فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲(کتاب الطہارۃ) |
فافصح ان کلا الا مرین مغیر واقتصر فی الزکوٰۃ علی الاسقاط ثم قال فی بیان سبب ثبوت الاستعمال انہ عند ابی حنیفۃ وابی یوسف کل من رفع الحدث والتقرب وعند محمد التقرب وعند زفر الرافع لایقال ماذکرلاینتھض علی زفراذیقول مجرد القربۃ لایدنس بل الاسقاط فان المال لم یتدنس بمجردالتقرب بہ ولذا جاز للھاشمی صدقۃالتطوع بل مقتضاہ ان لایصیرمستعملا الا بالاسقاط مع التقرب فان الاصل اعنی مال الزکاۃ لاینفرد فیہ الاسقاط عنہ اذ لاتجوزالزکاۃ الا بنیۃ ولیس ھو قول واحد من الثلثۃ(یرید اصحاب الاقوال الثلثۃ الشیخین ومحمد او زفر) لانانقول غایۃ الامر ثبوت الحکم فی الاصل مع المجموع وھو لایستلزم ان المؤثرالمجموع بل ذلک دائر مع عقلیۃ المناسب للحکم فان عقل استقلال کل حکم بہ اوالمجموع حکم بہ والذی نعقلہ ان کلامؤثر۲؎ الی اخرماتقدم
اس سے واضح ہوا کہ دونوں امور تبدیلی کرنے والے ہیں، اور زکوٰۃ میں اسقاط پر اکتفاء کیا گیا ہے، پھر ثبوت استعمال کے سبب کے بیان میں فرمایا کہ ابو حنیفہ اور ابو یوسف کے نزدیک سبب رفعِ حدث اور تقرب ہے اور محمد کے نزدیک وہ تقرب ہے اور زفر کے نزدیک رفع ہے یہ اعتراض نہ کیا جائے کہ یہ دلیل زفر کے خلاف نہیں چل سکتی ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ صرف قُربت پانی کو مستعمل نہیں کرتی ہے بلکہ اسقاط بھی اس میں شامل ہے، کیونکہ مال زکوٰۃ محض تقرب کی وجہ سے میلا نہیں ہوا ہے، اور اسی لئے ہاشمی نفلی صدقہ لے سکتا ہے بلکہ اس کامقتضی یہ ہے کہ اسقاط مع تقرب سے اسقاط منفرد نہیں، کیونکہ زکوٰۃ بلانیت جائز نہیں اور یہ تینوں میں سے کسی ایک کا قول نہیں(اس سے ان کی مراد تینوں اقوال کے قائلین یعنی ابو حنیفہ وابو یوسف،محمدیازفررحمہم اللہ ہیں) کیونکہ ہم کہتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ حکم کا اصل مجموع کے ساتھ ثابت ہوتا ہے اور وہ اس امر کو مستلزم نہیں ہے کہ موثر مجموع ہے بلکہ اس کا دارومدار اس پر ہے کہ مناسب حکم کو سمجھا جائے، اگرہر حکم کااستقلال اس کے ساتھ سمجھا جائے یا مجموع کا تو اس کے ساتھ حکم کیا جائے گا اور جو ہم سمجھتے ہیں وہ یہ ہے کہ ہر ایک موثر ہے الی آخر ماتقدم،
(۲؎ فتح القدیر باب الماء الذی یجوز بہ الوضوء و مالا یجوز نوریہ رضویہ سکھر ۱/۷۶)
ثم قال قال فی الخلاصۃ ان الماء بما ذایصیر مستعملا(فذکر المذھبین کما نقلنا ثم قال) ھذا یشکل علی قول المشائخ ان الحدث لایتجزأ والمخلص ان صیرورۃ الماء مستعملا باحد ثلثۃ رفع الحدث والتقرب وسقوط الفرض وھوالاصل لما عرف ان اصلہ مال الزکاۃ والثابت فیہ لیس الاسقوط الفرض۔
پھر کہا کہ انہوں نے خلاصہ میں فرمایا کہ پانی کس چیز کی وجہ سے مستعمل ہوتا ہے(تو انہوں نے دونوں مذاہب کا ذکر کیا ہے جیسا کہ ہم نے نقل کیا پھر فرمایا( یہ مشائخ کے قول کی روشنی میں مشکل ہے کہ حدث متجزی نہیں ہوتا، اور اس اشکال سے نجات کی صورت تین امور میں سے ایک امر ہے رفع حدث، تقرب اور سقوط فرض ہی اصل ہے، کیونکہ یہ معلوم ہوچکا ہے کہ اس کی اصل مال زکوٰۃ ہے اور اس میں جو ثابت ہے وہ سقوط فرض ہی اصل ہے، کیونکہ یہ معلوم ہوچکا ہے کہ اس کی اصل مال زکوٰۃ ہے اور اس میں جو ثابت ہے وہ سقوط فرض ہے۔ ت
اقول: ای وان کان الموجود فیہ الامران لکن ھذا اقوی وفیہ المقنع فلا یثبت بہ الا سببیۃ ھذا وان استفید سببیۃ الاخر بدلیل حرمۃ صدقۃ التطوع علیہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم کما قدم فتاثیر اسقاط الغرض ھواول ماثبت بالاصل الاعظم فلا مساغ لاسقاطہ قال والمفید لاعتبار الاسقاط مؤثرا صریح تعلیل ابی حنیفۃ انہ سقط فرضہ عنہ ۱؎ اھ ملتقطا
میں کہتا ہوں اگرچہ اس میں موجود دونوں امر ہیں لیکن یہ اقوی ہے اور اس میں کفایت ہے، تواس سے اس کی سببیت ثابت ہوگی اگرچہ دوسرے کی سببیت بھی ثابت ہوگی، اس کی دلیل یہ ہے کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر نفلی صدقہ حرام ہے جیسا کہ گزرا، تو اسقاط فرض کی تاثیر پہلی چیز ہے جو اصل اعظم سے ثابت ہے تو اس کے ساقط کرنے کا کوئی جواز نہیں فرمایا) اور اسقاط کو مؤثر اعتبار کرنے کیلئے مفید امام ابو حنیفہ کی صریح تعلیل ہے کہ اسکا فرض اس سے ساقط ہوگیا اھ ملتقطا،
(۱؎ فتح القدیر الماء الذی یجوز بہ الوضوء ومالایجوز نوریہ رضویہ سکھر ۱/۷۶)
وعلیک بتلطیف القریحۃ ھذا وقررہ العلامۃ ط تبعاللبحربوجہ اخر حیث قال تحت قول الدر اسقاط فرض ھوالاصل فی الاستعمال کما نبہ علیہ الکمال مانصہ وھوموجود فی رفع الحدث حقیقۃ وفی القربۃ حکما لکونھا بمنزلۃ الاسقاط ثانیا وقدمر ۲؎ اھ
اور تم اپنی طبیعت کو خوشگوار کرو، ہذا، اور علامہ "ط" نے بحر کی متابعت کرتے ہوئے اس کی تقریر دوسرے انداز میں کی ہے، انہوں نے "دُر" کے قول اسقاط فرض ہی استعمال میں اصل ہے کے تحت فرمایا، جیسا کہ کمال نے اس پر تنبیہ فرمائی ہے کہ یہ حدث کو رفع کرنے میں حقیقۃً موجود ہے اور قربت میں حکما ہے، کیونکہ یہ بمنزلہ اسقاط ثانیا ہے اور یہ گزرا اھ
(۲؎ طحطاوی علی الدر باب المیاہ بیروت ۱/۱۱۰)
وما مر ھو قولہ انما استعمل الماء بالقربۃ کالوضوء علی الوضوء لانہ لما نوی القربۃ فقدازداد طھارۃ علی طھارۃ فلا تکون طھارۃجدیدۃ الابازالۃالنجاسۃالحکمیۃ حکما فصارت الطھارۃعلی الطھارۃ وعلی الحدث سواء ۳؎ افادہ صاحب البحر اھ۔
اور جو گزرا وہ ان کا قول ہے، بیشک پانی قربت کی وجہ سے مستعمل ہوتا ہے، جیسے وضو پر وضو کرنا اس لئے جب قربت کا ارادہ کیا تو وہ طہارت کے اعتبار سے زیادہ ہوگیا، تو نئی طہارت نجاست حکمیہ کے ازالہ سے ہی ہوگی حکما، تو طہارت پر طہارت، اور حدث پر طہارت برابر ہوگئی، اس کا افادہ صاحبِ بحر نے کیا اھ ت
(۳؎ بحرالرائق کتاب الطہارت ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/۹۲)
اقول نقلہ عن معراج الدرایۃ واقرو فیہ(۱) بعدلا یخفی فما النجاسۃ لاسیما الحکمیۃ الا اعتبار شرعی والاعتبار الصحیح لایکون الاعن منشأ صحیح وبدونہ اختراع یجل شان الشرع عنہ وقد زال ذلک بالطھر فلا یعود الا بحدث جدید وبعبارۃ اخری ھل اعتبر الشرع ھنا شیأ ینافی الطھر یزول بالماء الثانی فیحصل طھر جدید ام لا علی الثانی عاد السؤال اذلا نجاسۃ حقیقۃ ولا اعتبار او علی الاول ما حقیقۃ النجاسۃ الحکمیۃ الا ذلک الاعتبار الشرعی فلا معنی لتحقق الحکمیۃ حکما لاحقیقۃ وبعبارۃ اخصر ماالحکمیۃ الا اعتبارالشرع فالحکمیۃ حکما اعتبار الشرع انہ اعتبرومااعتبراذلواعتبرلتحققت وبالجملۃ ماماٰل الجواب الافرضھا ھنالک فرضا باطلا ولا مساغ لہ وانا انبئک ان ماافادہ(۱) انما ھو تجشم مستغنی عنہ وذلک لان المعراج انما احتاج الیہ جوابا عن سؤال نصبہ بقولہ فان قیل المتوضیئ لیس علی اعضائہ نجاسۃ لاحقیقۃ ولا حکمیۃ فکیف یصیر الماء مستعملا بنیۃ القربۃ فاجاب بقولہ لما نوی القربۃ فقد ازداد ۱؎ الخ
میں کہتا ہوں اس کو معراج الدرایہ سے نقل کیا اور برقرار رکھا، اس میں بُعد ہے جو مخفی نہیں ہے کیونکہ نجاست، خاص طور پر حکمیہ اعتبار شرعی ہے اور اعتبار صحیح اسی وقت ہوتا ہے جب اس کا منشاء صحیح ہو، اور اس کے بغیر اختراع ہے، شریعت کی شان اس سے بڑی ہے، اور یہ طُہر سے زائل ہوگیا تو صرف نئے حدث سے ہی یہ عود کرے گا، بالفاظ دیگر کیا یہاں شریعت نے کوئی ایسی چیز معتبر مانی ہے جو منافی طہر ہو اور دوسرے پانی سے زائل ہوجائے، تو نئی پاکی حاصل ہو یا معتبر نہیں مانی ہے، دوسری تقدیر پر سوال لوٹ کرآئیگا کیونکہ کوئی حقیقی نجاست نہیں اور نہ ہی اعتباری ہے اور پہلی تقدیر پر نجاست حکمیہ کی حقیقت شرعی اعتبار کے علاوہ اور کیا ہے تو یہ کہنا بے معنی ہے کہ نجاست حکمیہ حقیقۃً نہیں حکماً پائی جاتی ہے اور مختصر عبارت میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ نجاست حکمیہ صرف شرعی اعتبار سے عبارت ہے تو حکمیہ حکما شرع کا یہ اعتبار ہے کہ اس کا اعتبار کیا گیا ہے، اور اعتبار کیا نہیں گیا کیونکہ اگر اعتبار کیا جاتا تو وہ متحقق ہوجاتی۔ خلاصہ یہ کہ جواب کامآل یہ ہے کہ حکمیہ کو وہاں اعتبار کیا جائے بفرض باطل جس کی گنجائش نہیں، اور میں تجھ کو خبر دار کرتا ہوں کہ جس کا اِفادہ انہوں نے کیا ہے وہ محض تکلّف ہے جس کی ضرورت نہیں، اور اسکی وجہ یہ ہے کہ معراج کو اس کی ضرورت اس لئے پڑی کہ انہیں اس سوال کا جواب دینا ہے کہ اگر یہ کہا جائے کہ وضو کرنے والے کے اعضاء پر نہ حقیقی نجاست ہے اور نہ حکمی ہے تو پانی بہ نیت تقرب کیسے مستعمل ہوجائے گا، تو انہوں نے جواب دیا کہ جب اس نے نیت کی تو زیادتی کی الخ۔(ت)
(۱؎ بحرالرائق کتاب الطہارۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/۹۲)