اقول وباللہ التوفیق مائے(۱) مستعمل وہ قلیل پانی ہے جس نے یا تو تطہیر نجاست حکمیہ سے کسی واجب کو ساقط کیا یعنی انسان کے کسی ایسے پارہ جسم کو مس کیا جس کی تطہیر وضو یا غسل سے بالفعل لازم تھی یا ظاہر بدن پر اُس کا استعمال خود کار ثواب تھا اور استعمال کرنے والے نے اپنے بدن پر اُسی امر ثواب کی نیت سے استعمال کیا اور یوں اسقاط واجب تطہیر یا اقامت قربت کرکے عضو سے جُدا ہوا اگرچہ ہنوز کسی جگہ مستقر نہ ہوا بلکہ روانی میں ہے اور بعض نے زوال حرکت وحصول استقرار کی بھی شرط لگائی۔ یہ بعونہٖ تعالٰی دونوں مذہب پر حد جامع مانع ہے کہ ان سطروں کے سوا کہیں نہ ملے گی۔ اب فوائد قیود سنیے:
(۱) آب کثیر یعنی دَہ در دَہ یا جاری پانی میں محدث وضو یا جنب غسل کرے یا کوئی نجاست ہی دھوئی جائے تو پانی نہ نجس ہوگا نہ مستعمل لہٰذا قلیل کی قید ضرور ہے۔
(۲) محدث(۲) نے تمام یا بعض اعضائے وضو دھوئے اگرچہ بے نیت وضو محض ٹھنڈ یا میل وغیرہ جُدا کرنے کیلئے یا اُس نے اصلا کوئی فعل نہ کیا نہ اُس کا قصد تھا بلکہ کسی دوسرے نے اُس پر پانی ڈال دیا جو اُس کے کسی ایسے عضو پر گزرا جس کا وضو یا غسل میں پاک کرنا ہنوز اس پر فرض تھا مثلاً محدث کے ہاتھ یا جُنب کی پیٹھ پر تو ان سب صورتوں میں شکل اول کے سبب پانی مستعمل ہوگیا کہ اس نے محل نجاست حکمیہ سے مس کرکے اُتنے ٹکڑے کی تطہیر واجب کو ذمہ مکلف سے ساقط کردیا اگرچہ پچھلی صورتوں میں ہنوز حکم تطہیر دیگر اعضا میں باقی ہے اور پہلی میں تو یعنی جبکہ تمام اعضا دھو لے فرض تطہیر پورا ہی ذمہ سے اُتر گیا۔
تنبیہ پانی کولی(۱) یا بڑے مٹکے کے سوا کہیں نہیں وہ برتن جھکانے کے قابل نہیں چھوٹا برتن مثلاً کٹورا ایک ہی پاس تھا وہ اسی برتن میں گر کر ڈوب گیا کوئی بچّہ یا باوضو آدمی ایسا نہیں جس سے کہہ کر نکلوائے اب بمجبوری محدث خود ہی ہاتھ ڈال کر نکالے گا یا چھوٹا برتن سرے سے ہے ہی نہیں تو ناچار چُلّو لے لے کر ہاتھ دھوئے گا ان دونوں صورتوں میں بھی اگرچہ شکل اول اعنی اسقاط واجب تطہیر پائی گئی یہ ضرورۃً معاف رکھی گئی ہیں بے ضرورت ایسا کرے گا تو پانی کُل یا بعض بالاتفاق مستعمل ہوجائے گا اگرچہ ایک قول پر قابل وضو رہے۔ بیان(۲) اس کا یہ ہے کہ محدث یعنی بے وضو یا حاجت غسل والے کا وہ عضو جس پر سے ہنوز حکم تطہیر ساقط نہ ہوا اگرچہ کتنا ہی کم ہو مثلاً پورا یا ناخن اگر قلیل پانی سے مس کرے تو ہمارے علماء کو اختلاف ہے بعض کے نزدیک وہ سارا پانی مستعمل ہوجاتا ہے اور قابل وضو وغسل نہیں رہتا اور بعض کے نزدیک صرف اتنا مستعمل ہوا جس قدر اُس پارہ بدن سے ملا باقی آس پاس کا پانی جو اُس عضو کی محاذات میں ہے اور اُس سے مس نہ ہوا مستعمل نہ ہوا یوں ہی وہ تمام پانی کہ اُس عضو کے پہنچنے کی جگہ سے نیچے ہے اُس پر بھی حکم استعمال نہ آیا۔ اس قول پر مٹکے یا کَولی میں کہنی تک ہاتھ ڈالنے سے بھی پانی قابل طہارت رہے گا کہ ظاہر ہے جو پانی ہاتھ کے آس پاس اور اُس سے نیچے رہا وہ اس حصے سے بہت زائد ہے جس نے ہاتھ سے مس کیا اور جب(۳) غیر مستعمل پانی مستعمل سے زائد ہو تو پانی قابلِ وضو وغسل رہتا ہے مثلاً لگن میں وضو کیا اور وہ پانی ایک گھڑے بھر آب غیر مستعمل میں ڈال دیا تو یہ مجموع قابلِ وضو ہے کہ مستعمل نامستعمل سے کم ہے اسی پر قیاس کرکے ان بعض نے ہاتھ ڈالنے کا حکم رکھا کہ مستعمل تو اُتنا ہی ہوا جتنا ہاتھ کو لگا باقی کہ الگ رہا اُس پر غالب ہے اور فریقِ اول نے فرمایا کہ پانی ایک متصل جسم ہے اس کے بعض سے ملنا کُل سے ملنا ہے لہٰذا ناخن کی نوک یا پورے کا کنارہ لگ جانے سے بھی کُل مٹکا مستعمل ہوجائے گا۔ یہ دو قول ہیں اور فریقِ اول ہی کا قول احتیاط ہے بہرحال اتنے میں فریقین متفق ہیں کہ بے ضرورت چُلّو لینے یا ہاتھ ڈالنے سے پانی مستعمل ہوجائے گا اگرچہ بعض تو ہماری تعریف اس قول پر بھی ہر طرح جامع مانع ہے۔
(۳) باوضو آدمی نے بہ نیت ثواب دوبارہ وضو کیا۔
(۴) سمجھ وال نابالغ نے وضو بقصدِ وضو کیا۔
(۵) حائض ونفساء کو جب تک حیض ونفاس باقی ہے وضو وغسل کا حکم نہیں مگر انہیں(۴) مستحب ہے کہ نماز پنجگانہ کے وقت اور اشراق وچاشت وتہجد کی عادت رکھتی ہو تو ان وقتوں میں بھی وضو کر کے کچھ دیر یادِ الٰہی کرلیا کرے کہ عبادت کی عادت باقی رہے۔ انہوں نے یہ وضو کیا۔ (۶) پاک آدمی نے ادائے سنّت کو جمعے یا عیدین یا عرفے یا احرام یا اور اوقات مسنونہ کا غسل یا میت کو غسل دینے کا وضو یا غسل کیا۔
(۷) باوضو(۱) نے کھانے کو یا کھانا کھا کر بہ نیت ادائے سنّت ہاتھ دھوئے یا کُلّی کی۔
(۸) وضوئے فرض یا نفل میں جو پانی کُلّی یا ناک میں پہنچانے میں صرف ہوا۔
(۹)کچھ اعضا دھو لئے تھے خشک ہوگئے سنت موالات کی نیت سے انہیں پھر دھویا ان سب صورتوں میں شکل دوم کے سبب مستعمل ہوجائے گا اگرچہ اسقاط واجب نہ کیا اقامت قربت کی(۲) میت کو نہلا کر غسل کرنا بھی مستحب ہے کما فی الدر وغیرہ۔
(۱۰) میت کے بارے میں علماء مختلف ہیں جمہور کے نزدیک موت نجاست حقیقہ ہے اس تقدیر پر تو وہ پانی کہ غسل میت میں صرف ہوا مائے مستعمل نہیں بلکہ ناپاک ہے اور بعض کے نزدیک نجاست حکمیہ ہے بحرالرائق وغیرہ میں اسی کو اصح کہا اس تقدیر پر وہ پانی بھی مائے مستعمل ہے اور ہماری تعریف کی شق اول میں داخل کہ اُس نے بھی اسقاط واجب کیا۔
اقول ولہٰذا ہم نے انسان کا پارہ جسم کہا نہ مکلف کا کہ میت مکلّف نہیں۔ اور تطہیر لازم تھی کہا نہ یہ کہ اس کے ذمے پر لازم تھی کہ یہ تطہیر میت کے ذمّے پر نہیں احیا پر لازم ہے۔