Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲(کتاب الطہارۃ)
18 - 176
ورواہ ابن عدی بالوضع اھ وکذبہ ابن معین وصالح جزرۃ وقال النسائی متروک وبہ اعلہ المحقق فی الفتح حین کلامہ علی وجوب التسمیۃ فی الوضوء  تبعا للبیہقی۔
اور اس کو ابن عدی نے وضاع قرار دیا اھ ابن معین اور صالح نے اس کی تکذیب کی اور نسائی نے اس کو متروک کہا اور یہی علّت محقق نے فتح میں بیان کی، یہ اُس موقعہ پر ہے جہاں انہوں نے وضو میں بسم اللہ کے وجوب کا ذکر کیا بیہقی کی متابعت میں۔ ت
اقول بل لہ(۳) طرق ترفعہ عن الوھن فقد رواہ الدار قطنی والبیھقی ایضا عن ابن عمر وھما وابو الشیخ عن ابی ھریرۃ رضی اللّٰہ تعالی عنھم ولفظہ عن النبی صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم من توضأ وذکر اسم اللّٰہ علی وضوئہ تطھر جسدہ کلہ ومن توضأ ولم یذکر اسم اللّٰہ علی وضوئہ لم یتطھر الاموضع الوضوء ۱؎
میں کہتا ہوں اس حدیث کے بعض طرق ایسے ہیں جو اس کی کمزوری کو رفع کرتے ہیں، دار قطنی اور بیہقی نے بھی اس کو ابن عمر سے روایت کیا، اور انہی دونوں نے اور ابو الشیخ نے ابو ھریرہ سے روایت کیا، ان کے لفظ یہ ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا جس نے بسم اللہ کرکے وضو کیا تو اس کا سارا جسم پاک ہوگا اور جس نے وضو کے وقت بسم اللہ نہ پڑھی تو صرف وضو کی جگہ ہی پاک ہوگی
 (۱؎ سنن الکبریٰ للبیہقی    باب التسمیۃ علی الوضوء     مطبع بیروت        ۱/۴۵)
ورواہ عبدالرزاق فی مصنّفہ عن الحسن الضبی الکوفی مرسلا ینمیہ الی النبی صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم من ذکر اللّٰہ عندالوضوء طھر جسدہ کلہ فان لم یذکر اسم اللّٰہ لم یطھر منہ الامااصاب الماء ۲؎
اس کو عبدالرزاق نے اپنی مصنَّف میں حسن الضبی کوفی سے مرسلاً روایت کیا، اور وہ اس کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرتے ہیں، فرماتے ہیں جس نے وضو کے وقت اللہ کا ذکر کیا اس کا تمام جسم پاک ہوجائے گا اور اگر اللہ کا ذکر نہ کیا تو صرف وہی حصہ پاک ہوگا جس پر پانی گزرا ہوگا،
 (۲؎ کنزالعمال    آداب الوضوء         مؤسسۃ الرسالۃ بیروت    ۹/۲۹۴)
واخرج ابوبکر بن ابی شیبۃ فی مصنفہ عن ابی بکر الصدیق رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ انہ قال اذا توضأ العبد فذکر اسم اللّٰہ تعالی طھر جسدہ کلہ وان لم یذکر لم یطھر الاما اصابہ بہ الماء ۳؎
اور ابو بکر سے ابن ابی شیبہ نے اپنی مصنَّف میں روایت کی کہ بندہ جب وضو کرتا ہے اور اللہ کا ذکر کرتا ہے تو اس کا سارا جسم پاک ہوجاتا ہے اور اگر اللہ کا ذکر نہیں کرتا تو صرف وہی حصہ پاک ہوتا ہے جس  پر پانی پہنچا ہو ۔
 (۳؎ مصنّف ابن ابی شیبۃ    فی التسمیۃ فی الوضوء     ادارۃ القرآن کراچی    ۱/۳)
وروی سعید بن منصور فی سننہ عن مکحول قال اذا تطھر الرجل وذکراسم اللہ طھر جسدہ کلہ واذالم یذکر اسم اللّٰہ حین یتوضأ لم یطھر منہ الامکان الوضوء ۴؎
اور سعید بن منصور نے اپنی سنن میں مکحول سے روایت کی کہ جب کوئی شخص پاکی حاصل کرتا ہے اور اللہ کا ذکر کرتا ہے تو اس کا سارا جسم پاک ہوجاتا ہے اور جب بوقت وضو اللہ کا نام نہیں لیتا ہے تو صرف وضو کی جگہ پاک ہوتی ہے،
 (۴؎ کنزالعمال     آداب الوضوء         موسسۃ الرسالۃ بیروت    ۹/۴۵۷)
ومع ھذہ الطرق یستحیل الحکم بالسقوط بل ربما یرتقی عن الضعف لاجرم ان صرح فی المرقاۃ لحدیث الدار قطنی ان سندہ حسن وثانیا نقل العلامۃ الزیلعی المحدث جمال الدین عبداللہ تلمیذ الامام الزیلعی الفقیہ فخرالدین عثمٰن شارح الکنز فی نصب الرایۃ تحت حدیث لاوضوء لمن لم یسم اللہ تعالی عن الامام ابن الجوزی ابی الفرج الحنبلی انہ قال محتجا علینا فی ایجابھم التسمیۃ للوضوء ان المحدث(ای بالحدث الاصغر اذفیہ الکلام ویکون(۱) ھو المراد عند الاطلاق کما فی الحلیۃ) لایجوز(۲) لہ مس المصحف بصدرہ ۱؎ اھ واقرہ علیہ۔
ان تمام طُرُق کی موجودگی میں سقوط کا قول کرنا محال ہے بلکہ ان سے حدیث مرتبہ ضعف سے بلند ہوجاتی ہے اور مرقاۃ میں دارقطنی کی روایت کی سند کو حسن قرار دیا ہے۔ ثانیا علامہ زیلعی محدّث جمال الدین عبداللہ شاگرد امام زیلعی فقیہ فخرالدین عثمان شارح کنز نصب الرایہ میں ''لاوضوء لمن لم یسم اللّٰہ(اس کا وضو نہیں جو اللہ کا نام نہ لے)کی حدیث کے تحت فرماتے ہیں کہ امام ابن جوزی ابو الفرج الحنبلی نے ہم پر حجت قائم کرنے کیلئے وہ بسم اللہ کو وضو میں واجب قرار دیتے ہیں فرمایا کہ مُحدِث(جس کو حدثِ اصغر لاحق ہوا کیونکہ کلام اُسی میں ہے اور عندالاطلاق وہی مراد ہوتاہے، کما فی الحلیہ) اس کو مصحف کا چھونا اپنے سینہ سے جائز نہیں اھ اور اس کو انہوں نے برقرار رکھا۔ ت
 (۱؎ نصب الرایۃ    کتاب الطہارۃ    اسلامیہ ریاض    ۱/۷)
قلت ویؤیدہ مافی الفتح ثم البحر وحاشیۃ الشلبی علی التبیین قال لی(۳) بعض الاخوان ھل یجوز مس المصحف بمندیل ھولا بسہ علی عنقہ قلت لااعلم فیہ منقولا والذی یظھر انہ ان کان بطرفہ وھو یتحرک بحرکۃ ینبغی ان لایجوز وان کان لایتحرک بحرکتہ ینبغی ان یجوز لاعتبارھم ایاہ فی الاول تابعا لہ کبدنہ دون الثانی ۲؎ اھ
میں کہتا ہوں اس کی تائید فتح میں، پھر بحر میں اور تبیین پر شبلی کے حاشیہ میں ہے مجھ سے بعض دوستوں نے دریافت کیا کہ اگر کوئی شخص گلے میں رومال ڈالے ہو تو وہ اس رومال سے مصحف کو چھو سکتا ہے؟ میں نے کہا میں اس سلسلہ میں کوئی نقل تو نہیں پاتا ہوں لیکن اگر صورت یہ ہو کہ اس کے ایک کنارے سے مصحف کو پکڑے اور اس کے حرکت دینے سے دوسرا کنارہ حرکت کرے تو جائز نہ ہونا چاہئے اور اگر حرکت نہ کرے تو مس کرنا جائز ہونا چاہئے، کیونکہ پہلی صورت میں وہ اس کو اس کا تابع قرار دیتے ہیں جیسا کہ اس کا بدن ہے دوسری صورت میں تابع نہیں کہتے اھ
 (۲؎ بحرالرائق        باب الحیض        سعید کمپنی کراچی    ۱/۲۰۱)
فان المراد المحدث بالحدث الاصغر اذ قد نقل قبلہ باسطرعن الفتاوی لایجوز للجنب والحائض ان یمسا المصحف بکمھا اوببعض ثیابھما لان الثیاب بمنزلۃ بدنھما ۳؎ اھ
کیونکہ محدث سے مراد حدث اصغر والا شخص ہے، کیونکہ اس سے کچھ ہی پہلے فتاوٰی سے منقول ہوا کہ جنب اور حائض کو جائز نہیں کہ وہ دونوں مصحف کو اپنی آستین سے یا کپڑے کے کسی حصّہ سے چھوئیں کیونکہ کپڑے منزلہ ان کے بدن کے ہیں اھ
 (۳؎ شلبی علی التبیین    باب الحیض        بولاق مصر        ۱/۵۸)
فقولہ بعض ثیابھما کان یشمل مندیلا ھولابسہ فلم یقول لااعلم فیہ المنقول افینسی مانقلہ اٰنفا وھو بمرأی منہ۔
تو ''بعض کپڑوں'' میں وہ رومال بھی آجاتا ہے جس کو وہ پہنے ہوئے ہو تو پھر وہ یہ کیوں کہتے ہیں کہ میں اس میں کوئی نقل نہیں جانتا کیا وہ دیکھتے بھالتے اُس نقل کو بھول گئے جو خود ہی انہوں نے پیش کی ہے۔(ت)
اقول لکنی(۱) رایت فی التبیین قال بعد قولہ منع الحدث مس القران ومنع من القرأۃ والمس الجنابۃ والنفاس کالحیض مانصہ ولا یجوز لھم مس المصحف بالثیاب التی یلبسونھا لانھا بمنزلۃ البدن ولھذا لوحلف لایجلس علی الارض فجلس علیھا وثیابہ حائلۃ بینہ وبینھا وھو لابسھا یحنث ولوقام(۲) فی الصلاۃ علی النجاسۃ وفی رجلیہ نعلان اوجوربان لاتصح صلاتہ بخلاف المنفصل عنہ ۱؎ اھ
میں کہتا ہوں میں نے تبیین میں دیکھا ہے کہ وہ فرماتے ہیں حدث کی وجہ سے قرآن کو ہاتھ لگانا منع کیا ہے، اور جنابت اور نفاس نے حیض کی طرح، پڑھنے اور ہاتھ لگانے دونوں کو منع کیا ہے، ان کی عبارت یہ ہے کہ اُن کیلئے اُن کپڑوں کے ساتھ جو وہ پہنے ہوئے ہیں قرآن کو ہاتھ لگانا جائز نہیں کیونکہ وہ کپڑے بمنزلہ بدن کے ہیں، اور اس لئے اگر کسی شخص نے قسم کھائی کہ وہ زمین پر نہیں بیٹھے گا اب وہ اس طرح بیٹھا کہ اس کے اور زمین کے درمیان پہنے ہوئے کپڑے حائل ہوں تو وہ قسم میں حانث ہوجائے گا اور اگر کوئی شخص بحالتِ نماز نجاست پر کھڑا ہوا اور اس کے دونوں پیروں میں جوتے یا جرابیں ہیں تو اس کی نماز صحیح نہ ہوگی، اگر یہ چیزیں جُدا ہیں تو ہو جائے گی اھ
 (۱؎ تبیین الحقائق    باب الحیض    بولاق مصر    ۱/۵۷)
Flag Counter