تنبیہ عامۃ(۲) الکتب فی بیان الشق الاول من الماء المستعمل علی التعبیر بماء استعمل فی رفع حدث وعلیہ المتون کالقدوری والہدایۃ والوقایۃ والنقایۃ والاصلاح والکنز والغرر والملتقی واعترضھم المحقق علی الاطلاق فی الفتح بان الحدث لایتجزء ثبوتا ۱؎ اھ علی القول(۳) الصحیح المعتمد فما بقیت ذرۃ مما لحقہ حکم الحدث بقی الحدث فی کل ماکان لحقہ حتی لوان محدثا اوجنبا تطھر وبقیت لمعۃ خفیفۃ فی رجلہ مثلا لم یحل لہ مس المصحف بیدہ ولا بکمہ ولا للجنب التلاوۃ کل ذلک علی ماھو المختار للفتوی فھذا الماء لم یرفع الحدث ولو لم ینو لم تکن قربۃ ایضامع انہ مستعمل قطعا بفروع کثیرۃ منصوصۃ عن صاحب المذھب رضی اللّٰہ تعالی عنہ فی ادخال المحدث بعض اعضائہ فی الماء لغیرضرورۃ الاغتراف علی مافصلت فی الفتح والحلیۃ والبحر غیرھا وللتفصی عن ھذا قرر المحقق ان صیر ورۃ الماء مستعملا باحدی ثلث رفع الحدث والتقرب وسقوط الفرض عن العضو قال وعلیہ تجری فروع ادخال الید والرجل الماء القلیل لالحاجۃ ولا تلازم بین سقوط الفرض وار تفاع الحدث فسقوط الفرض عن الید مثلا یقتضی ان لایجب اعادۃ غسلھا مع بقیۃ الاعضاء ویکون ارتفاع الحدث موقوفا علی غسل الباقی وسقوط الفرض ھو الاصل فی الاستعمال لما عرف ان اصلہ مال الزکوٰۃ والثابت فیہ لیس الاسقوط الفرض حیث جعل بہ دنسا شرعا علی ماذکرناہ ۱؎ وتبعہ تلمیذہ المحقق فی الحلیۃ ثم البحر فی البحر ثم تلمیذہ العلامۃ الغزی حتی جعلہ متنا واقرہ علیہ المدقق فی الدرواعتمدہ العارف باللّٰہ سیدی عبدالغنی النابلسی فی شرح ھدیۃ ابن العماد زعم العلامۃ ش ان ھذا السبب الثالث زادہ فی الفتح ۱؎۔
تنبیہ مستعمل پانی کی پہلی شق کے بیان میں عام کتب میں یہی ہے کہ یہ وہ پانی ہے جو حَدَث دُور کرنے میں مستعمل ہواہو، متونِ کتب میں یہی ہے، مثلاً قدوری، ہدایہ، وقایہ، نقایہ، اصلاح،کنز، غُرر اور ملتقی وغیرہ، اورمحقق علی الاطلاق نے فتح میں اِن پر یہ اعتراض کیا ہے کہ حَدَث کے ثبوت میں تجزّی نہیں ہوتی ہے اھ یعنی قول صحیح معتمد پر، تو جب تک بدن کا کوئی ذرہ جس سے حکمِ تطہیر لاحق ہوتا ہے باقی بچا رہے گا حدث بھی اُس حصہ میں باقی رہے گا، یہاں تک کہ کوئی بے وضو یا ناپاک شخص غسل کرتا ہے اور مثلاً اُس کے پیر میں خشکی کی معمولی سی چمک باقی رہ جاتی ہے تو وہ مصحف کو اپنے ہاتھ سے یا اپنی آستین سے نہیں چھو سکتا ہے اور جُنب ہونے کی صورت میں تلاوت نہیں کرسکتا ہے یہ سب فتوٰی کیلئے مختار ہے، تو اس پانی نے حدث کو رفع نہیں کیا، اور اگر اُس نے نیت نہ کی تو قربت بھی نہ ہوگی حالانکہ وہ قطعا مستعمل ہے، اس میں بہت سی فروع ہیں جو صاحبِ مذہب سے منقول ہیں، ان کا تعلق اِس امر سے ہے کہ بے وضو اپنے کسی عضو کو بلا ضرورت چُلّو بھرنے کیلئے پانی میں ڈالے، جیسا کہ فتح، حلیہ اور بحر میں تفصیل سے ذکر کیا ہے، اس اعتراض سے رہائی حاصل کرنے کیلئے محقق نے یہ تقریر کی ہے کہ پانی کے مستعمل ہونے کی تین صورتیں ہیں رفعِ حدث، تقرب اور فرض کا عضو سے ساقط ہونا، فرمایا کہ اسی پر یہ فروع متفرع ہوں گی کہ ہاتھ یا پیر تھوڑے پانی میں بلا ضرورت ڈالا، اور سقوط فرض اور ارتفاع حَدَث میں کوئی تلازم نہیں ہے اب ہاتھ سے سقوط فرض مثلاً چاہتا ہے کہ ہاتھ کے دھونے کا بقیہ اعضاء کے ساتھ اعادہ نہ ہو، اور حَدَث کا مرتفع ہونا باقی اعضاء کے دھونے پر موقوف ہو اور پانی کے استعمال میں سقوط فرض ہی اصل ہے جیسا کہ معلوم ہے کہ اس کی اصل مال زکوٰۃ ہے اس میں یہی ثابت ہے کہ سقوطِ فرض ہو، کیونکہ اس میں شرعا میل کچیل ہے جیسا کہ ہم نے ذکر کیا اھ اور ان کے محقق شاگرد نے ان کی پیروی کی حلیہ میں، پھر صاحب بحر نے بحر میں۔ پھر ان کے شاگرد علّامہ غزّی نے، یہاں تک کہ اس کو متن قرار دیا، اور دُر میں اس کو مدقق نے برقرار رکھا، اور عبدالغنی نابلسی نے شرح ہدیۃ ابن العماد میں اس پر اعتماد کیا، اور علّامہ ش نے فرمایا کہ اس تیسرے سبب کو فتح میں زیادہ کیا گیا۔ ت
(۱؎ فتح القدیر ماء مستعمل نوریہ رضویہ سکھر ۱/۷۹)
(۱؎ فتح القدیر ماء مستعمل نوریہ رضویہ سکھر ۱/۷۹)
(۱؎ ردالمحتار باب المیاہ مصطفی البابی مصر ۱/۱۴۶)
اقول ولیس(۱) کذا بل ھو منصوص علیہ من صاحب المذھب رضی اللّٰہ تعالی عنہ ففی الفتح عن کتاب الحسن عن ابی حنیفۃ رضی اللّٰہ تعالی عنہ ان غمس جنب اوغیر متوضیئ یدیہ الی المرفقین اواحدی رجلیہ فی اجانۃ لم یجز الوضوءمنہ لانہ سقط فرضہ عنہ ۲؎ اھ
میں کہتا ہوں یہ بات درست نہیں بلکہ یہ صاحب مذہب رحمہ اللہ سے ہی منصوص ہے، فتح میں حسن کی کتب سے ابو حنیفہ سے مروی ہے کہ اگر ناپاک شخص یا بے وضو شخص نے اپنے دونوں ہاتھ دونوں کہنیوں تک پانی میں ڈبوئے یا ایک پیر کسی مرتبان میں ڈبویا تو اُس سے وضو جائز نہ ہوگا، کیونکہ اس کا فرض اُس سے ساقط ہوچکا ہے اھ
(۲؎ فتح القدیر بحث الماء المستعمل نوریہ رضویہ سکھر ۱/۷۶)
وقدمنا عن الھدایۃ فی تعلیل قول ابی یوسف ای والامام رضی اللّٰہ تعالی عنہما ان اسقاط الفرض مؤثر ایضا فیثبت الفساد بالامرین ۳؎ اھ
اور ہم نے ہدایہ سے ابو یوسف کے قول یعنی امام کے قول کی بھی علّت بیان کرتے ہوئے پہلے ذکر کیا ہے کہ اسقاط فرض بھی موثر ہے تو فساد دونوں امروں سے ثابت ہوگا اھ
(؎ ہدایۃ الماء الذی یجوز بہ الوضوء العربیہ کراچی ۱/۲۲)
نعم المزید من المحقق ھو تثلیث السبب ولیس بذاک فان سقوط الفرض اعم مطلقا من رفع الحدث ففیہ غنیۃ عنہ اما ما فی منحۃ الخالق انہ قدیرفع الحدث ولا یسقط الفرض کوضوء الصبی العاقل لما مر من صیر ورۃ ماءہ مستعملامع انہ لافرض علیہ ۱؎ ا ھ
ہاں محقق نے جو اضافہ کیا ہے وہ سبب کی تثلیث ہے، اور وہ درست نہیں کیونکہ سقوطِ فرض اعم مطلق ہے رفعِ حدث سے، لہٰذا یہ اس سے بے نیاز کرنے والا ہے، اور منحۃ الخالق میں ہے کہ کبھی حدث ختم ہوجاتا ہے اور فرض ساقط نہیں ہوتا جیسے عاقل بچّے کا وضو کیونکہ ابھی گزرا ہے کہ اُس کا پانی مستعمل ہوجاتا ہے حالانکہ وضو اُس پر فرض نہیں۔
(؎ منحۃ الخالق علی البحر الماء المستعمل سعید کمپنی کراچی ۱/۹۲)
فاقول لیس(۱) بشیئ فان حکم الحدث(۲) انما یلحق المکلف وقد نصوا ان مراھقا جامع اومراھقۃ جومعت انما یؤمر ان بالغسل تخلقا واعتیاد ا ۲؎ کما فی الخانیۃ والغنیۃ وغیرھما
میں کہتا ہوں یہ ٹھیک نہیں کیونکہ حدث کا حکم مکلّف کو لاحق ہوتا ہے، علماء نے تصریح کی ہے کہ اگر کسی مراھق نے جماع کیا یا کسی مراہقہ سے جماع کیا گیا تو ان کو اخلاق وآداب سکھانے کی غرض سے غسل کا حکم دیا جائے گا، خانیہ اور غنیہ وغیرہ میں یہی ہے۔
(۲؎ قاضی خان فیما یوجب الغسل نولکشور لکھنؤ ۱/۲۱)
وفی الدر یؤمر بہ ابن عشرتادیبا ۳؎ فحیث لم یسقط الفرض لانعدام الافتراض لم یرتفع الحدث ایضا لانعدام الحکم بہ اما صیرورتہ مستعملا فلیس لرفعہ حدثا والاصار مستعملا من کل صبی ولولم یعقل وھو خلاف المنصوص بل لکونہ قربۃ معتبرۃ اذا نواھا ولذا قیدوہ بالعاقل لان غیرہ لانیۃ لہ والذی(۳) مران ارادبہ امر فی البحر فھو قولہ فی الخلاصۃ اذا توضأ الصبی فی طست ھل یصیر الماء مستعملا المختار انہ یصیر اذا کان عاقلا ۴؎ اھ
اور دُر میں یہ ہے کہ دس سالہ لڑکے کو تادیباً غسل کا حکم دیا جائیگا جب فرض ساقط نہ ہوگا کیونکہ فرضیت منعدم ہے تو حدث بھی مرتفع نہ ہوگا کیونکہ اس کا حکم منعدم ہے، اور رہا اس کا مستعمل ہونا تو یہ اس وجہ سے نہیں کہ اس نے حدث کو رفع کیا ہے ورنہ تو ہر بچّہ کا مستعمل پانی مستعمل ہوجاتا اگرچہ وہ عاقل نہ ہو،اور یہ خلاف منصوص ہے بلکہ یہ اس لئے ہے کہ یہ قربت اُسی وقت معتبر ہوگی جبکہ وہ اُس کی نیت کرے، اور اسی لئے انہوں نے بچّہ کو عاقل سے مقید کیا ہے کیونکہ غیر عاقل کی نیت نہیں ہوتی ہے، اور جو گزرا اگر اُس سے ان کا ارادہ وہ ہے جو گزرا بحر میں تو ان کا وہ قول خلاصہ میں ہے کہ جب بچّہ طشت میں وضو کرے تو آیا پانی مستعمل ہوگا؟ تو مختار یہ ہے کہ اس وقت مستعمل ہوگا جب بچّہ عاقل ہو اھ
فھذا التقیید یفید ماقلنا وقد قال فی الغنیۃ(۴) ان ادخل الصبی یدہ فی الماء وعلم ان لیس بہا نجس یجوز التوضؤ بہ وان شک فی طہارتھا یستحب ان لایتوضأ بہ وان توضأ جاز ھذا اذا لم یتوضأ الصبی بہ فان توضأ بہ ناویااختلف فیہ المتأخرون والمختار انہ یصیر مستعملا اذا کان عاقلا لانہ نوی قربۃ معتبرۃ ۱؎ اھ
تو یہ تقیید اُسی چیز کا فائدہ دے رہی ہے اور غنیہ میں فرمایا کہ اگر بچہ نے پانی میں ہاتھ ڈالا اور یہ علم تھا کہ اس کے ہاتھ پر کوئی نجاست موجود نہیں ہے تو اس پانی سے وضو جائز ہے، جو ہم نے کہی ہے،اور اس کی طہارت میں شک ہے تو مستحب یہ ہے کہ اُس پانی سے وضو نہ کرے اور اگر وضو کیا تو جائز ہے، یہ اُس صورت میں ہے جب کہ بچہ نے اُس سے وضو نہ کیا ہو اور اگر نیت کے ساتھ وضو کیا ہو تو متاخرین کا اس میں اختلاف ہے، اور پسندیدہ قول یہ ہے کہ اگر وہ عاقل ہو تو مستعمل قرار پائے گا کیونکہ اُس نے معتبر قربت کی نیت کی ہے اھ
(۱؎ غنیۃ المستملی الماء المستعمل سہیل اکیڈمی لاہور ۱/۱۵۳)
وان اراد بہ مامر فی نفس المنحۃ قبیل ھذا بسطور فھو اصرح وابین حیث قال نقلا عن الخانیۃ الصبی العاقل اذا توضأ یرید بہ التطھیر ینبغی ان یصیر الماء مستعملا لانہ نوی قربۃ معتبرۃ ۲؎
اور اگر وہ ارادہ کیا جو نفسِ منحہ میں گزرا ہے اس سے چند سطور قبل تو وہ اور زیادہ واضح اور روشن ہے وہ خانیہ سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ عاقل بچّہ جب وضو کرے اور اس سے پاکی حاصل کرنے کا ارادہ کرے تو چاہئے کہ پانی مستعمل ہوجائے، کیونکہ اُس نے معتبر قربۃ کی نیت کی اھ
(۲؎ منحۃ الخالق علی البحر الماء المستعمل سعید کمپنی کراچی ۱/۹۱)
ثم افاد(۱) بنفسہ ان قولہ یرید بہ التطہیر یشیر الی انہ ان لم یرد بہ التطھیر لایصیر مستعملا ۳؎ اھ ولکن سبحن من لاینسی ثم قال(۲( فی المنحۃ بقی ھل بین سقوط الفرض والقربۃ تلازم ام لا۴؎ الخ
پھر خود ہی فرمایا کہ اس کا قول ''یرید بہ التطھیر'' اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ اگر اس نے نیت تطہیر نہ کی تو پانی مستعمل نہ ہو گا اھ لیکن بے عیب ہے وہ خدا جو بھولتا نہیں۔ پھر منحہ میں فرمایا اب یہ امر باقی رہ گیا ہے کہ آیا سقوطِ فرض اور قربۃ میں تلازم ہے یا نہیں الخ۔ ت
(۳؎ منحۃ الخالق علی البحر الماء المستعمل سعید کمپنی کراچی ۱/۹۲)
(۴؎ منحۃ الخالق علی البحر الماء المستعمل سعید کمپنی کراچی ۱/۹۲)
اقول مرادہ(۳) ھل القربۃ تلزم سقوط الفرض ام لافان التلازم یکون من الجانبین ولا یتوھم عاقل ان سقوط الفرض یلزم القربۃ فان الاستنشاق فی الوضوء والمضمضۃ فیہ وللطعام ومنہ والوضوء علی الوضوء وامثالھاکل ذلک قرب ولا سقوط لفرض ولکن تسامح فی العبارۃ وظن انہ تبع فیہ الفتح والبحر حیث قال تلازم بین سقوط الفرض وارتفاع الحدث قال فی المنحۃ المراد نفی التلازم من احد الجانبین وھو جانب سقوط الفرض ۱؎ الخ
اقول انکی مراد یہ ہے کیا قربت سقوطِ فرض کو مستلزم ہے یا نہیں؟ کہ تلازم جانبین سے ہی ہوتا ہے اور کوئی عقلمند آدمی یہ سوچ بھی نہیں سکتا ہے کہ سقوط فرض مستلزم قربت ہے، کیونکہ وضو میں ناک میں پانی ڈالنا اور کُلّی کرنا اور کھانے کیلئے کُلی کرنا اور اس کے بعد کُلی کرنا اور وضوپر وضو اور اسی جیسی دوسری چیزیں سب کی سب عبادتیں ہیں لیکن اِن سے کوئی فرض ساقط نہیں ہوتا ہے، لیکن انہوں نے عبارت میں تسامح سے کام لیا ہے اور انہوں نے گمان کیا ہے کہ اس میں انہوں نے فتح اور بحر کی متابعت کی ہے وہ دونوں فرماتے ہیں سقوطِ فرض اور ارتفاع حدث میں تلازم نہیں۔ منحہ میں فرمایا ایک جانب سے تلازم کی نفی ہے اور وہ سقوطِ فرض کی جانب ہے الخ(ت)
(۱؎ منحۃ الخالق علی البحر الماء المستعمل سعید کمپنی کراچی ۱/۹۲)