ثم اقول لو ان(۲) المحقق علی الاطلاق حانت منہ التفاتہ ھناالی کلام مشروحہ الھدایۃ لما جنح الی تثلیث السبب ولظھرلہ الجواب ایضا عما اعترض بہ کلام العامۃ والمتون وذلک ان الامام صاحب الھدایۃ قدس سرہ عبر فی المسألۃ بما ازیل بہ حدث اواستعمل قربۃ وقال فی الدلیل اسقاط الفرض مؤثر ایضا فیثبت الفساد بالامرین ۱؎
پھر میں کہتا ہوں اگر محقق علی الاطلاق صاحبِ ہدایہ کے کلام پر توجہ دیتے تو تثلیث سبب کی طرف متوجہ نہ ہوتے اور جو عام کتب اور متون سے اعتراض ہوتا تھا اُس کا جواب بھی ظاہر ہوجاتا، اس کی وجہ یہ ہے کہ صاحبِ ہدایہ نے مسئلہ میں یہ تعبیر کی ہے کہ وہ پانی جس سے حدث زائل کیا گیا ہو یا بطور قربت استعمال کیا گیا ہو، اور دلیل میں فرمایا کہ اسقاط فرض بھی مؤثر ہے تو فساد دونوں امروں سے ظاہر ہوگا ۔
(۱؎ الہدایۃ باب الماء الذی لایجوز بہ الوضوء المکتبہ العربیۃ ۱/۱۲۲)
فافادان المراد بزوال الحدث ھو سقوط الفرض وان مؤداھما ھھنا واحد ولا شک ان سقوط الفرض عن عضو دون عضو بل عن بعض عضو دون بعضہ الاخر ثابت متحقق وان لم یترتب علیہ احکام ارتفاع الحدث وھو کما قدمت الاشارۃ الیہ فی بیان الفروع لیشمل مااذا تطھر کاملا اوغسل شیئا من اعضائہ بل عضوہ فلا تثلیث ولا اعتراض بعدم التجزی وتحقیقہ(۱) ماافادہ فی المنحۃ نقلا عن العلامۃ نوح افندی فی حواشی الدررناقلا عن الشیخ قاسم فی حواشی المجمع ان الحدیث یقال بمعنیین المانعیۃ الشرعیۃ عما لایحل بدون الطھارۃ وھذا لایتجزئ بلا خلاف عند ابی حنیفۃ وصاحبیہ وبمعنی النجاسۃ الحکمیۃ وھذا یتجزئ ثبوتا وارتفاعا بلا خلاف عند ابی حنیفۃ و عــــہ اصحابہ وصیرورۃ الماء مستعملا بازالۃ الثانیۃ ففی مسألۃ البئر سقط الفرض عن الرجلین بلا خلاف والماء الذی اسقط الفرض صار مستعملا بلا خلاف علی الصحیح اھ قال العلامۃ نوح ھذا ھو التحقیق فخذہ فانہ بالاخذ حقیق ۱؎ اھ
اس سے معلوم ہوا کہ زوالِ حدث سے مراد سقوط فرض ہے اور دونوں کا نتیجہ ایک ہی ہے اور اس میں شک نہیں کہ فرض کا سقوط ایک عضو سے نہ کہ دوسرے عضو سے، بلکہ بعض عضو سے نہ کہ دوسرے بعض سے ثابت متحقق ہے اگرچہ اس پر ارتفاع حدث کے احکام مترتب نہیں ہوتے ہیں اور یہ جیسا کہ میں اشارہ کرچکا ہوں بیان فروع میں اُس صورت کو بھی شامل ہے جبکہ پوری طرح طہارت کی یا کچھ اعضاء دھوئے بلکہ اپنے ایک عضو کا حصّہ دھویاتو نہ تثلیث ہوگی اور نہ عدم تجزی کا اعتراض ہوگا، اس کی تحقیق منحہ میں علامہ نوح آفندی کی اُس تحقیق سے منقول ہے جو درر کے حواشی میں منقول ہے اور جو حواشی مجمع میں شیخ قاسم سے منقول ہے کہ حَدَث کا اطلاق دو معنی میں ہوتا ہے، ایک تو یہ کہ جو چیز بلا طہارت جائز نہ ہو اُس کی شرعی ممانعت، اور یہ چیز ابو حنیفہ اور ان کے صاحبین کے درمیان بالاتفاق غیر متجزی ہے، اور دوسرا بمعنی نجاست حکمیہ، اور یہ چیز ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب کے درمیان بالاتفاق متجزی ہے ثبوتاً بھی اور ارتفاعاً بھی، اور پانی جو مستعمل ہوتا ہے تو دوسرے معنی کے ازالہ سے ہوتا ہے، تو کنوئیں کے مسئلہ میں دونوں پیروں کا فرض ساقط ہوگیا اور وہ پانی جو اسقاط فرض میں استعمال ہوا مستعمل ہوگیا، صحیح قول کے مطابق اس میں کوئی اختلاف نہیں، اھ علامہ نوح آفندی نے فرمایا تحقیق یہی ہے اور اسی کو اختیار کرنا چاہئے اھ۔(ت)
عــــہ:اقول قال فی الاول عند ابی حنیفۃ وصاحبیہ لان من المشائخ من قال بتجزیہ حتی اجاز للجنب القراء ۃ بعد المضمضۃ للمحدث المس بعد غسل الید وقال ھھنا واصحابہ لان تجزی ھذا لاخلاف فیہ عند مشائخنا اھ منہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ۔
اقول پہلے کے متعلق امام ابو حنیفہ کے ساتھ صاحبیہ تثنیہ کا صیغہ ذکر کیا ہے کیونکہ بعض مشائخ نے کہا جنبی کو قرأت کیلئے کُلّی کافی ہے اور محدث کو مسِ مصحف کیلئے ہاتھ دھونا کافی ہے اور یہاں دوسرے معنی میں اصحاب جمع کا صیغہ ذکر کیا ہے کیونکہ اس کو سب نے کافی کہا ہمارے مشائخ کا اس میں اختلاف نہیں اھ(ت)
(۱؎ منحۃ الخالق علی حاشیۃ بحرالرائق بحث الماء المستعمل ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/۹۲)
اقول بل(۱) اختار فی غایۃ البیان ثم النھر ثم الدران حقیقۃ الحدث ھو المعنی الثانی قال فی البحر تبعا للفتح الحدث مانعیۃ شرعیۃ قائمۃ بالاعضاء الی غایۃ استعمال المزیل ۲؎ اھ
میں کہتا ہوں غایۃ البیان، نہر اور دُر نے دوسرے معنی کو مختار قرار دیا ہے، بحر میں فتح کی متابعت کرتے ہوئے فرمایا حدث شرعی مانعیت ہے جو اعضاء کے ساتھ اس وقت تک قائم رہتی ہے یہاں تک کہ زائل کرنے والی چیز استعمال کی جائے،
(۲؎ بحرالرائق باب شروط الصّلوٰۃ سعید کمپنی کراچی ۱/۲۶۷)
نھر اور دُر میں ہے کہ یہ حکم کے ساتھ تعریف ہے، اور غایۃ البیان میں اس کی تعریف یہ ہے کہ وہ ایک ایسا وصف ہے جو اعضاء میں حلول کرتا ہے اور طہارت کو زائل کرتا ہے
(۳؎ درمختار کتاب الطہارت مجتبائی دہلی ۱/۱۶)
قال وحکمہ المانعیۃ لما جعلت الطہارۃ شرطا لہ الخ ونظر فیہ ش نقلا عن حاشیۃ الشیخ خلیل الفتال عازیا لبعض الفضلاء بان حکم الشیئ ماکان اثرالہ خارجا عنہ مترتبا علیہ والمانعیۃ المذکورلیست کذلک وانما حکم الحدث عدم صحۃ الصلاۃ معہ وحرمۃ مس المصحف ونحو ذلک فالتعریف بالحکم کأن یقال الحدث مالا تصح الصلاۃ معہ تأمل۱؎ اھ
فرمایا کہ اس کا حکم مانعیت ہے اس چیز کی جس کیلئے طہارت شرط ہے الخ اور "ش" نے اس میں حاشیہ شیخ خلیل فتال سے نقل کرتے ہوئے نظر کی ہے، اور اس کو بعض فضلاء کی طرف منسوب کیا ہے کہ ہر چیز کا حکم اس کے اثر کو کہتے ہیں جو اس سے خارج ہو اور اس پر مرتب ہو اور مذکورہ مانعیت اس قسم کی نہیں ہے، اور حدث کا حکم تو یہی ہے کہ اس کے ساتھ نماز درست نہیں ہوتی اور مصحف کو نہیں چُھوا جاسکتا ہے اور اسی قسم کے دوسرے احکام، تو تعریف بالحکم اس طرح ہوسکتی ہے کہ حدث وہ چیز ہے جس کے ساتھ نماز درست نہ ہو، تامل اھ
(۱؎ ردالمحتار کتاب الطہارت مصطفی البابی مصر ۱/۶۳)
قال ش علی(۱)ان التعریف بالحکم مستعمل عند الفقہاء لان الاحکام محل مواقع انظارھم ۲؎ اھ
"ش" نے فرمایا کہ علاوہ ازیں تعریف بالحکم فقہاء کے نزدیک مستعمل ہے کیونکہ احکام ہی سے وہ بحث کرتے ہیں اھ
(۲؎ ردالمحتار کتاب الطہارت مصطفی البابی مصر ۱/۶۳)
وقد اشارالیہ ط وقال علی قولہ مانعیۃ ای کونہ مانعا من الصلاۃ ومس المصحف والاظھر ان یقال مانع شرعی ۳؎ اھ
اور "ط" نے بھی اس کی طرف اشارہ کیا ہے اور ''مانعیت'' پر فرمایا کہ اس کا نماز سے مانع ہونا اور مصحف کے چُھونے سے مانع ہونا ہے اور اظہریہ ہے کہ کہا جائے کہ یہ مانع شرعی ہے اھ (ت)
(۳؎ طحطاوی علی الدر کتاب الطہارت مصطفی البابی بیروت ۱/۵۶)
اقول وباللّٰہ التوفیق کلام(۲) المعترضین علی البحر کلہ بمعزل عن غوص القعرفان مبناہ طرا علی ان تعریف البحر غیر تعریف الغایۃ ولا دلیل علیہ فان المانعیۃ بمعنی الحال فضلا عن کونہ ممالا قیام لہ بموضوع لعدم کونہ من الصفات المنضمۃ لاقیام لھا بالاعضاء اصلا فانھا غیر مانعۃ حتی تکون لھا مانعیۃ وبمعنی النسبۃ ای شیئ لہ انتساب الی مانع شرعی صادق قطعا علی ذلک الوصف الشرعی الذی یحل بالاعضاء فیزیل طھرھا لان المانع ھو الخطاب الشرعی والمنتسب الیہ ما لاجلہ وردالخطاب و ھی النجاسۃ الحکمیۃ وھی بعینہا ذلک الوصف القائم بالاعضاء فرجع التعریف الی تعریف الغایۃ فلا خلاف ولا خلف الا تری ان تلمیذ المحقق علی الاطلاق اعنی المحقق الحلبی عرف الحدث فی الحلیۃ بانہ الوصف الحکمی الذی اعتبر الشارع قیامہ بالاعضاء مسبباعن الجنابۃ والحیض والنفاس والبول والغائط وغیرھما من نواقض الوضوء ومنع من قربان الصّلاۃ وما فی معناھا معہ حال قیامہ بمن قام بہ الی غایۃ استعمال مایعتبر بہ زائلا ۱؎ اھ
میں بتوفیقِ الٰہی کہتا ہوں معترضین کے بحر پر اعتراضات گہرائی سے خالی ہیں، کیونکہ ان کی بنیاد اس پر ہے کہ بحر کی تعریف غایہ کی تعریف سے مختلف ہے اور اس پر کوئی دلیل نہیں کیونکہ مانعیت بمعنی حال ہے اس سے قطع نظر کہ وہ صفات منضمہ میں سے نہ ہونے کی بنا پر اپنے موضوع کے ساتھ قائم نہیں ہوتی، اس کا اعضاء کے ساتھ قیام بالکل ہوتا ہی نہیں کیونکہ اعضاء مانع نہیں تاکہ انکے ساتھ مانعیت قائم ہو اور بمعنی نسبت کے یعنی وہ شے جس کا کسی مانع شرعی کی طرف انتساب ہو یہ قطعاً اس وصف شرعی پر صادق آتی ہے جو اعضاء میں حلول کرتا ہے اور ان کی طہارت کو زائل کرتا ہے اس لئے کہ مانع وہ خطاب شرعی ہے، اور اس کی طرف منسوب وہ چیز ہے جس کی وجہ سے خطاب وارد ہوا، اور وہی نجاستِ حکمیہ ہے، اور وہ بعینہا وہ وصف ہے جو اعضاء کے ساتھ قائم ہے تو تعریف، غایہ والی تعریف کی طرف لوٹ آئی تو کوئی خلاف نہیں اور نہ خلف ہے،
(۱؎ حلیہ)
وھو کما تری لیس الا بسطا لما اجملہ شیخہ المحقق وما ھو الاعین ماعرف بہ فی الغایۃ ولو قال مانع شرعی کما استظھرہ العلامۃ ط لکان ایضا مرجعہ الی ذلک لان ذلک الوصف الشرعی وھی النجاسۃ مانع شرعی بمعنی مالاجلہ المنع واستعمال المانع بھذا المعنی شائع ذائع غیران(۱) المحقق ابقاہ علی حقیقتہ فاتی بالنسبۃ فلا وجہ وجیھا للاستظھار ثم من اوضح(۲) دلیل علیہ ان البحر مغترف فی ھذا الحد من مناھل فتح القدیر کما ذکرہ فی ردالمحتار وقد قال المحقق فی الفتح مستدلالروایۃ الحسن وابی یوسف عن الامام الاعظم ان الماء المستعمل نجسا مغلظا اومخففا مانصہ ۱؎
کیا تم نہیں دیکھتے کہ محقق علی الاطلاق کے شاگرد محقق حلبی نے حلیہ میں حدث کی تعریف اس طرح کی ہے کہ وہ ایک وصف حکمی ہے کہ شارع نے اعضاء کے ساتھ اس کے قیام کا اعتبار کیا ہے، اور یہ جنابۃ، حیض، نفاس، پیشاب اور پاخانہ وغیرہما نواقض وضو کے باعث ہوتا ہے، اور یہ چیز نماز کے قریب جانے سے مانع ہوتی ہے، یا جو چیز نماز کے حکم میں ہو، یہ مانعیت اس وقت تک رہتی ہے جب تک یہ وصف اُسی شخص کے ساتھ قائم رہے، یہاں تک کہ وہ اس چیز کو استعمال کرے جو اس کو زائل کرنے والی ہے اھ یہ تعریف جیسا کہ آپ دیکھتے ہیں اُسی چیز کا بسط ہے جس کا اجمال ان کے شیخ محقق نے کیا ہے اور یہ بعینہ وہی تعریف ہے جو غایہ میں ہے، اور مانع شرعی کہتے جیسا کہ علامہ "ط" نے فرمایا اس کا بھی ماحصل یہی ہے کیونکہ وہ وصف شرعی، جو نجاست ہے مانع شرعی ہے اس معنی کے اعتبار سے کہ یہ وہ چیز ہے جس کی وجہ سے منع ہے، اور مانع کا استعمال اس معنی میں شائع وذائع ہے،البتہ محقق نے اس کو اس کی حقیقت پر باقی رکھا ہے، تو نسبت کولائے ہیں تو استظہار کی کوئی معقول وجہ نہیں، پھر اُس پر واضح ترین دلیل یہ ہے کہ بحر نے بھی اس تعریف میں فتح القدیر سے استفادہ کیا ہے، جیسا کہ اس کو ردالمحتار میں ذکر کیا ہے اور محقق نے فتح میں ابو یوسف اور حسن کی ابو حنیفہ سے روایت پر استدلال کیا ہے کہ مستعمل پانی نجاست غلیظہ ہے یا نجاست خفیفہ ہے،
( ۱؎ فتح القدیر بحث الماء المستعمل نوریہ رضویہ سکھر ۱/۷۴)
وجہ روایۃ النجاسۃ قیاس اصلہ الماء المستعمل فی النجاسۃ الحقیقیۃ والفرع المستعمل فی الحکمیۃ بجامع الاستعمال فی النجاسۃ بناء علی الغاء وصف الحقیقی فی ثبوت النجاسۃ وذلک(۱) لان معنی الحقیقی لیس الا کون النجاسۃ موصوفا بھا جسم مستقل بنفسہ عن المکلف لاان وصف النجاسۃ حقیقۃ لاتقوم الابجسم کذلک وفی غیرہ مجازبل معناہ الحقیقی واحد فی ذلک الجسم وفی الحدث لانہ لیس المتحقق لنا من معناھا سوی انھا اعتبار شرعی منع الشارع من قربان الصلاۃ والسجود حال قیامہ لمن قام بہ الی غایۃ استعمال الماء فیہ فاذا استعملہ قطع ذلک الاعتبار کل ذلک ابتلاء للطاعۃ فاما ان ھناک وصفا حقیقیا عقلیا اومحسوسا فلا ومن ادعاہ لایقدر فی اثباتہ علی غیرالدعوی ویدل علی انہ اعتبار اختلافہ باختلاف الشرائع الاتری ان الخمر محکوم بنجاسۃ فی شریعتنا وبطھارتہ فی غیرھا فعلم انھا لیست سوی اعتبار شرعی الزم معہ کذا الی غایۃ کذا ابتلاء وفی ھذا لاتفاوت بین الدم والحدث فانہ ایضا لیس الانفس ذلک الاعتبار۱؎ اھ
جس روایت میں اس کو نجاست قرار دیا گیا ہے وہ قیاس کی بنیاد پر ہے اس قیاس کی اصل وہ پانی ہے جو نجاست حقیقیہ میں مستعمل ہو، اور اس کی فرع وہ پانی ہے جو نجاست حکمیہ میں مستعمل ہو، اور علّۃجامعہ، نجاست میں استعمال ہے،بناء کرتے ہوئے کہ وصف حقیقی ثبوت نجاست میں لغو ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ حقیقی کا مفہوم یہ ہے کہ اس نجاست سے ایسا جسم متصف ہو جو بنفسہ مکلف سے مستقل ہو یہ نہیں کہ وصف نجاست حقیقۃً ایسے ہی جسم کے ساتھ قائم ہوتی ہے اور اس کے غیر میں مجاز ہے،بلکہ اس کے حقیقی معنی ایک ہیں اس جسم میں اور حَدَث میں، اس لئے کہ ہمیں تحقیقی طور پر جو معنی معلوم ہیں وہ یہ ہیں کہ وہ ایک شرعی اعتبار ہے کہ جب تک وہ موجود ہو تو شارع نے اس کو جو اس کے ساتھ متصف ہو نماز وغیرہ کے قریب جانے سے منع کیا ہے تاوقتیکہ وہ اس میں پانی کو استعمال نہ کرے، جب وہ پانی استعمال کرلے گا تو وہ اعتبار ختم ہوجائے گا، یہ سب طاعت کی ابتلا ہے، رہی یہ بات کہ یہاں کوئی وصف عقلی حقیقی یا محسوسی ہے، تو ایسی کوئی بات نہیں، اور جو اس کا دعوٰی کرتا ہے تو محض دعوی ہی ہے، اور اس کے اعتباری ہونے کی دلیل ہے کہ یہ شریعتوں کے مختلف ہونے سے مختلف ہوتا رہتا ہے، مثلاً شراب ہماری شریعت میں ناپاک ہے اور دوسری شریعتوں میں پاک ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ نجاست محض شرعی اعتبار سے یہ اتنی سے اتنی مدّت تک کیلئے لازم کیا گیا ہے ابتلاءً اور اس میں خون اور حَدَث میں کوئی تفاوت نہیں کیونکہ یہ بھی ویسا ہی اعتبار ہے اھ
(۱؎ فتح القدیر بحث الماء المستعمل نوریہ رضویہ سکھر ۱/۷۵)
فھذانص صریح فی ان تلک المانعیۃ الشرعیۃ المغیاۃ الی استعمال المزیل لیست الا النجاسۃ الحکمیۃ فاتحد التعریفان۔
تو یہ اس امر میں نص صریح ہے کہ یہ مانعیت شرعیہ جس کی انتہا مُزیل کا استعمال ہے، نجاست حکمیہ ہی ہے تو دونوں تعریفیں متحد ہوگئیں۔ ت
ثم اقول(۱) التعریف(۲) بالحکم ان ارید بہ ان یجعل الحکم نفس المعرّف بحیث یحمل ھوعلی المعرَّف فنعم یسقط ایراد النہر والدر فان المانعیۃ بالمعنی المذکور وھی النجاسۃ الحکمیۃ لیست اثرامترتباعلی الحدث بمعنی الوصف الشرعی بل ھی ھو کما عرفت وح لایستقیم ایضا قول المجیب ان التعریف بالحکم کأن یقال ھو مالا تصح الصلاۃ معہ فان مالاتصح لیس حکما بل الحکم کما اعترف عدم الصحۃ ولم یعرف بہ وانما یکون تعریفاً بالحکم لوقیل الحدث عدم صحۃ الصلاۃ ویتکدر ایضا جواب ط وش بانہ مستعمل عند الفقہاء فان المستعمل عندھم ذکر الحکم فی التعریف لاحمل الاثر علی المؤثر وان ارید بہ ان یمیزالمحدود بذریعۃ الحکم بان یعطی انہ الذی یؤثر ھذا الاثرفنعم یستقیم تمثیل المجیب التعریف بالحکم بما ذکر لکن یسقط ح اصل جوابہ بان المانعیۃ لیست حکما فان التعریف بالحکم لیس اذن ان یکون المحمول عین الحکم بل ماذکر فیہ الحکم وھو حاصل فی التعریف المذکور قطعا لاشتمالہ علی منع المکلف من اشیاء مخصوصۃ مادام ذلک الوصف قائما بہ اتینا علی الایراد وھو علی ھذا اشد سقوطا وابین غلطا فان الذی اختارہ الموردون لایخ ایضا عن التعریف بالحکم لذکرھم فیہ زوال الطھارۃ وما ھو الا الاثر المترتب علی ذلک الوصف الشرعی واذن یکفی جوابا عن کلا الحدین ماذکر ط و ش وبالجملۃ فایقاع التغایربین الحدین لاداعی لہ وایراد النھر والدر لاصحۃ لہ وجواب الفتال عن بعض الفضلاء لایخلوعن خلط وغلط بقی الکلام علی المعنی الاول الذی ذکرہ العلامۃ قاسم وکیف تباینہ للمعنی الثانی۔
پھر میں کہتا ہوں تعریف بالحکم سے مراد اگر یہ ہے کہ حکم کو معرِّف بنا دیا جائے کہ وہ معرَّف پر محمول ہو تو نہر اور دُر کا اعتراض رفع ہوجائے گا، کیونکہ مانعیت بالمعنی المذکور یعنی نجاست حکمیہ کے معنی میں، حَدَث پر مترتب ہونے والا اثر نہیں ہے، یعنی وصف شرعی کے معنی میں بلکہ یہ وہی ہے جیسا کہ تم نے پہچانا۔ اور اس صورت میں مجیب کا یہ قول درست نہ ہوگا کہ تعریف بالحکم مثلاً یہ کہا جائے کہ حَدَث وہ ہے کہ جس کے ہوتے ہوئے نماز درست نہ ہو، کیونکہ ''وہ جس کے ہوتے ہوئے نماز صحیح نہ ہو'' یہ جملہ حکم نہیں ہے بلکہ حکم جیسا کہ انہوں نے اعتراف کیا، عدمِ صحت ہے، اور اس سے انہوں نے تعریف نہیں کی ہے، اور تعریف بالحکم اس صورت میں ہوتی جب یہ کہا جاتا کہ حَدَث نماز کا صحیح نہ ہونا ہے، اور ط و ش کا جواب بھی اس صورت میں مکدّر ہوجائے گا کہ اس قسم کی تعریف فقہاء کے یہاں مستعمل ہے، کیونکہ ان کے یہاں مستعمل تعریف میں حکم کا تذکرہ ہے نہ یہ کہ اثر کو مؤثر پر محمول کرلیا جائے، اور اگر اس سے یہ ارادہ کیا جائے کہ محدود کو بذریعہ حکم ممیز کیا جائے یعنی یہ کہا جائے کہ یہی ہے جو یہ اثر کررہا ہے تو اس صورت میں مجیب کی یہ مثال جو انہوں نے تعریف بالحکم کیلئے پیش کی ہے درست قرار پائے گی، مگر اس وقت ان کا اصل جواب ختم ہوجائے گا، یعنی یہ کہ مانعیت حکم نہیں ہے کیونکہ تعریف بالحکم اس صورت میں یہ نہیں ہے کہ محمول عین حکم ہو، بلکہ یہ ہے کہ جس میں حکم مذکور ہو، اور یہ تعریف مذکور میں قطعاً موجود ہے، کیونکہ یہ تعریف اس پر مشتمل ہے کہ مکلّف کو مخصوص اشیاء سے روکنا جب تک کہ یہ وصف اس کے ساتھ قائم رہے۔ اب ہم اعتراض کی طرف آتے ہیں اور اس کی صورت اور بھی زیادہ غلط اور ساقط ہے کیونکہ معترضین نے جو تعریف اختیار کی ہے وہ تعریف بھی تعریف بالحکم سے خالی نہیں ہے، کیونکہ وہ بھی اس میں زوال طہارت کا استعمال کرتے ہیں، اور وہ اُس وصفِ شرعی پر مرتّب ہونے والا اثر ہے، ایسی صورت میں دونوں تعریفوں پر جو اعتراض ہے اُس کے جواب میں "ط" اور "ش" نے جو تقریر کی ہے وہ کافی ہے، اور خلاصہ یہ کہ دونوں تعریفوں میں تغایر کا قول کرنے کی کوئی وجہ موجود نہیں ہے، اور نہر اور دُر کا اعتراض درست نہیں ہے اور فتال نے جو جواب بعض فضلاء کی طرف سے دیا ہے وہ غلط اور خلط سے خالی نہیں ہے۔ اب اُس پہلے معنی پر گفتگو باقی رہ گئی جو علّامہ قاسم نے ذکر کئے ہیں، اور یہ معنی دوسرے معنی سے کس طرح مختلف ہے۔(ت)