Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲(کتاب الطہارۃ)
15 - 176
فھذا نص صریح علی تجزی الحدث واعتراف باطباق کلمتھم علیہ وھو کذلک فمن نظر کلامھم فی مسائل مسح الخفین وغیرھا ایقن بانھم جمیعا قائلون بتجزیہ وانما الذی لایتجزی ھو تلبس المکلف بالمنع الشرعی فظھر ظھور النھار ان الا یراد علی المتون والعامۃ وتثلیث السبب کلا کان فی غیر محلہ ولا حاجۃ الی ماتجشم(۱) البحر جوابا عن المتون بقولہ الا ان یقال ان الحدث زال عن العضو زوالا موقوفا ثم ضعفہ بقولہ لکن المعلل بہ فی کتاب الحسن عن ابی حنیفۃ اسقاط الفرض لاازالۃ الحدث ۳؎۔
یہ نص صریح ہے حدث کے متجزی ہونے پر اور اس امر کا اعتراف ہے کہ فقہاء اس پر متفق ہیں، اور بات ایسی ہے کیونکہ جو بھی مسح علی الخفین کی بابت فقہاء کے کلام کو دیکھے گا اس کو یقین آجائے گا کہ سب فقہاء حَدَث کے متجزی ہونے کے قائل ہیں، اور جو چیز متجزی نہیں ہوتی ہے وہ مکلّف کا منع شرعی سے متصف ہونا ہے، تو روز روشن کی طرح واضح ہوگیا کہ متون اور عام کتب پر اعتراض اور سبب کی تثلیث سب بے محل ہیں اور جو تکلف بحر نے متون کے جواب میں کیا ہے اس کی چنداں حاجت نہیں، جو اب یہ ہے کہ ''مگر یہ کہ کہا جائے کہ حدث عضو سے زوالِ موقوف کے طور پر زائل ہوا ہے، پھر خود ہی اس کو ضعیف قرار دیا اور فرمایا کہ حسن کی کتاب میں ابو حنیفہ سے اسقاط فرض کی علّت بنانا مروی ہے نہ کہ ازالہ حدث کو۔(ت)
 (۳؎ بحرالرائق    بحث الماء المستعمل    سعید کمپنی کراچی    ۱/۹۲)
اقول بل لاوجہ(۲) لہ لان الحدث بالمعنی الذی لایتجزی اعنی تلبس المکلف بالمانع الشرعی لاقیام لہ بعضو حتی یزول عنہ منجزا اوموقوفا ثم تعلیل(۳) الامام فی ھذا الکلام باسقاط الفرض لاینافی تعلیلہ فی کلام اخر برفع الحدث علی ماقررنا لک بارشاد الھدایۃ ان مؤداھما واحد وقد قال فی الخلاصۃ والتبیین والفتح وغیرھا الماء بماذایصیر مستعملا قال ابو حنیفۃ وابو یوسف اذا ازیل بہ حدث اوتقرب۱؎ بہ الخ وباللّٰہ التوفیق
میں کہتا ہوں دراصل اس کی کوئی وجہ ہی نہیں ہے، کیونکہ حَدَث اُس معنی کے اعتبار سے جس میں وہ منقسم نہیں ہوتاہے یعنی مکلف کا مانع شرعی کے ساتھ متلبس ہونا، اس کا قیام کسی عضو کے ساتھ نہیں، تاکہ وہ اس سے فوری طور پر یا موقوفاً زائل ہوجائے، پھر امام کا اس کلام میں اسقاط فرض کے ساتھ تعلیل کرنا، ان کے دوسرے کلام میں رفع حدث کی علّت بتانے سے متضاد نہیں، جیسا کہ ہم نے ہدایہ کی عبارت سے واضح کردیا ہے کہ دونوں کا ماحصل ایک ہی ہے، اور خلاصہ، تبیین، فتح وغیرہا میں ہے کہ پانی کا مستعمل ہونا ابو حنیفہ اور ابو یوسف کے نزدیک اس وقت ہوگا جب اس سے کوئی حدث زائل کیا جائے یا کوئی تقرب کیا جائے الخ وباللہ التوفیق
 (۱؎خلاصۃ الفتاوٰی        نولکشور لکھنؤ        ۱/۱۷)
ثم جنوح(۴) المحقق فی آخرکلامہ الذی اثرنا عنہ الی ان سقوط الفرض ھو الاصل فی الاستعمال اعتمدہ فی البحر ثم الدر واشار الی الرد علیہ العلامۃ ش بان نقل اولا عن الفتح نفسہ ان المعلوم من جھۃ الشارع ان الاٰلۃ التی تسقط الفرض وتقاٰم بھا القربۃ تتدنس الخ وایضا عنہ مانصہ والذی نعقلہ ان کلا من التقرب والاسقاط مؤثر فی التغیر الا تری انہ انفرد وصف التقرب فی صدقۃ التطوع واثّر التغیر حتی حرمت علی النبی صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم فعرفنا ان کلا اثرتغیرا شرعیا اھ ثم قال بعد نقلھما مقتضاہ ان القربۃ اصل ایضا فالمؤثر فی الاستعمال۲؎ اصلان اھ۔
پھر محقق کا جو کلام ہم نے نقل کیا ہے اس میں ان کا میلان اس طرف ہے کہ پانی کے استعمال سے سقوط فرض ہی اصل ہے بحر اور دُر نے اسی پر اعتماد کیا ہے اور علامہ "ش" نے اس پر رد کی طرف اشارہ کیا ہے، پہلے تو انہوں نے خود ہی فتح سے نقل کیا کہ شارع سے معلوم ہے کہ وہ آلہ جس سے فرض ساقط ہو اور قربۃ ادا ہو میلا ہوجاتا ہے الخ انہوں نے مزید فرمایا کہ جو ہم سمجھتے ہیں وہ یہ ہے کہ تقرب اور اسقاط فرض دونوں ہی تغیر میں مؤثر ہیں، مثلاً وصف تقرب صدقہ تطوع میں منفرد ہے اور تغیر نے اثر کیا یہاں تک کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر حرام ہوگئی، تو ہمیں معلوم ہوا کہ ہر ایک نے شرعی تغیر کا اثر چھوڑا ہے اھ پھر دونوں کو نقل کرنے کے بعد فرمایا کہ اس کامقتضی یہ ہے کہ قربۃ بھی اصل ہے تو استعمال میں مؤثر دو اصلیں ہیں اھ ت
 (۲؎ردالمحتار    باب المیاہ    مصطفی البابی مصر    ۱/۱۴۶)
اقول کلام(۱) المحقق من اولہ الی اخرہ طافح باثبات الاصالۃ بھذا المعنی ای مایبتنی علیہ الحکم بتدنس الماء للقربۃ والاسقاط جمیعا بل ھو الذی ثلث واقام اصولا ثلثۃ وما کان لیقرر ھذا کلہ ثم فی طی نفس الکلام یحصر الاصالۃ فی شیئ واحد وانما منشأ کلامہ انہ رحمہ اللّٰہ تعالی نقل عنھم ان الاستعمال عند الشیخین باحد شیئین رفع الحدث والتقرب وعند محمد بالتقرب وحدہ وحمل رفع الحدث علی المعنی الذی لایتجزی فتطرق الا یراد بالفروع التی حکم فیھا باستعمال الماء مع بقاء الحدث فقرر ان اسقاط الفرض ایضا مؤثر واستدل علیہ بکلام الامام فی کتاب الحسن وبان الاصل الذی عرفنا بہ ھذا الحکم ھو مال الزکاۃ والثابت فیہ لیس الاسقوط الفرض ای وان اثبتناہ ایضا بالتقریب بدلیل آخر فالاصل الذی ارشدنااولاالی ھذاالحکم ھوسقوط الفرض فکیف یعزل النظرعنہ بل یجب القول بہ وھذالاینافی ان الاصول اثنان بل ثلثۃ ینقدح ھذا المعنی فی ذھن من جمع اول کلامہ باٰخرہ حیث یقول المعلوم من جہۃ الشارع ان الۃ تسقط الفرض وتقام بھا القربۃ تتدنس اصلہ مال الزکاۃ تدنس باسقاط الفرض حتی جعل من الاوساخ فی لفظہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم ۱؎ الخ
میں کہتا ہوں محقق کا کلام از اوّل تاآخر سطحی ہے کہ اس میں اصالت اس معنی کے اعتبار سے ثابت کی ہے، یعنی وہ چیز جس پر حکم کی بنا ہو، پانی کے ادائے قربت کی وجہ سے میلا ہوجانے کے باعث اور اسقاطِ فرض کے باعث، بلکہ وہی ہیں جنہوں نے تثلیث کی اور تین اصول مقرر کئے، اور وہ یہ تقریر کرکے پھر ان میں سے ایک چیز پر اصالت کو منحصر نہیں کررہے، اُن کے کلام کا اصل مقصد یہ ہے کہ وہ اُن(رحمہم اللہ) سے یہ نقل کررہے ہیں کہ شیخین کے نزدیک استعمال دو چیزوں میں سے ایک کی وجہ سے ہوتا ہے، رفعِ حدث اور تقرب، اور محمد کے نزدیک صرف تقرب سے اور رفعِ حدث کو اس معنی پر محمول کیا کہ اس میں تجزّی نہیں ہوتی، اِس بنا پر اُن فروع کی وجہ سے اعتراض وارد ہوا جن میں پانی کے استعمال کا حکم ہوا حدث کے باقی ہوتے ہوئے، انہوں نے اس امر کو ثابت کیا اسقاط فرض بھی مؤثر ہے، اور اس پر انہوں نے امام کے کلام سے استدلال کیا ہے جو کتاب حسن میں مذکور ہے اور یہ استدلال بھی کیا ہے کہ وہ اصل جس کی وجہ سے ہم نے یہ حکم جانا ہے وہ زکوٰۃ کا مال ہے اور اس میں صرف فرض کا سقوط ہے، یعنی اگرچہ ہم اس کو کسی اور دلیل کی وجہ سے تقرب سے ثابت کریں تو وہ اصل جو ہم نے پہلے سے بتائی ہے اور جس سے یہ حکم ثابت ہوا ہے وہ سقوط فرض ہے تو اُس سے صرفِ نظر کیونکر ممکن ہے بلکہ اس کوماننا لازم ہے،اور یہ اس امر کے منافی نہیں کہ اصول دو ہیں بلکہ تین ہیں یہ معنی اس کے دل میں ضرور خلجان پیدا کریں گے جو اُن کے اول کلام اور آخر کلام کو یکجا کرکے پڑھے گا، وہ کہتے ہیں کہ وہ آلہ جس سے فرض ساقط ہوتا ہے اور قربت ادا ہوتی ہے میلا ہوجاتا ہے اس کی اصل مال زکوٰۃ ہے کہ وہ اسقاط فرض سے میلا ہوجاتا ہے اس لئے اس کو حدیث میں ''اوساخ'' قرار دیا گیا ہے الخ
 (۱؎ فتح القدیر     باب الماء الذی یجوز بہ الوضوء و مالا یجوز    نوریہ رضویہ سکھر    ۱/۷۵)
Flag Counter