Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲(کتاب الطہارۃ)
6 - 176
اوید لاکل اومنہ بنیۃ السنۃ ۷؎ قید بہ فی البحر اخذا من قول المحیط لانہ اقام بہ قربۃ لانہ سنۃ اھ
یا ہاتھ دھونا کھانے کیلئے یا اس سے بہ نیت سنت (بحر میں یہ قید محیط کے قول سے لے کر لگائی ہے کیونکہ اُس نے اس سے عبادت ادا کی ہے اس لئے کہ وہ سنت ہے اھ
 (۷؎ درمختار        باب المیاہ    مجتبائی دہلی        ۱/۳۷)
فی النھر وعلیہ ینبغی اشتراطہ فی کل سنۃ کغسل فم وانف اھ قال الرملی ولا تردد فیہ حتی لولم یکن جنبا وقصد بغسل الفم والانف مجرد التنظیف لااقامۃ القربۃ لایصیر مستعملا ۱؎)
اور نہر میں ہے کہ اس بنا پر یہ شرط لگانی چاہئے ہر سنّت میں جیسے منہ کا دھونا یا ناک میں پانی ڈالنا، اھ رملی نے کہا کہ اس میں کوئی تردد نہیں حتی کہ اگر وہ جُنب نہ ہو اور منہ اور ناک کے دھونے سے محض صفائی کا ارادہ کرے نہ کہ قربت کی ادائیگی کا تو پانی مستعمل نہ ہوگا،
 (۱؎ ردالمحتار        باب المیاہ    مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ۱/۱۴۶)
اولرفع حدث کوضوء محدث ولو للتبرد فلو توضأ متوضئ لتبردا وتعلیم اولطین بیدہ لم یصر مستعملا اتفاقا ۲؎
یاحدث کو رفع کرنے کیلئے جیسے بے وضو کا وضو کرنا خواہ ٹھنڈک کے حصول کیلئے ہو، تو اگر کسی باوضو شخص نے ٹھنڈک حاصل کرنے کیلئے، سکھانے کیلئے، یا ہاتھوں کی مٹی چھڑانے کیلئے وضو کیا تو یہ پانی مستعمل نہ ہوگا،
 (۲؎ الدرالمختار        باب المیاہ    مطبوعہ مجتبائی دہلی    ۱/۳۷)
 (اورد ان تعلیم الوضوء قربۃ واجاب البحر وتبعہ النھر وغیرہ ان التوضی نفسہ لیس قربۃ بل التعلیم وھو خارج عنہ ولذا یحصل بالقول ۳؎)کزیادۃ علی الثلث بلانیۃ قربۃ ۴؎ قد قدمنا التحقیق فی کل ذلک فی بارق النور فتذکرہ اھ منہ قدس سرہ۔
بالاتفاق(اس پر یہ اعتراض وارد کیا گیا ہے کہ وضو کرنے کی تعلیم دینا بجائے خود عبادت ہے؟ بحر نے اس کا جواب دیا جس کو نہر وغیرہ نے بھی پسند کیا کہ وضو خود قربت نہیں ہے، ہاں تعلیم قربت ہے اور تعلیم وضو سے الگ شے ہے اس لئے تعلیم صرف قول سے بھی ہوجاتی ہے) جیسے تین مرتبہ سے زائد اعضاء وضو کا بلانیت قربت دھونا،ہم نے اس کی تحقیق بارق النور میں پہلے بیان کردی ہے اس کو یاد کرلے اھ(ت)
 (۳؎ ردالمحتار        باب المیاہ    مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ۱/۱۴۶)

(۴؎ الدرالمختار        باب المیاہ    مطبوعہ مجتبائی دہلی    ۱/۳۷)
 (ان اراد الزیادۃ علی الوضوء الاول وفیہ اختلاف المشائخ اما لواراد بھا ابتداء الوضوء صار مستعملا بدائع ای اذا کان بعد الفراغ من الوضوء الاول والا لکان بدعۃ کما مر فلا یصیر مستعملا وھذا ایضا اذا اختلف المجلس والا فلا لانہ مکروہ بحر لکن قدمنا ان المکروہ تکرارہ فی مجلس مرارا ۵؎)
 (یہ اُس وقت ہے جب اُس کا ارادہ یہ ہو کہ پہلے وضو پر زیادتی کی جائے اور اس میں مشائخ کا اختلاف ہے، اور اگر اس سے وضو کی ابتداء مراد ہو تو اس طرح پانی مستعمل ہوجائے گا، بدائع، یعنی جبکہ پہلے وضو سے فراغت کے بعد ہو ورنہ بدعت ہوگا جیسا کہ گزرا تو مستعمل نہ ہوگا، اور یہ بھی اس وقت ہے جبکہ مجلس مختلف ہو ورنہ نہیں کیونکہ یہ مکروہ ہے،بحر۔ لیکن ہم پہلے بیان کر آئے ہیں کہ مکروہ اس کا ایک ہی مجلس میں کئی مرتبہ تکرار ہے)
 (۵؎ ردالمحتار        باب المیاہ    مصطفی البابی مصر    ۱/۱۴۶)
وکغسل نحو فخذ ۶؎ (مما لیس من اعضاء الوضوء وھو محدث لاجنب ۱؎)
اور جیسے ران کا دھونا (جو اعضا ئے وضو سے نہیں ہے حالانکہ وہ بے وضو ہو نہ کہ جنب ہو)
 (۶؎ الدرالمختار        باب المیاہ    مجتبائی دہلی        ۱/۳۷)

(۱؎ ردالمحتار    باب المیاہ    مصطفی البابی مصر    ۱/۱۴۶ )
او ثوب طاھر ۲؎ (ونحوہ من الجامدات کقدور وثمار قھستانی ۳؎) اودابۃ تؤکل ۴؎
یا پاک کپڑا (اور اسی کی مثل خشک اشیاء جیسے ہانڈیاں اور پھل، قہستانی)یا وہ چوپایہ جس کا گوشت کھایا جاتا ہو،
 (۲؎ درمختار    باب المیاہ    مجتبائی دہلی    ۱/۳۷)

(۳؎ ردالمحتار     باب المیاہ    مصطفی البابی مصر    ۱/۱۴۶ )

(۴؎ درمختار    باب المیاہ    مصطفی البابی مصر    ۱/۱۴۶)
 (بحر عن المبتغی قال سیدی عبدالغنی وغیرھا کذلک لاتنجس الماء ولا تسلب طھوریتہ کحمار وفارۃ وسباع بھائم لم یصل الماء الٰی فمہا اھ وذکر الرحمتی نحوہ ۵؎)
 (بحر نے اس کو مبتغی سے روایت کیا، سیدی عبدالغنی وغیرہ نے کہا اور اسکے علاوہ بھی پانی ناپاک نہیں کرتے ہیں اور اُس کے پاک کرنے کی صفت کو اُس سے سلب نہیں کرتے ہیں، جیسا گدھا، چوہا، اور چوپایوں میں سے درندے جبکہ پانی ان کے منہ تک نہ پہنچے اھ اور رحمتی نے ایسا ہی ذکر کیا)
 (۵؎ ردالمحتار     باب المیاہ    مصطفی البابی مصر    ۱/۱۴۶)
اولا سقاط فرض بان یغسل بعض اعضائہ ۶؎ التی یجب غسلہا احترازا عن غسل المحدث نحوا لفخذ ۷؎
 (یا کسی فرض کو ساقط کرنے کیلئے مثلاً یہ کہ کسی عضو کو دھوئے) (اُ ن اعضاء میں سے جن کا دھونا لازم ہے، یہ بے وضو شخص کے اپنی ران وغیرہ کو دھونے سے احتراز ہے)
 (۶؎ درمختار    باب المیاہ    مصطفی البابی مصر    ۱/۱۴۶)

(۷؎ ردالمحتار     باب المیاہ    مصطفی البابی مصر        ۱/۱۴۷)
اویدخل یدہ او رجلہ فی جب لغیر اغتراف ونحوہ ۸؎ (بل لتبرد اوغسل ید من طین اوعجین فلو قصد الاغتراف ونحوہ کاستخراج کوزلم یصر مستعملا للضرورۃ ۹؎)
یا اپنا ہاتھ یا پیر کسی گڑھے میں ڈالے، اُس سے چُلّو وغیرہ نہ بھرے ،(بلکہ ٹھنڈک حاصل کرنے کیلئے یا ہاتھوں کو مٹی سے یا آٹے سے صاف کرنا مقصود، تو اگر چلّو بھرنے کا ارادہ کیا جیسے پانی سے لوٹا نکالنے کیلئے ہاتھ ڈالا تو پانی مستعمل نہ ہوگا کیونکہ یہ ضرورتاً ہے)
 (۸؎ درمختار     باب المیاہ    مصطفی البابی مصر    ۱/۴۶)

(۹؎ ردالمحتار     باب المیاہ    مصطفی البابی مصر    ۱/۱۴۶ )
Flag Counter