Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲(کتاب الطہارۃ)
5 - 176
 (۲۷) خود نفس جنس یعنی پانی نے دودھ سرکہ گلاب کیوڑے وغیرہا کو خارج کردیا کہ اُن سے وضو کرے تو مستعمل نہ ہوں گے اگرچہ بے وضو ہو اگرچہ جُنب ہو اگرچہ نیت قربت کرے کہ غیر آب(۱) نجاست حکمیہ سے اصلا تطہیر نہیں کرسکتا۔

تنبیہ اگر کہیے ۲۶ و ۲۷ کا ثمرہ کیا ہے کہ مستعمل ہونے سے ہمارے نزدیک شے نجس نہیں ہوجاتی صرف نجاست حکمیہ دور کرنے کے قابل نہیں رہتی یہ قابلیت ان اشیاء میں پہلے بھی نہ تھی تو ان کو مستعمل نہ ماننے کا کیا فائدہ ہوا۔ اقول اول تو یہی فائدہ بہت تھا کہ مستعمل نہ ہونے سے ان کی طہارت متفق علیہ رہے گی کہ مستعمل کی طہارت میں ہمارے ائمہ کا اختلاف ہے اگرچہ صحیح طہارت ہے۔

ثانیا مستعمل(۲) اگرچہ طاہر ہے مگر قذر ہے مسجد میں اُس کا ڈالنا ناجائز ہے ان اشیاء کو مستعمل نہ بتانے سے یہ معلوم ہوا کہ مثلاً جس(۳) گلاب سے کسی نے وضو کیا اُسے مسجد میں چھڑک سکتے ہیں کہ وہ مستعمل نہ ہوا۔

بالجملہ یہ وہ نفیس وجلیل جامع ومانع وشافی ونافع تعریف مائے مستعمل ہے کہ بفضلِ الٰہی خدمت کلمات علمائے کرام سے اس فقیر پر القا ہوئے وللہ الحمد۔ سہولتِ حفظ کیلئے فقیر اسے نظم کرتا اور برادران دینی سے دعائے عفو وعافیت کی طمع رکھتا ہے ۔
۱؎ مائے مستعمل کہ طاہر نامطہر وصف اوست    جامع ومانع حدِ اواز رضا دوحرف شد

مطلقے کو واجب شستن زحد ثے کا ست یا    بربشر در قربت مطلوبہ عیناً صرف شد

راکدےعہ کا ینسان جدا شداز بدن مستعمل ست    لیک نزد بعض چوں قائم بجایا ظرف شد
۱؎ ترجمہ: مستعمل پانی جو کہ خود پاک ہوتا ہے اور دوسرے کو پاک نہیں کرتا رضا سے اس کی جامع مانع تعریف دو باتوں میں ہوئی ÷ جس سے مطلقاً حدث زائل ہوا ہو یا قربت مقصودہ کی نیت سے بدن پر استعمال ہوا ہو ÷ قلیل پانی جب بدن سے جُدا ہوا تو مستعمل ہوجائیگا لیکن بعض کے نزدیک بدن سے جُدا ہو کر کسی جگہ یا ظرف میں اس کا قرار ضروری ہے۔
عہ راکد بمعنے غیر جاری یعنی آبِ قلیل کہ دَہ در دَہ نباشد ۱۲(م)
دو شعر اخیر میں وہ تمام تفاصیل آگئیں جو یہاں تک مذکور ہوئیں اور یہ بھی کہ راجح قول اول ہے یعنی بدن سے جدا ہوتے ہی مستعمل کا حکم دیا جائے گا کسی جگہ مستقر ہونا شرط نہیں۔ اب عبارات علماء اور بعض مسائل مذکورہ میں اپنی تحقیق مفرد ذکر کریں وباللہ التوفیق۔ تنویر الابصار ودُرمختار و ردالمحتار میں ہے:
لایجوز بماء استعمل لاجل قربۃ ای ثواب ولومن ممیز ۱؎ (اذا توضأ یرید بہ التطہیر کما فی الخانیۃ وظاھرہ انہ لولم یرد بہ ذلک لم یصر مستعملا۲؎) اوحائض لعادۃ عبادۃ ۳؎
وضو اُس پانی سے جائز نہیں جس کو بطور ثواب استعمال کیا گیا ہو۔اگرچہ اس بچّہ نے استعمال کیا ہے جس میں شعور پیدا ہوچکا ہو۔ (جبکہ وضو کیا کہ اس سے اس کا ارادہ پاکی حاصل کرنے کا تھا کما فی الخانیہ اور اس کا ظاہر یہ ہے کہ اگر اس سے طہارت کا ارادہ نہ کیا تو مستعمل نہ ہوگا) یا حائض عبادت کی عادت کی وجہ سے،
 (۱؎ الدرالمختار        باب المیاہ    مطبوعہ مجتبائی دہلی    ۱/۳۷)

(۲؎ ردالمحتار        باب المیاہ    مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ۱/۱۴۵)

(۳؎ الدرالمختار        باب المیاہ     مطبوعہ مجتبائی دہلی    ۱/۳۷)
 (قال فی النھر قالوابوضوء الحائض یصیر مستعملا لانہ یستحب لہا الوضوء لکل فریضۃ وان تجلس فی مصلاھا قدرھا کیلا تنسی عادتہا وینبغی ان لوتوضأت لتہجد عادی اوصلاۃ ضحی ان یصیرمستعملا اھ واقرہ الرملی وغیرہ ووجہہ ظاھر فلذا جزم بہ الشارح فاطلق العبادۃ تبعا لجا مع الفتاوٰی ۴؎)
 (نہر میں ہے کہ فقہاء نے فرمایا حائض کے وضو سے مستعمل ہوجائے گا کہ اس کیلئے ہر فرض کیلئے وضو مستحب ہے اور یہ کہ نماز کی مقدار میں اپنے مصلّٰی پر بیٹھے تاکہ نماز کی عادت نہ ختم ہوجائے اور اگر تہجد یا نماز چاشت کیلئے اُس نے وضو کیا تو چاہئے کہ وہ پانی مستعمل ہوجائے اھ رَملی وغیرہ نے اس کو برقرار رکھا، اور اس کی وجہ ظاہر ہے، اس لئے اس پر شارح نے جزم کیا اور عبادت کو مطلق رکھا، جامع الفتاوٰی کی متابعت میں)
 (۴؎ ردالمحتار        باب المیاہ    مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ۱/۱۴۵)
اوغسل میت ۵؎ وکون غسالتہ مستعملۃ ھوالاصح بحر اقول قول العامۃ واعتمدہ البدائع ان نجاسۃ المیت نجاسۃ خبث لانہ حیوان دموی ویجوز عطفہ علی ممیزای ولو من اجل غسل میت لانہ یندب الوضوء من غسل المیت ۶؎
یا میت کو غسل دیا اور اس غسل کے مستعمل پانی کا مستعمل ہونا ہی اصح ہے بحر، میں کہتا ہوں عام فقہاءکا قول یہی ہے، اس پر بدائع نے اعتماد کیا کہ میت کی نجاست خُبث کی نجاست ہے، کیونکہ میت خون والا جانور ہے، اور اس کا عطف ممیز پر جائز ہے یعنی ''اگرچہ میت کے غسل کی وجہ سے ہو کیونکہ میت کو نہلانے کے بعد وضو کرلینا مندوب ہے،
 (۵؎ الدرالمختار        باب المیاہ    مطبوعہ مجتبائی دہلی    ۱/۳۷)

(۶؎ ردالمحتار        باب المیاہ    مصر        ۱/۱۴۵)
Flag Counter