فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲(کتاب الطہارۃ) |
اقول لیس(۱) کذلک بل التلازم ھو اللزوم من الجانبین فسلبہ یصدق بانتقاء اللزوم من احد الجانبین وھو المراد لفاضلین العلامتین وتفسیرہ باللزوم من احدالجانبین مفسد للمعنی اذ بورود السلب علیہ یکون الحاصل نفی اللزوم من کلا الجانبین ولیس صحیحا ولا مراد وعلی کل فھذا السؤال مما یھمنا النظر فیہ اذلو ظھر لزوم القربۃ لسقوط الفرض سقط سقوط الفرض ایضا کما ارتفع رفع الحدث ودارحکم الاستعمال علی القربۃ وحدھا کما نسبوہ الے الامام محمد وان کان التحقیق انہ لم یخالف شیخیہ فی ذلک کما بینہ فی الفتح والبحر فرأینا العلامۃ صاحب المنحۃ فاذا ھو اجاب عما سأل فقال ان قلنا ان اسقاط الفرض لاثواب فیہ فلا وان قلنا فیہ ثواب فنعم قال العلامۃالمحقق نوح افندی والذی یقتضیہ النظر الصحیح ان الراجع ھو الاول لان الثواب فی الوضوء المقصود وھو شرعا عبارۃ عن غسل الاعضاء الثلٰثۃ ومسح الراس فغسل عضو منھا لیس بوضوء شرعی فکیف یثاب علیہ اللھم الا ان یقال ان یثاب علی غسل کل عضو منھا ثوابا موقوفا علی الاتمام فان اتمہ اثیب علی غسل کل عضو منھا والا فلا ویدل علیہ مااخرجہ مسلم عن ابی ھریرۃ رضی اللّٰہ تعالی عنہ قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم اذا توضأ العبد المسلم اوالمؤمن الی اخر الحدیث الذی قدمنا ۱؎ اھ۔
میں کہتا ہوں بات یہ نہیں ہے بلکہ تلازم کا مطلب یہ ہے کہ لزوم دونوں جانب سے ہو، تو اس کا سلب احد الجانبین سے لزوم کے انتفاء کی صورت میں صادق آئے گا اور یہی مراد ہے دونوں فاضل علماء کی، اور اس کی تفسیر احد الجانبین کے لزوم کے ساتھ معنی کو فاسد کرنے والی ہے، کیونکہ جب اس پر سلب وارد ہوگا تو حاصل نفی لزوم ہوگا دونوں جانبوں سے اور یہ نہ تو صحیح ہے اور نہ ہی مراد ہے، اور بہر نوع ہمیں اِس سوال پر غور کرنا ہے کیونکہ اگر قربت اور سقوطِ فرض کا لزوم ظاہر ہوجائے تو سقوطِ فرض بھی ساقط ہوجائے گا جیسے کہ رفعِ حَدَث مرتفع ہُوا اور حکمِ استعمال کا دارومدار محض قربۃ پر ہوجائیگا جیسا کہ فقہاء نے اُس کو امام محمد کی طرف منسوب کیا ہے اگرچہ تحقیق یہی ہے کہ انہوں نے شیخین کی مخالفت نہیں کی جیسا کہ بحر اور فتح میں ہے، علامہ صاحبِ منحہ نے اس سوال کا جواب دیا ہے فرماتے ہیں کہ اگر اسقاطِ فرض میں کوئی ثواب نہ مانا جائے تو یہ درست نہیں، اور اگر کہیں کہ اس میں ثواب ہے تو یہ درست ہے، علامہ نوح آفندی فرماتے ہیں نظر صحیح کا تقاضا یہ ہے کہ راجح پہلا قول ہی ہے کیونکہ ثواب مقصود وضو میں ہے اور وہ شرعاً اعضاء ثلٰثہ کے دھونے اور سر کے مسح کو کہتے ہیں، تو ایک عضو کا دھونا شرعی وضو نہیں ہے تو اس پر ثواب کیسے ہوگا! ہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ثواب کسی ایک عضو کے دھونے کا ثواب موقوف رہے گا مکمل وضو کرنے پر، اب اگر مکمل کرلے گا تو ہرہر عضو کے دھونے پر ثواب پائے گا ورنہ نہیں۔ اس کی دلیل مسلم کی روایت ابو ھریرہ سے ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا جب مسلمان یا مومن وضو کرتا ہے الحدیث الذی قدمناہ اھ(جو حدیث ہم پہلے بیان کرچکے( ت)
(۱؎ منحۃ الخالق علی حاشیہ بحرالرائق بحث الماء المستعمل ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/۹۲)
اقول اولا لامعنی(۱) للزوم القربۃ سقوط الفرض وان قلنا بثبوت الثواب فی اسقاط الفرض اذلا ثواب الا بالنیۃ وسقوط الفرض لایتوقف علیھا فالحق ان بینھما عموما من وجہ مطلقا ولو نظر(۲) رحمہ اللّٰہ تعالٰی الی فرق مابین تعبیریہ بالسقوط والاسقاط لتنبہ لان الثواب ان کان لم یکن الا بالقصد المدلول علیہ بالاسقاط والسقوط لایتوقف علیہ وثانیا(۳) للعبدالضعیف کلام فی توقف الثواب فی الطھارۃ علی الاتمام بل الثواب منوط بنیۃ الامتثال کما قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم انما الاعمال بالنیات وانما لکل امرئ مانوی ۱؎
میں کہتا ہوں اوّلا قربۃ کے سقوطِ فرض کو لازم ہونے کے کوئی معنی نہیں، خواہ ہم یہ کہیں کہ ثواب ثابت ہوگا اسقاطِ فرض میں، کیونکہ ثواب بلانیت کے نہیں ہوتا اور فرض کا سقوط نیت پر موقوف نہیں ہے، تو حق یہ ہے کہ اُن دونوں میں عموم من وجہ مطلقا ہے، اور اگر وہ رحمہ اللہ دونوں تعبیروں کے فرق کو دیکھتے، یعنی سقوط اور اسقاط تو ان کو معلوم ہوتا کہ ثواب نیت سے ہوتا ہےجو اسقاط سے مفہوم ہوتی ہے اور سقوط اس پر موقوف نہیں۔ ثانیاعبد ضعیف کو اس امر میں کلام ہے کہ ثواب موقوف ہے طہارت کے مکمل ہونے پر بلکہ ثواب موقوف ہے حکم ماننے کی نیت پر، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ''بیشک: اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہر شخص کو وہی ملے گا جس کی نیت کرے،
(۱؎ جامع للبخاری باب کیف بدء الوحی قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/۲)
فمن جلس(۱) یتوضأ ممتثلا لامر ربہ ثم عرض لہ فی اثنائہ مامنعہ عن اتمامہ فکیف یقال لایثاب علی مافعل
واللّٰہ لایضیع اجر المحسنین ۲؎
تو جو شخص اپنے رب کے حکم کو ماننے کیلئے وضو کرنے بیٹھا پھر درمیان میں کوئی ایسا امر لاحق ہوا کہ وضو مکمل نہ کرسکا تو اب یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ جو کچھ وہ کرچکا ہے اس پر اس کو ثواب نہیں ملے گا، اللہ اچھے کاموں کا اجر برباد نہیں کرتا،
(۲؎ القرآن ۹/۱۲۰)
نعم من(۲) نوی من بدء الامر انہ لایأتی الا بالبعض فھذا الذی یرد علیہ انہ لم یقصد الوضوء الشرعی بل ھو عابث بقصد مالا یعتبر شرعا والعابث لایثاب بخلاف من قدمنا وصفہ ویترا ای(۳) لی ان مثل ذلک العابث من قصد الوضوء الشرعی واتی ببعض الاعمال ثم قطع من دون عذر فان اللّٰہ تعالی سمی القطع ابطالا اذیقول عزمن قائل
ولا تبطلوا اعمالکم ۳؎
والباطل لاحکم لہ واللّٰہ تعالی اعلم
ہاں اگر کسی نے شروع سے ہی یہ نیت کی کہ وہ بعض اعضاء کو دھوئے گا، تو یہ ہے جس پر یہ اعتراض وارد ہوگا کہ اُس نے وضو شرعی کا ارادہ نہیں کیا ہے بلکہ وہ ایک ایسا کام کرکے جو شرعاً غیر معتبر عبث کررہا ہے اور جو عبث کرتا ہو اس کو ثواب نہیں ملے گا، بخلاف اس کے جس کا وصف ہم نے پہلے بیان کیا، اور مجھے لگتا ہے کہ اسی عبث کرنے والے کی طرح ہے وہ شخص جس نے شرعی وضو کا ارادہ کیا اور بعض اعمال کئے پھر وضو کو بلا عذر نامکمل چھوڑ دیا کیونکہ اللہ نے قطع کو ابطال قرار دیا ہے، اللہ فرماتا ہے ''تم اپنے ا عمال کو باطل نہ کرو'' اور باطل کا کوئی حکم نہیں واللہ تعالٰی اعلم۔
(۳؎ القرآن ۴۷/۳۳)
وثالثا محو الخطایا(۴) لم یکن ثوابا فلا ذکرلہ فی الحدیث اصلا وان کان فالحدیث حاکم بترتب ثواب کل فعل فعل عند وقوعہ ولا دلالۃ فیہ علی توقف الاثابۃ الی ان یتم وبالجملۃ فلا اغناء لاحد من القربۃ والسقوط عن الاخر بخلاف الرفع والسقوط فلا وجہ للتثلیث ثم رأیت العلامۃ ش اشار الی ھذا فی ردالمحتار حیث قال رفع الحدث لایتحقق الا فی ضمن القربۃ اواسقاط الفرض اوفی ضمنھما فیستغنی بہما عنہ ۴؎ اھ
ثالثا یہ کہ خطاؤں کا مٹ جانا اگرثواب نہیں ہے تو اس کا ذکر حدیث میں بالکل نہیں ہے اور اگر ثواب ہے تو حدیث کا حکم یہ ہے کہ ہر فعل کا ثواب اس فعل کے واقع ہوجانے کے وقت مرتب ہوگا، اور اس میں اس امر پر دلیل نہیں کہ ثواب تمام پر موقوف ہوگا، اور خلاصہ یہ کہ قربت اور سقوط میں سے کسی ایک کو دوسرے سے بے نیازی نہیں بخلاف رفع اور سقوط کے، تو تثلیث کی کوئی وجہ نہیں، پھر میں نے علامہ ش کو دیکھا کہ انہوں نے ردالمحتار میں اس طرف اشارہ کیا، فرمایا رفع حدث قربۃ کے ضمن ہی میں متحقق ہوتا ہے یا اسقاط فرض کے یا دونوں کے ضمن میں متحقق ہوتا ہے، تو اِن دونوں سے اس میں بے نیازی حاصل کی جائے گی اھ(ت)
(۴؎ ردالمحتار الماء المستعمل مصطفی البابی مصر ۱/۱۴۶)
اقول لم یظھر(۱) لی کیف یتحقق رفع الحدث فی ضمن القربۃ من دون سقوط الفرض حتی یصح ھذا التثلیث الاٰخر الذی ذکر ھذا العلامۃ بل کلما رفع الحدث لزم منہ سقوط الفرض کما اعترف بہ فی المنحۃ فان جنح الی ماقدمنا عنہ من مسألۃ وضوء الصبی العاقل ای اذا توضأ ناویا فقد تحقق رفع الحدث فی ضمن القربۃ من دون سقوط فرض۔
میں کہتا ہوں مجھ پر یہ ظاہر نہیں ہوا کہ رفع حدث قربۃ کے ضمن میں کیسے متحقق ہوگا بغیر فرض کے سقوط کے یہاں تک کہ یہ دوسری تثلیث جس کی طرف اس علامہ نے اشارہ کیا ہے صحیح قرار پائے، بلکہ جب بھی حدث مرتفع ہوگا اس سے فرض ساقط ہوگا، جیسا کہ منحہ میں اس کا اعتراف کیا ہے، تو اگر اس کی طرف مائل ہوں جو ہم نے پہلے ان سے نقل کیا ہے یعنی عاقل بچّہ کا وضو، جب عاقل بچہ نیت کے ساتھ وضو کرے تو حدث قربت کے ضمن میں مرتفع ہوجائے گا مگر فرض ساقط نہ ہوگا۔(ت)
فاقول اوّلا قد علمت بطلانہ وثانیاان سلم(۱) ھذا یلزم ان یتحقق رفع الحدث من دون قربۃ ولا سقوط فرض اذا توضأ الصبی غیرنا ولان رفع الحدث لایفتقر الی النیۃ والقربۃ لاتوجد بدونھا فحینئذ ینھدم اصل المرام ویعود التثلیث الذی ذکر المحقق فالصواب ماذکرت ان رفع الحدث یلزمہ سقوط الفرض ففیہ غنیۃ عنہ۔
میں کہتا ہوں اولاً تم اس کا بطلان جان چکے ہو۔ثانیا اگر یہ مان لیا جائے تو لازم آئے گا کہ رفعِ حدث متحقق ہو بلا قربت کے، اور نہ فرض کا سقوط ہو جب بچّہ بلا نیت وضو کرے، کیونکہ رفعِ حَدَث محتاجِ نیت نہیں ہوتا جبکہ قربت بلا نیت نہیں پائی جاتی ہے، اس صورت میں اصلِ مقصود ہی ختم ہوجائے گا اور وہ تثلیث عَود کر آئے گی جس کو محقق نے ذکر کیا ہے، تو صحیح وہی ہے جس کو میں نے ذکر کیا کہ رفع حَدَث کو سقوط فرض لازم ہے، پس یہ اُس سے بے نیاز کرنے والا ہے۔(ت)