھدایۃ والمنیۃ وغیرھا الاستعمال لقربۃ بکونہ فی البدن واقر علیہ ھذا المحقق ومفاھیم الکتب حجۃ ولذا جعلہ فی الغنیۃ احترازاً ومثلہ فی الجوھرۃ النیرۃ حیث قال قولہ فی البدن قید بہ لانہ ماکان من غسالۃ الجمادات کالقدور والقصاع والحجارۃ لایکون مستعملا ۳؎ الخ
میں کہتا ہوں اوّلاً اس میں بُعد ہے اس کو انہوں نے کسی کی طرف منسوب نہیں کیا ہے ہدایہ، مختصر قدوری اور منیہ وغیرہ میں قُربت کے استعمال کو بدن میں ہونے کے ساتھ مقید کیا ہے، اور اس محقق نے اسے برقرار رکھا ہے اور کتابوں کے مفاہیم ہمارے لئے حجت ہیں، اور اس لئے غنیہ میں اس کو قید احترازی قرار دیا ہے، اسی کی مثل جوہرہ نیرہ میں ہے وہ فرماتے ہیں ان کا قول ''فی البدن'' کیونکہ جمادات کا دھوون جیسے ہانڈیاں، پیالے، پتھر کا دھوون، مستعمل نہ ہوگا الخ
 (۳؎ الجوہرۃ النیرۃ    الطہارت    امدادیہ ملتان        ۱/۱۶)
وثانیا تراھم(۲) عن اخرھم یرسلون مسائل الاستعمال فی غیر بدن الانسان ارسالا تاما غیرجانحین الی تقییدھا بعدم نیۃ القربۃ کمسألۃ غسل(۱) الدابۃ المذکورۃ فی المبتغی والفتح والبحر والدر والتتارخانیۃ وغیرھا ومسألۃ القدور والقصاع ھذہ وغیرھا فاطباقھم علی اطلاقھا یؤذن باتفاقہم علی تقییدھا ببدن الانسان فان کل ذلک یحتمل نیۃ القربۃ کغسل ثوب ابویہ من الوسخ والثمار من الغبار لاکلھما واحجار فرش المسجد للتنظیف الی غیر ذلک فما من مباح الا ویمکن جعلہ قربۃ بنیۃ محمودۃ کما لایخفی علی عالم علم النیات وثالثا ھذا(۲) التقیید ھو القضیۃ للدلیل(۳) الذی جعل بہ اقامۃ القربۃ مغیر ا للماء عن وصف الطہوریۃ اعنی حملہ الاٰثام من البدن المستعمل فیہ فی الھدایۃ قال محمد رحمہ اللّٰہ تعالی لایصیر مستعملا الاباقامۃ القربۃ لان الاستعمال بانتقال نجاسۃ الاٰثام الیہ وانھا تزول بالقرب وابو یوسف رحمہ اللّٰہ تعالی یقول اسقاط الفرض مؤثر ایضا فیثبت الفساد بالامرین ۱؎ اھ
ثانیا فقہاء سب کے سب غیر انسان کے بدن میں استعمال کے مسائل کو مطلق رکھتے ہیں عدمِ نیتِ قربت کی قید نہیں لگا تے ہیں، جیسے گھوڑے کو غسل دینے کا مسئلہ جس کا ذکر مبتغی، فتح، بحر، دُرّ اور تتارخانیہ وغیرہ میں ہے اور کپڑے اور پتھروں کا مسئلہ _______ پھلوں کا مسئلہ، ہانڈیوں اور پیالوں کا مسئلہ وغیرہا تو اُن تمام فقہا کا ان کو مطلق رکھنے پر اتفاق کرلینا اس امر کی علامت ہے کہ وہ سب کے سب اس کو بدنِ انسانی کے ساتھ مقید کرنے پر متفق ہیں کیونکہ ان میں سے ہر ایک نیتِ قربت کا احتمال رکھتا ہے، جیسے اپنے والدین کے میلے کپڑوں کا دھونا، اور والدین کے کھلانے کیلئے پھلوں کا دھونا، اور مسجد کے فرش کا صفائی کیلئے دھونا وغیرہ تو ہر مباح کا نیت محمودہ سے قربت کرلینا ممکن ہے، اور نیتوں کا جاننے والا اِسے خوب جانتا ہے۔ثالثا یہ قید لگانا ہی دلیل کا تقاضا ہے جس کی وجہ سے قربت کی ادائیگی کو پانی کے وصف کو طہوریۃ سے متغیر کردینے والا قرار دیا تھا، یعنی اُس کا بدن سے گناہوں کا دُور کردینا۔ہدایہ میں ہے کہ امام محمد نے فرمایا پانی قربت کی ادائیگی سے ہی مستعمل ہوتا ہے کیونکہ استعمال کی وجہ گناہوں کا اُس کی طرف منتقل ہونا ہے، اور یہ چیز قُربت کی ادائیگی سے ہی ہوتی ہے، اور امام ابو یوسف فرماتے ہیں کہ اسقاطِ فرض بھی اس میں مؤثّر ہے تو دونوں صورتوں میں فساد ثابت ہوجائے گا اھ
 (۱؎ الہدایۃ    باب الماء الذی یجوزبہ الوضوء       المکتبۃ العربیۃ کراچی    ۱/۲۲)
وفی العنایۃ التغیر عندھما(ای تغیر الماء وتدنسہ عندالشیخین رضی اللّٰہ تعالی عنھما) انما یکون بزوال نجاسۃ حکمیۃ عن المحل وانتقالہا الی الماء وقد انتقلت الی الماء فی الحالین(ای حال اقامۃ القربۃ وحال اسقاط الواجب( کما تقدم من اعتبارھا بالنجاسۃ الحقیقیۃ فیثبت فساد الماء بالامرین جمیعا ۱؎ اھ موضحا،
اور عنایہ میں ہے کہ تغییر اُن دونوں کے نزدیک(یعنی پانی کا بدلنا اور اُس کا میلا ہونا شیخین رضی اللہ عنہما کے نزدیک( نجاست حُکمیہ کا محل سے زائل ہو کر پانی کی طرف منتقل ہونے کے باعث ہوگا، اور یہ نجاست دونوں صورتوں میں ہی پانی کی طرف منتقل ہوئی ہے)قربۃ کی ادائیگی اور اسقاط فرض دونوں صورتوں میں) جیسا کہ گزرا کہ اس کو نجاست حقیقیہ پر قیاس کیا گیا ہے، تو پانی کا فساد دونوں صورتوں میں ثابت ہوجائے گا اھ
 (۱؎ العنایۃ علی حاشیۃ فتح القدیر    باب الماء الذی یجوزبہ الوضوء        نوریہ رضویہ سکھر    ۱/۷۸)
ومثلہ فی البحر عن المحیط حیث قال تغیر الماء عند محمد باعتبار اقامۃ القربۃ بہ وعندھما باعتبار انہ تحول الیہ نجاسۃ حکمیۃ وفی الحالین تحول الی الماء نجاسۃ حکمیۃ فاوجب تغیرہ ۲؎ اھ
اسی قسم کی بات بحر میں محیط سے منقول ہے، وہ فرماتے ہیں پانی کا تغیر امام محمد کے نزدیک اس پر مبنی ہے کہ قُربت اُس سے ادا کی گئی ہے، اور شیخین کے نزدیک اس لئے ہے کہ پانی کی طرف نجاست حکمیہ منتقل ہوئی ہے اور دونوں حالتوں ہی میں پانی کی طرف نجاست حکمیہ منتقل ہوئی ہے اس لئے پانی متغیر ہوجائے گا اھ
 (۲؎ بحرالرائق        بحث الماء المستعمل    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۹۱)
وفی التبیین سببہ اقامۃ القربۃ اوازالۃ الحدث بہ عند ابی حنیفۃ وابی یوسف وعند محمد رضی اللّٰہ تعالی عنھم اقامۃ القربۃ لاغیر والاول اصح لان الاستعمال بانتقال نجاسۃ الحدث اونجاسۃ الاٰثام الیہ ۳؎ اھ
اور تبیین میں ہے اس کا سبب قُربۃ کا قائم کرنا ہے اور اُس سے حَدَث کا زائل کرنا ہے یہ شیخین کے نزدیک ہے، اور امام محمد کے نزدیک صرف قُربت کا ادا کرنا ہے، اور اول اصحّ ہے کیونکہ استعمال کا باعث یہ ہے کہ حَدَث کی نجاست اُس کی طرف منتقل ہوئی ہے یا گناہوں کی نجاست اس کی طرف منتقل ہوئی ہے اھ
 (۳؎ تبیین الحقائق    الماء المستعمل        بولاق مصر        ۱/۲۴)
وقال فی الکافی سؤر الکلب نجس لقولہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم یغسل الاناء من ولوغ الکلب ثلثا لایقال جاز ان یؤمر بالغسل تعبداکما امر المحدث بالوضوء لان الغسل تعبدالم یشرع الا فی طھارۃ الصلاۃ فانہ یقع للّٰہ تعالی عبادۃ والجمادات لایلحقہا حکم العبادات لانھا باعتبار نجاسۃ الاٰثام والجمادات لیست باھل لھا لایقال(۱) الحجر الذی استعمل فی رمی الجمار یغسل ویرمی ثانیا لاقامۃ القربۃ بہ لان الحجر الۃ الرمی وقد تتغیر الالۃ بنقل نجاسۃ الاٰثام الیھا کمال الزکٰوۃ والماء المستعمل ۱؎ اھ باختصار۔
اور کافی میں ہے کہ کُتّے کا جھُوٹا نجس ہے کیونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جس برتن کو کُتّا چاٹ لے اس کو تین مرتبہ دھویا جائے۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ یہ بھی تو جائز ہے کہ غسل کا حکم تعبُّداً دیا جائے جیسے بے وضو کو وضو کا حکم دیا گیا، تو اس کا جواب یہ ہے کہ غسل تعبُّداً صرف نماز کی طہارت کیلئے مشروع ہوا ہے کیونکہ وہ اللہ کی عبادت ہے، اور جمادات کو عبادات کا حکم نہیں ہے، کیونکہ وہ گناہوں کی نجاست کی وجہ سے ہے، اور جمادات گناہوں کے اہل نہیں ہیں۔ اگر یہ اعتراض کیا جائےکہ وہ پتھر جو رمی جمرات میں استعمال ہوا ہو اس کو دھو کردوبارہ اُسی سے قربت کی ادائیگی کیلئے رمی کی جائے تو کیا حکم ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ پتھر آلہ رمی ہے اور آلہ اس کی طرف گناہوں کے منتقل ہونے کی وجہ سے متغیر ہوجاتا ہے جیسے زکوٰۃ کا مال اور مستعمل پانی اھ باختصار۔
 (۱؎ کافی)
اقول وبما حثنا ھذہ ظھر وللّٰہ الحمد ان مطلق الوقایۃ والنقایۃ والکنز والغرر والاصلاح والملتقی والتنویر محمول علی مقید الکتاب والھدایۃ والمنیۃ ومما یؤیدہ اطباقھم علی اشتراط الانفصال عن العضو للحکم بالاستعمال وانما وقع(۱) المقال فی اشتراط القرار بعد الانفصال فشرطہ بعض المشائخ وبہ جزم فی الکنز مخالفا لکا فیہ واختارہ الامام فخرالاسلام وغیرہ فی شروح الجامع الصغیر وھو مذھب الامام ابی حفص الکبیر والامام ظھیر الدین المرغینانی وقال فی الخلاصۃ ھو المختار ورجحہ الاتقانی فی غایۃ البیان زاعماان فی عدم اشتراطہ حرجا کما بینہ مع جوابہ فی البحر والمذھب عندنا ھو حکم الاستعمال بمجرد الانفصال وصححہ فی الھدایۃ وکثیر من الکتب واعتمدہ فی الکافی وضعف خلافہ وعلیہ المحققون کما فی الفتح والعامۃ کما فی البحر بل فی المحیط ان القائل باشتراط الاستقرار الامام سفیٰن الثوری رحمہ اللّٰہ تعالٰی دون اھل المذھب وقد تکفل فی الفتح والبحر برد ماتعلقوا بہ واشار الیہ فی الدر وبالجملۃ المذکور فی کلام الفریقین ھو الانفصال عن العضو المؤذن بان المراداستعمالہ فی البدن لاغیر  واللّٰہ تعالٰی اعلم،
الحمدللہ ہماری ان بحثوں سے معلوم ہوا کہ وقایہ، نقایہ ، کنز، غُرر، اصلاح، ملتقی اور تنویر کا اطلاق کتاب(قدوری) ہدایہ اور منیہ کے مقید پر محمول ہے، اور اس کی تائید اس امر سے بھی ہوتی ہے کہ ان کا اتفاق ہے کہ پانی کا عضو سے جُدا ہونا اس کے مستعمل ہونے کیلئے شرط ہے۔ اختلاف صرف اس امر میں ہے کہ انفصال کے بعد قرار کی شرط ہے یا نہیں؟ تو بعض مشائخ نے اس کی شرط رکھی ہے اور اسی پر کنز میں جزم کیا ہے جو اسکی اپنی کافی کے خلاف ہے، اور اس کو امام فخرالاسلام نے جامع صغیر کی شروح میں مختار قرار دیا ہے، اور یہی ابو حفص کبیر اور امام ظہیر الدین مرغینانی کا مذہب ہے، اور خلاصہ میں اسی کو مختار قرار دیا ہے، اور غایۃ البیان میں علامہ اتقانی نے اس کو راجح قراردیا ہے اور فرمایا ہے کہ ا س کو شرط نہ کرنے میں حرج ہے جیسا کہ انہوں نے اس کو بیان کیا اور اس کا جواب بھی بحر میں دیا، اور ہمارے نزدیک پانی عضو سے جدا ہوتے ہی مستعمل ہوجاتا ہے، اسی کو ہدایہ میں صحیح کہا ہے، اور کافی میں اس پر اعتماد کیا ہے اور اس کے خلاف کو ضعیف قرار دیا ہے، اور اسی پر محققین ہیں جیسا کہ فتح میں اور عام کتب میں ہے کما فی البحر، بلکہ محیط میں ہے کہ استقرار کی شرط کے قائل امام سفیان ثوری ہیں، اہل مذہب نہیں ہیں اور فتح اور بحر میں اِن کے دلائل کا رد کیا ہے اور دُر میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے، خلاصہ یہ ہے کہ فریقین کے کلام میں مذکور عضو سے منفصل ہونا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ مراد اس کا بدن ہی میں استعمال ہے فقط نہ کہ اسکے غیر میں واللہ تعالٰی اعلم
Flag Counter