فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲(کتاب الطہارۃ) |
وسمعت سیدی علیا الخواص رحمہ اللّٰہ تعالٰی لوکشف للعبد لرأی الماء الذی یتطھر منہ الناس فی غایۃ القذارۃ والنتن فکانت نفسہ لاتطیب باستعمالہ کمالا تطیب باستعمال ماء قلیل مات فیہ کلب اوھرۃ قلت لہ فاذن کان(۱) الامام ابو حنیفۃ وابو یوسف من اھل الکشف حیث قالا بنجاسۃ الماء المستعمل قال نعم کان ابو حنیفۃ وصاحبہ من اعظم اھل الکشف فکان اذا رأی الماء الذی یتوضأ منہ الناس یعرف اعیان تلک الخطایا التی خرت فی الماء ویمیز غسالۃ الکبائر عن الصغائر والصغائر عن المکروھات والمکروھات عن خلاف الاولی کالامور المجسدۃ حسا علی حد سواء قال وقد بلغنا انہ دخل مطھرۃ جامع الکوفۃ فرأی شابا یتوضأ فنظر فی الماء المتقاطر منہ فقال یاولدی تب عن عقوق الوالدین فقال تبت الی اللّٰہ عن ذلک ورأی غسالۃ شخص اخر فقال لہ یااخی تب من الزنا فقال تبت ورأی غسالۃ اخر فقال تب من شرب الخمر وسماع اٰلات اللھو فقال تبت ۱؎ اھ
اور میں نے سیدی علی الخواص کو فرماتے سنا کہ اگر انسان پر کشف ہوجائے وہ طہارت میں استعمال کئے جانے والے پانی کو انتہائی گندہ اور بدبودار دیکھے گا اور وہ اس پانی کو اسی طرح استعمال نہ کرسکے گا جیسے اُس پانی کو استعمال نہیں کرتا ہے جس میں کتّا بلّی مرگئی ہو میں نے اُن سے کہا اس سے معلوم ہوا کہ ابو حنیفہ اور ابو یوسف اہل کشف سے تھے کیونکہ یہ مستعمل کی نجاست کے قائل تھے، تو انہوں نے کہا جی ہاں۔ ابو حنیفہ او ر ان کے صاحب بڑے اہل کشف تھے، جب وہ اُس پانی کو دیکھتے جس کو لوگوں نے وضو میں استعمال کیا ہوتا تو وہ پا نی میں گرتے ہوئے گناہوں کو پہچان لیتے تھے اور کبائر کے دھوون کو صغائر کے دھوون سے الگ ممتاز کرسکتے تھے، اور صغائر کے دھوون کو مکروہات سے اور مکروہات کے دھوون کو خلافِ اولیٰ سے ممتاز کرسکتے تھے اسی طرح جیسے محسوس اشیاء ایک دوسرے سے الگ ممتاز ہوا کرتی ہیں، فرمایا کہ ہمیں یہ روایت پہنچی ہے کہ ایک مرتبہ آپ جامع کوفہ کے طہارت خانہ میں داخل ہوئے، تو دیکھا کہ ایک جوان وضو کررہا ہے، اور پانی کے قطرات اُس سے ٹپک رہے ہیں تو فرمایا اے میر ے بیٹے! والدین کی نافرمانی سے توبہ کر۔ اس نے فوراً کہا میں نے توبہ کی۔ ایک دوسرے شخص کے پانی کے قطرات دیکھے تو فرمایا اے میرے بھائی! زنا سے توبہ کر۔ اس نے کہا میں نے توبہ کی۔ ایک اور شخص کے وضو کا پانی گرتا ہوا دیکھا تواُس سے فرمایا شراب نوشی اور فحش گانے بجانے سے توبہ کر۔ اس نے کہا میں نے توبہ کی اھ
(۱؎ المیزان الکبری الطہارۃ مصطفی البابی مصر ۱/۱۰۹)
ۤ وفیہ ایضا رحمہ اللّٰہ تعالی مقلدی الامام ابی حنیفۃ رضی اللّٰہ تعالی عنہ حیث منعوا الطھارۃ من ماء المطاھر التی لم تستجر لما یخر فیھا من خطایا المتوضئین وامروا اتباعھم بالوضوء من الانھاراوالاٰبار اوالبرک الکبیرۃ وکان سیدی علی الخواص رحمہ اللّٰہ تعالی مع کونہ شافعیا لایتؤضا من مطاھر المساجد فی اکثر اوقاتہ ویقول ان ماء ھذہ المطاھر لاینعش جسدامثالنا لتقذرھا بالخطایا التی خرت فیھا وکان یمیز بین غسالات الذنوب ویعرف غسالۃ الحرام من المکروہ من خلاف الاولی ودخلت معہ مرۃ میضأۃ المدرسۃ الازھریۃ فاراد ان یستنجی من المغطس فنظر ورجع فقلت لم قال رایت فیہ غسالۃ ذنب کبیر غیرتہ فی ھذا الوقت وکنت انارأیت الذی دخل قبل الشیخ وخرج فتبعتہ فاخبرتہ الخبر فقال صدق الشیخ قد وقعت فی زنا ثم جاء الی الشیخ وتاب ھذا امر شاھد تہ من الشیخ ۱؎ اھ کلہ ملتقطا وسقتہ ھھنا لجمیل فائدتہ وجلیل عائدتہ ولیس ماعینتہ انت اٰلۃ لقربۃ فی معنی ماعینہ الشارع فلا یلتحق۔
اسی میں حضرت امام ابو حنیفہ کے بعض مقلدین سے مروی ہے کہ انہوں نے اُن وضو خانوں کے پانی سے وضو کو منع کیا ہے جن میں پانی جاری نہ ہو کیونکہ اُس میں وضو کرنے والوں کے گناہ بہتے ہیں، اور اُنہوں نے حکم دیا کہ وہ نہروں کنوؤں اور بڑے حوضوں کے پانی سے وضو کریں۔ اور سیدی علی الخواص باوجود شافعی المذہب ہونے کے مساجد کے طہارت خانوں میں اکثر اوقات وضو نہیں کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ یہ پانی ہم جیسے لوگوں کے جسموں کو صاف نہیں کرتا ہے کیونکہ یہ اُن گناہوں سے آلودہ ہے جو اس میں مل گئے ہیں، اور وہ گناہوں کے دھوون میں یہ فرق بھی کرلیتے تھے کہ یہ حرام کا ہے یا مکروہ کا یا خلاف اولٰی کا، اور ایک دن میں ان کے ساتھ مدرسۃ الازہر کے وضو خانہ میں داخل ہوا تو انہوں نے ارادہ کیا کہ حوض سے استنجا کریں، تو اس کو دیکھ کر لوٹ آئے میں نے دریافت کیا کیوں؟ تو فرمایا کہ میں نے اس میں ایک گناہ کبیرہ کا دھوون دیکھا ہے جس نے اس کو متغیر کردیا ہے، اور میں نے اُس شخص کو بھی دیکھا تھا جو حضرت شیخ سے قبل وضو خانہ میں داخل ہوا تھا، پھر میں اُس کے پیچھے پیچھے گیا اور اُس کو حضرت شیخ نے جو کہا تھا اس کی خبر دی، اُس نے تصدیق کی اور کہا کہ مجھ سے زنا واقع ہوا، اور حضرت شیخ کے ہاتھ پر آکر تائب ہوا۔ یہ میرا اپنا مشاہدہ ہے اھ یہ سب ماخوذ ہے اس کے عظیم فائدہ کیلئے میں نے اس کو ذکر کیا ہے، اور جس کو آپ نے قربت کا آلہ قرار دیا ہے وہ اس معنی میں نہیں ہے جس کو شارع نے معین کیا ہے تو یہ اس کے ساتھ لاحق نہ کیا جائے۔ ت
(۱ المیزان الکبری کتاب الطہارۃ مصطفی البابی مصر ۱/۱۱۰)
اقول بل الدلیل ناھض علی عدم الالتحاق الاتری ان ارواء الظماٰن قربۃ مطلوبۃ قطعا وقدورد(۱) فیہ خصوصا انہ محاء للذنوب اخرج الخطیب عن انس بن مالک رضی اللّٰہ تعالی عنہ عن النبی صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم اذا کثرت ذنوبک فاسق الماء علی الماء تتناثر کما یتناثر الورق من الشجر فی الریح العاصف ۲؎ اھ
میں کہتا ہوں بلکہ دلیل عدم التحاق پر قائم ہے کیا یہ نہیں کہ پیاسے کو سیراب کرنا قربۃ مطلوبہ ہے، اور اس بارے میں بطور خاص وارد ہوا کہ یہ گناہوں کا مٹانے والا ہے۔ خطیب انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی، رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں جب تیرے گناہ زیادہ ہوجائیں تو تُو پانی پر پانی پلا تو تیرے گناہ اس طرح جھڑ جائیں گے جس طرح تیز ہوا سے پیڑ کے پتّے جھڑ جاتے ہیں اھ
(۲؎ تاریخ بغداد عن انس بیروت ۶/۴۰۳)
فاذا استقیت لہ الماء من بئر اوسکبت من اناء واعطیتہ ایاہ فقد اقمت بہ قربۃ فلو تحولت نجاسۃ الاٰثام الیہ لصار نجسا حراما شربہ عند الامام وقذرابالاجماع مکروہ الشرب فیعود الاحسان اساء ۃ والقربۃ علی نفسھا بالنقض وھو باطل اجماعا فما ذلک الالان الشرع انما طلب منک ان تھیئ لہ مایرویہ ولم یعین لہ الماء بخصوصہ بحیث لایجزیئ غیرہ بل لوسقیتہ لبنا خالصا اوممزوجا بماء اوماء الورد اوجلابابثلج ولو زوماء الکاذی وامثال ذلک لکان اجدواجود واقمت القربۃ وازید واللّٰہ یحب المحسنین وقد اشتد(۱) تشییدا بھذا ارکان مانحونا الیہ فی مسألۃ القدور والقصاع ھذا کلہ ماظھرلی وارجو ان قد زھر الامر و زال القناع والحمدللّٰہ رب العلمین۔
تو جب تُونے اس کو کنوئیں کے پانی سے سیراب کیا یا کسی برتن سے انڈیلا اور اس کو دیا تو تونے اس کے ساتھ قربت کو قائم کیا، تو اگر گناہوں کی نجاست اس کی طرف منتقل ہوجائے تو وہ نجس ہوگا اور امام کے نزدیک اس کاپینا حرام ہوگا، اور بالاجماع گندا ہوگا اور اس کا پینا مکروہ ہوگا تو احسان گناہ ہوجائے گا اور قربت اپنے نفس پر نقض ہوگی یہ بالاجماع باطل ہے، یہ صرف اس وجہ سے ہے کہ شریعت نے تم سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ تم اُس کے لئے وہ تیار کرو جو اس کو سیراب کردے، اور اس کیلئے کسی پانی کو مخصوص نہیں کیا ہے کہ اُس کے بغیر کفایت نہ ہو، بلکہ اگر تم اس کو خالص دودھ، پانی ملا دودھ، عرق گلاب یا برف والا شربت خواہ وہ کیوڑے والا ہو تو زیادہ بہتر ہوگا تمہاری قربت ادا ہوگئی اور کچھ زیادہ بھی اور اللہ محسنین کو پسند کرتا ہے، اور ہماری اس تقریر سے ہانڈیوں اور پیالوں والے مسئلہ کی مزید تائید ہوئی ہے۔ یہ میرے لئے ظاہر ہوا ہے اور مجھے امید ہے کہ اس سے معاملہ واضح ہوگیا ہے والحمدللہ رب العالمین۔ ت