Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲(کتاب الطہارۃ)
17 - 176
اقول اولا یعود السائل یمنع ازدیاد الطھارۃ وانما ازداد نظافۃ لانھا تقبل التشکیک دون الطھارۃ ولذا قلنا بعدم تجزی الحدث والی ازدیاد النظافۃ یشیر الحدیث المشہور الوضوء علی الوضوء نور علی نور اخرجہ رزین وان قال العراق والمنذری لم نقف علیہ کما فی التیسیر،
میں کہتا ہوں اولاً کہ سائل کہہ سکتا ہے کہ ہم طہارت کی زیادتی کو تسلیم نہیں کرتے اس میں نظافت کا اضافہ تو اس لئے ہے کہ نظافت کمی بیشی کو قبول کرتی ہے، مگر طہارت ایسی نہیں اور اسی لئے ہم نے کہا ہے کہ حدث میں تجزّی نہیں ہے، اور نظافت میں اضافہ کی طرف اس حدیث میں اشارہ ہے کہ وضو پر وضو نور علٰی نور ہے، اس کی تخریج رزین نے کی ہے اگرچہ عراقی اور منذری نے کہا ہے کہ ہم اس پر مطلع نہیں ہوئے ہیں کما فی التیسیر۔
وثانیا لامساغ(۱) للسؤال رأسا فان مبناہ علی حصر النجاسۃ الحکمیۃ فی الحدث ولیس کذا بل منھا المعاصی کما تقدمت النصوص علیہ والماء الاول وان کان کما یزیل الحدث یغسل من اثر المعاصی ایضا بشرط النیۃ ولکن لایجب ان یزیلھا کلًّا والا لکفی الوضوء عن التوبۃ وصار کل من توضأ مرۃ ولو بعد الف کبیرۃ کمن لاذنب لہ وھوباطل قطعا فھذہ نجاسۃ حکمیۃ باقیۃ بعد التطھیر فی عامۃ المکلفین فاین مثار السؤال بل قدمنا(۲) ان المکروھات ایضا تغیر الماء فھذا اطم واعم
ثانیاً سوال کی گنجائش ہی نہیں، کیونکہ اس سوال کا دارومدار اس پر ہے کہ نجاستِ حکمیہ کو حدث میں منحصر کردیا گیا ہے اور حالانکہ بات یہ نہیں ہے، بلکہ نجاست حکمیہ میں معاصی بھی شامل ہیں، اس پر نصوص گزر چکے ہیں، اور پہلاپانی جس طرح حَدَث کو زائل کرتا ہے بشرطِ نیت گناہوں کو بھی دھو ڈالتا ہے مگر یہ ضروری نہیں کہ گناہوں کو کلیۃً دھو ڈالے ورنہ تو وضو ہی کافی ہوجاتا تو بہ کی ضرورت ہی نہ ہوتی اور ہزار ہا گناہوں کے بعد ایک ہی مرتبہ وضو کرلیتا تو تمام گناہ معاف ہوجاتے، اور وہ اس طرح ہوجاتا گویا اس نے کوئی گناہ کیا ہی نہیں ہے، اور یہ چیز قطعاً باطل ہے تو یہ وہ نجاست حکمیہ ہے جو مکلفین میں طہارت حاصل کرنے کے بعد بھی باقی رہتی ہے، تو اب سوال کیسے پیدا ہوسکتا ہے، بلکہ ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ مکروہات بھی پانی کو متغیر کردیتے ہیں تو یہ بلند اور اعم ہے۔
اما المعصومون صلوات اللّٰہ تعالی وسلامہ علیھم فاقول لانسلم فی مائھم(۳) الاول ایضا انہ مستعمل فی حقنا بل طاھر طھور مطھرلنا فضلا عن الثانی واذا اعتقدنا الطھارۃ فی فضلاتہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم فما ظنک بوضوئہ فالاستدلال(۴) علی طھارۃ الماء المستعمل بان اصحابہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم بادروا الی وضوئہ فمسحوا بہ وجوھم کما فی العنایۃ ۱؎ وغیرھا مع ضعفہ بوجوہ ذکرھا فی البحر عن العلامۃ الہندی لیس فی محلہ عندی نعم یعتبر مستعملا فی حقھم شرعا فلا یرد علی الحد نقضا کما اعتبرت فضلا تھم نواقض لعظم رفعۃ شأنھم ونزاھۃ مکانھم صلوات اللّٰہ تعالی وسلامہ علیھم۔
رہے انبیاءعلیہم السلام جو معصوم ہیں تو ہم یہ تسلیم نہیں کرتے کہ ان کا پہلا پانی ہمارے حق میں مائے مستعمل ہے، بلکہ وہ ہمارے حق میں پاک ہے اور پاک کرنے والا ہے اور جب پہلے پانی کایہ حال ہے تو دوسرے پانی کا بطریق اولیٰ یہ حال ہوگا، اور ہم تو انبیاء علیہم السلام کے فضلات کی طہارت کے قائل، تو وضو کے پانی کا کیا ذکر ہے۔ بعض حضرات نے حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے مستعمل پانی کی طہارت پر اس امر سے استدلال کیا ہے کہ آپ کے اصحاب نے اُس پانی کی طرف سبقت کی اور اس کو اپنے چہروں پر ملا، جیسا کہ عنایہ وغیرہ میں ہے، بوجوہ ضعیف ہے، یہ وجوہ بحر میں علامہ ہندی سے نقل کی گئی ہیں، میرے نزدیک وہ برمحل نہیں، ہاں ان کے حق میں شرعا مستعمل ہوگا، تو اس سے ماء مستعمل کی حد پر نقض وارد نہ ہوگا، اسی طرح ان کے فضلات کو نواقضِ وضو میں شمار کیا گیا ہے کیونکہ ان کی شان بہت عظیم ہے اور ان کا مقام بہت ستھرا ہے صلوات اللہ تعالٰی وسلامہ علیہم۔(ت)
 (۱؎ العنایۃ مع     فتح القدیر     باب الماء الذی یجوز بہ ومالا یجوز    نوریہ رضویہ سکھر    ۱/۷۶)
تنبیہ اختلفوا(۱) فی الحدث الاصغر ھل یحل کالاکبر بظاھر البدن کلہ وانما جعل الشرع الوضوء رافعا لہ تخفیفا ام لاالابالاعضاء الاربعۃ ویبتنی علیہ الخلاف فیما اذا غسل المحدث نحو فخذہ فیصیر الماء مستعملا علی الاول دون الثانی وبالعدم جزم فی کثیر من المتد اولات ونص فی الخلاصۃ انہ الاصح فکان ترجیحا للقول الثانی ولذا عولنا علیہ وفی المنحۃ عن النھر وکان الراجع ھو الثانی ولذا لم یصر الماء مستعملا بخلافہ علی الاول ۲؎ اھ والظاھر ان کان مشددۃ فیعطی تردد افی ترجیحہ۔
تنبیہ حدثِ اصغر کی بابت اختلاف ہے کہ آیا وہ بھی تمام بدن میں حدثِ اکبر کی طرح حلول کرتا ہے، اور شارع نے وضو کو اس کیلئے رافع تخفیفا قرار دیا ہے یا نہیں؟ ہاں اعضاء اربعہ میں ایسا ہے اور اسی پر یہ اختلاف مبنی ہے کہ بے وضو شخص نے اگر اپنی ران کے مثل کو دھویا تو پہلے قول پر پانی مستعمل ہوجائے گا دوسرے قول پر نہ ہوگا، اور مستعمل نہ ہونے پر بہت سی متداول کتب میں اعتماد کیا گیا ہے اور خلاصہ میں تصریح کی ہے کہ یہی اصح ہے تو یہ قول ثانی کی ترجیح ہے، اسی لئے ہم نے اس پر اعتماد کیا ہے اور منحہ میں نہر سے ہے کہ راجح دوسرا ہے اور اسی لئے پانی مستعمل نہ ہوگا، اس کے برعکس ہے پہلی صورت میں اھ اور ظاہر یہ ہے کہ کَاَنَّ مشدّدہ ہے۔ تو اس سے اس کی ترجیح میں تردّد پیدا ہوگا،
 (۲؎ منحۃ الخالق مع البحر    کتاب الطہارت    ۱/۹۲)
اقول وقد یجوز ان یقول قائل ربما یشھد للاول اوّلا حدیث(۱) اذا تطھرا حدکم فذکر اسم اللّٰہ علیہ فانہ یطھر جسدہ کلہ فان لم یذکر اسم اللّٰہ تعالٰی علی طھورہ لم یطھر الامامر علیہ الماء ۱؎
میں کہتا ہوں یہ بھی جائز ہے کہ کوئی کہنے والا کہے کہ پہلے قول کی دلیل یہ حدیث ہے کہ جب تم میں سے کوئی پاکی حاصل کرے اور اللہ کا نام لے تو اس کا پوراجسم پاک ہوجائے گا اور اگر اللہ کا نام نہ لے تو صرف وہی عضو پاک ہوگا جس پر پانی گزرا ہو،
 (۱؎دار قطنی        باب التسمیۃ علی الوضوء    مطبع القاہرہ    ۱/۷۳)
رواہ الدار قطنی والبیھقی فی سننہ والشیرازی فی الالقاب عن عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ قال البیھقی بعد ماساقہ بطریق یحیی بن ھاشم السمسار ثنا الاعمش عن شقیق بن سلمۃ عن عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالی عنہ قال سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم یقول فذکرہ ھذا ضعیف لااعلم رواہ عن الاعمش غیر یحیی بن(۲) ھاشم وھو متروک الحدیث ۲؎
روایت کیا دار قطنی اور بیہقی نے اپنی سنن میں اور شیرازی نے القاب میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بیہقی نے یہ حدیث بسند یحیی بن ہاشم السمسار ذکر کی ہے، ہم سے اعمش نے شقیق بن سلمہ سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، پھر پوری حدیث ذکر کی، یہ ضعیف ہے، میں نہیں جانتا کہ اس کو اعمش سے یحیی بن ہاشم کے غیر نے روایت کیا، اور وہ متروک الحدیث ہے،
 (۲؎ سنن الکبریٰ للبیہقی    تسمیۃ علی الوضوء     بیروت    ۱/۴۴)
Flag Counter