(۱۱) یوں ہی غسل میت کا دوسرا اور تیسرا پانی بھی آبِ مستعمل ہوگا کہ اگرچہ پہلے پانی سے اسقاط واجب ہوگیا مگر غسلِ میت میں تثلیث بھی قربت مطلوبہ فی الشرع ہے۔
اقول ولہٰذا ہم نے شق دوم میں بھی بدن انسان مطلق رکھا۔
(۱۲) وضو علی الوضو کی نیت سے دوسرے کو کہا مجھے وضو کرادے اُس نے بے نیت ثواب اُس کے اعضائے وضو دھو دئیے پانی مستعمل ہوگیا کہ جب اس کے امر سے ہے اور اس کی نیت قربت کی ہے تو وہ اسی کا استعمال قرار پائے گا الا تری انہ لوفعل ذلک محدث ونوی فقد اتی بالمامور بہ مع ان امر فاغسلوا وامسحوا انما کان علیہ(جیسا کہ اگر بے وضو ایسا کرے اور نیت کرے تو مامور بہ کو بجا لانے والا ہوگا جو فاغسلوا وامسحوا سے اس پر لازم تھا۔ ت)
(۱۳) باوضو(۳) آدمی نے اعضاء ٹھنڈے کرنے یا میل دھونے کو وضو بے نیت وضو علی الوضو کیا پانی مستعمل نہ ہوگا کہ اب نہ اسقاط واجب ہے نہ اقامت قربت۔
(۱۴) معلوم تھا کہ عضو تین۳ بار دھو چکا ہوں اور ہنوز پانی خشک بھی نہ ہوا تھا بلا وجہ چوتھی بار اور ڈالا یہ بھی قربت نہیں بلکہ خلافِ ادب ہے۔
(۱۵) ہاں اگر شک ہو کہ دو۲ بار دھویا یا تین۳ بار یوں تیقن تثلیث کیلئے پانی پھر ڈالا تو مستعمل ہوجائے گا
اگرچہ واقع میں چوتھی بار ہو۔
(۱۶) جسے حاجتِ غسل نہیں اُس نے اعضائے وضو کے سوا مثلاً پیٹھ یا ران دھوئی۔
(۱۷) باوضو نے کھانا کھانے کو یا کھانے سے بعد یا ویسے ہی ہاتھ منہ صاف کرنے کو ہاتھ دھوئے کُلّی کی اور ادائے سنّت کی نیت نہ تھی مستعمل نہ ہوگا کہ حدث وقربت نہیں۔
(۱۸) باوضو نے صرف کسی کو وضو سکھانے کی نیت سے وضو کیا مستعمل نہ ہوا کہ تعلیم وضو اگرچہ قربت ہے مگر وضو سکھانے کو وضو کرنا فی نفسہ قربت نہیں سکھانا قربت ہے اور وہ زبان سے بھی ممکن ولہٰذا ہم نے قید لگائی کہ وہ استعمال خود کارِ ثواب تھا یعنی فعل فی نفسہ مطلوب فی الشرع ولو مقصودا لغیرہ کالوضوء(فعل فی نفسہ مطلوب فے الشرع ہے اگرچہ مقصود لغیرہ ہو جیسے وضو ہے۔ ت)
(۱۹) کوئی پاک کپڑا وغیرہ دھویا۔
(۲۰ و ۲۱) کسی جانور یا نابالغ بچّے کو نہلایا اور ان کے بدن پر نجاست نہ تھی اگرچہ وہ جانور غیر ماکول اللحم ہو جیسے بلّی یا چوہا حتی کہ مذہب راجح میں کُتّا بھی جبکہ پانی اُن کے لعاب سے جُدارہا اگرچہ نہلانا ان کے دفع مرض یا شدت گرما میں ٹھنڈ پہنچانے کو بہ نیت ثواب ہو مستعمل نہ ہوگا۔
اقول کپڑا برتن جانور اور ان کے امثال تو بدن انسان کی قید سے خارج ہوئے اور نابالغ کو نہلانا مثل وضوئے تعلیم خود قربت نہیں کہ بچّوں کے نہلانے کا کوئی خاص حکم شرع میں نہ آیا ہاں انہیں بلکہ ہر مسلمان وجاندار کو نفع وآرام پہنچانے کی ترغیب ہے یہ امور عادیہ اُس حکم کی نیت سے کلیہ محمودہ کے نیچے آکر قربت ہوسکتے ہیں مگر موجب استعمال وہی فعل ہے جو بذاتِ خود قربت ومطلوب شرع ہو۔
(۲۲) حائض ونُفسَاء نے قبل انقطاع دم بے نیت قربت غسل کیا پانی مستعمل نہ ہوگا کہ اس نے اگرچہ انسان کے جسم کو مس کیا جس کی تطہیر غسل سے واجب ہوگی مگر ابھی لازم نہیں بعد انقطاع لزوم ہوگا۔
اقول ولہٰذا ہم نے بالفعل کی قید لگائی۔
(۲۳) ناسمجھ بچّے نے وضو کیا جس طرح دو تین سال کے اطفال ماں باپ کو دیکھ کر بطور نقل وحکایت افعال وضو نماز کرنے لگتے ہیں پانی مستعمل نہ ہوگا کہ نہ قربت نہ حدث۔
(۲۴) وضو کرنے میں پانی کو جب تک اُسی عضو پر بَہہ رہا ہے حکم استعمال نہ دیا جائے گا ورنہ وضو محال ہو جائے بلکہ جب اُس عضو سے جُدا ہوگا اس وقت مستعمل کہا جائے گا اگرچہ ہنوز کہیں مستقر نہ ہوا ہو مثلاً منہ دھونے(۱) منہ دھونے میں کلائی پر پانی لیا اور وہی پانی کے مُنہ سے جُدا ہو کر آیا کلائی پر بہا لیا جمہور کے نزدیک کافی نہ ہوگا کہ مُنہ سے منفصل ہوتے ہی حکم استعمال ہوگیا ہاں جن بعض کے یہاں استقرار شرط ہے اُن کے نزدیک کافی ہے کہ ابھی مستعمل نہ ہوا اور غسل میں سارا بدن عضو واحد ہے تو سر کا پانی کہ پاؤں تک بہتا جائے جس جس جگہ گزرا سب کو پاک کرتا جائے گا۔
(۲۵) اقول نجاست میں حکمیہ کی تقیید کا فائدہ ظاہر ہے کہ جو پانی نجاست حقیقیہ کے ازالہ میں صرف ہو ہمارے نزدیک مطلقاً ناپاک ہوجائے گا نہ کہ مستعمل۔
(۲۶) اقول ہم نے پانی کو مطلق رکھا اور خود رفع نجاست حکمیہ واقامت قربت ہائے مذکورہ سے واضح کہ پانی سے مائے مطلق مراد ہے تو شوربے یا دودھ کی لسّی یا نبیذ تمر سے اگر وضو کرے وہ مستعمل نہ ہونگے ان سے وضو ہی نہ ہوگا تو مستعمل کیا ہوں۔