فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲(کتاب الطہارۃ) |
فاقول(۱) المانع الشرعی ای مالاجلہ المنع ھی النجاسۃ الحکمیۃ والمنتسب الیھا تلبس المکلف بھا والفرق بینھما ان النجاسۃ وصف شرعی یحل بسطوح الاعضاء الظاھرۃ حلول سریان والسطح ممتد منقسم فتنقسم النجاسۃ بانقسامھا فتقبل التجزی ثبوتا ورفعا امارفعا فظاھر فانہ اذا غسل الید مثلا زالت النجاسۃ عنھا ولذا سقط عنھا فرض التطھیر مع بقاء النجاسۃ فی سائرالاعضاء التی حلتھا واما ثبوتا فلان الحدث الاصغر انما ینجس اربعۃ اعضاء والاکبر البدن کلہ وسنعود الی الکلام فی ھذا عنقریب ان شاء اللّٰہ تعالی
میں کہتا ہوں مانع شرعی یعنی جس کی وجہ سے منع ہے وہ نجاست حکمیہ ہے، اور جو اس کی طرف منسوب ہے وہ مکلّف کا اُس کے ساتھ ملتبس ہونا ہے، اوردونوں میں فرق یہ ہے کہ نجاست شرعی وصف ہے جو اعضاء ظاہرہ کی سطحوں کے ساتھ قائم ہوتا ہے، اور یہ حلول سریانی ہوتا ہے اور سطح ممتد اور منقسم ہے تو اس کی تقسیم کی وجہ سے نجاست بھی منقسم ہوجائے گی، تو یہ رفعاً اور ثبوتاً تجزی کو قبول کرے گا، رفعاً تو ظاہر ہے، کیونکہ مثلاً اس نے ہاتھ تین بار دھویا تو اس سے نجاست زائل ہوجائے گی، اور اسی لئے اس سے فرض تطہیر ساقط ہوگیا جبکہ باقی اعضاء میں نجاست باقی ہے اور ثبوتاً اس طرح کہ حَدَث اصغر چار اعضاء کو ناپاک کرتا ہے اور اکبر تمام بدن کو، ہم عنقریب اس پر کلام کریں گے اِن شاء اللہ تعالٰی۔
اما تلبس المکلف بھا ای اصطحابہ لہا فوصف للمکلف یحدث بحلول النجاسۃ فی ای جزء من اجزاء بدنہ ویبقی ببقائھا فی شیئ منھا فان زادت النجاسۃ لم یزدوان نقصت لم ینتقص بل اذا حدثت حدث ومھما بقیت ولوکاقل قلیل بقی کملا واذا زالت بالکلیۃ زال وکان نظیرھما الحرکۃ بمعنی القطع وبمعنی التوسط فالاول متجزئۃ لانطباقھا علی المسافۃ المتجزئۃ والثانیۃ لاجزء لھا بل تحدث بحدوث اول جزء من اجزاء الاولی وتبقی بحالھا مادام المتحرک بین الغایتین فاذ اسکن زالت دفعا فانقلت لم لایحمل کلام البحر علی ھذا کی یثبت التغایر بین الحدین کمافھم النھر والدر ویوافق لما اعترض بہ تبعا للفتح کلام العامۃ والمتون ان الحدث لایتجزی۔
رہا نجاست کے ساتھ مکلّف کا متلبس ہونا، تو یہ مکلّف کا وصف ہے جو نجاست کے حلول سے پیدا ہوتا ہے، خواہ اس کے بدن کے کسی جزء میں بھی ہو، اور حدث اس وقت تک باقی رہے گا جب تک نجاست کسی بھی عضو میں باقی رہے، تو اگر نجاست زیادہ ہوجائے تو حدث زیادہ نہ ہوگا، اور نجاست اگر کم ہو تو حدث کم نہ ہوگا، بلکہ جب بھی نجاست وجود میں آئے گی حدث وجود میں آئے گا اور جب تک باقی رہے گی خواہ کم سے کم ہو تو حدث بھی مکمل طور پر باقی رہے گا اور جب نجاست بالکلیہ زائل ہوجائے گی تو حدث بھی زائل ہوجائے گا، ان دونوں کی نظیر حرکۃ بمعنی قطع ہے اور حرکۃ بمعنی توسط کے ہے، تو پہلی منقسم ہے کیونکہ وہ مسافتِ منقسمہ پر منطبق ہوتی ہے اور دوسری کا کوئی جزء نہیں بلکہ پہلی حرکۃ کے پہلے جز کے پیدا ہونے پر پیدا ہوتی ہے اور اسی طرح باقی رہتی ہے جب تک دونوں غایتوں کے درمیان متحرک رہے اور جب پُر سکون ہوگا تو حرکت یک دم ختم ہوجائے گی۔ اگر تو کہے کہ بحر کے کلام کو اس پر کیوں محمول نہ کر لیاجائے تاکہ دونوں تعریفوں میں تغایر ظاہر ہوجائے جیسا کہ نہر اور دُر نے سمجھا ہے اور موافق ہوجائے اس اعتراض کے ساتھ جو انہوں نے فتح کی متابعت میں عام کتب اور متون پر کیا ہے کہ حَدَث منقسم نہیں ہوتا۔(ت)
قلت یاباہ قولہ قائمۃ بالاعضاء فان التلبس الذی لاتجزی لہ انما یقوم بالمکلف نفسہ لابالاعضاء والذی یقوم بھا یتجزی بتجزیھا کما عرفت امامخالفتہ لماذکرمن عدم التجزی فاقول لا(۱) غروفھو القائل فی باب شروط الصلاۃ متصلا بھذا التعریف بلا فصل مانصہ والخبث عین مستقذرۃ شرعا وقدم الحدث لقوتہ لان قلیلہ مانع بخلاف قلیل الخبث ۱؎ اھ
میں کہتا ہوں اس تاویل سے ان کا قول ''قائمۃ بالاعضاء'' انکار کرتا ہے، کیونکہ تلبس جو ایک غیر متجزی شیئ ہے، وہ بذاتِ خود مکلّف کے ساتھ قائم ہوتا ہے نہ کہ اُس کے اعضاء کے ساتھ، اور جو چیز اعضاء کے ساتھ قائم ہے وہ اعضاء کی تجزی کے باعث متجزی ہوتی ہے جیسا کہ آپ نے پہچانا اور اس کی مخالفت عدم تجزی سے، تو میں کہتا ہوں کہ اس پر کوئی تعجب نہ ہونا چاہئے کیونکہ وہ خود ہی اس تعریف کے متصلا بعد ''باب شروط الصّلوٰۃ'' میں فرماتے ہیں ''اور خُبث وہ چیز ہے جو شرعاً گندی ہو، اور حدث کو اس کی قوت کے باعث مقدم کیا کیونکہ اس کا قلیل بھی مانع ہے بخلاف قلیل خبث کے اھ
(۱؎ بحرالرائق شروط الصلوٰۃ سعید کمپنی کراچی ۱/۲۶۶)
فقد افصح بتجزی الحدث وقال متبوعہ المحقق علی الاطلاق فی الفتح کلمتھم متفقۃ علی ان الخف اعتبر شرعاما نعا سرایۃ الحدث الی القدم فتبقی القدم علی طھارتھا ویحل الحدث بالخف فیزال بالمسح ۲؎ اھ
یہاں انہوں نے بوضاحت حدث کے منقسم ہونے کا قول کیا ہے، اور اُن کے مقتدا محقق علی الاطلاق نے فتح میں فرمایا تمام فقہاء اس پر متفق ہیں کہ موزہ شرعا قدم کی طرف حدث کی سرایۃ کو قدم تک روکنے والا ہے، تو قدم بدستور پاک رہے گا اور حدث موزہ میں داخل ہوجائے گا، لہٰذا مسح سے اس کو زائل کرد یا جائے گا اھ
(۲؎ فتح القدیر مسح الخفین سکھر ۱/۱۲۸)